Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 یعنی اللہ کی دادو دہشت کی وہاں فروانی ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

٣٦، ٣٧(١) جزآء من ربک عطآء حساباً…: یہ سب کچھ ان کے رب کی طرف سے ان کے اعمال کا بدلا ہے۔ بدلا دینے والا رب تعالیٰ ہو تو بدلا کتنا عظیم ہوگا، پھر برابر بدلا ہی نہیں، دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی بڑھا کر لامحدود گنا عطیہ ملے گا۔ البتہ گناہ کا بدلا اتنا ہی ہوگا جتنا گناہ ہے۔- (٢) عطآء حساباً : اس کے دو معنی ہیں، پہلا یہ کہ وہ عطیہ سحاب سے ہوگا، یعنی ان کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی ایسا نہ ہوگا جو حساب میں نہ آئے۔ دوسرا معنی ہے ” کافی عطیہ۔ “ جیسے ” حسبی اللہ “ کا معنی ہے مجھے اللہ کافی ہے، یعنی اتنا بدلا ہوگا جس سے زیادہ کی خواہش نہیں ہوگی۔- (٣) لایملکون منہ خطاباً : یہنی انتہائی لطف و رحمت کے باوجود قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا جلال اس قدر ہوگا کہ کوئی اس کے سامنے لب کشائی نہیں کرسکے گا۔ (اشرف الحواشی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ان نعمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا۔- (آیت) جَزَاۗءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاۗءً حِسَابًا یعنی اوپر جنت کی جن نعمتوں کا ذکر آیا ہے یہ جزاء ہے مومنین کے لئے اور عطاء ہے ان کے رب کی طرف سے عطائے کثیر۔ یہاں ان نعمتوں کو اول جزائے اعمال بتلایا پھر عطائے ربانی، بظاہر ان دونوں میں تضاد ہے کیونکہ جزاء اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے بدلے میں ہو اور عطاء وہ ہے جو بلا کسی بدلے کے بطور انعام و احسان ہو۔ قرآن کریم نے ان دونوں لفظوں کو یکجا جمع کر کے اس طرف اشارہ کردیا کہ جنت میں داخل ہونا اور اس کی نعمتیں صرف صورت اور ظاہر کے اعتبار سے تو اہل جنت کے اعمال کی جزاء ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ خلاص عطائے ربانی ہے کیونکہ انسانی اعمال تو ان نعمتوں کا بھی بدلہ نہیں بن سکتے جو ان کو دنیا میں دے دیگئی ہیں آخرت کی نعمتوں کا حصول تو صرف حق تعالیٰ کا فضل و اناعم اور عطائے محض ہے جیسا کہ حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے عمل سے جنت میں نہیں جاسکتا جب تک حق تعالیٰ کا فضل نہ ہو، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا آپ بھی، آپ نے فرمایا کہ ہاں میں بھی اپنے عمل سے جنت میں نہیں جاسکتا، اور لفظ حسابا کے دو معنے ہو سکتے ہیں، ائمہ تفسیر میں بعض نے پہلے بعض نے دوسرے معنے لئے ہیں پہلے معنی حساباً عطاء کافیا کثیراً کے ہیں یعنی ایسی عطاء جو اس کی تمام ضرورتوں کے لئے کافی وافی اور کثیر ہو، یہ معنے اس محاورہ سے ماخوذ ہیں احسیت فلانا ای اعطیتہ مایکفیہ حتی قال حسبی یعنی احسبت کا لفظ اس معنے کے لئے آتا ہے کہ میں نے اس کو اتنا دیا کہ اس کے لئے بالکل کافی ہوگیا یہاں تک کہ بول اٹھا حسبی یعنی بس یہ میرے لئے بہت ہے اور دوسرے معنے حساب کے موازنہ اور مقابلے کے بھی آتے ہیں۔ حضرت مجاہد نے اس جگہ یہی معنی لے کر مطلب آیت کا یہ قرار دیا کہ یہ عطائے ربانی اہل جنت پر ان کے اعمال کے حساب سے مبذول ہوگی، اس عطاء میں درجات بحساب اخلاص اور احسان عمل کے ہوں گے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں صحابہ کرام کے اعمال کا درجہ باقی امت کے اعمال کے مقابلے میں یہ قرار دیا ہے کہ صحابی اللہ کی راہ میں ایک مد خرچ کرے جو تقریباً ایک سیر ہوتا ہے اور غیر صحابی احد پہاڑ کی برابر خرچ کرے تو صحابی کا ایک مد اس پہاڑ سے بڑھا ہوا رہے گا۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

جَزَاۗءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاۗءً حِسَابًا۝ ٣٦ ۙ- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عطا - العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء :- الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39]- ( ع ط و ) العطوا - ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔- حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، وقال عزّ وجل : وَيُرْسِلَ عَلَيْها حُسْباناً مِنَ السَّماءِ [ الكهف 40] ، قيل : معناه :- نارا، وعذابا وإنما هو في الحقیقة ما يحاسب عليه فيجازی بحسبه، وفي الحدیث أنه قال صلّى اللہ عليه وسلم في الریح : «اللهمّ لا تجعلها عذابا ولا حسبانا»، قال تعالی: فَحاسَبْناها حِساباً شَدِيداً [ الطلاق 8] ، إشارة إلى نحو ما روي : «من نوقش الحساب عذّب» وقال تعالی: اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، نحو : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] ، وقوله عزّ وجلّ : وَلَمْ أَدْرِ ما حسابِيَهْ [ الحاقة 26] ، إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسابِيَهْ [ الحاقة 20] ، فالهاء فيها للوقف، نحو : مالِيَهْ وسُلْطانِيَهْ وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ [ آل عمران 199] ، وقوله عزّ وجلّ : جَزاءً مِنْ رَبِّكَ عَطاءً حِساباً [ عم 36] ، فقد قيل : کافیا، وقیل : ذلك إشارة إلى ما قال : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] ،- ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ان کے حسبان ہونے کی حقیقت خدا ہی جانتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيُرْسِلَ عَلَيْها حُسْباناً مِنَ السَّماءِ [ الكهف 40] اور وہ تمہارے باغ ) پر آسمان سے آفت بھیج دے میں بعض نے کہا ہے کہ حسبا نا کے معنی آگ اور عذاب کے ہیں اور حقیقت میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس پر محاسبہ کای جائے اور پھر اس کے مطابق بدلہ دیا جائے ۔ حدیچ میں ہے آنحضرت نے آندھی کے متعلق فرمایا : ۔ کہ الہیٰ ؟ اسے عذاب یا حسبان نہ بنا اور آیت کریمہ : ۔ فَحاسَبْناها حِساباً شَدِيداً [ الطلاق 8] تو تم نے ان کو سخت حساب میں پکڑ لیا ۔ میں حدیث کہ جس سے حساب میں سختی کی گئی اسے ضرور عذاب ہوگا کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت ) نزدیک آپہنچا ) اپنے مضمون میں وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] کی طرح ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ أَدْرِ ما حسابِيَهْ [ الحاقة 26] اور مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے ۔ اور آیت : ۔ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسابِيَهْ [ الحاقة 20] مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب ( وکتاب ) ضرور ملے گا ۔ میں ہ وقف کی ہے جیسا کہ میں ہے ۔إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ [ آل عمران 199] بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ جَزاءً مِنْ رَبِّكَ عَطاءً حِساباً [ عم 36] یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے صلہ ہے انعام کثیر میں بعض نے کہا ہے کہ حسابا کے معنی کافیا کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ جَزَآئً مِّنْ رَّبِّکَ عَطَآئً حِسَابًا ۔ ” یہ بدلہ ہوگا آپ کے رب کی طرف سے ‘ دیا ہوا حساب سے۔ “- یہ سب کچھ ان لوگوں کی محنت اور قربانیوں کے بدلے کے طور پر انہیں عطا کیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :22 جزاء کے بعد کافی انعام دینے کا ذکر یہ معنی رکھتا ہے کہ ان کو صرف وہی جزا نہیں دی جائے گی جس کے وہ اپنے نیک اعمال کی بنا پر مستحق ہوں گے ، بلکہ اس پر مزید انعام اور کافی انعام بھی دیا جائے گا ۔ اس کے برعکس اہل جہنم کے بارے میں صرف اتنا فرمایا گیا ہے کہ انہیں ان کے کرتوتوں کا بھر پور بدلہ دے دیا جائے گا ، یعنی نہ ان کے جرائم سے کم سزا دی جائے گی نہ اس سے زیادہ ۔ یہ بات قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے مثلا یونس ، آیات 26 ۔ 27 ۔ النحل ، آیات 89 ۔ 90 ۔ القصص ، آیت 84 ۔ سبا ، آیات 33 تا 38 ۔ المومن ، آیت 40 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: یہ ترجمہ ایک تفسیر کے مطابق ہے جو حضرت عطاءؒ سے منقول ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کی دین میں ہوگی، جو کسی اِستحقاق کے بغیر ملے گی، لیکن اﷲ تعالیٰ یہ دین ہر ایک کو اس کے اعمال کے حساب سے دیں گے۔ اور اس کا دوسرا ترجمہ یہ ہوسکتا ہے کہ’’ : (اللہ کی) ایسی دین ہوگی جو ہر ایک کے لئے کافی ہوجائے گی۔‘‘ یعنی ان کی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوگی۔