Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 نَشْط کے معنی گرہ کھول دینا، یعنی مومنوں کی جان فرشتے بہ سہولت سے نکالتے ہیں جیسے کسی چیز کی گرہ کھول دی جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] نشط کا لغوی مفہوم :۔ نشط لغت اضداد سے ہے نشط الحبل بمعنی رسی کو گرہ لگائی۔ اور نَشَطَ الْعُقْدَۃُ بمعنی گرہ کو مضبوط کیا اور النَّشُوْطُ بمعنی آسانی سے کھل جانے والی گرہ۔ گویا نشط کا معنی گرہ لگانا بھی ہے اور گرہ کھولنا بھی۔ یعنی اللہ نے جب انسان کو بنایا یا پیدا کیا تو ایک ایک جوڑ اور بند کو مضبوط کیا تھا۔ موت کے وقت فرشتے انہیں جوڑوں کے بند کھول کر انہیں ڈھیلا کردیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری صفت ہے وّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا، نشطات نشط سے متعلق ہے جس کے معنے بندھن کھول دینے کے ہیں۔ جس چیز میں پانی یا ہوا وغیرہ بھری ہوں اس کا بندھن کھول دینے سے وہ پانی وغیرہ آسانی کیساتھ نکل جاتا ہے۔ اس میں مومن کی روح نکلنے کو اس سے تشبیہ دے کر بتلایا ہے کہ جو فرشتے مومن کی قبض روح پر مقرر ہیں وہ آسانی سے اس کو قبض کرتے ہیں شدت نہیں کرتے، یہاں بھی آسانی روحانی مراد ہے جسمانی نہیں اس لئے کسی مسلمان بلکہ مرد صالح کو بوقت موت نزع روح میں دیر لگنے سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس پر سختی ہو رہی ہے اگرچہ جسمانی طور پر یہ سختی دیکھی جاتی ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ کافر کو نزع روح کے وقت ہی سے برزخ کا عذاب سامنے آجاتا ہے اس کی روح اس سے گھبرا کر بدن میں چھپنا چاہتی ہے۔ فرشتے کھینچ کر نکالتے ہیں، اور مومن کی روح کے سامنے عالم برزخ کا ثواب، نعمیتیں اور بشارتیں آتی ہیں تو اس کی روح تیزی سے ان کی طرف جانا چاہتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا۝ ٢ ۙ- نشط - قال اللہ تعالی: وَالنَّاشِطاتِ نَشْطاً [ النازعات 2] قيل : أراد بها النّجوم الخارجات من الشَّرْق إلى الغَرْب بسَيْرِ الفَلَك أو السّائِرَاتِ من المغرب إلى المشرق بسَيْرِ أنفسها .- من قولهم : ثور نَاشِطٌ: خارجٌ من أرض إلى أرض، وقیل : الملائكة التي تَنْشِطُ أرواحَ لنَّاسِ ، أي : تَنْزِعُ. وقیل : الملائكةُ التي تَعْقِدُ الأمورَ. من قولهم : نَشَطْتُ العُقْدَةَ ، وتَخْصِيصُ النَّشْطِ ، وهو العَقْدُ الذي يَسْهُلُ حَلُّه تنبيهاً علی سهولةِ الأَمْر عليهم، وبئر أَنْشَاطٌ: قریبةُ القَعْرِ يخرُجُ دَلْوُهَا بجَذْبةٍ واحدةٍ ، والنَّشِيطَةُ : ما يَنْشَطُ الرئيسُ لِأَخْذِهِ قبلَ القِسْمَة . وقیل : النَّشِيطَةُ مِن الإبلِ : أن يَجِدَها الجیشُ فتساقُ من غير أن يُحْدَى لها، ويقال : نَشَطَتْهُ الحَيَّةُ : نَهَشَتْهُ.- ( ن ش ط ) النشط ( ض ) کے اصل معنی گرہ کھولنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِطاتِ نَشْطاً [ النازعات 2] اور ان کی جو آسانی سے کھول دیتے ہیں ۔ میں بعص نے کہا ہے کہ ناشطات سے مراد ستارے ہیں جو مشرق سے نکل کر حرکت فلک سے مغرب کی طرف جاتے ہیں ۔ یا خود مشرق سے مغرب کو چلتے ہیں اور یہ نور ناشط کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ایک علاقہ سے نکل کر دوسرے علاقہ میں جانے والے بیل کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ناشطات سے مراد وہ فرشتے ہیں جو امور کو طے کرتے ہیں ۔ اور یہ نشطت العقدۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گرہ نگالنے کے ہیں اور یہاں خاص کر نشط کے لفظ سے جس کے معنی آسانی سے کھلنے والی گرہ کے ہیں ۔ اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ فرشتے نہایت آسانی سے ان امور کو سر انجام دے رہے ہیں جن کہ وہ مامور ہیں ۔ بئر انشاط کم گہرا کنواں جس سے پانی کا ڈول ایک ہی جھٹکے میں باہر آجائے ۔ النشیطۃ اس مال کو کہتے ہیں جو رئیس قوم تقسیم غنیمت سے قبل اپنے لئے مخصوص کرلیتا ہے بعض نے کہا ہے کہ نشیطۃ ان اونٹوں کو کہا جاتا ہے جو بلا قصد ہاتھ لگ جائیں اور حدی خواں کے بغیر ہی نشاط سے چلتے ہوں ۔ نشطۃ الحیۃ اسے سانپ نے کاٹ کھایا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا ۔ ” اور ان (فرشتوں) کی قسم جو گرہیں کھولتے ہیں آسانی سے۔ “- یہ بھی انسان کی جان قبض ہونے کی ہی ایک کیفیت کا ذکر ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ جب فرشتہ بندئہ مومن کی جان قبض کرتا ہے تو اسے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے مشک کے بند منہ سے پانی کا ایک قطرہ ٹپک گیا ہے اور جب وہ کسی کافر کی جان قبض کرتا ہے تو اسے ایسی سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے سیخ پر سے کباب کھینچا جا رہا ہے (اَعاَذنَا اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ ) ۔ بہرحال یہاں یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان دونوں کیفیات کا تعلق انسان کی روح سے ہے ‘ اس کے ظاہری جسم سے نہیں۔ جسمانی طور پر تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے نیک بندوں پر بھی نزع کا وقت سخت انداز میں وارد ہوتا ہے۔ اس معاملے میں ظاہری تکلیف تو خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی طاری ہوئی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکلیف کو دیکھ کر بار بار روتی تھیں اور ان (رض) کے منہ سے بےاختیار یا ابتاہ یا ابتاہ (ہائے میرے ابا جان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ تکلیف ) کے الفاظ نکلتے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر فرماتے کہ بیٹی آج کے بعد تیرے باپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کوئی سختی نہیں ہے۔ فداہ آبائنا وامھاتنا

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani