[٢٦] یعنی یہ نعمتیں عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا کہ دنیا میں میری خاطر جو تم نے مصیبتیں برداشت کیں اور میرے احکام کی پابندیوں کا خیال رکھا۔ تمہاری ان محنتوں کی آج پوری قدر کی جاتی ہے اور ان کا تمہیں بیش بہا بدلہ دیا جاتا ہے۔
(ان ھذا کان لکم جآء …:” یہ سب کچھ تمہارے اعمال کا بدلا ہے اور تمہاری کوشش قدر کی ہوئی ہے “ یہ بات جنتیوں سے کہی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں تھوڑی سی عمر کے اعمال کے بدلے میں ابدالآباد کی یہ نعت میں عطا فرمائے گا۔ اس سے بڑھ کر قدر دانی کیا ہو ست کی ہے ؟
اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاۗءً وَّكَانَ سَعْيُكُمْ مَّشْكُوْرًا، یعنی اہل جنت کو جنت میں پہنچنے کے بعد حق تعالیٰ کی طرف سے خطاب ہوگا کہ جنت کی یہ مخیر العقول نعمتیں سب تمہارے ان اعمال کی جزاء ہے جو تم نے دنیا میں کئے تھے اور تمہارے عمل اللہ کے نزدیک مقبول ہوگئے۔ یہ کلمات ان کو بطور مبارکباد کے کہے جائیں گے۔ اہل عشق و محبت سے پوچھئے تو جنت کی ساری نعمتیں ایک طرف اور رب العالمین کا یہ فرمانا ایک طرف سب نعمتوں سے بڑھ کر ہے کہ اس میں حق تعالیٰ ان کو اپنی رضا کامل کی سند دے رہے ہیں۔ عام اہل جنت کے انعامات کا ذکر کرنے کے بعد خاص ان انعامات کا ذکر کیا گیا جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مبذول ہوئے ان میں سب سے بڑا انعام تنزیل قرآن ہے اس انعام عظیم کا ذکر کرنے کے بعد اول تو آپ کو اس کی ہدایت کی گئی کہ مخالفین و کفار کی طرف سے جو ضد و انکار اور ان کی ایذاؤں کی تکلیف آپ کو پہنچتی ہے آپ اس پر صبر سے کام لیں۔ دوسرے اللہ کی عبادت کو دن رات کا مشغلہ بنائیں اسی سے کفار کی اذیت کا بھی ازالہ ہوگا۔ - آخر میں معاند کفار کے کفر پر جمے رہنے کی وجہ بتلائی گئی کہ یہ جاہل دنیا کی سطحی سرسری اور فانی لذتوں میں ایسے مست ہوگئے کہ انجام کو یعنی آخرت کو بھلا بیٹھے حالانکہ ہم نے دنیا میں بھی خود ان کے وجود میں ایسی چیزیں رکھی تھیں کہ ان میں غور کرتے تو اپنے خالق ومالک کو پہچانتے۔ مثلاً نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَشَدَدْنَآ اَسْرَهم یعنی ہم نے ہی ان کو پیدا کیا اور ان کے وجود کی صنعت میں ایک خاص کمال یہ رکھا کہ اس کے جوڑ بند مضبوط و مستحکم بنائے۔- انسانی جوڑ بند میں کرشمہ قدرت :۔ اس میں اس بات کی طرف ہے کہ انسا ناپنے ایک جوڑ بند پر نظر ڈالے کہ بتقاضائے حکمت و راحت انسانی جوڑ دیکھنے میں نرم و نازک معلوم ہوتے ہیں اور نرم نرم پٹھوں کے ذریعہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جس کا طبعی تقاضا یہ تھا کہ سال دو سال ہی میں یہ جوڑوں کے بندھن اور اعصاب گھس جاتے اور ٹوٹ جاتے خصوصاً جبکہ دن رات وہ حرکت میں رہتے ہیں موڑے توڑے جاتے ہیں اتنی شبانہ روز حرکت کیساتھ تو لوہے کے اسپرنگ بھی سال دو سال میں گھس کر ٹوٹ جاتے ہیں یہ نرم و نازک پھٹے دیکھو کس طرح اعضاء کے جوڑوں کو باندھے ہوئے ہیں نہ گھستے ہیں نہ ٹوٹتے ہیں۔ انسان اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے جوڑوں کو دیکھے اور حساب لگائے کہ عمر بھر میں ان جوڑوں نے کتنی حرکتیں کی ہیں کیسے کیسے زور اور دباؤ ان پر ڈالے گئے ہیں کہ اگر فولاد بھی ہوتا تو گھس گیا ہوتا مگر یہ جوڑ ہیں جو ستر اسی سال چلنے پر بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔ تبارک اللہ احسن الخالقین۔- تمت سورة الدھر بحمداللہ تعالیٰ
آیت ٢٢ اِنَّ ہٰذَا کَانَ لَـکُمْ جَزَآئً وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا ۔ ” (اور کہا جائے گا : ) یہ تم لوگوں کے لیے بدلہ ہے ‘ اور تمہاری جدوجہد مقبول ہوچکی ہے۔ “- تم لوگ اپنی دنیوی زندگی میں غلبہ دین کے لیے جو جدوجہد کرتے رہے تھے وہ اللہ کے ہاں قبول کرلی گئی ہے اور اس کی قدردانی کے طور پر تم لوگوں کو جنت اور اس کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہے۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ
سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :26 اصل الفاظ ہیں کان سعیکم مشکورا ۔ یعنی تمہاری سعی مشکور ہوئی ۔ سعی سے مراد وہ پورا کارنامہ حیات ہے جو بندے نے دنیا میں انجام دیا ۔ جن کاموں میں اس نے محنتیں اور جن مقاصد کے لیے اس نے اپنی کوششیں صرف کیں ان سب کا مجموعہ اس کی سعی ہے اور اس کے مشکور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں وہ قابل قدر قرار پائی ۔ شکریہ جب بندے کی طرف سے خدا کے لیے ہو تو اس سے مراد اس کی نعمتوں پر احسان مندی ہوتی ہے ، اور جب خدا کی طرف سے بندے کے لیے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی خدمات کی قدر فرمائی ۔ آقا کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ بندہ جب اس کی مرضی کے مطابق اپنا فرض انجام دے تو وہ اس کا شکریہ ادا کر ۔