[١٦] مِرْصَاد بمعنی گھات یا تاک لگا کر بیٹھنے کی جگہ جہاں شکاری غافل شکار کو پھانسنے کے لیے بیٹھتا ہے۔ پھر جب شکار اس کی زد میں آجاتا ہے تو یکدم اسے قابو کرلیتا ہے۔ آخرت کے منکر بھی جہنم کے غافل شکار ہیں جو انجام سے بیخبر اور لاپروا ہو کر زمین میں آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے مرنے کی دیر ہے کہ جہنم فوراً انھیں اپنے قبضہ میں لے لے گی۔ وہ تو پہلے ہی اس انتظار میں ہے کہ اسے کب کوئی شکار مہیا ہوتا ہے ؟
لِّلطَّاغِيْنَ مَاٰ با ظاہر یہ ہے کہ للطغین، ماباً کے متعلق ہے اور یہ ان جھنم کانت کی دوسری خبر ہے، اس طرح معنے دونوں جملوں کے یہ ہوئے کہ جسر جھنم تو ہر نیک وبد کے لئے انتظار گاہ ہے سبھی کو اس کے اوپر سے گزرنا ہے اور جہنم طاغین کے لئے مستقر اور ٹھکانا ہے۔ طاغین طاغی کی جمع ہے طغیان سے مشتق ہے جس کے معنے ہیں سرکشی اور طاغی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو سرکشی اور نافرمانی میں حد سے گزر جائے اور یہ جبھی ہوسکتا ہے جبکہ وہ ایمان ہی سے نکل جائے اس لئے طاغین سے مردا اس جگہ کافر ہوں گے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ بدعقیدہ گمراہ مسلمانوں کے فرقے ہوں جو قرآن و سنت کی حدود سے نکلے ہوئے ہیں اگرچہ صراحتہ کفر اختیار نہیں کیا جیسے روافض، خوارج، معتزلہ وغیرہ (کما فی المظہری)
لِّلطَّاغِيْنَ مَاٰبًا ٢٢ ۙ- طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ - أوب - الأَوْبُ : ضرب من الرجوع، وذلک أنّ الأوب لا يقال إلا في الحیوان الذي له إرادة، والرجوع يقال فيه وفي غيره، يقال : آب أَوْباً وإِيَاباً ومَآباً. قال اللہ تعالی: إِنَّ إِلَيْنا إِيابَهُمْ [ الغاشية 25] وقال : فَمَنْ شاءَ اتَّخَذَ إِلى رَبِّهِ مَآباً [ النبأ 39] ، والمآب : المصدر منه واسم الزمان والمکان . قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ [ آل عمران 14] ،- ( او ب ) الاوب - ۔ گو اس کے معنی رجوع ہونا کے ہیں لیکن رجوع کا لفظ عام ہے جو حیوان اور غیر حیوان دونوں کے لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ مگر اواب کا لفظ خاص کر حیوان کے ارادہ لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ اب اوبا ویابا ومآبا وہ لوٹ آیا قرآن میں ہے ۔ إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ ( سورة الغاشية 25) بیشک ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے ۔ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآبًا ( سورة النبأ 39) اپس جو شخص چاہے اپنے پروردگار کے پاس ٹھکانا بنائے ۔ المآب۔ یہ مصدر ( میمی ) ہے اور اسم زمان اور مکان بھی ۔ قرآن میں ہے :۔ وَاللهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ ( سورة آل عمران 14) اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانا ہے ۔