4۔ 1 یہ فرشتے اللہ کی وحی، انبیاء تک، دوڑ کر پہنچاتے ہیں تاکہ شیطان کو اس کی کوئی خبر نہ لگے۔ یا مومنوں کی روحیں جنت کی طرف لے جانے میں نہایت سرعت سے کام لیتے ہیں۔
[٤] پھر ان ارواح کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے جیسا حکم صادر ہوتا ہے اس کی بجاآوری کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
چوتھی صفت فالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا ہے مراد یہ ہے کہ پھر یہ روح جو فرشتوں کے قبضہ میں ہے اس کو اس کے اچھے یا برے ٹھکانے پر پہنچانے میں سبقت اور عجلت سے کام لیتے ہیں۔ مومن کی روح کو جنت کی ہواؤں اور نعمتوں کی جگہ میں کافر کی روح کو دوزخ کی ہواؤں اور عذابوں کی جگہ میں پہنچا دیتے ہیں۔
فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا ٤ ۙ- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔