Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 دہشت اور حیرانی سے جیسے موت کے وقت عام طور پر ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] یعنی جب نظام کائنات درہم برہم ہوگا تو کئی طرح کے دھماکے ہوں گے، گرج بھی پیدا ہوگی اور بجلی بھی جس سے انسان کی آنکھیں خیرہ ہوجائیں گی۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان دہشت انگیز نظاروں کو دیکھ کر انسان کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فاذا برق البصر :” برق البصر “ (س، ن)” برفا و بروفا “ آکھ کا حیرت سے کھلا رہ جانا یا دہشت زدہ ہو کر کچھ نہ دیکھ سکنا۔ (قاموس) (رض) عنہمانے قیامت کی تاریخ اور قیامت کے متعلق بتانے کے بجائے اس دن واقع ہونے والی چند چیزیں بیان فرما دیں۔ ” فاذا برق البصر “ یعنی قیامت کے دن کے عجیب و غریب حوادث و واقعات کو دیکھ کر آنکھیں حیرت سے کھلی رہ جائیں گی اور خوف و دہشت کے مارے ان سے کچھ دکھائی نہ دے گا، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولا تحسبن اللہ غافلاً عما یعمل الظلمون، انما یوخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار مھطعین مقنعی رء و سھم لایرتد الیھم طرفھم ، وافدتھم ھوآئ) (ابراہیم)” اور تو ہرگز خیال نہ کر کہ اللہ ان کاموں سے بیخبر ہے جو ظالم لوگ کر رہے ہیں، وہ تو انہیں صرف اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ حال یہ ہوگا کہ سر اٹھائے ہوئے تیز بھاگ رہے ہوں گے، ان کی نگاہیں ان کی طرف لوٹ کر نہیں ائٓیں گی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ ۝ ۙوَخَسَفَ الْقَمَرُ ۝ ۙوَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ- یہ قیامت کے حالات کا بیان ہے برق بفتح البا و کسر را کے معنی آنکھ خیرہ ہوگی کہ دیکھ نہ سکیں۔ قیامت کے روز سب کی نگاہیں خیرہ ہوجائیں گی، نگاہ جما کر کسی چیز کو نہ دیکھ سکیں گی۔ خسف القمر خسوف سے مشتق ہے جس کے معنی روشنی ختم ہو کر تاریکی ہوجانے کے ہیں۔ معنے یہ ہیں کہ چاند بےنور ہوجائے گا۔ آگے وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ میں یہ بتلایا کہ صرف چاند ہی بےنور نہیں ہوگا بلکہ آفتاب بھی بےنور ہوجائے گا جس کے متعلق دنیا کے فلاسفہ کا یہ کہنا ہے کہ اصل روشنی آفتاب میں ہے۔ چاند کی روشنی بھی آفتاب کی شعاعوں سے مستفاد ہے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے روز یہ چاند اور سورج دونوں ایک ہی حال میں جمع کردیئے جاویں گے کہ دونوں بےنور ہوں گے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ چاند سورج کے جمع ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اس روز چاند اور سورج دونوں ایک ہی مطلع سے طلوع ہوں گے جیسا کہ بعض مقامات میں آیا ہے واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ۝ ٧ ۙ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- برق - البَرْقُ : لمعان السحاب، قال تعالی: فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة 19] - ( ب رق ) البرق - کے معنی بادل کی چمک کے ہیں قرآن میں ہے : فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة 19] اس میں اندھیرے پر اندھیرا چھارہا ) ہو اور بادل ) گرج ( رہا ) ہو اور بجلی کوند رہی ہو ۔- - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :7 اصل میں برق البصر کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے لغوی معنی بجلی کی چمک سے آنکھوں کے چندھیا جانے کے ہیں ۔ لیکن عربی محاورے میں یہ الفاظ اسی معنی کے لیے مخصوص نہیں ہیں بلکہ خوف زدگی ، حیرت یا کسی اچانک حادثہ سے دو چار ہو جانے کی صورت میں اگر آدمی ہک دک رہ جائے اور اس کی نگاہ اس پریشان کن منظر کی طرف جم کر رہ جائے جو اس کو نظر آ رہا ہو تو اس کے لیے بھی یہ الفاظ بولے جاتے ہیں ۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے: انما یوخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار ، اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اس دن کے لیے جب آنکھیں پھٹی پھٹی رہ جائیں گی ( ابراہیم ، 42 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani