3۔ 1 سَبْح کے معنی تیرنا، فرشتے روح نکالنے کے لئے انسان کے بدن میں اس طرح تیرتے پھرتے ہیں جیسے سمندر سے موتی نکالنے کے لئے سمندر کی گہرائیوں میں تیرتے ہیں یا مطلب ہے کہ نہایت تیزی سے اللہ کا حکم لے کر آسمان سے اترتے ہیں۔
[٣] سَبَحَ بمعنی کسی چیز کا پانی یا ہوا میں تیرنا اور تیز رفتاری سے گزر جانا۔ اور سباّح بمعنی ماہر تیراک۔ یعنی وہ فرشتہ جو روح کو نکال کر زمین سے آسمان کی طرف اس قدر سرعت و سہولت سے چلتے ہیں گویا بےروک ٹوک ہوا میں تیرتے جارہے ہیں۔
والسبحت سبحاً …:” سبح یسبح سبحاً “ (ف) تیرنا۔ ” السبحت “ تیرنے والے ” سبحاً “ مصدر تاکید کیلئے ہے، ترجمہ میں یہ مفہوم ” خوب تیزی سے “ کے الفاظ سے ادا کیا گیا ہے۔ مراد وہ فرشتے ہیں جو احکام الٰہی کی تعمیل کے لئے تیزی سے آسمان میں تیرتے ہوئے جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔
تیسری صف فرشتوں کی وّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا ہے۔ سبح کے لغوی معنی تیرنے کے آتے ہیں، مراد اس جگہ تیزی سے چلنا ہے جیسے دریا میں کوئی آڑ پہاڑ نہیں ہوتا، تیرنے والا یا کشتی وغیرہ میں چلنے والا سیدھا اپنی منزل مقصود کی طرف جاتا ہے فرشتوں کی یہ صفت کہ تیز جانے والے ہیں یہ بھی ملائکہ موت سے متعلق ہے کہ انسان کی روح قبض کرنے کے بعد اس کو تیزی سے آسمان کی طرف لیجاتے ہیں۔
وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا ٣ ۙ- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے
آیت ٣ وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا ۔ ” اور ان (فرشتوں) کی قسم جو تیزی سے تیرتے ہوئے جاتے ہیں۔ “- فرشتے تیرتے ہوئے ان ارواح کو لے کر کہاں جاتے ہیں اور انہیں کہاں رکھا جاتا ہے ؟ اس بارے میں وضاحت آگے سورة المُطفِّفین میں آئے گی۔