Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یہ سوال اس لئے نہیں کرتا کہ گناہوں سے تائب ہوجائے، بلکہ قیامت کو ناممکن الو قوع سمجھتے ہوئے پوچھتا ہے۔ اسی لیے فسق و فجور سے باز نہیں آتا۔ تاہم اگلی ٓآیت میں اللہ تعالیٰ قیامت کے آنے کا وقت بیان فرما رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] یعنی انسان کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ حقیقت کو سمجھنے کے باوجود یہ سوال کیے جاتا ہے کہ وہ دن آخر آئے گا کب ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَسْــَٔـلُ اَيَّانَ يَوْمُ الْقِيٰمَۃِ۝ ٦ ۭ- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- أَيَّانَ- عبارة عن وقت الشیء، ويقارب معنی متی، قال تعالی: أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف 187] ، أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ [ الذاریات 12] من قولهم : أي، وقیل : أصله : أيّ أوان، أي :- أيّ وقت، فحذف الألف ثم جعل الواو ياء فأدغم فصار أيّان . و :- ( ایان ) ایان - ( کب ) کسی شے کا وقت دریافت کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ قریب قریب متی) کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف 187] کہ اس ( قیامت ) کا وقوع کب ہوگا ۔ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ( سورة النحل 21) ان کو بھی یہ معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ ( سورة الذاریات 12) کہ جزا کا دن کب ہوگا ۔ لفظ ایان دراصل امی سے مشتق ہے اور بعض کے نزدیک اس کی اصل ائ اوان ہے جس کے معنی ہیں کونسا وقت ، ، الف کو حذف کرکے واؤ کو یاء اور پھر اسے یاء میں ادغام کرکے ایان بنا لیا گیا ہے ۔ - قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦۔ ٩) یہ عدی بن ربیعہ بطور انکار کے پوچھتا ہے کہ قیامت کب آئے گی تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس وقت آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند بےنور ہوجائے گا اور سورج و چاند دونوں ایک حالت کے ہوجائیں گے یعنی سیاہ بےنور ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ یَسْئَلُ اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیٰمَۃِ ۔ ” وہ پوچھتا ہے : کب آئے گا قیامت کا دن ؟ “- مشرکین مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال طنزیہ طور پر پوچھتے تھے۔ اسی لیے اس کا جواب بھی بہت تیکھے انداز میں دیا گیا ہے۔ سوال و جواب کا یہی انداز اور اسلوب سورة الذاریات کی ان آیات میں بھی پایا جاتا ہے : یَسْئَلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِ - یَوْمَ ہُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ ۔ ” وہ پوچھتے ہیں کب آئے گا وہ جزا و سزا کا دن ؟ جس دن یہ لوگ آگ پر سینکے جائیں گے “۔ مذکورہ سوال کا جواب بھی بالکل اسی انداز میں دیا جا رہا ہے ۔ ملاحظہ ہو :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :6 یہ سوال استفسار کے طور پر نہیں بلکہ انکار اور استہزاء کے طور پر تھا ۔ یعنی یہ پوچھنا نہیں چاہتے تھے کہ قیامت کس روز آئے گی ، بلکہ مذاق کے طور پر کہتے تھے کہ حضرت جس دن کی آپ خبر دے رہے ہیں آخر وہ آتے آتے رہ کہاں گیا ہے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani