دائمی خوشگوار موسم اور مسرتوں سے بھرپور زندگی اہل جنت کی نعمت ، راحت ، ان کے ملک و مال اور جاہ و منال کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ لوگ بہ آرام تمام پورے اطمینان اور خوش دلی کے ساتھ جنت کے مرصع ، مزین ، جڑاؤ تختوں پر بےفکری سے تکئے لگائے سرور اور راحت سے بیٹھے مزے لوٹ رہے ہوں گے ، سورہ والصافات کی تفسیر میں اس کی پوری شرح گذر چکی ہے ، وہیں یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ اتکا سے مراد لیٹنا ہے یا کہنیاں ٹکانا ہے یا چار زانو بیٹھنا ہے یا کمر لگا کر ٹیک لگانا ہے ، اور یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ ارائک چھپر کھٹوں کو کہتے ہیں ، پھر ایک اور نعمت بیان ہو رہی ہے کہ وہاں نہ تو سورج کی تیز شععوں سے انہیں کوئی تکلیف پہنچے نہ جاڑے کی بہت سرد ہوائیں انہیں ناگوار گذریں بلکہ بہار کا سا موسم ہر وقت اور ہمیشہ رہتا ہے گرمی سردی کے جھمیلوں سے الگ ہیں ، جنتی درختوں کی شاخیں جھوم جھوم کر ان پر سایہ کئے ہوئے ہوں گی اور میوے ان سے بالکل قریب ہوں گے چاہے لیٹے لیٹے توڑ کر کھالیں ، چاہے بیٹھے بیٹھے لے لیں چاہے کھڑے ہو کر لے لیں درختوں پر چڑھنے اور تکلیف کی کوئی حاجت نہیں پر میوے دار لچھے اور لدے ہوئے لچھے لٹک رہے ہیں توڑا اور کھا لیا اگر کھڑے ہیں تو میوے اتنے اونچے ہیں بیٹھے تو قدرے جھک گئے لیٹے تو اور قریب آ گئے ، نہ تو کانٹوں کی رکاوٹ نہ دوری کی سردردی ہے ، حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنت کی زمین چاندی کی ہے اور اس کی مٹی مشک خالص ہے اس کے درختوں کے تنے سونے چاندی کے ہیں ڈالیاں لولو زبر جد اور یاقوت کی ہیں ، ان کے درمیان پتے اور پھل ہیں جن کے توڑنے میں کوئی وقت اور مشکل نہیں چاہ بیٹھے بیٹھے توڑ لو چاہو کھڑے کھڑے بلکہ اگر چاہیں لیٹے لیٹے ایک طرف خوش خرام ، خوش دل ، خوبصورت ، با ادب ، سلیقہ شعار ، فرمانبردار خادم قسم قسم کے کھانے چاندی کی کشتیوں میں لگائے لئے کھڑے ۔ دوسری جانب شراب طہور سے چھلکتے ہوئے بلوریں جام لئے ساقیان مہوش اشارے کے منتظر ہیں ، یہ گلاس صفائی میں شیشے جیسے اور سفیدی میں چاندی جیسے ہوں گے ، دراصل ہوں گے چاندی کے لیکن شیشے کی طرح شفا ف ہوں گے کہ اندر کی چیز باہر سے نظر آئے ، جنت کی تمام چیزوں کی یونہی سی برائے نام مشابہت دنیا کی چیزوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن ان چاندی کے بلوریں گلاسوں کی کوئی نظری نہیں ملتی ، ہاں یہ یاد رہے کہ پہلے کے لفظ قواریر پر زبر تو اس لئے ہے کہ وہ کان کی خبر ہے اور دوسرے پر زبریا توبدلیت کی بنا پر ہے یا تمیز کی بنا پر ، پھر یہ جام نپے تلے ہوئے ہیں ساقی کے ہاتھ میں بھی زیب دیں اور ان کی ہتھیلیوں پر بھلے معلوم ہوں اور ینے والوں کے حسب خواہش شراب طہور اس میں سما جائے جو نہ بچے نہ گھٹے ۔ ان نایاب گلاسوں میں جو پاک خوش ذائقہ اور سرور والی بےنشے کی شراب انہیں ملے گی وہ جنت کی نہر سلسبیل کے پانی سے مخلوط کر کے دی جائے گی ، اوپر گذر چکا ہے کہ نہر کا فور کے پانی سے مخلوط کر کے دی جائے گی تو مطلب یہ ہے کبھی اس ٹھنڈک والے سرد مزاج پانی سے کبھی اس نفیس گرم مزاج پانی سے تاکہ اعتدال قائم رہے ، یہ ابرار لوگوں کا ذکر ہے اور خاص مقربین خالص اس نہر کا شربت پئیں گے ، سلسبیل بقول عکرمہ جنت کے ایک چشمے کا نام ہے کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ مسلسل روانگی سے لہرایا چال بہہ رہا ہے ، اس کا پانی بڑا ہلکا ، نہایت شیریں ، خوش ذائقہ اور خوش بو ہے جو آسانی سے پیا جائے اور ہضم اور جزو بدن ہوتا رہے ۔ ان نعمتوں کے ساتھ ہی خوبصورت حسین نوخیز کم عمر لڑکے ان کی خدمت کے لئے کمر بستہ ہوں گے ، یہ غلمان جنتی جس سن و سال میں ہوں گے اسی میں رہیں گے یہ نہیں کہ سن بڑھ کر صورت بگڑ جائے ، نفیس پوشاکیں اور بیش قیمث جڑاؤ زیور پہنے بہ تعداد کثیر ادھر ادھر مختلف کاموں پر بٹے ہوئے ہوں گے جنہیں دوڑ بھاگ کر مستعدی اور چالاکی سے انجام دے رہے ہوں گے ایسا معلوم ہو گا گویا سفید آب دار موتی ادھر ادھر جنت میں بکھرے پڑے ہیں ۔ حقیت میں اس سے زیادہ اچھی تشبیہ ان کے لئے کوئی اور نہ تھی کہ یہ صاحب جمال خوش خصال بوٹے سے قد والے سفید نورانی چہروں والے پاک صاف سجی ہوئی پوشاکیں پہنے زیور میں لدے اپنے مالک کی فرمانبرداری میں دوڑتے بھاگتے ادھر ادھر پھرتے ایسے بھلے معلوم ہوں گے سجے سجائے پر تکلف فرش پر سفید چمکیلے سچے موتی ادھر ادھر لڑھک رہے ہوں ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر ہر جنتی کے ایک ہزار خادم ہوں گے جو مختلف کام کاج میں لگے ہوئے ہوں گے ۔ پھر فرماتا ہے اے نبی تم جنت کی جس جگہ نظر ڈالو تمہیں نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت نظر آئے گی تم دیکھو گے کہ راحت و سرور نعمت و نور سے چپہ چپہ معمور ہے چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ سب سے آخر میں جو جہنم میں سے نکالا جائے گا اور جنت میں بھیجا جائے گا اس سے جناب باری تبارک و تعالیٰ فرمائے گا جا میں نے تجھے جنت میں وہ دیا جو مثل دنیا کے ہے ، بلکہ اس سے بھی دس حصے زیادہ دیا ، اور حضرت ابن عمر کی روایت سے وہ حدیث بھی پہلے گذر چکی ہے جس میں ہے کہ ادنیٰ جنتی کی ملکیت و ملک دو ہزار سال تک ہو گا ہر قریب و بعید کی چیز پر اس کی بہ یک نظر یکاسں نگاہیں ہوں گی ، یہ حال تو ہے ادنیٰ جنتی کا پھر سمجھ لو کہ اعلیٰ جنتی کا درجہ کیا ہو گا ؟ اور اس کی نعمتیں کیسی ہوں گی ( اے اللہ اے بغیر ہماری دعا اور عمل کے ہمیں شیر مادر کے چشمے عنایت کرنے والے ہم بہ عاجزی و الحاج تیری پاک جناب میں عرض گذار ہیں کہ تو ہمارے مشتاق دل کے ارمان پورے کر اور ہمیں بھی جنت الفردوس نصیب فرما ۔ گو ایسے اعمال نہ ہوں لیکن ایمان ہے کہ تیری رحمت اعمال پر ہی موقف نہیں ، آمین ۔ مترجم ) طبرانی کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں وارد ہے کہ ایک حبشی دربار رسالت میں حاضر ہوا ، آپ نے اسے فرمایا تمہیں جو کچھ پوچھنا ہو جس بات کو سمجھنا ہو پوچھ لو اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صورت ، شکل ، رنگ ، روپ ، نبوۃ و رسالت میں آپ کو ہم پر فضیلت دی گئی ہے اب یہ تو فرمایئے کہ اگر میں بھی ان چیزوں پر ایمان لاؤں جن پر آپ ایمان لائے ہیں اور جن پر آپ عمل کرتے ہیں اگر میں بھی اسی پر عمل کروں تو کیا جنت میں آپ کے ساتھ ہو سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا ہاں قسم ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ سیاہ رنگ لوگوں کو جنت میں وہ سفید رنگ دیا جائے گا کہ ایک ہزار سال کے فاصلے سے دکھائی دے گا پھر حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا جو شخص لا الہ الا اللہ کہے اس کے لئے اللہ کے پاس عہد مقرر ہو جاتا ہے اور جو شخص سبحان اللہ و بحمدہ کہے اس کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، تو ایک شخص نے کہا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیسے ہال ہوں گے؟ آپ نے فرمایا سنو ایک شخص اتنی نیکیاں لائے گا کہ اگر کسی بڑے پہاڑ پر رکھی جائیں تو اس پر بوجھل پڑیں لیکن پھر جو اللہ کی نعمتیں اس کے مقابل آئیں گی تو قریب ہو گا کہ سب فنا ہو جائیں مگر یہ اور بات ہے کہ رحمت رب توجہ فرمائے اس وقت یہ سورت ملکا کبیراً تک اتری اسی حبشی نے کہا کہ اے حضور جو کچھ آپ کی آنکھیں جنت میں دیکھیں گی کیا میری آنکھیں بھی دیکھیں گی؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں ، بس وہ رونے لگا یہاں تک کہ اس کی روح پرواز کر گئی حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اسے فن کیا رضی اللہ عنہ ۔ پھر اہل جنت کے لباس کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ سبز ہرے رنگ کا مہین اور چمکدار ریشم ہو گا ، سندس اعلیٰ درجہ کا خالص نرم ریشم جو بدن سے لگا ہوا ہو گا ، اور استبرق عمدہ بیش بہا گراں قدر ریشم جس میں چمک دمک ہو گی جو اوپر پہنچایا جائے گا ، ساتھ ہی چاندی کے کنگن ہاتھوں میں ہوں گے ، یہ لباس ابرار کا ہے ، اور مقربین خاص کے بارے میں اور جگہ ارشاد ہے ( يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُؤْلُؤًا ۭ وَلِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ 23 ) 22- الحج:23 ) انہیں سونے کے کنگن ہیرے جڑے ہوئے پہنائے جائیں گے اور خاص نرم صاف ریشمی لباس ہو گا ، ان ظاہری جسمانی استعمالی نعمتوں کے ساتھ ہی انہیں پرکیف ، بالذت ، سرور والی ، پاک اور پاک کرنے والی شراب پلائے جائے گی جو تمام ظاہری باطنی برائی دور کر دے حسد کینہ بدخلقی غصہ وغیرہ سب دور کر دے ، جیسے امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب اہل جنت جنت کے دروازے پر پہنچیں گے تو انہیں دو نہریں نظر آئیں گی اور انہیں از خود خیال پیدا ہو گا ایک کا وہ پانی پئیں گے تو ان کے دلوں میں جب کچھ تھا سب دور ہو جائے گا دوسری میں غسل کریں گے جس سے چہرے ترو تازہ ہشاش بشاش ہو جائیں گے ، ظاہری اور باطنی خوبی دونوں انہیں بدرجہ کمال حاصل ہوں گی جس کا بیان یہاں ہو رہا ہے ۔ پھر ان سے ان کے دل خوش کرنے اور ان کی خوشی دوبالا کرنے کو بار بار کہا جائے گا تمہارے نیک اعمال کا بدلہ اور تمہاری بھلی کوشش کی قدر وانی ہے ، جیسے اور جگہ ہے ( كُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِيْۗئًۢا بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِي الْاَيَّامِ الْخَالِيَةِ 24 ) 69- الحاقة:24 ) دنیا میں جو اعمال تم نے کئے ان کی نیک جزا میں آج تم خوب لطیف و لذیذ بہ آرام و اطمینان کھاتے پیتے رہو ، اور فرمان ہے ونودوا ان یلکم الجنتہ اور ئتموھا بما کنتم یعملون یعنی منادی کئے جائیں گے کہ ان جنتوں کا وارث تمہیں تمہارے نیک کردار کی بنا پر بنایا گیا ہے ، یہاں بھی فرمایا ہے تمہاری سعی مشکور ہے تھوڑے عمل پر بہت اجر ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں سے کرے آمین ۔
13۔ 1 مطلب یہ ہے کہ وہاں ہمیشہ ایک ہی موسم رہے گا اور وہ ہے موسم بہار، نہ سخت گرمی اور نہ کڑاکے کی سردی۔
[١٦] شمس سے مراد دھوپ کی حرارت اور شدت ہے جو بدن کو ناگوار محسوس ہو۔ اور زمھریر سے مراد سخت سردی ہے اور ایسا طبقہ بھی جہاں کڑاکے کی سردی ہو۔ یعنی جنت کا موسم گرمی اور سردی کی ان دونوں انتہاؤں سے پاک اور معتدل قسم کا ہوگا۔ جیسے ہمارے ہاں موسم بہار ہوتا ہے۔
متکئین فیھا علی الارآئک …:” شمساً “ سے مراد سخت دھوپ اور گریم اور ” زمھریراً “ سے مراد سخت سردی ہے، یعنی جنت کا موسم نہایت خوش گوار اور معتدل ہوگا، اس میں نہ تکلیف دہ گریم ہوگی نہ سردی۔ اس کے برعکس جہنم میں شدید گرمی یعنی آگ کا عذاب بھی ہوگا اور شدید سردی (زمہر پر) کا بھی، بلکہ دنیا میں شدید گرمی اور شدید سردی کا اصل بھی جہنم ہی سے ہے۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(واشتکت النار الی ربھا فقالت یا رب اکل یعصی بعضاً فاذن لھا بنفسین ، نفس فی الستائ، ونفس فی الصیف ، فھو اشد ماتجدون من الحر واشد ماتجدون من الزمھریر) (بخاری ، مواقیت الصلاۃ ، باب الابراد بالظھر فی شدۃ الحر : ٥٣٨)” آگ نے اپنے رب کے پاس شکایت کی اور کہا :” اے میرے رب میرے بعض حصے بعض کو کھا گئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس نکالنے کی اجازت دے دی، ایک سانس گرمی میں اور ایک سردی میں۔ یہ وہی ہے جو تم سخت گرمی محسوس کرتے ہو اور جو تم سخت زمہر یر (سردی ) محسوس کرتے ہو۔ “
مُّتَّكِــــِٕيْنَ فِيْہَا عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ ٠ ۚ لَا يَرَوْنَ فِيْہَا شَمْسًا وَّلَا زَمْہَرِيْرًا ١٣ ۚ- تكأ - المُتَّكَأ : المکان الذي يتكأ عليه، والمخدّة : المتکأ عليها، وقوله تعالی: وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، أي : أترجا «1» . وقیل : طعاما متناولا، من قولک : اتكأ علی كذا فأكله، - ( ت ک ء ) التکاء - ( اسم مکان سہارہ لگانے کی جگہ ۔ تکیہ جس پر ٹیک لگائی جائے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں متکاء کے معنی ترنج کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ مراد کھانا ۔- أيك - الأَيْكُ : شجر ملتف وأصحاب الأيكة قيل : نسبوا إلى غيضة کانوا يسکنونهاوقیل : هي اسم بلد .- ( ای ک ) الایک - ۔ درختوں کا جھنڈ ( ذوای کہ ) اور آیت ۔ وأصحاب الأيكةکی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ الایکۃ ان کے شہر اور آبادی کا نام ہے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- زمهريرا - : اسم بمعنی شدّة البرد۔ قيل هو القمر علی لغة طيء۔ وزنه فعللیل .- زمهر : الزَّمْهَرِيرُ : شِدَّةُ الْبَرْدِ؛ قَالَ الأَعشی: مِنَ القَاصِراتِ سُجُوفَ الحِجالِ ، ... لَمْ تَرَ شَمْساً وَلَا زَمْهَرِيرَاوَالزَّمْهَرِيرُ : هُوَ الَّذِي أَعدّه اللَّهُ تَعَالَى عَذَابًا لِلْكُفَّارِ فِي الدَّارِ الْآخِرَةِ ، وَقَدِ ازْمَهَرَّ الیومُ ازْمِهْرَاراً. وزَمْهَرَتْ عَيْنَاهُ وازْمَهَرَّتا : احْمَرَّتا مِنَ الْغَضَبِ. والمُزْمَهِرُّ : الَّذِي احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ ، وازْمَهَرَّتِ الْكَوَاكِبُ : لَمَحَتْ. والمُزْمَهِرُّ : الشَّدِيدُ الْغَضَبِ. وَفِي حَدِيثِ ابْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ : كَانَ عُمَرُ مُزْمَهِرّاً عَلَى الْكَافِرِ أَي شَدِيدَ الْغَضَبِ عَلَيْهِ. ووَجْهٌ مُزْمَهِرّ : كَالِحٌ. وازْمَهَرَّتِ الکواكبُ : زَهَرَتْ وَلَمَعَتْ ، وَقِيلَ : اشْتَدَّ ضَوْءُهَا . والمُزْمَهِرُّ : الضَّاحِكُ السِّنِّ. والازْمِهْرَارُ فِي الْعَيْنِ عِنْدَ الْغَضَبِ والشدة .( لسان العرب)
(١٣۔ ١٤) اس حالت میں کہ وہ جنت میں مسہریوں پر آرام و عزت سے تکیہ لگائے ہوں گے اور نہ وہاں گرمی کی تکلیف ہوگی اور نہ سردی کی شدت اور یہ حالت ہوگی کہ درختوں کے سائے ان کے قریب ہوں گے اور ان کے میوے ان کے اختیار میں ہوں گے کہ ہر طرح لے سکیں گے۔
آیت ١٣ مُّتَّکِئِیْنَ فِیْہَا عَلَی الْاَرَآئِکِ ” وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوئے ہوں گے اس میں تختوں کے اوپر۔ “- لَا یَرَوْنَ فِیْہَا شَمْسًا وَّلَا زَمْہَرِیْرًا ۔ ” نہیں دیکھیں گے وہ اس میں دھوپ کی حدت اور نہ سخت سردی۔ “- زَمْہَرِیر ایسی سخت سردی کو کہتے ہیں جو انسان پر زبردست کپکپی طاری کر دے۔ چناچہ جنت میں اہل جنت کو نہ تو دھوپ کی تپش تنگ کرے گی اور نہ ہی انہیں ٹھٹھرنے والی سردی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گویا جنت میں مسلسل معتدل موسم کا سماں ہوگا۔