Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی اس امید پر نافرمانی اور حق کا انکار کرتا ہے کہ کون سی قیامت آنی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] اصل مسئلہ یہ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کو اس بات پر قادر نہیں سمجھتا کہ وہ اسے دوبارہ پیدا کرسکتا ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرکے اپنی آزادانہ زندگی پر پابندیاں عائد نہیں کرنا چاہتا۔ اسے خوب معلوم ہے کہ اگر اس نے عقیدہ آخرت کو تسلیم کرلیا تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا اور نہایت پابند اور محتاط زندگی گزارنا پڑے گی۔ اس کا آسان حل اس نے یہ سوچا کہ قیامت کا ہی انکار کردے۔ اور اس کی یہ کیفیت بالکل ویسی ہی ہے جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے اور اپنے نفس کو اس فریب میں مبتلا کرلیتا ہے کہ بس اب خطرہ دور ہوگیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بل یرید الانسان …:” لیفجر “ ” فجر فجوراً “ (ن) جھوٹ بولنا، گناہ کرنا، زنا کرنا۔ یعنی قیامت کے اناکر کی کوئی اور وجہ نہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ اپنے آگے یعنی آنے والے دنوں میں بھی نافرمانی اور گناہ کرتا رہے۔ اب اگر وہ قیامت پر ایمان لائے تو اس کا تقاضا ہے کہ گناہ چھوڑ دے جسے چھوڑنے پر وہ آمادہ نہیں۔ گویا وہ عقل کی وجہ سے قیامت کا انکار نہیں کر رہا بلک ہہوس نے اسے اندھا کر رکھا ہے، اس لئے وہ تیاری کے لئے نہیں بلکہ مذاق اڑانے اور جھٹلانے کے لئے پوچھتا ہے کہ وہ دفعتاً اٹھ کھڑے ہونے کا وقت کب ہوگا ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لِيَفْجُرَ اَمَامَهٗ - لفظ امام فتح الہمزہ سامنے اور مستقبل کے معنی میں ہے اسلئے معنے آیت کے یہ ہوئے کہ کافر اور غافل انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے ان مشاہدات میں غور نہیں کرتا کہ ماضی کے انکار پر نادم ہو کر اپنے مستقبل کو درست کرلے بلکہ مستقبل میں بھی وہ یہی چاہتا رہتا ہے کہ اپنے کفر و شرک اور انکار و تکذیب پر جما رہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَلْ يُرِيْدُ الْاِنْسَانُ لِيَفْجُرَ اَمَامَہٗ۝ ٥ ۚ- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - فجر - الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً- [ الإسراء 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] .- ( ف ج ر ) الفجر - کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے - صبح کو فجر کہا جاتا ہے - کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو - إِمام :- المؤتمّ به، إنسانا كأن يقتدی بقوله أو فعله، أو کتابا، أو غير ذلک محقّا کان أو مبطلا، وجمعه : أئمة . وقوله تعالی: يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ [ الإسراء 71] أي : بالذي يقتدون به، - الامام - وہ ہے جس کی اقتداء کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا اس کے قول وفعل کی اقتداء کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر ہو اس کی جمع ائمۃ افعلۃ ) ہے اور آیت :۔ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ( سورة الإسراء 71) جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے ۔ میں امام سے وہ شخص مراد ہے جس کی وہ اقتداء کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

بلکہ یہ چاہتا ہے کہ یہ فسق و فجور کرتا رہے اور توبہ میں تاخیر کرے یا یہ کہ اپنی آئندہ زندگی میں فسق و فجور کرتا رہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَہٗ ۔ ” بلکہ انسان تو یہ چاہتا ہے کہ فسق و فجور آگے بھی جاری رکھے۔ “- انسانوں کے ہاں آخرت کے انکار کی سب سے بڑی اور اصل وجہ یہ ہے کہ وہ نیکی و بدی اور جائز و ناجائز کی تمیز ختم کر کے عیش و عشرت کے خوگر ہوجاتے ہیں۔ چناچہ حرام خوریاں چھوڑ کر راہ راست پر آنے کے مقابلے میں انہیں آخرت کا انکار کردینا آسان محسوس ہوتا ہے۔ آخرت کے بارے میں انسان کا یہ رویہ ایسے ہی ہے جیسے ِ بلی ّکو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ لیکن جس طرح کبوتر کے آنکھیں بند کرلینے سے بلی اپنا فیصلہ نہیں بدلتی اسی طرح ان کے انکار کردینے سے قیامت کے وقوع میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔ وہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت کے طور پر اپنے معین وقت پر آدھمکے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :5 اس چھوٹے سے فقرے میں منکرین آخرت کے اصل مرض کی صاف صاف تشخیص کر دی گئی ہے ۔ ان لوگوں کو جو چیز آخرت کے انکار پر آمادہ کرتی ہے وہ دراصل یہ نہیں ہے کہ فی الواقع وہ قیامت اور آخرت کو ناممکن سمجھتے ہیں ، بلکہ ان کے اس انکار کی اصل وجہ یہ ہے کہ آخرت کو ماننے سے لازماً ان پر کچھ اخلاقی پابندیاں عائد ہوتی ہیں ، اور انہیں یہ پابندیاں ناگوار ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ اب تک زمین میں بے نتھے بیل کی طرح پھرتے رہے ہیں اسی طرح آئندہ بھی پھرتے رہیں ۔ جو ظلم ، جو بے ایمانیاں ، جو فسق و فجور ، جو بد کرداریاں وہ اب تک کرتے رہے ہیں ، آئندہ بھی ان کو اس کی کھلی چھوٹ ملی رہے ، اور یہ خیال کبھی ان کو یہ ناروا آزادیاں برتنے سے نہ روکنے پائے کہ ایک دن انہیں اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے ان اعمال کی جواب دہی کرنی پڑے گی ۔ اس لیے دراصل ان کی عقل انہیں آخرت پر ایمان لانے سے نہیں روک رہی ہے بلکہ ان کی خواہشات نفس اس میں مانع ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3:۔ یعنی آخرت کی زندگی کا انکار یہ لوگ کسی علمی دلیل کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس لئے کرتے ہیں تاکہ آئندہ بھی وہ بے خوف و خطر گناہ کرتے رہیں، اور آخرت کا تصور ان کے لئے اپنی نفسانی خواہشات پوری کرنے میں کوئی رُکاوٹ نہ بنے۔