7۔ 1 (یا جواب قسم) یہ ہے کہ تم سے قیامت کا جو وعدہ کیا جاتا ہے، وہ یقینا واضح ہونے والی ہے، یعنی اس میں شک کرنے کی نہیں بلکہ اس کے لئے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ قیامت کب واقع ہوگی ؟ اگلی سورت میں اس کو واضح کیا جا رہا ہے
[٤] ان پانچ چیزوں کی قسم اٹھا کر اور انہیں بطور شہادت پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ جو پروردگار تمہاری انتہائی اہم ضرورت کی چیز سے ایسے کام لے سکتا ہے تو وہ تمہاری تباہی کا سبب بھی بن سکتے ہیں وہ تمہیں صرف ایک ہوا کے ذریعہ راحت سے بھی دوچار کرسکتا ہے اور رنج سے بھی۔ کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ جس جزا و سزا کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے اسے وجود میں لے آئے اور واقع کرکے دکھا دے۔
اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِـعٌ ٧ ۭ- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - وقع - الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] ،- ( و ق ع ) الوقوع - کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔- إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔
آیت ٧ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَـوَاقِعٌ ۔ ” جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ واقع ہو کر رہے گی۔ “- یعنی جس قیامت کے بارے میں تم لوگوں کو بار بار متنبہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور آکر رہے گی۔ واضح رہے کہ سورة قٓ سے لے کر سورة الناس تک مکی سورتوں کا موضوع انذارِ آخرت ہے ۔ اس لیے سورة الذاریات کی قسموں کا مقسم علیہ بھی انذارِ آخرت ہی سے متعلق تھا : اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ - وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ ۔ ” جو وعدہ تمہیں دیا جا رہا ہے وہ یقینا سچ ہے۔ اور جزا و سزا ضرور واقع ہو کر رہے گی “۔ البتہ سورة الصافات کے آغاز میں مذکور قسموں کا انداز تو بالکل ایسا ہی ہے لیکن وہاں ان قسموں کے مقسم علیہ کا تعلق توحید سے ہے : اِنَّ اِلٰہَکُمْ لَوَاحِدٌ ۔ ” یقینا تمہارا اِلٰہ ایک ہی ہے “۔ اس لیے کہ سورة الصافات کا تعلق سورتوں کے جس گروپ سے ہے اس گروپ کا مرکزی مضمون ہی توحید ہے۔
سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :2 دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس چیز کا تمہیں خوف دلایا جا رہا ہے ۔ مراد قیامت اور آخرت ہے ۔ سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :3 یہاں قیامت کے ضرور واقع ہونے پر پانچ چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ ایک ۔ المرسلت عرفا ۔ پے درپے ، یا بھلائی کے طور پر بھیجی جانے والیاں ۔ دوسرے ، العاصفات عصفا ۔ بہت تیزی اور شدت کے سات چلنے والیاں ۔ تیسرے ، الناشرات نشرا ۔ خوب پھیلانے والیاں ۔ چوتھے ، الفارقات فرقاً ۔ الگ الگ کرنے والیاں ۔ پانچویں ، الملقیات ذکراً ۔ یاد کا القا کرنے والیاں ۔ چونکہ ان الفاظ میں صرف صفات بیان کی گئی ہیں ، اور یہ صراحت نہیں کی گئی ہے کہ یہ کس چیز یا کن چیزوں کی صفات ہیں ، اس لیے مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ آیا یہ پانچوں صفات ایک ہی چیز کی ہیں ، یا الگ الگ چیزوں کی ، اور وہ چیز یا چیزیں کیا ہیں ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد ہوائیں ہیں ۔ دوسرا کہتا ہے بانچوں سے مراد فرشتے ہیں ۔ تیسرا کہتا ہے پہلے تین سے مراد ہوائیں ہیں اور باقی دو سے مراد فرشتے ہیں ۔ چوتھا کہتا ہے پہلے دو سے مراد ہوائیں اور باقی تین سے مراد فرشتے ہیں اور ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ پہلے سے مراد ملائکہ رحمت ، دوسرے سے مراد ملائکہ عذاب اور باقی تین سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں ۔ ہمارے نزدیک پہلی بات تو یہ قابل غور ہے کہ جب ایک ہی سلسلہ کلام میں پانچ صفات کا مسلسل ذکر کیا گیا ہے اور کوئی علامت بیچ میں ایسی نہیں پائی جاتی جس سے یہ سمجھا جا سکے کہ کہاں تک ایک چیز کی صفات کا ذکر ہے اور کہاں سے دوسری چیز کا ذکر شروع ہوا ہے ، تو یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ محض کسی بے بنیاد یا قیاس کی بنا پر ہم یہ سمجھ لیں کہ یہاں دو باتیں مختلف چیزوں کی قسمیں کھائی گئی ہیں ، بلکہ اس صورت میں نظم کلام خود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پوری عبارت کو کسی ایک ہی چیز کی صفات سے متعلق مانا جائے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی شک یا انکار کرنے والوں کو کسی حقیقت غیر محسوس کا یقین دلانے کے لیے کسی چیز ، یا بعض چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے وہاں قسم دراصل استدلال کے ہم معنی ہوتی ہے ، یعنی اس سے مقصود یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ چیز یا چیزیں اس حقیقت کے صحیح و برحق ہونے پر دلالت کر رہی ہیں ۔ اس غرض کے لیے ظاہر ہے کہ ایک غیر محسوس شے کے حق میں کسی دوسری غیر محسوس شے کو بطور استدلال پیش کرنا درست نہیں ہو سکتا ، بلکہ غیر محسوس پر محسوس سے دلیل لانا ہی موزوں اور مناسب ہو سکتا ہے ۔ اس لیے ہماری رائے میں صحیح تفسیر یہی ہے کہ اس سے مراد ہوائیں ہیں ، اور ان لوگوں کی تفسیر قابل قبول نہیں ہے جنہوں نے ان پانچوں چیزوں سے مراد فرشتے لیے ہیں ، کیونکہ وہ بھی اسی طرح غیر محسوس ہیں جس طرح قیامت کا وقوع غیر محسوس ہے ۔ اب غور کیجئے کہ قیامت کے و قوع پر ہواؤں کی یہ کیفیات کس طرح دلالت کرتی ہیں ۔ زمین پر جن اسباب سے حیوانی اور نباتی زندگی ممکن ہوئی ہے ان میں سے ایک نہایت اہم سبب ہوا ہے ۔ ہر نوع کی زندگی سے اس کی صفات کا جو تعلق ہے وہ بجائے خود اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی قادر مطلق اور صانع حکیم ہے جس نے اس کرہ خاکی پر زندگی کو وجود لانے کا ارادہ کیا اور اس غرض کے لیے یہاں ایک ایسی چیز پیدا کی جس کی صفات زندہ مخلوقات کے وجود کی ضروریات کے ساتھ ٹھیک ٹھیک مطابقت رکھتی ہیں ۔ پھر اس نے صرف اتنا ہی نہیں کیا ہے کہ زمین کو ہوا کا ایک لبادہ اڑھا کر چھوڑ دیا ہو ، بلکہ اپنی قدرت اور حکمت سے اس ہوا میں اس نے بے شمار مختلف کیفیات پیدا کی ہیں جن کا انتظام لاکھوں کروڑوں برس سے اس طرح ہو رہا ہے کہ انہی کی بدولت موسم پیدا ہوتے ہیں ، کبھی حبس ہوتا ہے اور کبھی باد نسیم چلتی ہے ، کبھی گرمی آتی ہے اور کبھی سردی ، کبھی بادل آتے ہیں اور کبھی آتے ہوئے اڑ جاتے ہیں ، کبھی نہایت خوشگوار جھونکے چلتے ہیں اور کبھی انتہائی تباہ کن طوفان آجاتے ہیں ، کبھی نہایت نفع بخش بارش ہوتی ہے اور کبھی کال پڑ جاتا ہے ۔ غرض ایک ہوا نہیں بلکہ طرح طرح کی ہوائیں ہیں جو اپنے اپنے وقت پر چلتی ہیں اور ہر ہوا کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرتی ہے ۔ یہ انتظام ایک غالب قدرت کا ثبوت ہے جس کے لیے نہ زندگی کو وجود میں لانا خارج از امکان ہو سکتا ہے ، نہ اسے مٹا دینا ، اور نہ مٹا کر دوبارہ وجود میں لے آنا ۔ اسی طرح یہ انتظام کمال درجہ حکمت و دانائی کا ثبوت بھی ہے ، جس سے صرف ایک نادان آدمی ہی یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ یہ سارا کاروبار محض کھیل کے طور پر کیا جا رہا ہو اور اس کا کوئی عظیم تر مقصد نہ ہو ۔ اس حیرت انگیز انتظام کے مقابلے میں انسان اتنا بے بس ہے کہ کبھی وہ نہ ا پنے لیے مفید طلب ہوا چلا سکتا ہے نہ اپنے اوپر ہلاکت خیز ہوا کا طوفان آنے کو روک سکتا ہے ۔ وہ خواہ کتنی ہی ڈھٹائی اور بے شعوری اور ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے ، کبھی نہ کبھی یہی ہوا اس کو یاد دلا دیتی ہے کہ اوپر کوئی زبردست اقتدار کار فرما ہے جو زندگی کے اس سب سے بڑے ذریعہ کو جب چاہے اس کے لیے رحمت اور جب چاہے ہلاکت کا سبب بنا سکتا ہے ، اور انسان اس کے کسی فیصلے کو بھی روک دینے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، الجاثیہ ، حاشیہ 7 ۔ جلد پنجم ، الذاریات ، حواشی 1 تا 4 ) ۔
3: اس سے مراد قیامت کا دِن ہے۔