Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 صبر کا معنی ہے دین کے راستے میں جو تکلفیں آئیں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اللہ کی اطاعت میں نفس کی خواہشات اور لذات کو قربان کرنا اور معصیتوں سے اجتناب کرنا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥] دنیا میں ان لوگوں نے اللہ کی رضا کی خاطر بیشمار پابندیاں برداشت کی تھیں۔ اسلام کی راہ میں آنے والی مشکلات کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے تھے۔ اس مستقل صبر کے عوض آج انہیں جنت بھی عطا کی جائے گی اور فاخرانہ ریشمی لباس بھی پہنائے جائیں گے اور وہ جنت میں پورے شاہانہ ٹھاٹھ کے ساتھ تکیہ لگائے بیٹھا کریں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وجزھم بما صبروا جنتہ وحریراً : اور انہیں اللہ تعالیٰ ان کے صبر کے عوض جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے گا۔ صبر کا مفہوم بہت وسیع ہے، اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی پر صبر، اس کی حرام کردہ چیزوں سے صبر، اس کے دین کی دعوت پر صبر، آزمائشوں اور تکلیفوں پر صبر، خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلانے پر صبر، غرض مومن کی زندگی اول تا آخر صبر ہی صبر ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَزٰىہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِيْرًا۝ ١٢ ۙ- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- حَريرُ- من الثیاب : ما رقّ ، قال اللہ تعالی: وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] لحریری ( ریشمی کپڑا ) ہر ایک بار کپڑے کو حریر کیا جاتا ہے فرمایا :۔ وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ وَجَزٰٹہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا ۔ ” اور بدلے میں دے گا انہیں ان کے صبر کے سبب جنت اور ریشم کا لباس۔ “- دنیا میں وہ لوگ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری میں لگے رہے۔ انہوں نے فاقوں سے رہنا گوارا کرلیا لیکن حرام کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے انہوں نے اپنی جانیں تک قربان کردیں۔ ان کے اس صبر کے بدلے میں اللہ تعالیٰ انہیں رہنے کے لیے جنت اور پہننے کے لیے ریشم کی پوشاکیں عطا کرے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :16 یہاں صبر بڑے وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے ، بلکہ در حقیقت صالح اہل ایمان کی پوری دنیوی زندگی ہی کو صبر کی زندگی قرار دیا گیا ہے ۔ ہوش سنبھالنے یا ایمان لانے کے بعد سے مرتے دم تک کسی شخص کا اپنی ناجائز خواہشوں کو دبانا ، اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کی پابندی کرنا ، اللہ کے عائد کیے ہوئے فرائض کو بجا لانا ، اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا وقت ، اپنا مال ، اپنی محنتیں ، اپنی قوتیں اور قابلتیں ، حتی کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک قربان کر دینا ، ہر اس لالچ اور ترغیب کو ٹھکرا دینا جو اللہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے سامنے آئے ، ہر اس خطرے اور تکلیف کو برداشت کر لینا جو راہ راست پر چلنے میں پیش آئے ، ہر اس فائدے اور لذت سے دست بردار ہو جانا جو حرام طریقوں سے حاصل ہو ، ہر اس نقصان اور رنج اور اذیت کو انگیز کر جانا جو حق پرستی کی وجہ سے پہنچے ، اور یہ سب کچھ اللہ تعالی کے اس وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے کرنا کہ اس نیک رویے کے ثمرات اس دنیا میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ملیں گے ، ایک ایسا طرز عمل ہے جو مومن کی پوری زندگی کو صبر کی زندگی بنا دیتا ہے ۔ یہ ہر وقت کا صبر ہے ، دائمی صبر ہے ۔ ہمہ گیر صبر ہے اور عمر بھر کا صبر ہے ۔ ( مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ حاشیہ 60 ۔ آل عمرا ، حواشی 13 ، 107 ، 131 ۔ الانعام ، حاشیہ 23 ۔ جلد دوم ، الانفال ، حواشی 37 ، 47 ، یونس ، حاشیہ 9 ۔ ہود ، حاشیہ 11 ۔ الرعد ، حاشیہ 39 ۔ النحل ، حاشیہ 98 ۔ جلد سوم ، مریم ، حاشیہ 40 ۔ الفرقان ، حاشیہ 94 ۔ القصص ، حواشی 75 ، 100 ، العنکبوت ، 97 ۔ جلد چہارم ، لقمان ، حواشی 29 ، 56 ۔ السجدہ ، حاشیہ 37 ۔ الاحزاب ، حاشیہ 58 ۔ الزمر ، حاشیہ 32 ۔ حم السجدہ ، حاشیہ 38 ۔ الشوری ، حاشیہ 53 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani