Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧] اَحْقَابًا۔ حُقْبَہ کی جمع ہے اور حقبہ بمعنی اسّی سال کا عرصہ یا اس سے زائد مدت، طویل اور غیر معینہ مدت (مفردات) اور اس کی جمع حقب بھی آتی ہے اور احقاب بھی یعنی اہل دوزخ پر جب ایک حقبہ گزر جائے گا تو دوسرا حقبہ شروع ہوجائے گا۔ پھر تیسرا گویا وہ لامتناہی مدت تک دوزخ میں ہی پڑے رہیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لبثین فیھا احقاباً :” احقاباً “ ” احقاباً “ ” حقب “ (حاء کے مضمہ اور قاف کے سکون کے ساتھ۔ ) کی جمع ہے، اسی (٨٠) سال یا اس سے زیادہ مدت، زمانہ، سال ۔ (قاموس) یعنی مدتوں، کئی زمانے، سالہا سال اس میں پڑے رہیں گے، ایک مدت ختم ہونے پر دوسری مدت شروع ہوجائے گی، ایسی مدتیں جن کی کوئی انتہا نہیں ہوگی۔ یہ مطلب نہیں کہ کچھ مدتوں کے بعد عذاب کم یا ختم ہوجائے گا، کیونکہ اسی سلسلہ کلام میں آگے چل کر فرمایا :(فذوقوا فلن نزیدکم الا عذاباً ) (النبا : ٣٠)” پس چکھو کہ ہم تمہیں عذبا کے سوا ہرگز کسی چیز میں زیادہ نہیں کریں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لّٰبِثِيْنَ فِيْهَآ اَحْقَابًا، لابثین، لابث کی جمع ہے جس کے معنے ٹھہرنے والے اور قیام کرنے والے کے ہیں، احقاب حقبہ کی جمع ہے، زمانہ دراز کو حقبہ کہا جاتا ہے، اس کی مقدار میں اقوال مختلف ہیں۔ ابن حریر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس کی مقدار اسی سال نقل کی اور ہر سال بارہ مہینے کا اور ہر مہینہ تیس دن کا اور ہر دن ایک ہزار سال کا۔ اس طرح تقریباً دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال کا ایک حقبہ اور حضرت ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر، ابن عباس وغیرہ نے مقدار حقبہ اسی کے بجائے ستر سال قرار دی باقی حساب وہی ہے (ابن کثیر) مگر مسند بزار میں حضرت عبداللہ بن عمر سے مرفوعاً یہ منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ،- لایخرج احدکم من النار حتی یمکث فیہ احقاباً والحقب بضع وثمانون سنتہ کل سنة ثلث مائتہ و ستون یوما مما تعدون (از مظہری) - تم میں سے جو لوگ گناہوں کی سزا میں جہنم میں ڈالے جائیں گے کوئی اس وقت تک جہنم سے نہ نکلے گا جب تک اس میں چند احقاب نہ رہ لے اور حقبہ کچھ اوپر اسی سال کا اور ہر سال تین سو ساٹھ دن کا ہے تمہارے موجودہ دنوں کے مطابق - اس حدیث میں اگرچہ اس آیت مذکورہ کی تفسیر مذکور نہیں ہے مگر بہرحال لفظ احقاب کے معنی کا بیان ہی چند صحابہ کرام سے جو اس میں ہر دن ایک ہزار سال کا منقول ہے اگر وہ بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہوا ہے تو روایات حدیث میں تعارض ہوا، اس تعارض کے وقت کسی ایک پر جرم و یقین تو نہیں ہوسکتا مگر اتنی بات دونوں ہی روایتوں میں مشترک ہے کہ حقبہ یا حقب بہت ہی زیادہ طویل زمانے کا نام ہے اسی لئے بیضاوی نے احقاباً کی تفسیم دھور متتابعہ سے کی ہے یعنی پے در پے بہت سے زمانے۔- جہنم کے خلود اور دوام پر اشکال و جواب :۔ حقبہ کی مقدار کتنی بھی طویل سے طویل قرار دی جائے بہرحال وہ متناہی اور محدود ہے۔ اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اس مدت طویلہ کے بعد کفار اہل جہنم بھی جہنم سے نکل جاویں گے حالانکہ یہ قرآن مجید کی دوسری واضح نصوص کے خلاف ہے جن میں (آیت) خلدین فیھاً ابدا کے الفاظ آئے ہیں اور اسی لئے ا مت کا اس پر اجماع ہے کہ نہ جہنم کبھی فنا ہوگی، نہ کفار کبھی اس سے نکالے جائیں گے۔- سدی نے حضرت مرہ بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ کفار اہل جہنم کو اگر یہ خبر دی جائے کہ ان کا قیام جہنم میں دنیا بھر میں جتنی کنکریاں تھیں ان کے برابر ہوگا تو وہ اس پر بھی خوش ہوں گے کہ بالاخر یہ کنکریاں اربوں کھربوں کی تعداد میں سہی پھر بھی محدود اور متناہی تو ہیں، بہرحال کبھی نہ کبھی اس عذاب سے چھٹکارا ہوجائے گا اور اگر اہل جنت کو یہی خبر دی جائے کہ ان کا قیام جنت میں دنیا بھر کی کنکریوں کے عدد کے مطابق سالوں رہے گا تو وہ غمگین ہوں گے کہ کتنی ہی مدت دراز سہی مگر بہرحال اس مدت کے بعد جنت سے نکال دیئے جاویں گے۔ (مظہری) - بہرحال اس آیت میں احقاباً کے لفظ سے جو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ چند احقاب کے بعد کفار اہل جہنم بھی جہنم سے نکال لئے جاویں گے، تمام نصوص اور اجماع امت کیخ، لاف ہونے کی بنا پر یہ مفہوم معتبر نہیں ہوگا کیونکہ اس آیت میں اس کی تصریح تو ہے نہیں کہ احقاق کے بعد کیا ہوگا صرف اتنا ذکر ہے کہ مدت احقاب ان کو جہنم میں رہنا پڑے گا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ احقاب کے بعد جہنم نہیں رہے گا یا یہ لوگ اس سے نکال لئے جاویں گے۔ اسی لئے حضرت حسن نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے اہل جہنم کے لئے جہنم کی کوئی میعاد اور مدت مقرر نہیں فرمائی جس کے بعد ان کا اس سے نکل جانا سمجھا جائے بلکہ مراد یہ ہے کہ جب ایک حقبہ زمانے کا گزر جائے گا تو دوسرا شروع ہوجائیگا، اسی طرح دوسرے کے بعد تیسرا چوتھا یہاں تک کہ ابدالآباد یہی سلسلہ رہے گا اور سعید بن حبیر نے قتادہ سے بھی یہی تفسیر روایت کی ہے کہ احقاب سے مراد وہ زمانہ ہی جس کا انقطاع اور انتہا نہیں بلکہ ایک حقب ختم ہوگا تو دوسرا حقب آجائے گا اور یہی سلسلہ ابد تک رہیگا (ابن کثیر و مظہری) اور یہاں ایک دوسرا احتمال اور بھی ہے جس کو ابن کثیر نے یحتمل کے لفظ سے بیان کیا ہے اور قرطبی نے فرمایا کہ یہ بات بھی ممکن ہے اور مظہری نے اسی کو اختیار کیا ہے وہ احتمال یہ ہے کہ اس آیت میں لفظ طاغین سے مراد کفار نہ لئے جاویں بلکہ وہ اہل توحید جو عقائد باطلہ کے سبب اسلام کے گمراہ فرقوں میں شمار ہوتے ہیں جن کو محدیثین کی اصطلاح میں اہل اہواء کہا جاتا ہے وہ مراد ہوں تو آیت کا حاصل یہ ہوگا کہ ایسے اہل توحید کلمہ گو جو عقائد باطلہ رکھنے کے سبب کفر کی حدود تک پہنچے ہوئے تھے مگر صریح کا فرنہ تھے وہ مدت احقاب جہنم میں رہنے کے بعد بالاخر کلمہ توحید کی بدلوت جہنم سے نکال لئے جاویں گے۔- مظہری نے اس احتمال کی تائید میں وہ حدیث مرفوع بھی پیش کی جو اوپر حضرت عبد اللہ بن عمر سے بحوالہ مسند بزار نقل ہوچکی ہے جس میں آپ نے یہی بیان فرمایا ہے کہ مدت احقاب گزرنے کے بعد یہ لوگ جہنم سے نکال لئے جاویں گے مگر ابوحیان نے فرمایا کہ بعد کی آیت ۭاِنَّهُمْ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ حِسَابًا 27؀ۙوَّكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا كِذَّابًا اس احتمال کے منافی ہیں کہ طاغین سے مراد اس جگہ اہل توحید اور گمراہ فرقے ہوں کیونکہ ان آخری آیات میں قیامت کے انکار اور تکذیب رسل کی تصریح ہے اسی طرح ابوحیان نے مقاتل کے اس قول کو بھی فاسد قرار دیا ہے کہ اس آیت کو منسوخ مانا جائے۔- اور ایک جماعت مفسرین نے ایک تیسرا احتمال اس آیت کی تفسیر میں یہ قرار دیا ہے کہ اس آیت کے بعد کا جملہ لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا 24؀ۙاِلَّا حَمِيْمًا وَّغَسَّاقًا یہ احقاباً سے جملہ حالیہ ہوا اور معنی آیت کے یہ ہوں کہ احقاب کے زمانہ دراز تک یہ لوگ نہ ٹھنڈی لذیذ ہوا کا ذائقہ چکھیں گے نہ کسی کھانے اور پینے کی چیزیں کا بجز حمیم اور غساق، پھر احقاب گزرنے کے بعد ہوسکتا ہے کہ یہ حال بدل جائے اور دوسری اقسام کے عذاب ہونے لگیں حمیم وہ کھولتا ہوا گرم پانی ہے کہ جب چہرہ کے قریب آئے گا تو اس کا گوشت جل جائے گا اور جب پیٹ میں ڈالا جائے گا تو اندرونی اعضاء کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور غساق وہ خون اور پیپ وغیرہ جو اہل جہنم کے زخموں سے نکلے گی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لّٰبِثِيْنَ فِيْہَآ اَحْقَابًا۝ ٢٣ ۚ- لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- حقب - قوله تعالی: لابِثِينَ فِيها أَحْقاباً [ النبأ 23] ، قيل : جمع الحُقُب، أي : الدهر «3» .- قيل : والحِقْبَة ثمانون عاما، وجمعها حِقَب، والصحیح أنّ الحقبة مدّة من الزمان مبهمة، والاحتقاب : شدّ الحقیبة من خلف الراکب، وقیل : احتقبه واستحقبه، وحَقِبَ البعیر «4» : تعسّر عليه البول لوقوع حقبه في ثيله «5» ، والأحقب :- من حمر الوحش، وقیل : هو الدقیق الحقوین، وقیل : هو الأبيض الحقوین، والأنثی حقباء .- ( ح ق ب )- قرآن میں ہے :۔ لابِثِينَ فِيها أَحْقاباً [ النبأ 23] اس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے ۔ بعض نے کہا ہے کہ احقاب کا واحد حقب ہی جس کے معنی زمانہ کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقبۃ کا لفظ اسی سال کی مدت پر بولا جاتا ہے اس کی جمع حقب آتی ہے ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ مدت غیر معینہ پر بولا جاتا ہے ۔ الاحتقاب ( افتعال ) سوار کا اپنے پیچھے حقبیہ یعنی سامان سفر کا تھیلا باندھنا چناچہ کہا جاتا ہے ۔ احتقیہ واستحقۃ اس نے اسے پلان کے پیچھے باندھ لیا ۔ حقب البعیر شتر کے غلاف نرہ میں اس کے تنگ کے داخل ہونے کی وجہ سے پیشاب کا رک جانا یا تکلیف سے آنا ۔ الاحقب سرخ رنگ کا گورخر بعض نے کہا ہے کہ احقب اس گورخر کو کہتے ہیں جس کے دونوں پہلو باریک ہوں اور بعض نے کہا ہے کہ سفید پہلوؤں والے گور خر کو کہاجاتا ہے اس کا مونث حقباء ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :15 اصل میں لفاظ احقاب استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں پے درپے آنے والے طویل زمانے ، ایسے مسلسل ادوار کہ ایک دور ختم ہوتے ہی دوسرا دور شروع ہو جائے ۔ اس لفظ سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ جنت کی زندگی میں تو ہمیشگی ہو گی مگر جہنم میں ہمیشگی نہیں ہو گی ، کیونکہ یہ مدتیں خواہ کتنی ہی طویل ہوں ، بہرحال جب مدتوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو اس سے یہی متصور ہوتا ہے کہ وہ لا متناہی نہ ہوں گی بلکہ کبھی نہ کبھی جا کر ختم ہو جائیں گی ۔ لیکن یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے ۔ ایک یہ کہ عربی لغت کے لحاظ سے حقب کے لفظ ہی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ ایک حقب کے پیچھے دوسرا حقب ہو ، اس لیے احقاب لازماً ایسے ادوار ہی کے لیے بولا جائے گا جو پے درپے ایک دوسرے کے بعد آتےچلے جائیں اور کوئی دور بھی ایسا نہ ہو جس کے پیچھے دوسرا دور نہ آئے ۔ دوسرے یہ کہ کسی موضوع کے متعلق قرآن مجید کی کسی آیت سے کوئی ایسا مفہوم لینا اصولاً غلط ہے جو اسی موضوع کے بارے میں قرآن کے دوسرے بیانات سے متصادم ہوتا ہو ۔ قرآن میں 34 مقامات پر اہل جہنم کے لیے خلود ( ہمیشگی ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، تین جگہ صرف لفظ خلود ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس پر ابداً ( ہمیشہ ہمیشہ ) کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے اور ایک جگہ صاف صاف ارشاد ہوا ہے کہ وہ چاہیں گے کہ جہنم سے نکل جائیں ، مگر وہ اس سے ہرگز نکلنے والے نہیں ہیں اور ان کے لیے قائم رہنے والے عذاب ہے ۔ ( المائدہ ، آیت 37 ) ۔ ایک دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے ۔ اور یہی بات اہل جنت کے متعلق بھی فرمائی گئی ہے کہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے ۔ ( ہود ، 107 ۔ 108 ) ۔ ان تصریحات کے بعد لفظ احقاب کی بنیاد پر یہ کہنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ جہنم میں خدا کے باغیوں کا قیام دائمی نہیں ہو گا بلکہ کبھی نہ کبھی ختم ہو جائے گا ؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: اصل عربی لفظ ’’احقاب ہے‘‘ جو ’’حقبہ‘‘ کی جمع ہے جو بڑی طویل مدت کو کہتے ہیں، اور مطلب یہ ہے کہ ان کے دوزخ میں رہنے کی مدتیں یکے بعد دیگرے بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔ بعض لوگوں نے اس لفظ سے جو اِستدلال کیا ہے کہ جن سرکش لوگوں کا ذِکر ہورہا ہے، وہ بھی طویل مدتیں گذرنے کے بعد دوزخ سے نکل جائیں گے، وہ غلط استدلال ہے، اس لئے کہ قرآنِ کریم نے بہت سے مقامات پر صریح لفظوں میں وضاحت فرما دی ہے کہ وہ کبھی نہیں نکلیں گے۔ مثلا دیکھئے سورۃ مائدہ(۵:۳۷)۔