Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

فرشتے موت اور ستارے اس سے مراد فرشتے ہیں جو بعض لوگوں کی روحوں کو سختی سے گھسیٹتے ہیں اور بعض روحوں کو بہت آسانی سے نکالتے ہیں جیسے کسی کے بند کھول دیئے جائیں ، کفار کی روحیں کھینچی جاتی ہیں پھر بند کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم میں ڈبو دیئے جاتے ہیں ، یہ ذکر موت کے وقت کا ہے ، بعض کہتے ہیں والنازعات غرقاً سے مراد موت ہے ، بعض کہتے ہیں ، دونوں پہلی آیتوں سے مطلب ستارے ہیں ، بعض کہتے ہیں مراد سخت لڑائی کرنے والے ہیں ، لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے ، یعنی روح نکالنے والے فرشتے ، اسی طرح تیسری آیت کی نسبت بھی یہ تینوں تفسیریں مروی ہیں یعنی فرشتے موت اور ستارے ۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں مراد کشتیاں ہیں ، اسی طرح سابقات کی تفسیر میں بھی تینوں قول ہیں ، معنی یہ ہیں کہ ایمان اور تصدیق کی طرف آگے بڑھنے والے ، عطا فرماتے ہیں مجاہدین کے گھوڑے مراد ہیں ، پھر حکم اللہ کی تعمیل تدبیر سے کرنے والے اس سے مراد بھی فرشتے ہیں ، جیسے حضرت علی وغیرہ کا قول ہے ، آسمان سے زین کی طرف اللہ عز و جل کے حکم سے تدبیر کرتے ہیں ، امام ابن جریر نے ان اقوال میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ، کانپنے والی کے کانپنے اور اس کے پیچھے آنے والی کے پیچھے آنے سے مراد دونوں نفخہ ہیں ، پہلے نفخہ کا بیان اس آیت میں بھی ہے ( یوم ترجف الارض والجبال ) جس دن زمین اور پہاڑ کپکپا جائیں گے ، دوسرے نفخہ کا بیان اس آیت میں ہے ( وحملت الارض والجبال فدکتا دکتہ واحدۃ ) اور زمین اور پہاڑ اٹھا لئے جائیں گے ، پھر دونوں ایک ہی دفعہ چور چور کر دیئے جائیں گے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کا پنے والی آئے گی اس کے پیچھے ہی پیچھے آنے والی ہو گی یعنی موت اپنے ساتھ اپنی آفتوں کو لئے ہوئے آئے گی ، ایک شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں اپنے وظیفہ کا تمام وقت آپ پر درود پڑھنے میں گزاروں تو؟ آپ نے فرمایا پھر تو اللہ تعالیٰ تجھے دنیا اور آخرت کے تمام غم و رنج سے بچا لے گا ۔ ترمذی میں ہے کہ وہ تہائی رات گزرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے اور فرماتے لوگو اللہ کو یاد کرو کپکانے والی آ رہی ہے پھر اس کے پیچھے ہی اور آ رہی ہے ، موت اپنے ساتھ کی تمام آفات کو لئے ہوئے چلی آ رہی ہے ، اس دن بہت سے دل ڈر رہے ہوں گے ، ایسے لوگوں کی نگاہیں ذلت و حقارت کے ساتھ پست ہوں گی کیونکہ وہ اپنے گناہوں اور اللہ کے عذاب کا معائنہ کر چکے ہیں ، مشرکین جو روز قیامت کے منکر تھے اور کہا کرتے تھے کہ کیا قبروں میں جانے کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے؟ وہ آج اپنی اس زندگی کو رسوائی اور برائی کے ساتھ آنکھوں سے دیکھ لیں گے ، حافرۃ کہتے ہیں قبروں کو بھی ، یعنی قبروں میں چلے جانے کے بعد جسم کے ریزے ریزے ہو جانے کے بعد ، جسم اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے اور کھوکھلی ہو جانے کے بعد بھی کیا ہم زندہ کئے جائیں گے؟ پھر تو یہ دوبار کی زندگی خسارے اور گھاٹے والی ہو گی ، کفار قریش کا یہ مقولہ تھا ، حافرۃ کے معنی موت کے بعد کی زندگی کے بھی مروی ہیں اور جہنم کا نام بھی ہے اس کے نام بہت سے ہیں جیسے جحیم ، سقر ، جہنم ، ہاویہ ، حافرہ ، لظی ، حطمہ وغیرہ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس چیز کو یہ بڑی بھاری ، ان ہونی اور ناممکن سمجھے ہوئے ہیں وہ ہماری قدرت کاملہ کے ماتحت ایک ادنیٰ سی بات ہے ، ادھر ایک آواز دی ادھر سب زندہ ہو کر ایک میدان میں جمع ہو گئے ، یعنی اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل کو حکم دے گا وہ صور پھونک دیں گے بس ان کے صور پھونکتے ہی تمام اگلے پچھلے جی اٹھیں گے اور اللہ کے سامنے ایک ہی میدان میں کھڑے ہو جائیں گے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا 52؀ۧ ) 17- الإسراء:52 ) ، جس دن وہ تمہیں پکارے گا اور تم اس کی تعریفیں کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور جان لو گے کہ بہت ہی کم ٹھہرے اور جگہ فرمایا آیت ( وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ 50؀ ) 54- القمر:50 ) ہمارا حکم بس ایسا ایک بارگی ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا اور جگہ ہے آیت ( وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 77؀ ) 16- النحل:77 ) امر قیامت مثل آنکھ جھپکنے کے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ، یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ صرف ایک آواز ہی کی دیر ہے اس دن پروردگار سخت غضبناک ہو گا ، یہ آواز بھی غصہ کے ساتھ ہو گی ، یہ آخری نفخہ ہے جس کے پھونکے جانے کے بعد ہی تمام لوگ زمین کے اوپر آ جائیں گے ، حالانکہ اس سے پہلے نیچے تھے ، ساھرہ روئے زمین کو کہتے ہیں اور سیدھے صاف میدان کو بھی کہتے ہیں ، ثوری کہتے ہیں مراد اس سے شام کی زمین ہے ، عثمان بن ابو العالیہ کا قول ہے مراد بیت المقدس کی زمین ہے ۔ وہب بن منبہ کہتے ہیں بیت المقدس کے ایک طرف یہ ایک پہاڑ ہے ، قتادہ کہتے ہیں جہنم کو بھی ساھرہ کہتے ہیں ۔ لیکن یہ اقوال سب کے سب غریب ہیں ، ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی روئے زمین کے سب لوگ زمین پر جمع ہو جائیں گے ، جو سفید ہو گی اور بالکل صاف اور خالی ہو گی جیسے میدے کی روٹی ہوتی ہے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 48؁ ) 14- ابراھیم:48 ) ، یعنی جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین ہو گی اور آسمان بھی بدل جائیں گا اور سب مخلوق اللہ تعالیٰ واحد و قہار کے روبرو ہو جائے گی اور جگہ ہے لوگ تجھ سے پہاڑوں کے بارے پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ انہیں میرا رب ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور زمین بالکل ہموار میدان بن جائے گی جس میں کوئی موڑ توڑ ہو گا ، نہ اونچی نیچی جگہ اور جگہ ہے ہم پہاڑوں کو چلنے والا کر دیں گے اور زمین صاف ظاہر ہو جائے گی ، غرض ایک بالکل نئی زمین ہو گی جس پر نہ کبھی کوئی خطا ہوئی نہ قتل و گناہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 نَزْع کے معنی سختی سے کھنچنا، غَرْقًا ڈوب کر، یہ جان نکالنے والے فرشتوں کی صفت ہے فرشتے کافروں کی جان، نہایت سختی سے نکالتے ہیں اور جسم کے اندر ڈوب کر۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] یعنی ان فرشتوں کی قسم جو موت کے وقت میت کے ایک ایک رگ و ریشہ میں ڈوب کر وہاں سے اس کی روح کو کھینچ لاتے ہیں۔ واضح رہے کہ نزع کا لغوی معنی کسی چیز کو اس کی قرارگاہ سے کھینچنا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

٢(والنزعت غرقاً…:” النزعت “ اور ” الشطت “ سے مراد سختی اور آسانی کے ساتھ جان نکالنے والے فرشتے ہیں۔ اگرچہ ان الفاظ کی تفسیریں اور بھی کی گئی ہیں، مگر تفسیر طبری میں حسن سندوں کے ساتھ ابن عباس اور ابن مسعود (رض) سے یہی تفسیر مروی ہے اور صحیح احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جیسا کہ مسند احمد میں براء بن عازب (رض) سے ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(وان العبد المومن اذا کان فی انقطاع من الدنیا…ثم یحیء ملک الموت (علیہ السلام) حتی یجلس عند راسہ فیقول ایتھا النفس الطیبہ اخرجی الی مغفرۃ من اللہ و رضوان قال فتخرج تسیل کما تسیل القطرۃ من فی السفاء …و ان العبد الکافر اذا کان فی انقطاع من الدنیا…ثم یحییٰ ملک الموت حتی یجلس عند راسہ فیقول ایتھا النفس الخمیثۃ اخرجی الی سخط من اللہ و غضب قال فتفرق فی حسدہ فینتزعھا کما ینتزع السفود من الصوف المبول) (مسند احمد : ٣ ٢٨٨، ٢٨٨، ح : ١٨٥٦١)” اور مومن آدمی جب دنیا سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے … تو ملک الموت (علیہ السلام) اس کے سپر کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے :” اے پاکیزہ جان اللہ کی مغفرت اور رضا کی طرف نکل آ۔ “ تو وہ اس طرح نکل آتی ہے ، جس طرح مشکیزے سے پانی کا قطرہ نکلتا ہے…اور کافر جب دنیا سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے۔ … تو ملک الموت اس کے سر کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے :” اے خبیث جان اللہ کی ناراضی اور غصے کی طرف نکل آ۔ “ تو وہ جس میں بکھر جاتی ہے تو وہ اسے اس طرح سختی سے کھینچ کر نکالتا ہے جس طرح بھیگی ہوئی اون سے گرم سلاخ کھینچ کر نکالی جاتی ہے۔ “ مشکوۃ میں شیخ البانی (رح) نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔- ” النزعت “ سختی سے کھینچ کر نکالنے والے۔ “ ” غرقاً “ ” ڈوب کر۔ “ یعنی ان فرشوتں کی قسم جو کفار کی جان ڈوب کر یعنی ان کے بدن کے ہر حصے میں پہنچ کر سختی سے کھینچ کر نکالتے ہیں، جب کہ وہ نکلنا نہیں چاتہی۔” النشطت “” نشط العقال “ (ن) رسی کی گرہ کھولنا۔ فرشتے مسلمان کی روح گرہ کھول کر ناکلتے ہیں اور وہ خوشی سے اللہ کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑتی ہے۔ کافر اور ممون کا یہ فرق روح کی حالت میں ہے، بدن کی تکلفی الگ ہے، اس میں مسلمان اور کافر برابر ہیں۔ (خلاصہ موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - قسم ہے ان فرشتوں کی جو (کافروں کی جان سختی سے نکالتے ہیں اور جو (مسلمانوں کی روح آسانی سے نکالتے ہیں گویا ان کا) بند کھول دیتے ہیں اور جو (روحوں کو لے کر زمین سے آسمان کی طرف اس طرح سرعت ہو سہولت سے چلتے ہیں جیسے گویا) تیرتے ہوئے چلتے ہیں پھر (جب روحوں کو لے کر پہنچتے ہیں تو ان ارواح کے باب میں جو خدا کا حکم ہوتا ہے اس کے امتثال کے لئے) تیزی کے ساتھ دوڑتے ہیں پھر (ن ارواح کے متعلق ثواب کا حکم ہو یا عقاب کا دونوں امروں میں سے) ہر امر کی تدبیر کرتے ہیں (ان سب کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ) قیامت ضرور آوے گی جس روز ہلا دینے والی چیز ہلا ڈالے گی (مراد نفخہ اولیٰ ہے) جس کے بعد ایک پیچھے آنے والی چیز آ جاوے گی (مراد نفخہ ثانیہ ہے) بہت سے دل اس روز دھڑک رہے ہوں گے ان کی آنکھیں (ارے ندامت کے) جھک رہی ہوں گی (مگر یہ لوگ قیامت کا انکار کر رہے ہیں اور) کہتے ہیں کہ کیا ہم پہلی حالت میں پھر واپس ہوں گے (پہلی حالت سے مراد حیات قبل الممات یعنی کیا بعد الموت پھر حیات ثانیہ ہوگی ؟ مقصود استبعاد ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے) کیا جب ہم بوسیدہ ہڈیاں ہوجاویں گے پھر (حیات کی طرف) واپس ہوں گے (مقصود استصعاب ہے کہ یہ سخت دشوار ہے) کہنے لگے کہ (اگر ایسا ہوا تو) اس صورت میں یہ واپسی (ہمارے لئے) بڑے خسارہ کی ہوگی (کیونکہ ہم نے تو اس کے لئے کچھ سامان نہیں کیا، مقصود اس سے تمسخر تھا اہل حق کے اس عقیدہ کے ساتھ، یعنی ان کے عقیدہ پر ہم بڑے خسارہ میں ہوں گے جیسے کوئی شخص کسی کو خیر خواہی سے ڈرائے کہ اس راہ مت جانا شیر ملے گا اور مخاطب تکذیب کے طور پر کسی سے کہے کہ بھائی ادھر مت جانا شیر کھا جاوے گا مطلب یہ کہ وہاں شیر ویر کچھ بھی نہیں ہے۔ آگے استبعاد و استصعاب مذکور کا روہی کہ یہ لوگ جو قیامت کو بعید اور مشکل کہتے ہیں) تو (یہ سمجھ رکھیں کہ ہم کو کچھ مشکل نہیں بلکہ) وہ بس ایک ہی سخت آواز ہوگی جس سے سب لوگ فوراً ہی میدان میں آموجود ہوں گے (آگے مکذبین کی تخویف اور تکذیب پر آپ کی تسلی کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ فرعون کیساتھ بیان کیا جاتا ہے، پس فرماے ت ہیں کہ) کیا آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ پہنچا ہے جبکہ ان کو ان کے پروردگار نے ایک پاک میدان یعنی طویٰ میں (یہ اس کا نام ہے) پکارا کہ تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی شرارت اختیار کی ہے سو اس سے (جا کر) کہو کہ کیا تجھ کو اس بات کی خواہش ہے کہ تو درست ہوجاوے، اور (تیری درستی کی غرض سے) میں تجھ کو تیرے رب کی طرف (ذات وصفات کی) رہنمائی کروں تو تو (ذات وصفات کو سن کر اس سے) ڈرنے لگے اور اس ڈر سے درستی ہوجاوے، غرض یہ حکم سن کر موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس گئے اور جا کر پیغام ادا کیا) پھر (جب اس نے دلیل نبوت طلب کی تو) اس کو بڑی نشانی (نبوت کی) دکھلائی (مراد معجزہ عصا ہے یا براوہ جنس مجموعہ عصا وید بیضا ہے) تو اس (فرعون) نے (ان کو) جھٹلایا اور (ان کا) کہنا نہ مانا پھر ( موسیٰ (علیہ السلام) سے) جدا ہو کر (ان کے خلاف) کوشش کرنے لگا اور (لوگوں کو) جمع کیا پھر (ان کے سامنے با آواز بلند تقریر کی اور کہا کہ میں تمہارا رب اعلیٰ ہوں (اعلیٰ قید واقعی کے طور پر کہا پس اصل مقصود انا ربکم ہے اور اعلی صفت مادحہ بڑھا دی اور احترازی نہیں جس سے غیر اعلیٰ دوسرے رب کا ثبوت ہو) سو اللہ تعالیٰ نے اس کو آخرت کے اور دنیا کے عذاب میں پکڑا۔ (دنیوی عذاب تو غرق ہے اور اخروی عذاب حرق یعنی جلنا ہے) بیشک اس (واقعہ) میں ایسے شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جو (اللہ تعالیٰ سے) ڈرے، (آگے قیامت کو بعید یا مشکل سمجھنے کا عقلی جواب ہے یعنی) بھلا تمہارا (دوسری بار) پیدا کرنا (فی نفسہ) زیادہ سخت ہے یا آسمان کا (اور فی نفسہ اس لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نسبت سے تو سب مساوی ہیں اور ظاہر ہے کہ آسمان ہی کا پیدا کرنا زیادہ سخت ہے، پھر جب اس کو پیدا کردیا تو تمہارا پیدا کرنا کیا مشکل ہے، آگے آسمان کے پیدا کرنے کی کیفیت بیان فرماتے ہیں کہ) اللہ نے اس کو بنایا (اس طرح سے کہ) اس کی چھت کو بلند کیا اور اس کو درست بنایا (کہ کہیں اس میں شقوق و فطور، پھٹا ہوا یا جوڑ پیوند تو نہیں) اور اس کی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کو ظاہر کیا (رات اور دن کو آسمان کی طرف اس لئے منسوب کیا کہ رات اور دن آفتاب کے طلوع اور غروب ہوتے ہیں اور آفتاب آسمان سے متعلق ہے) اور اس کے بعد زمین کو بچھایا (اور بچھا کر) اس سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو (اس پر) قائم کردیا تمہاے اور تمہارے مواشی کے فائدہ پہنچانے کے لئے (اصل استدلال خلق سماء سے تھا مگر زمین کا ذکر شاید اس لئے کردیا کہ اس کے احوال ہر وقت پیش نظر ہیں اور گو سماء کے برابر نہ سہی لیکن فی نفسہ انسان کی تخلیق سے زمین کی تخلیق بھی اشد ہے پس حاصل استدلال کا یہ ہوا کہ جب ایسی ایسی چیزیں ہم نے بنادیں تو تمہارا دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے آگے بعث کے بعد جو واقعات مجازاة کے متعلق ہوں گے ان کی تفصیل ہے یعنی قیامت کا امکان اور صحت و وقع تو ثابت ہوگیا) سو جب وہ بڑا ہنگامہ آوے گا یعنی جس دن انسان اپنے کئے کو یاد کرے گا اور دیکھنے والوں کے سامنے دوزخ ظاہر کی جاویگی تو (اس روز یہ حالت ہوگی کہ) جس شخص نے (حق سے) سرکشی کی ہوگی اور (آخرت کا منکر ہو کر اس پر) دنیوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی سو دوزخ اس کا ٹھکانا ہوگا اور جو شخص (دنیا میں) اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا ہوگا (کہ قیامت اور آخرت اور حساب کتاب پر اس کا ایمان مکمل ہو) اور نفس کو (حرام) خواہش سے روکا (یعنی) اعتقاد صحیح کے ساتھ عمل صالح بھی کیا) ہوگا سو جنت اس کا ٹھکانا ہوگا (اور عمل صالح طریق جنت ہے موقوف علیہ نہیں، چونکہ افکار بقصد انکار قیامت کے اس کا وقت پوچھا کرتے تھے آگے اس کا جواب ہے یعنی) یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا (سو) اس کے بیان کرنے سے آپ کا کیا تعلق (کیونکہ بیان کا موقوف علیہ علم ہے اور قیامت کا معین وقت ہم نے کسی کو بتلایا نہیں بلکہ) اس (کے علم کی تعیین) کا مدار صرف آپ کے رب کی طرف ہے (اور) آپ تو صرف (اخبار اجمالی سے) ایسے شخص کے ڈرانے والے ہیں جو اس سے ڈرتا ہو (اور ڈر کر ایمان لانے والا ہو اور یہ لوگ جو جلدی مچا رہے ہیں تو سمجھ لیں کہ) جس روز یہ اس کو دیکھیں گے تو (ان کو) ایسا معلوم ہوگا کہ گویا (دنیا میں) صرف ایک دن کے آخری حصہ میں یا اس کے اول حصہ میں رہے ہیں (بس یعنی دنیا کی مدت طویلہ قصیر معلوم ہوگی اور سمجھیں گے کہ عذاب بڑی جلدی آ گیا جس کی یہ استدعا کرتے ہیں حاصل یہ کہ جلد بازی کیوں کرتے ہو وقوع کے وقت اس کو یہی سمجھو گے کہ بڑی جلد ہوگیا جس دیر کو اب دیر سمجھ رہے ہو یہ دیر معلوم نہ ہوگی۔ ) - معارف ومسائل - وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا، نازعات، نزع سے مشتق ہے جس کے معنے کسی چیز کو کھینچ کر نکالنے کے آتے ہیں، اور غرقا اس تاکید ہے کیونکہ غرق اور اغراق کے معنے کسی کام میں پوری قوت شدت خرچ کرنے کے ہیں۔ محاورہ میں کہا جاتا ہے اغرق النازع فی القوس یعنی کمان کھینچنے والے نے اس کے کھینچنے میں اپنی پوری قوت خرچ کردی اس سورة کے شروع میں ملائکہ کی چند صفات اور حالات بیان کرکے انکی قسم کھائی گئی ہے اور جواب قسم بدلالت حال حذف کردیا گیا، مراد اس سے قیامت اور حشر و نشر کا یقیناً واقع ہونا ہے۔ فرشتوں کی قسم شاید اس مناسبت سے کھائی گئی ہے کہ اگرچہ فرشتے اس وقت بھی تمام عالم کے نظم و نسق میں دخل رکھتے اور اپنی اپنی خدمت بجالاتے ہیں لیکن قیامت کے روز اسباب مادیہ کے سب رشتے ٹوٹ جائیں گے غیر معمولی حالات و واقعات پیش آویں گے، ان واقعات میں فرشتے ہی کام کریں گے۔ فرشتوں کی اس جگہ پانچ صفات وہ بیان کی گئی ہیں جن کا تعلق انسان کی موت اور نزع روح سے ہے مقصد تو قیامت کا حق ہونا بیان کرنا ہے، شروع اس کا انسان کی موت سے کیا گیا کہ ہر انسان کی موت خود اسکے لئے ایک جزوی قیامت ہے اور قیامت کے اعتقاد میں اس کا بڑا دخل ہے۔ ان پانچ صفات میں سے پہلی صفت النّٰزِعٰتِ غَرْقًا، یعنی سختی کے ساتھ کھینچ کر نکالنے والے، مراد اس سے وہ عذاب کے فرشتے ہیں جو کافر کی روح سختی کے ساتھ نکالتے ہیں، مراد اس سختی سے روحانی سختی اور تکلیف ہے یہ ضروری نہیں کہ دیکھنے والوں کو بھی اس سختی کا احساس ہو اسی لئے بسا اوقات یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کافر کی روح بظاہر آسانی سنے نکلتی ہے مگر یہ آسانی ہمارے دیکھنے میں ہے جو سختی اس کی روح پر ہو رہی ہے اس کو کون دیکھ سکتا ہے وہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی خبر دینے سے معلوم ہوسکتی ہے۔ اس لئے اس جملے میں یہ خبر دے دی گئی ہے کہ کفار کی روح کو کھنچ کر سختی سے نکالا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا۝ ١ - نزع - نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین 26] .- ( ن زع ) نزع - ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے - غرق - الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] ،- ( غ ر ق ) الغرق - پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٤) قسم ہے ان فرشتوں کی جو کافروں کی جان سختی سے نکالتے ہیں، اور قسم ہے ان فرشتوں کہ جو کہ کافروں کی جانوں پر سختیاں کرتے ہیں، یا یہ مطلب ہے کہ جو مسلمانوں کی روح آسانی سے نکالتے ہیں اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو کہ نرمی کے ساتھ صالحین کی روحوں کو نکالتے ہیں، اور پھر ان کے آرام کے مقام پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو کہ مومنین کی ارواح کو جنت کی طرف اور کفار کی روحوں کو دوزخ کی طرف تیزی کے ساتھ لے جاتے ہیں، یا یہ کہ اس سے مراد مسلمانوں کی روحیں ہیں جو خودبخود تیزی کے ساتھ جنت کی طرف جاتی ہیں۔- اور پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو کہ بندوں کے تمام کاموں کی نگرانی کرتے ہیں یعنی جبریل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت۔ اور کہا گیا ہے کہ فالمدبرات امرا سے فرشتے مراد ہیں اور ان کے علاوہ جن چیزوں کی قسمیں کھائی گئی ہیں۔ ان سے ستارے مراد ہیں اور روایت کیا گیا ہے کہ والنّٰزِعٰتِ غَرْقًا سے مراد غازیوں کی تیر کمانیں ہیں اور وّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا سے مراد ان کے تیر کے نشانے ہیں اور وّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا سے مراد غازیوں کی کشتیاں ہیں اور فالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا سے مراد غازیوں کے گھوڑے ہیں اور فالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا اس سے مراد غازیوں کے سپہ سالار ہیں یا یہ کہ وّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا سے مراد چاند، سورج اور دن رات ہیں۔- شان نزول : قَالُوْا تِلْكَ اِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ (الخ)- سعید بن منصور نے محمد بن کعب سے روایت ہے کہ جس وقت ءَاِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِي الْحَافِرَةِ یہ آیت نازل ہوئی تو کفار قریش بولے کہ اگر ہم مرنے کے بعد پھر زندہ کیے گئے تو ہم تو بڑے خسارہ میں رہیں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی تِلْكَ اِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا ۔ ” قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو غوطہ لگا کر کھینچتے ہیں۔ “- نزع کے معنی سختی سے کھینچنے کے ہیں۔ یعنی ان فرشتوں کی قسم جو انسان کے وجود کی گہرائی میں اتر کر بڑی سختی اور شدت سے اس کی جان کو کھینچ نکالتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: قرآنِ کریم میں اصل لفظ صرف اتنا ہے کہ ’’قسم اُن کی جو سختی سے کھینچتے ہیں‘‘ لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے اس کی تفسیر میں یہ فرمایا ہے کہ اس سے مراد رُوح قبض کرنے والے فرشتے ہیں جو کسی کی (اور عام طور سے کافروں کی) رُوح کو سختی سے کھینچتے ہیں، اور کسی کی (اور عام طور سے مومنوں کی) روح کو آسانی سے اس طرح کھینچ لیتے ہیں جیسے کوئی گرہ کھول دی ہو۔ پھر وہ ان رُوحوں کو لے کر تیرتے ہوئے جاتے ہیں، اور جلدی جلدی اُن کی منزل پر پہنچا کر ان احکام کے مطابق اُن کا انتظام کرتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے اُن کے بارے میں دئیے ہوئے ہوتے ہیں۔ پہلی چار آیتوں کا یہی مطلب ہے۔ ان فرشتوں کی قسم کھا کر اﷲ تعالیٰ نے قیامت کے حالات بیان فرمائے ہیں کہ جب وہ آئے گی تو بہت سے دل لرز رہے ہوں گے۔ پیچھے گذر چکا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنی بات کا یقین دلانے کے لئے قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن عربی بلاغت کے قاعدے سے بات میں زور پیدا کرنے کے لئے قسمیں کھائی گئی ہیں اور عام طور سے جس چیز کی قسم کھائی جاتی ہے، وہ اُس دعوے پر گواہ ہوتی ہے جو بعد میں بیان ہورہا ہے۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ فرشتے اس بات کے گواہ ہیں کہ جس طرح اﷲ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے رُوح قبض فرماتا ہے، اُسی طرح فرشتوں سے صور پھنکوا کر اُنہیں دوبارہ زندہ بھی کرسکتا ہے۔