6۔ 1 یعنی فرشتے وحی لے کر آتے ہیں تاکہ لوگوں پر دلیل قائم ہوجائے اور یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمارے پاس تو کوئی اللہ کا پیغام ہی لے کر نہیں آیا یا مقصد ڈرانا ہے ان کو جو انکار یا کفر کرنے والے ہوں گے۔
[٣] ( عُذْرًا اَوْ نُذْرًا ۙ ) 77 ۔ المرسلات :6) کا تعلق صرف سابقہ آیت سے ہے۔ یعنی پیغمبر کے دل میں وحی یا لوگوں کے دل میں القاء والہام کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ ان کے لیے اللہ کے ہاں اپنی گمراہی کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے اور ان پر اتمام حجت ہوجائے اور وہ عذاب کے وقت یہ نہ کہہ سکیں کہ انہیں پہلے سے خبر نہ تھی اور دوسرا فائدہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ سے اسے دیکھے بغیر ڈر جاتے ہیں اور اپنے برے انجام سے ڈر کر اللہ کے اطاعت گزار بن جاتے ہیں۔
عُذْرًا اَوْ نُذْرًا یہ فالْمُلْقِيٰتِ ذِكْرًا سے متعلق ہے کہ یہ ذکر اور وحی انبیاء (علیہم السلام) پر اس لئے نازل کی جائے گی کہ وہ اہل حق مومنین کے لئے ان کی کوتاہیوں سے معذرت کا سبب بنے اور اہل باطل کفار کے لئے نذیر اور عذاب سے ڈرانے والا ثابت ہو۔ - ہواؤں یا فرشتوں یا دونوں کی قسم کھا کر حق تعالیٰ نے فرمایا اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِـع یعنی تم سے جس قیامت اور حساب و کتاب اجزاء و سزا کا وعدہ بذریعہ انبیاء کیا جا رہا ہے وہ ضرور پورا اور واقع ہو کر رہے گا۔ آگے اس کے واقع ہونے کے وقت کے چند حالات کا ذکر ہے اول یہ کہ سب ستارے بےنور ہوجائیں گے۔ جس کی یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ یہ سب بالکلیہ فنا ہی ہوجاویں، یا یہ کہ موجود رہیں مگر ان کا نور سلب ہوجائے، اس طرح پوری دنیا ایک انتہائی سخت اندھیری میں غرق ہوجائے گی۔ دوسرا حال یہ بیان فرمایا کہ آسمان پھٹ جائیں گے۔ تیسرا یہ کہ پہاڑی روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں۔ چو تھا حال یہ بتلایا گیا وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ ، اقتت، توقیت سے مشتق ہے جس کے اصلی معنے تعیبین وقت اور تحدید وقت کے ہیں اور بقول زمخشری کبھی اس کے معنے کسی مقررہ وقت پر پہنچ جانے کے بھی آتے ہیں (کمال فی الروح) اس جگہ یہی دوسرے معنے مناسب ہیں اور معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ انبیاء و رسل کے لئے جو میعاد اور وقت مقرر کیا گیا تھا کہ اس میں اپنی اپنی امتوں کے معاملے میں شہادت کے لئے حاضر ہو اس میعاد کو پہنچ گئے اور ان کی حاضری کا وقت آ گیا۔ اسی لئے خلاصہ تفسیر مذکور میں اس کا ترجمہ انبیاء کے جمع کرنے کے ساتھ کیا گیا۔ آگے قیامت کے دن کے عظیم اور ہولناک ہونے کا بیان ہے کہ وہ فیصلہ کا دن ہے جس میں مکذبین اور کفار کے لئے تباہی بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
عُذْرًا اَوْ نُذْرًا ٦ ۙ- عذر - العُذْرُ : تحرّي الإنسان ما يمحو به ذنوبه .- ويقال : عُذْرٌ وعُذُرٌ ، وذلک علی ثلاثة أضرب :- إمّا أن يقول : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، فيذكر ما يخرجه عن کو نه مذنبا، أو يقول : فعلت ولا أعود، ونحو ذلک من المقال . وهذا الثالث هو التّوبة، فكلّ توبة عُذْرٌ ولیس کلُّ عُذْرٍ توبةً ، واعْتذَرْتُ إليه : أتيت بِعُذْرٍ ، وعَذَرْتُهُ : قَبِلْتُ عُذْرَهُ. قال تعالی: يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة 94] ، والمُعْذِرُ : من يرى أنّ له عُذْراً ولا عُذْرَ له . قال تعالی: وَجاءَ الْمُعَذِّرُونَ [ التوبة 90] ، وقرئ ( المُعْذِرُونَ ) «2» أي : الذین يأتون بالعذْرِ. قال ابن عباس : لعن اللہ المُعَذِّرِينَ ورحم المُعَذِّرِينَ «3» ، وقوله : قالُوا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ [ الأعراف 164] ، فهو مصدر عَذَرْتُ ، كأنه قيل : أطلب منه أن يَعْذُرَنِي، وأَعْذَرَ : أتى بما صار به مَعْذُوراً ، وقیل : أَعْذَرَ من أنذر «4» : أتى بما صار به مَعْذُوراً ، قال بعضهم : أصل العُذْرِ من العَذِرَةِ وهو الشیء النجس «5» ، ومنه سمّي القُلْفَةُ- العُذْرَةُ ، فقیل : عَذَرْتُ الصّبيَّ : إذا طهّرته وأزلت عُذْرَتَهُ ، وکذا عَذَرْتُ فلاناً : أزلت نجاسة ذنبه بالعفو عنه، کقولک : غفرت له، أي : سترت ذنبه، وسمّي جلدة البکارة عُذْرَةً تشبيها بِعُذْرَتِهَا التي هي القُلْفَةُ ، فقیل : عَذَرْتُهَا، أي : افْتَضَضْتُهَا، وقیل للعارض في حلق الصّبيّ عُذْرَةً ، فقیل : عُذِرَ الصّبيُّ إذا أصابه ذلك، قال الشاعر :- 313-- غمز الطّبيب نغانغ المَعْذُورِ- «1» ويقال : اعْتَذَرَتِ المیاهُ : انقطعت، واعْتَذَرَتِ المنازلُ : درست، علی طریق التّشبيه بِالمُعْتَذِرِ الذي يندرس ذنبه لوضوح عُذْرِهِ ، والعَاذِرَةُ قيل :- المستحاضة «2» ، والعَذَوَّرُ : السّيّئُ الخُلُقِ اعتبارا بِالعَذِرَةِ ، أي : النّجاسة، وأصل العَذِرَةِ : فناءُ الدّارِ ، وسمّي ما يلقی فيه باسمها .- ( ع ذ ر ) العذر - ایسی کوشش جس سے انسان اپنے گناہوں کو مٹا دینا چاہئے اس میں العذر اور العذر دو لغت ہیں اور عذر کی تین صورتیں ہیں ۔ اول یہ کہ کسی جرم کے ارتکاب سے قطعا انکار کردے دوم یہ کہ ارتکاب جرم کی ایسی وجہ بیان کرے جس سے اس کی براءت ثابت ہوتی ہو ۔ سوم یہ کہ اقرار جرم کے بعد آئندہ اس جرم کا ارتکاب نہ کرنے کا وعدہ کرلے عذر کی اس تیسری صورت کا نام تو بہ ہے جس سے ثابت ہو ا کہ تو بہ عذر کی ایک قسم ہے لہذا ہر توبہ کو عذر کہ سکتے ہیں مگر ہر عذر کو توبہ نہیں کہہ سکتے اعتذرت الیہ میں نے اس کے سامنے عذر بیان کیا عذرتہ میں نے اس کا عذر قبول کرلیا ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْقُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة 94] قُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة 94] تو تم سے عذر کرینگے ان سے کہ دو کہ عذر مت کرو ۔ المعذر جو اپنے آپ کو معذور سمجھے مگر دراصل وہ معزور نہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ الْمُعَذِّرُونَ [ التوبة 90] عذر کرتے ہوئے ( تمہارے پاس آئے ) ایک قرات میں معذرون ہے یعنی پیش کرنے والے ابن عباس رضی للہ عنہ کا قول ہے : ۔ یعنی جھوٹے عذر پیش کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہو اور جو واقعی معذور ہیں ان پر رحم فرمائے اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ [ الأعراف 164] تمہارے پروردگار کے سامنے معزرت کرسکیں ۔ میں معذرۃ عذرت کا مصدر ہے اور اسکے معنی یہ ہیں کہ میں اس سے در خواست کرتا ہوں کہ میرا عذر قبول فرمائے اعذ ر اس نے عذر خواہی کی اپنے آپ کو معذور ثابت کردیا ۔ کہا گیا ہے اعذر من انذر یعنی جس نے ڈر سنا دیا وہ معذور ہے بعض نے کہا ہے کہ عذر اصل میں عذرۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی نجاست اور گندگی کے ہیں اور اسی سے جو چمڑا ختنہ میں کاٹا جاتا ہے اسے عذرۃ کہا جاتا ہے اور عذرت الصبی کے معنی ہیں میں نے لڑکے کا ختنہ کردیا گو یا اسے ختنہ کی نجاست سے پاک دیا اسی طرح عذرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے معانی دے کر اس سے گناہ کی نجاست کو دور کردیا جیسا کہ غفرت لہ کے معنی ہیں میں نے اس کا گناہ چھپا دیا اور لڑکے کے ختنہ کے ساتھ تشبیہ دے کر لڑکی کے پردہ بکارت کو بھی عذرۃ کہا جاتا ہے اور عذر تھا کے معنی ہیں میں نے اس کے پردہ بکارت کو زائل کردیا اوبچے کے حلق کے درد کو بھی عذرۃ کہا جاتا ہے اسی سے عذرالصبی ہے جس کے معنی بچہ کے درد حلق میں مبتلا ہونے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( 305 ) غمز الطیب نعاجن المعذور جیسا کہ طبیب درد حلق میں مبتلا بچے کا گلا دبا تا ہے اور معتذر عذر خواہی کرنے والے کی مناسبت سے اعتذرت المیاۃ پانی کے سر چشمے منقطع ہوگئے اور اعتذرت المنازل ( مکانوں کے نشانات مٹ گئے ۔ وغیرہ محاورات استعمال ہوتے ہیں اور عذرۃ ( یعنی نجاست کے اعتبار ) سے کہاجاتا ہے ۔ العاذرۃ وہ عورت جسے استحاضہ کا خون آرہا ہو عذور ۔ بدخلق آدمی دراصل عذرۃ کے معنی مکانات کے سامنے کا کھلا میدان ہیں اس کے بعد اس نجاست کو عذرۃ کہنے لگے ہیں جو اس میدان میں پھینکی جاتی ہے ۔- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔
(٦۔ ٧) اور پھر قسم ہے وحی لانے والے فرشتوں کی جو اللہ کی یاد یعنی توبہ کا یا اس کے عذاب سے ڈرانے کا القاء کرتی ہیں یا عذر سے مراد حلال اور نذر سے مراد حرام ہے یا یہ کہ عذر سے مراد امر اور نذر سے مراد نہی ہے یا یہ کہ عذر سے وعدہ اور نذر سے وعید مراد ہے، ان تمام چیزوں کی اللہ تعالیٰ قسم کھا کر فرماتا ہے کہ آخرت میں تم پر ثواب و عذاب ضرور ہوگا۔
آیت ٦ عُذْرًا اَوْ نُذْرًا ۔ ” عذر کے طور پر یا خبردار کرنے کے لیے۔ “- وحی یا ذکر (یاد دہانی) کا ابلاغ یا تو اس لیے ہوتا ہے کہ لوگوں پر اتمامِ حجت ہو اور ان کا عذر ختم ہوجائے۔ جیسا کہ سورة النساء کی آیت ١٦٥ میں انبیاء و رسل - کی بعثت کا مقصد واضح کرتے ہوئے فرمایا گیا : لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِط ” تا کہ نہ رہ جائے لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت (دلیل) رسولوں (علیہ السلام) کے آنے کے بعد “۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں (علیہ السلام) کو دنیا میں اسی لیے بھیجا تھا کہ ان کی بعثت کے بعد لوگوں کے پاس اس کے ہاں پیش کرنے کے لیے کوئی عذرنہ رہ جائے ۔ وحی یا یاددہانی کا دوسرا مقصد یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ لوگوں کو خبردار کرنے (نُذْرًا) کے لیے ہوتی ہے کہ اگر وہ جاگنا چاہیں تو جاگ جائیں اور راہ راست پر آنا چاہیں تو آجائیں۔ - اب اگلی آیت میں ان قسموں کے مقسم علیہ کا ذکر ہے کہ یہ قسمیں کس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کھائی گئی ہیں :
سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :1 یعنی کبھی تو ان کی آمد کے رکنے اور قحط کا خطرہ پیدا ہونے سے دل گداز ہوتے ہیں اور لوگ اللہ سے توبہ و استغفار کرنے لگتے ہیں ۔ کبھی ان کے باران رحمت لانے پر لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ اور کبھی ان کی طوفانی سختی دلوں میں خوف پیدا کرتی ہے اور تباہی کے ڈر سے لوگ خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ ( نیز ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر 3 ۔ صفحہ نمبر 579 ) ۔
2: یعنی نیک لوگوں کو اس کلام کے ذریعے گناہوں سے معافی کی دعوت دی جاتی ہے، اور بُرے لوگوں کو ڈَرایا جاتا ہے۔