روح الامین علیہ السلام اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جلال کی خبر دے رہا ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوق کا پالنے پوسنے والا ہے ، وہ رحمان ہے ، جس کے رحم نے تمام چیزوں کو گھیر لیا ہے ، جب تک اس کی اجازت نہ ہو کوئی اس کے سامنے لب نہیں ہلا سکتا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ ٢٥٥ ) 2- البقرة:255 ) یعنی کون ہے جو اس کی اجازت بغیر اس کی سی صورتوں والے ہیں کھاتے پیتے ہیں نہ وہ فرشتے ہیں نہ انسان ، یا مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ، حضرت جبرائیل کو اور جگہ بھی روح کہا گیا ہے ، ارشاد ہے آیت ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ١٩٣ۙ ) 26- الشعراء:193 ) ، اسے امانت دار روح نے تیرے دل پر اتارا ہے تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے ، یہاں مراد سے یقینا حضرت جبرائیل ہیں حضرت مقاتل فرماتے ہیں کہ تمام فرشتوں سے بزرگ ، اللہ کے مقرب اور وحی لے کر آنے والے بھی ہیں ، یا مراد روح سے قرآن ہے ، اس کی دلیل میں یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے آیت ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا 52ۙ ) 42- الشورى:52 ) یعنی ہم نے اپنے حکم سے تیری طرف روح اتاری یہاں روح سے مراد قرآن ہے ، چھٹا قول یہ ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ فرشتہ تمام فرشتوں سے بہت بڑا ہے ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ روح نامی فرشتہ چوتھے آسمان میں ہے ، تمام آسمانوں کل پہاڑوں اور سب فرشتوں سے بڑا ہے ، ہر دن بارہ ہزار تسبیحات پڑھتا ہے ہر ایک تسبیح سے ایک ایک فرشتہ پیدا ہوتا ہے ، قیامت کے دن وہ اکیلا ایک صف بن کر آئے گا ۔ لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے ، طبرانی میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ فرشتوں میں ایک فرشتہ وہ بھی ہے کہ اگر اسے حکم ہو کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کو لقمہ بنا لے تو وہ ایک لقمہ میں سب کو لے لے اس کی تسبیح یہ ہے سبحانک حیث کنت اللہ تو جہاں کہیں بھی ہے پاک ہے یہ حدیث بھی بہت غریب ہے بلکہ اس کے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے میں بھی کلام ہے ، ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہو ، اور بھی بنی اسرائیل سے لیا ہوا ، واللہ اعلم ۔ امام ابن جریر نے یہ سب اقوال وارد کئے ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ میرے نزدیک ان تمام اقوال میں سے بہتر قول یہ ہے کہ یہاں روح سے مراد کل انسان ہیں واللہ اعلم پھر فرمایا صرف وہی اس دن بات کر سکے گا جسے وہ رحمٰن اجازت دے جیسے فرمایا آیت ( يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ ١٠٥ ) 11-ھود:105 ) یعنی جس دن وہ وقت آئے گا کوئی نفس بغیر اس کی اجازت کے کلام بھی نہیں کر سکے گا صحیح حدیث میں بھی ہے کہ اس دن سوائے رسولوں کے کوئی بات نہ کر سکے گا ، پھر فرمایا کہ اس کی بات بھی ٹھیک ٹھاک ہو ، سب سے زیادہ حق بات لا الہ الا اللہ ہے ، پھر فرمایا کہ یہ دن حق ہے یقیناً آنے والا ہے ، جو چاہے اپنے رب کے پاس اپنے لوٹنے کی جگہ اور وہ راستہ بنا لے جس پر چل کر وہ اس کے پاس سیدھا جا پہنچے ، ہم نے تمہیں بالکل قریب آئی ہوئی آفت سے آگاہ کر دیا ہے ، آنے والی چیز تو آ گئی ہوئی سمجھنی چاہئے ، اس دن نئے پرانے چھوٹے بڑے اچھے برے کل اعمال انسان کے سامنے ہوں گے جیسے فرمایا آیت ( ووجدوا ما عملوا حاضرا جو کیا اسے سامنے پا لیں گے اور جگہ ہے آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13ۭ ) 75- القيامة:13 ) ہر انسان کو اس کے اگلے پچھلے اعمال سے متنبہ کیا جائے گا ، اس دن کافر آرزو کرے گا کاش کہ وہ مٹی ہوتا پیدا ہی نہ کیا جاتا وجود میں ہی نہ آتا ، اللہ کے عذاب کو آنکھ سے دیکھ لے گا اپنی بدکاریاں سامنے ہوں گی جو پاک فرشتوں کے منصب ہاتھوں کی لکھی ہوئی ہیں ، پس ایک معنی تو یہ ہوئے کہ دنیا میں ہی مٹی ہونے کی یعنی پیدا نہ ہونے کی آرزو کرے گا ، دوسرے معنی یہ ہیں کہ جب جانوروں کا فیصلہ ہو گا اور ان کے قصاص دلوائے جائیں گے یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہو گا تو اس سے بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے کہا جائے گا کہ مٹی ہو جاؤ چنانچہ وہ مٹی ہو جائیں گے ، اس وقت یہ کافر انسان بھی کہے گا کہ ہائے کاش میں بھی حیوان ہوتا اور اب مٹی بن جاتا حضور کی لمبی حدیث میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے اور حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمرو سے بھی یہی مروی ہے ، الحمد اللہ سورہ نباء کی تفسیم ختم ہوئی ۔
37۔ 1 یعنی اس کی عظمت، ہیبت اور جلالت اتنی ہوگی کہ ابتداء اس سے کسی کو بات کرنے کی ہمت نہ ہوگی، اسی لئے اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کے لئے لب کشائی نہیں کرسکے گا۔
[٢٤] یعنی اللہ تعالیٰ کی اہل جنت کو جود و عطا کا تو وہ حال ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے جلال، رعب اور دبدبے کا یہ حال ہوگا کہ جب تمام مخلوق قیامت کی ہولناکیوں سے گھبراہٹ میں مبتلا ہوگی تو کسی کو یہ ہمت نہیں پڑے گی کہ وہ مخلوق خدا پر اللہ تعالیٰ سے رحم کے لیے سفارش کرسکے اور ہر شخص نفسی نفسی پکار رہا ہوگا۔ حتیٰ کہ انبیاء بھی رب سلّم وسلّم پکار رہے ہوں گے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کے سامنے سفارش کے لیے قرعہ فال رسول اللہ کے نام پر پڑے گا اور آپ اللہ کے حضور سب کے لیے سفارش کریں گے۔ اس مضمون کی طویل اور مفصل حدیث سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٥ کے تحت گزر چکی ہے۔
لَا يَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًا اس جملہ کا تعلق پہلے جملے جَزَاۗءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاۗءً حِسَابًا سے بھی ہوسکتا ہے تو معنے یہ ہوں گے کہ حق تعالیٰ جس کو جو درجہ ثواب کا عطا فرما دیں گے اس میں کسی کو گفتگو کرنے کی مجال نہ ہوگی کہ فلاں کو زیادہ فلاں کو کم کیوں دیا گیا اور اگر اس کو علیحدہ جملہ قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ محشر میں کسی کو بغیر اجازت حق تعالیٰ خطاب کرنے کا اختیار نہ ہوگا اور یہ اجازت بعض مواقف حشر میں ہوگی بعض میں نہ ہوگی۔
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا الرَّحْمٰنِ لَا يَمْلِكُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا ٣٧ ۚ- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- ملك ( مالک)- فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] ، وقال :- أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] وفي غيرها من الآیات - ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں - خطب - الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، ومنه : الخُطْبَة والخِطْبَة لکن الخطبة تختصّ بالموعظة، والخطبة بطلب المرأة قال تعالی: وَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّساءِ [ البقرة 235] ، وأصل الخطبة : الحالة التي عليها الإنسان إذا خطب نحو الجلسة والقعدة، ويقال من الخُطْبَة : خاطب وخطیب، ومن الخِطْبَة خاطب لا غير، والفعل منهما خَطَبَ. والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] ، وفصل الخِطَاب : ما ينفصل به الأمر من الخطاب .- ( خ ط ب ) الخطب - والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا اسی سے خطبۃ اور خطبۃ کا لفظ ہے لیکن خطبۃ وعظ و نصیحت کے معنی میں آتا ہے اور خطبۃ کے معنی ہیں نکاح کا پیغام ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّساءِ [ البقرة 235] اگر تم کنایہ کہ باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو ۔۔ ۔ تم تم پر کچھ گناہ نہیں ۔ اصل میں خطبۃ اسی حالت کو کہتے ہیں جو بات کرتے وقت ہوتی ہے جیسا کہ جلسۃ اور قعدۃ پھر خطبۃ سے تو خاطب اور خطیب ( دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں مگر خطبۃ سے صرف خاطب کا لفظ ہی بولا جاتا ہے ۔ اور خطب فعل دونوں معنی کے لئے آتا ہے ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔ فصل الخطاب دو ٹوک بات ، فیصلہ کن بات جس سے نزاع ختم ہوجائے ۔
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :23 یعنی میدان حشر میں دربار الہی کے رعب کا یہ عالم ہو گا کہ اہل زمین ہوں یا اہل آسمان ، کسی کی بھی یہ مجال نہ ہو گی کہ از خود اللہ تعالی کے حضور زبان کھول سکے ، یا عدالت کے کام میں مداخلت کر سکے ۔