5۔ 1 یعنی اللہ تعالیٰ جو کام سپرد کرتا ہے، وہ اس کی تدبیر کرتے ہیں اصل مدبر تو اللہ ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ کے تحت فرشتوں کے ذریعے سے کام کرواتا ہے تو انہیں بھی مدبر کہا جاتا ہے۔
[٥] پھر ارواح کے متعلق فرشتوں کو جو حکم ملتا ہے خواہ وہ حکم ثواب کا ہو یا عذاب کا۔ اس پر فوراً عمل درآمد کی تدبیر کرتے ہیں۔ اور اگر الفاظ کی عمومیت کا لحاظ رکھا جائے تو ان سے مراد وہ تمام فرشتے ہیں جو تدبیر امور کائنات پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں۔
(فالمدبرت امراً : پھر دین و دنیا کے جس کام کا انہیں حکم دیا ہوتا ہے اس کی تدبیر کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں جن چیزں کی قسم کھائی گئی ہے یا تو ان کی ندرت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے یا انہیں بعد میں آنے والے جواب قسم کی شہادت کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ یہاں جواب قسم صاف لفظوں میں مذکور نہیں مگر قیامت کے احوال ذکر کرنے سے خود بخود سمجھ آرہا ہے کہ یہ قسمیں اس بات کا یقین دلانے کے لئے کھائی گئی ہیں کہ قیامت قائم ہو کر رہے گی۔ اہل عرب فرشتوں کا اللہ کی طرف سے قبض ارواح اور دوسرے معاملات کی تدبیر پر مامور ہونا مانتے تھے۔ فرشتوں کے یہ اوصاف ذکر کر کے ان کی قسم اس بنا پر کھائی گی ہے کہ فرشتے جس اللہ کے حکم سے روح قبض کرسکتے ہیں، نہایت تیزی سے کائنات میں نقل و حرکت کرسکتے ہیں اور کائنات کے معاملات کی تدبیر کرس کتے ہیں، اسی اللہ کے حکم سے صور میں پھونک کر اس کائنات کو فنا بھی کرسکتے ہیں اور دوبارہ پھونک کر از سر نو زندہ بھی کرسکتے ہیں۔
پانچویں صفت فالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا ہے۔ امر الٰہی کی تدبیر و تنفیذ کرنے والے یعنی ان ملائکہ موت کا آخری کام یہ ہوگا کہ جس روح کو ثواب اور راحت دینے کا حکم ہوگا اس کے لئے راحت کے سامان جمع کردیں اور جس کو عذاب اور تکلیف میں ڈالنے کا حکم ہوگا اس کے لئے اس کا انتظام کردیں۔ قبر میں ثواب وعذاب - موت کے وقت فرشتوں کا آنا اور انسان کی روح قبض کرکے آسمان کی طرف لیجانا پھر اسکے اچھے یا برے ٹھکانے پر جلدی سے پہنچا دینا اور وہاں ثواب یا عذاب، تکلیف یا راحت کے انتظامات کردینا ان آیات مذکورہ سے ثابت ہوگیا۔ یہ عذاب وثواب قبر یعنی برزخ میں ہوگا۔ حشر کا عذاب وثواب اس کے بعد ہے احادیث صحیحہ میں اس کی بڑی تفصیلات مذکور ہیں۔ حضرت برا بن عازب کی ایک طویل حدیث مشکوة میں بحوالہ مسند احمد مذکور ہے۔- نفس اور روح کے متعلق حضرت قاضی ثناء اللہ (رح) کی تحقیق مفید - تفسیر مظہری کے حوالہ سے نفس و روح کی حقیقت پر کچھ کلام سورة حجر کی آیت 29 کے تحت گزر چکا ہے۔ اسی سلسلے کی مزید تحقیق و توضیح بیہقی وقت حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی قدس سرہ نے اس جگہ تحریر فرمائی ہے جس سے بہت سے اشکالات حل ہوجاتے ہیں وہ یہ ہے کہ حدیث مذکور سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نفس انسانی ایک جسم لطیف ہے جو اسکے جسم کثیف کے اندر سمایا ہوا ہے اور وہ انہیں مادی عناصر اربعہ سے بنا ہے۔ فلاسفہ اور اطبا اسی کو روح کہتے ہیں مگر درحقیقت روح انسانی ایک جوہر مجرد اور لطیفہ ربانی ہے جو اس طبعی روح یعنی نفس کیساتھ ایک خاص تعلق رکھتا ہے اور طبعی روح یعنی نفس کی حیات خود اس لطیفہ ربانی پر موقوف ہے گکویا اس کی روح الروح کہہ سکتے ہیں کہ جسم کی زندگی نفس سے ہے اور نفس کی زندگی اس روح سے وابستہ ہے اس روح مجرد اور لطیفہ ربانیہ کا تعلق اسی جسم لطیف یعنی نفس کیساتھ کیا اور کس طرح کا ہے اس کی حقیقت کا علم انکے پیدا کرنے والے کے سوا کسی کو نہیں، اور یہ جسم لطیف جسکا نام نفس ہے اس کو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ایک آئینہ کی مثال بنایا ہے جو آفتاب کے بالمقابل رکھدیا گیا ہو تو آفتاب کی روشنی اس میں ایسی آجاتی ہے کہ یہ خود آفتاب کی طرح روشنی پھیلاتا ہے۔ نفس انسانی اگر تعلیم وحی کے مطابق ریاضت و محنت کرلیتا ہے تو وہ بھی منور ہوجاتا ہے ورنہ وہ جسم کثیف کے خراب اثرات میں ملوث ہوتا ہے یہی جسم لطیف ہے جس کو فرشتے اوپر لیجاتے ہیں اور پھر اعزاز کے ساتھ نیچے لاتے ہیں جبکہ وہ منور ہوچکا ہو، ورنہ آسمان کے دروازے اسکے لئے نہیں کھلتے، اوپر ہی سے نیچے پٹخ دیا جاتا ہے۔ یہی جسم لطیف ہے جس کے بارے میں حدیث مذکور میں ہے کہ ہم نے اس کو زمین کی مٹی سے پیدا کیا، پھر اس میں لوٹائیں گے پھر اسی سے دوبارہ پیدا کریں گے، یہی جسم لطیف اعمال صاحلہ سے منور اور خوشبودار بنجاتا ہے اور کفر و شرک سے بدبودار ہوجاتا ہے۔ باقی روح مجرد اس کا تعلق جسم کثیف کے ساتھ بواسطہ جسم لطیف یعنی نفس کے ہوتا ہے اس پر موت طاری نہیں ہوتی، قبر کا عذاب وثواب بھی اسی جسم لطیف یعنی نفس سے وابستہ ہے اور اس نفس کا تعلق قبر سے ہی رہتا ہے اور روح مجرد علیین میں ہوتی ہے اور روح مجرد اسکے ثواب و عذاب سے بالواسطہ متاثر ہوتی ہے۔ اس طرح روح کا قبر میں ہونا بمعنے نفس کے صحیح ہے اور اس کا عالم ارواح یا علین میں رہنا بمعنے روح مجرد صحیح ہے اس سے ان روایات مختلفہ کی تطبیق بھی ہوجاتی ہے، واللہ اعلم۔ آگے قیامت کے وقوع اور اس میں پہلے نفخ صور سے سارے عالم کی فنا پھر دوسرے سے سارے عالم کی دوبارہ ایجاد اور اس پر کفار کے شبہ استبعاد کا جواب مذکور ہے اس کے آخر میں فرمایا فَاِذَا هُمْ بالسَّاهِرَةِ ساہرہ سطح زمین کو کہا جاتا ہے۔ قیامت میں جو زمین دوبارہ پیدا کی جاوے گی وہ پوری ایک سطح مستوی ہوگی۔ اس میں آڑ پہاڑ عمارت یا غار نہیں ہوگا، اسی کو ساہرہ کہا گیا ہے۔ اس کے بعد کفار منکرین قیامت کی ضد اور عناد سے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچتی تھی اس کا ازالہ فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرکے کیا گیا ہے کہ مخالفین سے ایسی ایذا میں کچھ آپ کے لئے مخصوص نہیں، انبیا سابقین کو بھی بڑی بڑی ایذائیں ان سے پہنچی ہیں، انہوں نے صبر کیا، آپ بھی صبر سے کام لیں۔
فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا ٥ ۘ- دبر - والتدبیرُ : التفکّر في دبر الأمور، قال تعالی: فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً- [ النازعات 5] ، يعني : ملائكة موكّلة بتدبیر أمور،- ( د ب ر ) دبر ۔- التدبیر ( تفعیل ) کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے اس میں غور و فکر کرنا قرآن میں ہے :۔ فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے ) کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ یعنی وہ فرشتے جو امور دینوی کے انتظام کیلئے مقرر ہیں ۔ - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے
آیت ٥ فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا ۔ ” پھر (حسب حکم) معاملات کی تدبیر کرتے ہیں۔ “- یعنی ہر مرنے والے کی روح کو فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سِجِّین یا عِلِّیّین میں لے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان قسموں کا جواب یا مقسم علیہ چونکہ محذوف ہے ‘ اس لیے ان قسموں کا مقسم علیہ بھی وہی تصور ہوگا جو سورة الذاریات اور سورة المرسلات میں مذکور ہے۔ یعنی : اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ - وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ ۔ (الذّٰرِیٰت) ” جو وعدہ تمہیں دیا جا رہا ہے وہ یقینا سچ ہے۔ اور جزا و سزا ضرور واقع ہو کر رہے گی “۔ اور اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَـوَاقِعٌ ۔ (المرسلٰت) ” جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ یقینا واقع ہو کر رہے گی۔ “
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :1 یہاں پانچ اوصاف رکھنے والی ہستیوں کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اس کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ لیکن بعد کا مضمون اس امر پر خود دلالت کرتا ہے کہ یہ قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کی قیامت ضرور آئے گی اور تمام مرے ہوئے انسان ضرور از سر نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ۔ اس کی وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ یہ پانچ اوصاف کن ہستیوں کے ہیں ، لیکن صحابہ اور تابعین کی بڑی تعداد نے اور اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس ، مسروق ، سعید بن حبیر ، ابو صالح ، ابوالضحیٰ اور سدی ( رضی اللہ عنہم ) کہتے ہیں کہ ڈوب کر کھینچنے والوں اور آہستگی سے نکال لے جانے والے سے مراد وہ فرشتے ہیں جو موت کے وقت انسان کی جان کو اس کے جسم کی گہرائیوں تک اتر کر اور اس کی رگ رگ سے کھینچ کر نکالتے ہیں ۔ تیزی سے تیرتے پھرنے والوں سے مراد بھی حضرت علی ، حضرت ابن مسعود ، مجاہد ، سعید بن حبیر اور ابوصالح ( رضی اللہ عنہم ) نے فرشتے ہی لیے ہیں جو احکام الہی کی تعمیل میں اس طرح تیزی سے رواں دواں رہتے ہیں جیسے کہ وہ فضا میں تیر رہے ہوں ۔ یہی مفہوم سبقت کرنے والوں کا حضرت علی ، مجاہد ، ابوصالح ، اور حسن بصری ( رضی اللہ عنہم ) نے لیا ہے اور سبقت کرنے سے مراد یہ ہے کہ حکم الہی کا اشارہ پاتے ہی ان میں سے ہر ایک اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑتا ہے ۔ معاملات کا انتظام چلانے والوں سے مراد بھی فرشتے ہیں ، جیسا کہ حضرت علی ، مجاہد ، عطاء ، ابو صالح ، حسن بصری ، قتادہ ، ربیع بن انس ، اور سدی ( رضی اللہ عنہم ) سے منقول ہے ۔ بالفاظ دیگر یہ سلطنت کائنات کے وہ کارکن ہیں جن کے ہاتھوں دنیا کا سارا انتظام اللہ تعالی کے حکم کے مطابق چل رہا ہے ۔ ان آیات کے یہ معنی اگرچہ کسی صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہوئے ہیں ، لیکن چند اکابر صحابہ نے ، ان تابعین نے جو صحابہ کے شاگرد تھے ، جب ان کا یہ مطلب بیان کیا ہے تو گمان یہی ہوتا ہے کہ یہ علم حضور ہی سے حاصل کیا گیا ہو گا ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقوع قیامت اور حیات بعد الموت پر ان فرشتوں کی قسم کس بنا پر کھائی گئی ہے جبکہ یہ خود بھی اسی طرح غیر محسوس ہیں جس طرح وہ چیز غیر محسوس ہے جس کے واقع ہونے پر ان کو بطور شہادت اور بطور استدلال پیش کیا گیا ہے ۔ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے ، واللہ اعلم ، کہ اہل عرب فرشتوں کی ہستی کے منکر نہ تھے ۔ وہ خود اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ موت کے وقت انسان کی جان فرشتے ہی نکالتے ہیں ۔ ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ فرشتوں کی حرکت انتہائی تیز ہے ، زمین سے آسمان تک آناً فاناً وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں اور ہر کام جس کا انہیں حکم دیا جائے بلا تاخیر انجام دیتے ہیں ۔ وہ یہ بھی مانتے تھے کہ یہ فرشتے حکم الہی کے تابع ہیں اور کائنات کا انتظام اللہ تعالی ہی کے امر سے چلاتے ہیں خود مختار اور اپنی مرضی کے مالک نہیں ہیں ۔ جہالت کی بنا پر وہ ان کو اللہ کی بیٹیاں ضرور کہتے تھے اور ان کو معبود بھی بنائے ہوئے تھے ، لیکن ان کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ اصل اختیارات انہی کے ہاتھ میں ہیں ۔ اس لیے یہاں وقوع قیامت اور حیات بعد الموت پر ان کے مذکورہ بالا اوصاف سے استدلال اس بنا پر کیا گیا ہے کہ جس خدا کے حکم سے فرشتے تمہاری جان نکالتے ہیں اسی کے حکم سے وہ دوبارہ جان ڈال بھی سکتے ہیں ۔ اور جس خدا کے حکم سے وہ کائنات کا انتظام چلا رہے ہیں اسی کے حکم سے جب بھی اس کا حکم ہو ، اس کائنات کو وہ درہم برہم بھی کر سکتے ہیں ، اور ایک دوسری دنیا بنا بھی سکتے ہیں ۔ اس کے حکم کی تعمیل میں ان کی طرف سے ذرہ برابر بھی سستی یا لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں ہو سکتی ۔