4۔ 1 بَنَان (پور پور) جوڑوں، ناخن، لطیف رگوں اور باریک ہڈیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جب یہ باریک اور لطیف چیزیں ہم بالکل صحیح صحیح جوڑ دیں گے تو بڑے حصے کو جوڑ دینا ہمارے لئے کیا مشکل ہوگا
[٣] یعنی انسان کی سوچ یہ ہے کہ ہم اس کے مرنے کے بعد اس کی گلی سڑی ہڈیوں کو کیونکر اکٹھا کرسکیں گے اور کیسے اسے دوبارہ زندہ کرکے اٹھا کھڑا کیا جائے گا ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی بڑی بڑی ہڈیاں تو دور کی بات ہے۔ ہم تو اس کی انگلیوں کے ایک ایک پور کو مکمل کرکے اسے اٹھا کھڑا کریں گے۔ پس اسے تھوڑا سا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنی پہلی پیدائش پر جو رحم مادر میں ہوئی، غور کرلے تو بات اسے پوری طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔
آگے منکرین قیامت کے اس عامیانہ شب کا جواب ہے مرنے کے بعد جب انسان مٹی ہوگیا اس کی ہڈیاں بھی ریزہ ریزہ ہو کر منتشر ہوگئیں ان کو دوبارہ کیسے جمع کرکے زندہ کیا جائے گا۔ جس کے جواب میں فرمایا - بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَهٗ- جس کا حاصل یہ ہے کہ تمہیں تو اس پر تعجب ہے کہ میت کے ذرات منتشرہ اور بوسیدہ ہڈیوں کو جمع کیسے کیا جاوے گا اور ان میں دوبارہ حیات کیسے ڈالی جاوے گی۔ حالانکہ یہ بات پہلے ایک مرتبہ مشاہدہ میں آٰچکی ہے کہ ہر انسان کا وجود جو دنیا میں پلتا اور بڑھتا ہے وہ دنیا بھر کے مختلف ملکوں خطوں کے اجزاء اور ذرات کا مرکب ہوتا ہے تو جس ذات قادر نے پہلی مرتبہ ساری دنیا میں بکھرے ہوئے ذرات کو ایک انسان کے وجود میں جمع کردیا تھا اب دوبارہ جمع کرلیتا اسکے لئے کیوں مشکل ہوگا، اور جس طرح پہلے اس کے ڈھانچے میں روح ڈال کر زندہ کیا تھا دوبارہ ایسا کرنے میں کیا حیرت کی بات ہے۔- حشراجساد میں قدرت حق تعالیٰ کا عجیب و غریب عمل - غور اس پر کرو کہ ایک انسان جس ہیت وجسامت اور شکل و صورت پر پہلے پیدا کیا گیا تھا قدرت حق دوبارہ بھی اسی کے وجود میں انہی ساری چیزوں کو بغیر کسی ادنی فرق کے جمع کردے گی حالانکہ یہ اربوں پدموں انسان ابتدائے دنیا سے قیامت تک پیدا ہوتے اور فنا ہوتے رہے کس کی مجال ہے کہ ان سب کی شکلوں صورتوں اور قدوقامت کی کیفیتوں کو الگ الگ یاد بھی رکھ سکے اس جیسا دوبارہ بنانا تو بڑا کام ہے مگر حق تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ ہم صرف اسی پر قادر نہیں ہیں کہ میت کے سارے بڑے بڑے اجزاء واعضا کو دوبارہ اسی طرح بنادیں بلکہ انسانی وجود کی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی ہم ٹھیک اسی طرح کردیں گے جس طرح وہ پہلے تھی اس میں بنان یعنی انگلیوں کے پوروں کا خاص ذکر فرمایا کہ وہ سب سے چھوٹے اجزاء ہیں۔ جب ان چھوٹے اجزاء کی دوبارہ ساخت میں فرق نہیں آیا تو بڑے بڑے اعضا ہاتھ پاؤں وغیرہ میں تو کیا فرق ہوتا۔- اور اگر غور کیا جائے تو شاید بنان یعنی انگلیوں کے پوروں کے تخصیص میں اس کی طرف بھی اشارہ ہو کہ حق تعالیٰ نے ایک انسان کو دوسرے انسان سے ممتاز کرنے کے لئے اس کے سارے ہی بدن میں ایسی خصوصیات رکھی ہیں جن سے وہ پہچانا جاتا ہے اور ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا ہے خصوصاً انسانی چہرہ جو چند انچ مربع سے زائد نہیں، اسکے اندر قدر حق نے ایسے امتیازات رکھے ہیں کہ اربوں قدموں انسانوں میں ایک کا چہرہ بالکل دوسرے کے ساتھ ایسا نہیں ملتا کہ امتیاز باقی نہ رہے۔ انسان کی زبان اور حلقوم بالکل ایک ہی طرح ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے اسی ممتاز ہے کہ بچے بوڑھے عورت مرد کی آوازیں الگ پہچانی جاتی ہیں اور ہر انسان کی آواز الگ الگ پہچانی جاتی ہے، اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز انسان کے انگوٹھے اور انگلیوں کے پوروے ہیں کہ ان کے اوپر جو نقش ونگار خطوط کے جال کی صورت میں قدرت نے بنائے ہیں وہ کبھی ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ نہیں ملتے، صرف آدھ انچ کی جگہ میں ایسے امتیازات کہ اربوں انسانوں میں یہ پورے مشترک ہونے کے باوجود ایک کے خطوط دوسرے سے نہیں ملتے۔ اور قدیم وجدید ہر زمانے میں نشان انگوٹھہ ایک امتیاز چیز قرار دے کر عدالتی فیصلے اس پر ہوتے ہیں، اور فنی تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ بات صرف انگوٹھے ہی میں نہیں ہر انگلی کے پوروے کے خطوط بھی اس طرح ممتاز ہوتے ہیں۔- یہ سمجھ لیتے کے بعد پوروں کے بیان کی تخصیص خودبخود سمجھ میں آجاتی ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمہیں تو اسی پر تعجب ہے کہ یہ انسان دوبارہ کیسے زندہ ہوگیا ذرا اس سے آگے سوچو اور غور کرو کہ صرف زندہ ہی نہیں ہوگیا بلکہ اپنی سابقہ شکل و صورت اور اسکے ہر امتیازی وصف کیساتھ زندہ ہوا ہے یہاں تک کہ انگوٹھے اور انگلیوں کے پورو وں کے خطوط پہلی پیدائش میں جس طرح تھے اس نشات ثانیہ میں بھی بالکل وہی ہوں گے۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔
بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَہٗ ٤- قادر - الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه .- ( ق د ر ) القدرۃ - ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے - سوا ( مساوات برابر)- الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل،- وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله :- وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں - التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔ - بنَانه - البَنَان : الأصابع، قيل : سمّيت بذلک لأنّ بها صلاح الأحوال التي يمكن للإنسان أن يبنّ بها، يريد : أن يقيم بها، ويقال : أَبَنَّ بالمکان يُبِنُّ ولذلک خصّ في قوله تعالی: بَلى قادِرِينَ عَلى أَنْ نُسَوِّيَ بَنانَهُ [ القیامة 4] ، وقوله تعالی: وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال 12] ، خصّه لأجل أنهم بها تقاتل وتدافع، والبَنَّة : الرائحة التي تبنّ بما تعلق به .- ( ب ن ن ) البنان ( واحد بنانۃ ) کے معنی انگلیاں ریا ن کے اطراف کے ہیں یہ ابن بالمکان کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی جگہ اقامت پزیر ہونے کے ہیں اور چونکہ کسی جگہ اقامت کیلئے ضروریات زندگی کی اصلاح بھی انگلیوں سے ہوتی ہے اس لئے ان کو بنان کہا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ : بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ ( سورة القیامة 4) ضرور کریں گے ( اور ) ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پورا پورا درست کریں ۔ میں انگلیوں کی درستگی پر اپنی قدرت کا اظہار کیا ہے اسی طرح آیت : وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ( سورة الأَنْفال 12) اور ان کا پور پور مار ( کر توڑ ) دو ۔ میں خاص کر ان کے پور پور کاٹ ڈالتے کا حکم دیا گیا ہے ۔ کیونکہ یہ مدافعت اور مقاتلہ کا واحد ذریعہ ہیں ۔ البنتہ بو اچھی یا بری ۔ کیونکہ اس میں کسی چیز کے ساتھ لازم ہونے کی وجہ سے ٹھر نے کے معنی پائے جاتے ہیں ۔
آیت ٤ بَلٰی قٰدِرِیْنَ عَلٰٓی اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ ۔ ” کیوں نہیں ہم تو پوری طرح قادر ہیں اس پر بھی کہ ہم اس کی ایک ایک پور درست کردیں۔ “- یہاں پر بلٰیکے بعد لفظ کُنَّا محذوف ہے ‘ گویا تقدیر عبارت یوں ہے : بلٰی کُنَّا قَادِرِیْن …
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :4 یعنی بڑی بڑی ہڈیوں کو جمع کر کے تمہارا ڈھانچہ پھر سے کھڑا کر دینا تو درکنار ، ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ تمارے نازک ترین اجزائے جسم حتیٰ کہ تمہاری انگلیوں کی پوروں تک کو پھر ویسا ہی بنا دیں جیسی وہ پہلے تھیں ۔
2: فرمایا جارہا ہے کہ ہڈیوں کو جمع کرلینا تو بہت معمولی بات ہے، اﷲ تعالیٰ تو اِنسان کی اُنگلیوں کے ایک ایک پورے کو دوبارہ ٹھیک ٹھیک اُسی طرح دوبارہ بنانے پر قادر ہیں، جیسے وہ شروع میں تھے۔ اُنگلیوں کے پورے کا خاص طور پر اس لئے ذکر فرمایا گیا ہے کہ ان پوروں میں جو باریک باریک لکیریں ہوتی ہیں، وہ ہر اِنسان کی دوسرے سے الگ ہوتی ہیں، اسی وجہ سے دُنیا میں دستخط کے بجائے انگوٹھے کے نشان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ان لکیروں میں اتنا باریک باریک فرق ہوتا ہے کہ اربوں پدموں اِنسانوں کی انگلیوں کے اس فرق کو یاد رکھ کر پھر دوبارہ ویسی ہی لکیریں بنادینا اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے ممکن نہیں ہے۔