Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 جیسے ایک زمانے میں بادشاہ، سردار اور ممتاز قسم کے لوگ پہنا کرتے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] سورة کہف کی آیت نمبر ٣١ میں مذکور ہے کہ اہل جنت کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ اور یہاں چاندی کے کنگنوں کا ذکر ہے۔ اور یہ بات اہل جنت کی مرضی پر منحصر ہوگی کہ جیسے کنگن وہ پہننا چاہیں انہیں پہنائے جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں قسم کے پہنائے جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی سونے کے پہنائے جائیں اور کبھی چاندی کے۔ یا مردوں کو چاندی کے پہنائے جائیں اور عورتوں کو سونے کے۔- [٢٥] یہ کافور اور زنجبیل کے امتزاج والے مشروبات کے علاوہ ایک تیسرے مشروب کا ذکر ہے۔ جسے شراباً طہوراً کا نام دیا گیا ہے۔ طہور سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جو خود بھی صاف ستھری ہو اور دوسری چیزوں کو بھی صاف ستھرا کرنے والی ہو۔ یعنی وہ مشروب ایک تو بذات خود انتہائی صاف شفاف ہوگا۔ دوسرے اہل جنت کے دلوں سے ایک دوسرے کے خلاف ہر قسم کی رنجش اور کدورتیں دور کر دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) علیھن ثیاب سندس خضرو استبرق …:” سندس “ باریک ریشم ۔ ” استبرق “ گاڑھا ریشم۔ ” خلوا “ ” حلیۃ “ سے ” فعلوا “ کے وزن پر ہے، اصل میں ” حلیوا “ تھا، زیور پہنائے جائیں گے۔” اساور “ ” سوار “ کی جمع ہے، کنگن۔ ” شراباً “ مشروب، پینے کی چیز، ” طھوراً “ جو پاک ہو اور پاک کرنے والی ہو، جیسا کہ فرمایا :(وانزلنا من السمآء مآء طھوراً ) (الفرقان : ٣٨)” اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا۔ “- (٢)” علیھم “ (ان کے اوپر) کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ جن نشستوں پر جن نشستوں پر بیٹھے ہوں گے ان کے اوپر باریک سبز ریشم اور گاڑھے ریشم کے پردے لٹک رہے ہوں گے۔ جب پردے اتنی قیمتی ہوں گے تو ان کے لباس کا کیا کہنا۔ دوسرا یہ انہوں نے باریک سبز ریشم اور گاڑھے ریشم کا لباس پہن رکھا ہوگا، جیسا کہ سورة کہف میں فرمایا :(ویلبسون ثیاباً خصراً من سندس و استبرق) (الکھف : ٣١)” اور وہ باریک اور گاڑھے سبز ریشم کے پکڑے پہنیں گے۔ ‘ یہ معنی زیادہ درست ہے، کیونکہ سورة کہف کی آیت سے اس کی تائید ہو رہی ہے۔ انس بن مالک، مجاہد اور قتادہ کی قرأت میں ” علیھم “ ہے۔ (دیکھیے زاد المسیر لابن الجوزی) اس قرأت سے بھی دوسرے معنی کی تائید ہوتی ہے، اگرچہ پہلا معنی بھی غلط نہیں۔- (٢) سورة کہف میں فرمایا :(یحلون فیھا من اساور من ذھب) (الکھف : ٣١)” ان میں انہیں کچھ کنگن سونے کے پہنائے جائیں گے۔ “ جبکہ یہاں چاندی کے کنگن پہنائے جانے کا ذکر ہے، دونوں میں تطبیق کیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں کئی جنتیں ہیں، جیسا کہ سورة رحمان میں الگ الگ دو دو جنتوں کا ذکر ہے اور جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنتان من فضۃ آنیتھما و ما فیھما و جنتان من ذٓھب آنیتھما وما فیھما) (بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : وجود یومئد ناظرۃ): ٨٣٣٣)”’ و باغ ایسے ہیں کہ ان کے برتن اور ان میں جو کچھ ہے چاندی کا ہے اور دو باغ ایسے ہیں کہ ان کے برتن اور ان میں جو کچھ ہے سونے کا ہے۔ “ اب جنتی کی مرضی ہے کہ سونے کے کنگن پہنے یا چاندی کے یا دونوں پہن لے اور بعض اہل علم نے فرمایا کہ شاید اہل جنت کے درجات کے لحاظ سے سونے کے کنگن مقربین کے لئے اور چاندی کے اصحاب الیمین کے لئے ہوں گے۔ (التسہیل) مگر یہ بات جزم سے نہیں کہی جاسکتی، اس لئے پہلی بات ہی زیادہ درست ہے۔- (٤) یہاں ایک سوال یہ ہے کہ کنگن وغیرہ عام طور پر عورتیں پہنتی ہیں، جنت میں مردوں کو کنگن پہنانے کا کیا مقصد ہے ؟ جواب یہ ہے کہ ریشمی لباس اور سونے چاندی کے کنگنوں سے مراد اہل جنت کی شاہانہ شان و شوکت بیان کرنا ہے۔ دنیا میں قدیم زمانے سے بادشاہ سونے چاندی کے کنگن پہنتے رہے ہیں، جیسا کہ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) پر طعن کیا تھا :(فلولا القی علیہ اسورۃ من ذھب) (الزخرف : ٥٣)” اسے سونے کے کنگن کیوں نہیں پہنائے گئے ؟ “- (٥) و سقھم ربھم شراباً طھوراً : آیت کے اس ٹکڑے میں جنتیوں کے لئے کئی بشارتیں ہیں، ایک یہ کہ انہیں ان کا رب خود شراب طہور پلائے گا۔ اس سے بڑی عزت افزائی اور کیا ہوسکتی ہے۔ دوسری یہ کہ وہ مشروب دنیا کے تمام سرور آمد مشروبات کی ظاہری و باطنی نجاستوں سے اور ہر قسم کی خرابیوں سے پاک ہوگا، نہ اس میں نشہ ہوگا نہ درد سر، نہ متلی نہ قے، نہ اعضا شکنی ، نہ زوال عقل، وہ سرا سر لذت و سرور ہوگا۔ تیسری یہ کہ ” طھوراً “ کے لفظ طے شہر ہو رہا ہے کہ اس کے پینے سے اہل جنت کے دل پاک ہوجائیں گے اور ان سے حسد، بغض اور تمام کدورتیں دور ہوجائیں گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَّحُلُّوْٓا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ ، اساور، سوار کی جمع ہے کنگن کو کہا جاتا جو ہاتھوں میں پہننے کا زیور ہی اس آیت میں چندی کے کنگن کا ذکر ہے اور ایک دوسری آیت میں اساور رمن ذھب آیا ہے یعنی کنگن سونے کے، ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت چاندی کے کسی وقت سونے کے کنگن استعمال کئے جاویں یا بعض کے کنگن سونے کے ہوں بعض کے چاندی کے، مگر ایک سوال اس جگہ بہرحال ہے کہ چاندی کے کنگن ہوں یا سونے کے بہرحال یہ زیور ہیں جو عورتوں کے استعمال کے لئے ہوتے ہیں۔ مردوں کے لئے ایسے زیور پہننا عیب سمجھا جاتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ کسی چیز کا عورتوں یا مردونکے لئے مخصوص ہونا اور ان کے لئے مستحسن یا عیب ہونا یہ چیز عرف و عادت کے تابع ہوتی ہے بعض ملکوں یا قوموں میں ایک چیز بڑی عیب اور بری سمجھی جاتی ہے دوسری قوموں میں وہ بڑا حسن سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں ملوک کسریٰ ہاتھوں میں کنگن اور سینے اور تاج میں زیورات اسعتمال کرتے تھے اور یہ ان کا خاص امتیاز و اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ ملک کسریٰ فتح ہونے کے بعد جو خزائن کسریٰ مسلمانوں کو ہاتھ آئے ان میں کسریٰ کے کنگن بھی تھے۔ جب دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں کے معمولی جغرافیائی اور قومی تفاوت سے یہ معاملہ مختلف ہوسکتا ہے تو جنت کو دنیا پر قیاس کرنے کے کوئی معنے نہیں ہوسکتا ہے کہ وہاں زیور مردوں کے لئے بھی مستحسن سمجھا جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

عٰلِيَہُمْ ثِيَابُ سُـنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْـتَبْرَقٌ۝ ٠ ۡوَّحُلُّوْٓا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّۃٍ۝ ٠ ۚ وَسَقٰىہُمْ رَبُّہُمْ شَرَابًا طَہُوْرًا۝ ٢١- ثوب - أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل «2» . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4]- ( ث و ب ) ثوب - کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔- سُندس استبرق - والسّندس : الرّقيق من الدّيباج، والإستبرق : الغلیظ منه .- السدوس : طیسان کو کہتے ہیں السندس باریک اور اس کے مقابل استبرق موٹے ریشم کو کہتے ہیں - خضر - قال تعالی: فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج 63] ، وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ- [ الكهف 31] ، فَخُضْرٌ جمع أخضر، والخُضْرَة : أحد الألوان بين البیاض والسّواد، وهو إلى السّواد أقرب، ولهذا سمّي الأسود أخضر، والأخضر أسود قال الشاعر :- قد أعسف النازح المجهول معسفه ... في ظلّ أخضر يدعو هامه البوم«2» وقیل : سواد العراق للموضع الذي يكثر فيه الخضرة، وسمّيت الخضرة بالدّهمة في قوله سبحانه : مُدْهامَّتانِ [ الرحمن 64] ، أي : خضراوان، وقوله عليه السلام : «إيّاكم وخَضْرَاء الدّمن» «3» فقد فسّره عليه السلام حيث قال :«المرأة الحسناء في منبت السّوء» ، والمخاضرة :- المبایعة علی الخَضْرِ والثمار قبل بلوغها، والخضیرة : نخلة ينتثر بسرها أخضر .- ( خ ض ر )- قرآن میں ہے : فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج 63] تو زمین سر سبز ہوجاتی ہے۔ وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف 31] سبز رنگ کے کپڑے ۔ خضرا کا واحد اخضر ہے اور الخضرۃ ایک قسم کا دنگ ہوتا ہے جو سفیدی اور سیاہی کے بین بین ہوتا ہے مگر سیاہی غالب ہوتی ہے یہی وجہ ہے ک اسور ( سیاہ ) اور اخضر ( سبز) کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط) (136) قد اعسف النازح المجھود مسفۃ فی ظل اخضر یدعوھا مہ الیوم میں تاریک اور بھیانک راتوں میں دور دراز راستوں میں سفر کرتا ہوں جو بےنشان ہوتے ہیں ۔ اور سبزی اور شادابی کی وجہ سے عراق کے ایک حصہ کو سواد العراق کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ مُدْهامَّتانِ [ الرحمن 64] کے معنی سر سبز کے ہیں اور خضرۃ کی جگہ دھمۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی سیاہی کے ہیں ۔ حدیث میں ہے :۔ (114) ایاکم وخضواء الدمن تم کوڑی کی سر سبزی سے بچو۔ اور خضراء الدمن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا المرآۃ الحسنۃ فی منبت السوء یعنی خوبصورت عورت جو بدطنت ہو ۔ المخاضرۃ سبزیوں اور کچے پھلوں کی بیع کرنا ۔ الخضیرۃ کھجور کا درخت جس کی سبزا در نیم پختہ کھجوریں جھڑجائیں - حلی - الحُلِيّ جمع الحَلْي، نحو : ثدي وثديّ ، قال تعالی: مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف 148] ، يقال : حَلِيَ يَحْلَى قال اللہ تعالی: يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف 31] ،- ( ح ل ی ) الحلی - ( زیورات ) یہ حلی کی جمع ہے جیسے ثدی کی جمع ثدی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف 148] اپنے زیور کا ایک بچھڑا ( بنالیا ) وہ ایک جسم ( تھا ) جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی حلی یحلٰی آراستہ ہونا اور حلی آراستہ کرنا ) قرآن میں ہے ۔ يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف 31] ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔- وَحُلُّوا أَساوِرَ مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 21] اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ اور حلیتہ کے معنی زیور کے ہیں ۔ - سور - السَّوْرُ : وثوب مع علوّ ، ويستعمل في الغضب، وفي الشراب، يقال : سَوْرَةُ الغضب، وسَوْرَةُ الشراب، وسِرْتُ إليك، وسَاوَرَنِي فلان، وفلان سَوَّارٌ: وثّاب . والْإِسْوَارُ من أساورة الفرس أكثر ما يستعمل في الرّماة، ويقال : هو فارسيّ معرّب . وسِوَارُ المرأة معرّب، وأصله دستوار وكيفما کان فقد استعملته العرب، واشتقّ منه : سَوَّرْتُ الجارية، وجارية مُسَوَّرَةٌ ومخلخلة، قال : فَلَوْلا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ [ الزخرف 53] ، وَحُلُّوا أَساوِرَ مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 21] ، واستعمال الْأَسْوِرَةِ في الذهب، وتخصیصها بقوله : «ألقي» ، واستعمال أَسَاوِرَ في الفضّة وتخصیصه بقوله : حُلُّوا «4» فائدة ذلک تختصّ بغیر هذا الکتاب . والسُّورَةُ : المنزلة الرفیعة، قال الشاعر : ألم تر أنّ اللہ أعطاک سُورَةً ... تری كلّ ملک دونها يتذبذب«1» وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة «2» فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها - [ النور 1] ، أي : جملة من الأحكام والحکم، وقیل : أسأرت في القدح، أي : أبقیت فيه سؤرا، أي : بقيّة، قال الشاعر : لا بالحصور ولا فيها بِسَآرٍ- «3» ويروی ( بِسَوَّارٍ ) ، من السَّوْرَةِ ، أي : الغضب .- ( س و ر ) السور - اس کے اصل معنی بلندی پر کودنے کے ہیں اور غصہ یا شراب کی شدت پر بھی سورة کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ سورة الغضب اور سورة الشراب ( شراب کی تیزی سورت الیک کے معنی ہیں میں تیری طرف چلا اور س اور نی فلان کے معنی ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے ہیں ۔ اور سورة بمعنی وثاب یعنی عربدہ گر کے ہیں اور الاسوات اسا ورۃ الفرس کا مفرد ہے جس کے معنی تیرا انداذ کے ہیں گیا ہے کہ یہ فارسی سے معرب ہے ۔ سوراۃ المرءۃ ( عورت کا بازو بند ) یہ بھی معرب ہے اور اصل میں دستور ہے ۔ بہر حال اس کی اصل جو بھی ہو اہل عرب اسے استعمال کرتے ہیں اور اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سورات المرءۃ میں نے عورت کو کنگن پہنائے اور جاریۃ مسورۃ ومخلقۃ اس لڑکی کو کہتے ہیں جس نے بازو بند اور پازیب پہن رکھی ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ [ الزخرف 53] سونے کے کنگن ۔۔۔۔۔ چاندی کے کنگن ۔۔۔۔۔ اور قرآن میں سونے کے ساتھ اسورۃ جمع لاکر پھر خاص کر القی کا صیغہ استعمال کرنا اور فضۃ سے قبل اساور کا لفظ لاکر اس کے متعلق حلوا کا صیغہ استعمال کرنے میں ایک خاص نکتہ ملحوظ ہے کس جس کی تفصیل دوسری کتاب میں بیان ہوگی ۔ السورۃ کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( الطویل ) ( 244 ) الم تر ان اللہ اعطا ک سورة تریٰ کل ملک دونھا یتذ بذب بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسا مرتبہ بخشا ہے جس کے ورے ہر بادشاہ متذبذب نظر آتا ہے ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اص - لی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اسارت فی القدح سے مشتق ہے جس کے معنی پیالہ میں کچھ باقی چھوڑ نے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( البسیط ) ( 245 ) لا بالحصور ولا فیھا بسآ ر نہ تنگ دل اور بخیل ہے اور نہ عربدہ گر ۔ ایک روایت میں ولا بوار ہے ۔ جو شورۃ بمعنی شدت غضب سے مشتق ہے ۔- فض - الفَضُّ : کسر الشیء والتّفریق بين بعضه وبعضه، كفَضِّ ختم الکتاب، وعنه استعیر : انْفَضَّ القومُ. قال اللہ تعالی: وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها - [ الجمعة 11] ، لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران 159] ، والفِضَّةُ- اختصّت بأدون المتعامل بها من الجواهر، ودرع فَضْفَاضَةٌ ، وفَضْفَاضٌ: واسعة .- ( ف ض ض ) الفض کے معنی کسی چیز کو توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں جیسے فض ختم الکتاب : خط کی مہر کو توڑ نا اسی سے انقض القوم کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی متفرق اور منتشر ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں : ۔ وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها[ الجمعة 11] اور جب یہ لوگ سودابکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں تو ادھر بھاگ جاتے ہیں ۔ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران 159] تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھٹرے ہوتے ۔ والفِضَّةُچاندی یعنی وہ ادنی جو ہر جس کے ذریعہ لین دین کیا جاتا ہے ۔ درع فضفا ضۃ وفضفا ض فراخ زرہ ۔ - سقی - السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ :- أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً- [ الإنسان 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] - ( س ق ی ) السقی - والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- شرب - الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي - إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ« وقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير : صخب الشّوارب لا يزال كأن وقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن ولذلک قال الشاعر :- تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرورولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل .- ( ش ر ب ) الشراب - کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گورخر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ( گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الاقران حتیٰ وقص تھا بقرح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال میں کہ انہوں نے حمل گرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 259 ) تغلغل حیث لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن و سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشربتنی ما لم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ۔- طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢١۔ ٢٢) اور ان پر باریک ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے اور ان پر چاندی کے قباء ہوں گے اور ان کا رب ان کو پاکیزہ شراب پینے کو دے گا کہ اس میں میل اور کھوٹ نہ ہوگا یہ جو کچھ مذکور ہوا تمہارا صلہ ہے اور تمہارے اعمال مقبول ہوئے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ عٰلِیَہُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌز ” ان کے اوپر لباس ہوں گے باریک سبز ریشم کے اور گاڑھے ریشم کے “- وَّحُلُّوْٓا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّۃٍج ” اور انہیں کنگن پہنائے جائیں گے چاندی کے۔ “- وَسَقٰٹہُمْ رَبُّہُمْ شَرَابًا طَہُوْرًا ۔ ” اور پلائے گا انہیں ان کا پروردگار نہایت پاکیزہ مشروب۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :23 یہی مضمون سورہ کہف آیت 31 میں گزر چکا ہے کہ ویلبسون ثیابا خضرا من سندس و استبرق متکئین فیھا علی الارائک ۔ وہ ( اہل جنت ) باریک ریشم اور اطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے ، اونچی مسندوں پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے ۔ اس بنا پر ان مفسرین کی رائے صحیح نہیں معلوم ہوتی جنہوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس سے مراد وہ کپڑے ہیں جو ان کی مسندوں یا مسہریوں کے اوپر لٹکے ہوئے ہوں گے ، یا یہ ان لڑکوں کا لباس ہو گا جو ان کی خدمت میں دوڑے پھر رہے ہوں گے ۔ سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :24 سورہ کہف آیت 31 میں فرمایا گیا ہے یحلون فیھا من اساور من ذھب وہ وہاں سونے کے گنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے ۔ یہی مضمون سورہ حج آیت 23 ، اور سورہ فاطر آیت 33 میں بھی ارشاد ہوا ہے ۔ ان سب آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو تین صورتیں ممکن محسوس ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ کبھی وہ چاہیں گے تو سونے کے کنگن پہنیں گے اور کبھی چاہیں گے تو چاندی کے کنگن پہن لیں گے ۔ دونوں چیزیں ان کے حسب خواہش موجود ہوں گی ۔ دوسرے یہ کہ سونے اور چاندی کے کنگن وہ بیک وقت پہنیں گے ، کیونکہ دونوں کو ملا دینے سے حسن دو بالا ہو جاتا ہے ۔ تیسرے یہ کہ جس کا جی چاہیے گا سونے کے کنگن پہنے گا اور جو چاہے گا چاندی کے کنگن استعمال کرے گا ۔ رہا یہ سوال کہ زیور تو عورتیں پہنتی ہیں ، مردوں کو زیور پہنانے کا کیا موقع ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قدیم زمانے میں بادشاہوں اور رئیسوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہاتھوں اور گلے اور سر کے تاجوں میں طرح طرح کے زیورات استعمال کرتے تھے ، بلکہ ہمارے زمانے میں برطانوی ہند کے راجاؤں اور نوابوں تک میں یہ دستور رائج رہا ہے ۔ سورہ زخرف میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسی جب اپنے سادہ لباس میں بس ایک لاٹھی لیے ہوئے فرعون کے دربار میں پہنچے اور اس سے کہا کہ میں اللہ رب العالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ یہ اچھا سفیر ہے جو اس حالت میں میرے سامنے آیا ہے ، فلو لا القی علیہ اسورۃ من ذھب اوجاء معہ الملئکۃ مقترنین ۔ ( آیت 53 ) ۔ یعنی اگر یہ زمین و آسمان کے بادشاہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوتا تو کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا ملائکہ کا کوئی لشکر اس کی اردلی میں آتا ۔ سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :25 پہلے دو شرابوں کا ذکر گزر چکا ہے ۔ ایک وہ جس میں آب چشمئہ کافور کی آمیزش ہو گی ۔ دوسری وہ جس میں آب چشمئہ زنجیل کی آمیزش ہو گی ۔ ان دونوں شرابوں کے بعد اب پھر ایک شراب کا ذکر کرنا اور یہ فرمانا کہ ان کا رب انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ کوئی اور بہترین نوعیت کی شراب ہو گی جو اللہ تعالی کی طرف سے فضل خاص کے طور پر انہیں پلائی جائے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani