20۔ 1 وہ ریت جو دور سے پانی محسوس ہوتی ہو، پہاڑ بھی دور سے نظر آنے والی چیز بن کر رہ جائیں گے۔
[١٥] پہاڑوں کی زمین میں گرفت ڈھیلی پڑجائے گی۔ ان کے مقامات میں تبدیلی واقع ہوجائے گی پھر ان کے پتھر ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر بالآخر چمکتی ریت کے تودے بن جائیں گے جن پر ایک خاص زاویہ سے دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ یہ گویا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ پھر ان کی یہ کیفیت بھی نہ رہے گی بلکہ ہوا ان ریت کے تودوں کو ادھر سے ادھر اڑاتی پھرے گی۔
(١) و سیرت الجبال فکانت سراباً :” سراباً “ جو دوپہر کے وقت دور سے دیکھنے والے کو پانی کی طرح نظر آتا ہے مگر حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح پہاڑ ریت بن جائیں گے جو دور سے پانی کی طرح نظر آتی ہے مگر حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔- (٢) قرآن میں قیامت کے دن پہاڑوں پر گزرنے والے مختلف احوال بیان ہوئے ہیں، سب سے پہلے صور کی آواز کے ساتھ زمین اور پہاڑ ایک چوٹ سے توڑ دیئے جائیں گے، فرمایا :(وحملت الارض و الجبال قدکتا دکتہ واحدۃ) (الحافۃ : ١٣)” اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھایا جائیگا اور دونوں ایک ہی بار ٹکرا دیئے جائیں گے۔ “ پھر بھربھری ریت ہوجائیں گے جو خود بخود گرتی جا رہی ہو، فرمایا :(وکانت الجبال کثیباً مھیلاً (المزمل : ١٣)” اور پہاڑ گرائی ہوئی ریت کے ٹیلے ہوجائیں گے۔ “ پھر ڈھن کی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے، فرمایا :(وتکون الجبال کالعھن المنفوش) (القارعۃ : ٥)” اورپ ہاڑ ڈھن کی ہوئی رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے۔ “ پھر بکھرا ہوا غبار بن جائیں گے، فرمایا :(فکانت ھبآء منبتاً ) (الواقعۃ : ٦)” پس وہ پھیلا ہوا غبار بن جائیں گے۔ “ پھر بادلوں کی طرح چلیں گے، جیسا کہ فرمایا :(وھی تمر مر السحاب) (النمل : ٨٨)” حلان کہ ہو بادلوں کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے۔ “ پھر سراب بن جائیں گے، جیسے یہاں فرمایا ہے، پھر ان میں سے کچھ بھی نہیں رہے گا، فقط چٹیل زمین رہ جائیگی جس میں کوئی بلندی یا پستی نہیں ہوگی، جیسا کہ فرمایا :(فیذرھا قاعاً صفصفاً ، لاتری فیھا عوجاً ولا امتاً (طہ : ١٠٦، ١٠٨)” پھر وہ اسے ایک چٹیل میدان بنا کر چھوڑے گا، جس میں تو نہ کوئی کجی دیکھے گا نہ کوئی ابھری ہوئی جگہ۔ “
وَّسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا، سیرت سے مراد یہ ہے کہ پہاڑ جو آج ثبات وقرار میں بطور مثال کے پیش کئے جاتے ہیں یہ سب اپنی اپنی جگہوں کو چھوڑ کر ریزہ ریزہ ہو کر اڑتے پھرنے لگیں گے، سراب کے لفظی معنے ذہاب یعنی چلے جانے کے ہیں جنگل کا وہ ریت جو دور سے چمکتا ہوا پانی کی صورت میں نظر آتا ہے، سراب کے لفظی معنے ذہاب یعنی چلے جانے کے ہیں، جنگل کا وہ ریت جو دور سے چمکتا ہوا پانی کی صورت میں نظر آتا ہے اس کو بھی سراب اسی بناء پر کہتے ہیں کہ وہ قریب پہنچتے ہی نظر سے جاتا رہتا ہے (کذا فی الصحاح و الراغب)
وَّسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا ٢٠ ۭ- سار - السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير، فمن الأوّل قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج 46] ، قُلْ سِيرُوا[ الأنعام 11] ، سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ 18] ، ومن الثاني قوله : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص 29] ، ولم يجئ في القرآن القسم الثالث، وهو سِرْتُهُ.- والرابع قوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] ، هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس 22] ، وأمّا قوله : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل 69] فقد قيل : حثّ علی السّياحة في الأرض بالجسم، وقیل : حثّ علی إجالة الفکر، ومراعاة أحواله كما روي في الخبر أنه قيل في وصف الأولیاء : (أبدانهم في الأرض سَائِرَةٌ وقلوبهم في الملکوت جائلة) «1» ، ومنهم من حمل ذلک علی الجدّ في العبادة المتوصّل بها إلى الثواب، وعلی ذلک حمل قوله عليه السلام : «سافروا تغنموا» «2» ، - والتَّسْيِيرُ ضربان :- أحدهما : بالأمر، والاختیار، والإرادة من السائر نحو : هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس 22] .- والثاني : بالقهر والتّسخیر کتسخیر الجبال وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير 3] ، وقوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] ، - والسِّيرَةُ :- الحالة التي يكون عليها الإنسان وغیره، غریزيّا کان أو مکتسبا، يقال : فلان له سيرة حسنة، وسیرة قبیحة، وقوله : سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه 21] ، أي : الحالة التي کانت عليها من کو نها عودا .- ( س ی ر ) السیر - ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ سرت ( ض ) کے معنی چلنے کے ہیں اور سرت بفلان نیز سرتہ کے معنی چلانا بھی آتے ہیں اور معنی تلثیر کے لئے سیرتہ کہا جاتا ہے ۔ ( الغرض سیر کا لفظ چار طرح استعمال ہوتا ہے ) چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج 46] ، کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر ( و سیاحت ) نہیں کی ۔ قُلْ سِيرُوا[ الأنعام 11] کہو کہ ( اے منکرین رسالت ) ملک میں چلو پھرو ۔ سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ 18] کہ رات ۔۔۔۔۔ چلتے رہو اور - دوسرے معنی یعنی سرت بفلان کے متعلق فرمایا : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص 29] اور اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر چلے ۔ - اور تیسری قسم ( یعنی سرتہ بدوں صلہ ) کا استعمال قرآن میں نہیں پایا جاتا اور چوتھی قسم ( یعنی معنی تکثیر ) کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] اور پہاڑ چلائی جائینگے ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس 22] وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھر نے اور سیر کرانے کی توفیق دیتا ہے ۔ اور آیت : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل 69] کہ ملک میں چلو پھرو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سیاست جسمانی یعنی ملک میں سیر ( سیاحت ) کرنا مراد ہے اور بعض نے سیاحت فکری یعنی عجائبات قدرت میں غور فکر کرنا اور حالات سے باخبر رہنا مراد لیا ہے جیسا کہ اولیاء کرام کے متعلق مروی ہے ۔ ( کہ ان کے اجسام تو زمین پر چلتے پھرتے نظر اتے ہیں لیکن ان کی روحیں عالم ملکوت میں جو لانی کرتی رہتی ہیں ) بعض نے کہا ہے اس کے معنی ہیں عبادت میں اسی طرح کوشش کرنا کہ اس کے ذریعہ ثواب الٰہی تک رسائی ہوسکے اور آنحضرت (علیہ السلام) کا فرمان سافروا تغنموا سفر کرتے رہو غنیمت حاصل کر وگے بھی اس معنی پر محمول ہے - ۔ پھر تسیر دوقسم پر ہے ایک وہ جو چلنے والے کے اختیار واردہ سے ہو جیسے فرمایا ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس 22] وہی تو ہے جو تم کو ۔۔۔۔ چلنے کی توفیق دیتا ہے ۔ دوم جو ذریعہ کے ہو اور سائر یعنی چلنے والے کے ارادہ واختیار کو اس میں کسی قسم کا دخل نہ ہو جیسے حال کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ریت ہوکر رہ جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير 3] اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ۔ السیرۃ اس حالت کو کہتے ہیں جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے عام اس سے کہ اس کی وہ حالت طبعی ہو یا اکتسابی ۔ کہا جاتا ہے : ۔ فلان حسن السیرۃ فلاں کی سیرت اچھی ہے ۔ فلاں قبیح السیرۃ اس کی سیرت بری ہے اور آیت سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه 21] ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے ۔ میں سیرۃ اولٰی سے اس عصا کا دوبارہ لکڑی بن جانا ہے ۔ - جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- سرب - السَّرَبُ : الذّهاب في حدور، والسَّرَبُ : الْمَكَانُ الْمُنْحَدِرُ ، قال تعالی: فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَباً [ الكهف 61] ، يقال : سَرَبَ سَرَباً وسُرُوباً «2» ، نحو مرّ مرّا ومرورا، وانْسَرَبَ انْسِرَاباً كذلك، لکن سَرَبَ يقال علی تصوّر الفعل من فاعله، وانْسَرَبَ علی تصوّر الانفعال منه . وسَرَبَ الدّمع : سال، وانْسَرَبَتِ الحَيَّةُ إلى جُحْرِهَا، وسَرَبَ الماء من السّقاء، وماء سَرَبٌ ، وسَرِبٌ: متقطّر من سقائه، والسَّارِبُ : الذّاهب في سَرَبِهِ أيّ طریق کان، قال تعالی: وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسارِبٌ بِالنَّهارِ [ الرعد 10] ، والسَّرْبُ : جمع سَارِبٍ ، نحو : رکب وراکب، وتعورف في الإبل حتی قيل : زُعِرَتْ سَرْبُهُ ، أي : إبله . وهو آمن في سِرْبِهِ ، أي : في نفسه، وقیل : في أهله ونسائه، فجعل السِّرْبُ كناية، وقیل : اذهبي فلا أنده سِرْبَكِ «3» ، في الکناية عن الطّلاق، ومعناه : لا أردّ إبلک الذّاهبة في سربها، والسُّرْبَةُ : قطعة من الخیل نحو العشرة إلى العشرین . والْمَسْرَبَةُ : الشّعر المتدلّي من الصّدر، السَّرَابُ : اللامع في المفازة کالماء، وذلک لانسرابه في مرأى العین، وکان السّراب فيما لا حقیقة له کا لشّراب فيما له حقیقة، قال تعالی: كَسَرابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً [ النور 39] ، وقال تعالی:- وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ فَكانَتْ سَراباً [ النبأ 20]- ( س ر ب ) السرب - ( مصدر ن ) اس کے اصل معنی نشیب کی طرف جانے کے ہیں اور ( اسم کے طور پر ) نشیبی جگہ کو بھی سرب کہہ دیتے ہیں قرآن میں ہے ؛فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَباً [ الكهف 61] تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا رستہ بنا لیا ۔ سرب ( ن ) سربا و سروبا ( جیسے مر مرا و مرورا ) اور انسرب ( انفعال ) کے ایک ہی معنی آتے ہیں لیکن سرب بالذات فاعل سے فعل صادر ہونے پر بولا جاتا ہے اور انسرب کبھی انفعالی معنی کے لحاظ سے بولا جاتا ہے یعنی وہ فعل جو دوسرے سے متاثر ہوکر کیا جائے ۔ سرب الدمع ( س) آنسو رواں ہونا ۔ انسرب الحیۃ الی حجرھا سانپ کا اپنے بل میں اتر جانا اسی طرح سرب ( س ) الماء من السقاء کے معنی مشکیزے سے پانی ٹپکنا کے ہیں اور وہ پانی جو مشکیزے سے ٹپک رہا ہو اسے ماء سرب و سرب کہتے ہیں ۔ السارب کسی راستہ پر ( اپنی مرضی سے ) چلا جانے والا ۔ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسارِبٌ بِالنَّهارِ [ الرعد 10] یا رات کو کہیں چھپ جائے یا دن ( کی روشنی ) میں کھلم کھلا چلے پھرے ۔ سارب کی جمع سرب آتی ہے ۔ جیسے رکب و راکب اور عرف میں اونٹوں کے گلہ کو سرب کہا جاتا ہے ۔ مثلا محاورہ ہے ۔ زعرت سربہ اس کے اونٹ ڈر کر متفرق ہوگئے ( یعنی بد حال ہوگیا ) اور ھو آمن فی سربہ ( وہ خوش حال ہے ) میں سرب کے معنی نفس کے ہیں اور بعض نے کنایتہ اہل و عیال مراد لیا ہے ۔ اسی سے کنایہ کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ اذهبي فلا أنده سِرْبَكِ : جاؤ تجھے طلاق ہے اور اصل معنی یہ ہے کہ تمہارے اونٹ جدھر جانا چاہیں آزادی سے چلے جائیں میں انہیں نہیں روکونگا ۔ السربۃ : دس سے کے لے کر بیس تک گھوڑوں کی جماعت کو سربۃ ، ، کہا جاتا ہے ۔ المسربۃ ( بضمہ را ) سینہ کے درمیان کے بال جو نیچے پیٹ تک ایک خط کی صورت میں جلے جاتے ہیں ۔ السراب ( شدت گرما میں دوپہر کے وقت ) بیابان میں جو پانی کی طرح چمکتی ہوئی ریت نظر آتی ہے اسے ، ، سراب ، ، کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بظاہر دیکھنے میں ایسے معلوم ہوتی ہے جیسے پانی بہہ رہا ہے پھر اس سے ہر بےحقیقت چیز کو تشبیہ کے طور پر سراب کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل جو چیز حقیقت رکھتی ہوا سے شراب کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَسَرابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً [ النور 39] جیسے میدان میں سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھے ۔ وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ فَكانَتْ سَراباً [ النبأ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ سراب ہو کر رہ جائیں گے ۔
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :13 اس مقام پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہاں بھی قرآن کے دوسرے بہت سے مقامات کی طرح قیامت کے مختلف مراحل کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے ۔ پہلی آیت میں اس کیفیت کا ذکر ہے جو آخری نفخ صور کے وقت پیش آئے گی ، اور بعد کی دو آیتوں میں وہ حالت بیان کی گئی ہے جو دوسرے نفخ صور کے موقع پر رونما ہو گی ۔ اس کی وضاحت ہم تفہیم القرآن ، جلد ششم تفسیر سورۃ الحاقہ ، حاشیہ 10 میں کر چکے ہیں ۔ آسمان کھول دیا جائے گا ۔ سے مراد یہ ہے کہ عالم بالا میں کوئی بندش اور رکاوٹ باقی نہ رہے گی اور ہر طرف سے ہر آفت سماوی اس طرح ٹوٹی پڑ رہی ہو گی کہ معلوم ہو گا گویا اس کے آنے کے لیے سارے دروازے کھلے ہیں اور اس کو روکنے کے لیے کوئی دروازہ بھی بند نہیں رہا ہے ۔ پہاڑوں کے چلنے اور سراب بن کر رہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ کر اڑیں گے اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر اس طرح پھیل جائیں گے کہ جہاں پہلے کبھی پہاڑ تھے وہاں ریت کے وسیع میدانوں کے سوا اور کچھ نہ ہو گا ۔ اس کیفیت کو سورہ طہٰ میں یوں بیان کیا گیا ہے یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر اس دن پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ اس سے کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بل اور سلوٹ تک نہ دیکھو گے ۔ آیات 105 تا 107 مع حاشیہ 83 ) ۔