Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بخاری شریف میں ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سورہ انفال غزوہ بدر کے بارے میں اتری ہے ۔ فرماتے ہیں انفال سے مراد غنیمتیں ہیں جو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہی تھیں ان میں سے کوئی چیز کسی اور کیلئے نہ تھی ۔ آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا گھوڑا بھی انفال میں سے ہے اور سامان بھی ۔ سائل نے پھر پوچھا آپ نے پھر یہی جواب دیا اس نے پھر پوچھا کہ جس انفال کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اس سے کیا مراد ہے؟ غرض پوچھتے پوچھتے آپ کو تنگ کر دیا تو آپ نے فرمایا اس کا یہ کرتوت اس سے کم نہیں جسے حضرت عمر نے مارا تھا ۔ حضرت فاروق اعظم سے جب سوال ہوتا تو آپ فرماتے نہ تجھے حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں ، ابن عباس فرماتے ہیں واللہ حق تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے والا حکم فرمانے والا حلال حرام کی وضاحت کرنے والا ہی بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ نے اس سائل کو جواب دیا کہ کسی کسی کو بطور نفل ( مال غنیمت ) گھوڑا بھی ملتا اور ہتھیار بھی ۔ دو تین دفعہ اس نے یہی سوال کیا جس سے آپ غضبناک ہوگئے اور فرمانے لگے یہ تو ایسا ہی شخص ہے جسے حضرت عمر نے کوڑے لگائے تھے یہاں تک کہ اس کی ایڑیاں اور ٹخنے خون آلود ہوگئے تھے ۔ اس پر سائل کہنے لگا کہ خیر آپ سے تو اللہ نے عمر کا بدلہ لے ہی لیا ۔ الغرض ابن عباس کے نزدیک تو یہاں نفل سے مراد پانچویں حصے کے علاوہ وہ انعامی چیزیں ہیں جو امام اپنے سپاہیوں کو عطا فرمائے ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پانچویں حصے کا مسئلہ پوچھا جو چار ایسے ہی حصوں کے بعد رہ جائے ۔ پس یہ آیت اتری ۔ ابن مسعود وغیرہ فرماتے ہیں لڑائی والے دن اس سے زیادہ امام نہیں دے سکتا بلکہ لڑائی کے شروع سے پہلے اگر چاہے دے دے ۔ عطا فرماتے ہیں کہ یہاں مراد مشرکوں کا وہ مال ہے جو بےلڑے بھڑے مل جائے خواہ جانور ہو خواہ لونڈی غلام یا اسباب ہو پس وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہی تھا آپ کو اختیار تھا کہ جس کام میں چاہیں لگا لیں تو گویا ان کے نزدیک مال فے انفال ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد لشکر کے کسی رسالے کو بعوض ان کی کارکردگی یا حوصلہ افزائی کے امام انہیں عام تقسیم سے کچھ زیادہ دے اسے انفال کہا جاتا ہے ۔ مسند احمد میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ بدر والے دن جب میرے بھائی عمیر قتل کئے گئے میں نے سعید بن عاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار لے لی جسے ذوالکتیعہ کہا جاتا تھا سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا جاؤ اسے باقی مال کے ساتھ رکھ آؤ ۔ میں نے حکم کی تعمیل تو کر لی لیکن اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس وقت میرے دل پر کیا گذری ۔ ایک طرف بھائی کق قتل کا صدمہ دوسری طرف اپنا حاصل کردہ سامان واپس ہونے کا صدمہ ۔ ابھی میں چند قدم ہی چلا ہوں گا جو سورہ انفال نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا جاؤ اور وہ تلوار جو تم ڈال آئے ہو لے جاؤ ۔ مسند میں حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکوں سے بچا لیا اب آپ یہ تلوار مجھے دے دیجئے آپ نے فرمایا سنو نہ یہ تمہاری ہے نہ میری ہے ۔ اسے بیت المال میں داخل کر دو میں نے رکھ دی اور میرے دل میں خیال آیا کہ آج جس نے مجھ جیسی محنت نہیں کی اسے یہ انعام مل جائے گا یہ کہتا ہوا جا ہی رہا تھا جو آواز آئی کہ کوئی میرا نام لے کر میرے پیچھے سے مجھے پکار رہا ہے لوٹا اور پوچھا کہ حضور کہیں میرے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری ؟ آپ نے فرمایا ہاں تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی اس وقت وہ میری نہ تھی اب وہ مجھے دے دی گئی اور میں تمہیں دے رہا ہوں ، پس آیت ( يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۠ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ Ǻ۝ ) 8- الانفال:1 ) اس بارے میں اتری ہے جو ابو داؤد طیالسی میں انہی سے مروی ہے کہ میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں ۔ مجھے بدر والے دن ایک تلوار ملی میں اسے لے کر سرکار رسالت مآب میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ تلوار آپ مجھے عنایت فرمائیے آپ نے فرمایا جاؤ جہاں سے لی ہے وہیں رکھ دو ۔ میں نے پھر طلب کی آپ نے پھر یہی جواب دیا ۔ میں نے پھر مانگی آپ نے پھر یہی فرمایا ۔ اسی وقت یہ آیت اتری ۔ یہ پوری حدیث ہم نے آیت ( وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا ۭ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ Ď۝ ) 29- العنكبوت:8 ) کی تفسیر میں وارد کی ہے ۔ پس ایک تو یہ آیت دوسری آیت ( وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14؀ ) 31- لقمان:14 ) تیسری آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 90؀ ) 5- المآئدہ:90 ) ، چوتھی آیت وصیت ( صحیح مسلم شریف ) سیرت ابن اسحاق میں ہے حضرت ابو سعید مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں مجھے سیف بن عاند کی تلوار ملی جسے مرزبان کہاجاتا تھا ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو وہ جمع کرا دے ، میں بھی گیا اور وہ تلوار رکھ آیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ اگر کوئی آپ سے کچھ مانگتا تو آپ انکار نہ کرتے ۔ حضرت ارقم بن ارقم خزاعی رضی اللہ عنہ نے اس تلوار کو دیکھ کر آپ سے اسی کا سوال کیا آپ نے انہیں عطا فرما دی ۔ اس آیت کے نزول کا سبب مسند امام احمد میں ہے کہ حضرت ابو امامہ نے حضرت عبادہ سے انفال کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا ہم بدریوں کے بارے میں ہے جبکہ ہم مال کفار کے بارے میں باہم اختلاف کرنے لگے اور جھگڑے بڑھ گئے تو یہ آیت اتری اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوگئی اور حضور نے اس مال کو برابری سے تقسیم فرمایا ۔ مسند احمد میں ہے کہ ہم غزوہ بدر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی ہماری ایک جماعت نے تو ان کا تعاقب کیا کہ پوری ہزیمت دے دے دوسری جماعت نے مال غنیمت میدان جنگ سے سمیٹنا شروع کیا اور ایک جماعت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد کھڑی ہو گئی کہ کہیں کوئی دشمن آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچائے ۔ رات کو سب لوگ جمع ہوئے اور ہر جماعت اپنا حق اس مال پر جتانے لگی ۔ پہلی جماعت نے کہا دشمنوں کو ہم نے ہی ہرایا ہے ۔ دوسری جماعت نے کہا مال غنیمت ہمارا ہی سمیٹا ہوا ہے ۔ تیسری جماعت نے کہا ہم نے حضور کی چوکیداری کی ہے پس یہ آیت اتری اور حضور نے خود اس مال کو ہم میں تقسیم فرمایا ۔ آپ کی عادت مبارک تھی کہ حملے کی موجودگی میں چوتھائی بانٹتے اور لوٹتے وقت تہائی آپ انفال کو مکروہ سمجھتے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ بدر والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ جو ایسا کرے اسے یہ انعام اور جو ایسا کرے اسے یہ انعام ۔ اب نوجوان تو دوڑ پڑے اور کار نمایاں انجام دیئے ۔ بوڑھوں نے مورچے تھامے اور جھنڈوں تلے رہے ۔ اب جوانوں کا مطالبہ تھا کہ کل مال ہمیں ملنا چاہئے بوڑھے کہتے تھے کہ لشکر گاہ کو ہم نے محفوظ رکھا تم اگر شکست اٹھاتے تو یہیں آتے ۔ اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری ۔ مروی ہے کہ حضور کا اعلان ہو گیا تھا کہ جو کسی کافر کو قتل کرے اسے اتنا ملے گا اور جو کسی کافر کو قید کرے اسے اتنا ملے گا ۔ حضرت ابو الیسر رضی اللہ عنہ دو قیدی پکڑ لائے اور حضرت کو وعدہ یاد دلایا اس پر حضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ پھر تو ہم سب یونہی رہ جائیں گے ۔ بزدلی یا بےطاقتی کی وجہ سے ہم آگے نہ بڑھے ہوں یہ بات نہیں بلکہ اس لئے کہ پچھلی جانب سے کفار نہ آ پڑیں ، حضور کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اس لئے ہم آپ کے ارد گرد رہے ، اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری اور آیت ( وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 41؀ ) 8- الانفال:41 ) بھی اتری ، امام ابو عبید اللہ قاسم بن سلام نے اپنی کتاب احوال الشرعیہ میں لکھا ہے کہ انفال غنیمت ہے اور حربی کافروں کے جو مال مسلمانوں کے قبضے میں آئیں وہ سب ہیں پس انفال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں تھے بدر والے دن بغیر پانچواں حصہ نکالے جس طرح اللہ نے آپ کو سمجھایا آپ نے مجادین میں تقسیم کیا اس کے بعد پانچواں حصہ نکالنے کے حکم کی آیت اتری اور یہ پہلا حکم منسوخ ہو گیا لیکن ابن زید وغیرہ اسے منسوخ نہیں بتلاتے بلکہ محکم کہتے ہیں ۔ انفال غنیمت کی جمع ہے مگر اس میں سے پانجواں حصہ مخصوص ہے ۔ اس کی اہل کیلئے جیسے کہ کتاب اللہ میں حکم ہے اور جیسے کہ سنت رسول اللہ جاری ہوئی ہے ۔ انفال کے معنی کلام عرب میں ہر اس احسان کے ہیں جسے کوئی بغیر کسی پابندی یا وجہ کے دوسرے کے ساتھ کرے ۔ پہلے کی تمام امتوں پر یہ مال حرام تھے اس امت پر اللہ نے رحم فرمایا اور مال غنیمت ان کے لئے حلال کیا ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے حضور فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں پھر ان کے ذکر میں ایک یہ ہے کہ آپ نے فرمایا میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں مجھ سے پہلے کسی کو حلال نہ تھیں ۔ امام ابو عبید فرماتے ہیں کہ امام جن لشکریوں کو کوئی انعام دے جو اس کے مقررہ حصہ کے علاوہ ہو اسے نفل کہتے ہیں غنیمت کے انداز اور اس کے کار نامے کے صلے کے برابر یہ ملتا ہے ۔ اس نفل کی چار صورتیں ہیں ایک تو مقتول کا مال اسباب وغیرہ جس میں سے پانچواں حصہ نہیں نکالا جاتا ۔ دوسرے وہ نفل جو پانچواں حصہ علیحدہ کرنے کے بعد دیا جاتا ہے ۔ مثلاً امام نے کوئی چھوٹا سا لشکر کسی دشمن پر بھیج دیا وہ غنیمت یا مال لے کر پلٹا تو امام اس میں سے اسے چوتھائی یا تہائی بانٹ دے تیسرے صورت یہ کہ جو پانچواں حصہ نکال کر باقی کا تقسیم ہو چکا ہے ، اب امام بقدر خزانہ اور بقدر شخصی جرات کے اس میں سے جسے جتنا چاہے دے ۔ چوتھی صورت یہ کہ امام پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے ہی کسی کو کچھ دے مثلاً چرواہوں کو ، سائیسوں کو ، بہشتیوں کو وغیرہ ۔ پھر ہر صورت میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے جو سامان اسباب مقتولین کا مجاہدین کو دیا جائے وہ انفال میں داخل ہے ، دوسری وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا حصہ پانچویں حصے میں سے پانچواں جو تھا اس میں سے آپ جسے جاہیں جتنا چاہیں عطا فرمائیں یہ نفل ہے ۔ پس امام کو چاہئے کہ دشمنوں کی کثرت مسلمانوں کی قلت اور ایسے ہی ضروری وقتوں میں اس سنت کی تابعیداری کرے ۔ ہاں جب ایسا موقع نہ ہو تو نفل ضروری نہیں ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ امام ایک چھوٹی سی جماعت کہیں بھیجتا ہے اور ان سے کہدیتا ہے کہ جو شخص جو کچھ حاصل کرے پانچواں حصہ نکال کر باقی سب اسی کا ہے تو وہ سب انہی کا ہے کیونکہ انہوں نے اسی شرط پر غزوہ کیا ہے اور یہ رضامندی سے طے ہو چکی ہے ۔ لیکن ان کے اس بیان میں جو کہا گیا ہے کہ بدر کی غنیمت کا پانچواں حصہ نہیں نکالا گیا ۔ اس میں ذرا کلام ہے ۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ دو اونٹنیاں وہ ہیں جو انہیں بدر کے دن پانچویں حصے میں ملی تھیں میں نے اس کا پورا بیان کتاب السیرہ میں کر دیا ہے ۔ فالحمد للہ ۔ تم اپنے کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو ، آپس میں صلح و صفائی رکھو ، ظلم ، جھگڑے اور مخالفت سے باز آ جاؤ ۔ جو ہدایت و علم اللہ کی طرف سے تمہیں ملا ہے اس کی قدر کرو ۔ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو ، عدل و انصاف سے ان مالوں کو تقسیم کرو ۔ پرہیزگاری اور صلاحیت اپنے اندر پیدا کرو ۔ مسند ابو یعلی میں ہے کہ حضور بیٹھے بیٹھے ایک مرتبہ مسکرائے اور پھر ہنس دیئے ۔ حضرت عمر نے دریافت کیا کہ آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ، کیسے ہنس دیئے ؟ آپ نے فرمایا میری امت کے دو شخص اللہ رب العزت کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوگئے ایک نے کہا اللہ میرے بھائی سے میرے ظلم کا بدلہ لے اللہ نے اس سے فرمایا ٹھیک ہے اسے بدلہ دے اس نے کہا اللہ میرے پاس تو نیکیاں اب باقی نہیں رہیں اس نے کہا پھر اللہ میری برائیاں اس پر لا دھ دے ۔ اس وقت حضور کے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے وہ دن بڑا ہی سخت ہے لوگ چاہتے ہوں گے تلاش میں ہوں گے کہ کسی پر ان کا بوجھ لادھ دیا جائے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے طالب اپنی نگاہ اٹھا اور ان جنتیوں کو دیکھ وہ دیکھے گا اور کہے گا چاندی کے قلعے اور سونے کے محل میں دیکھ رہا ہوں جو لؤ لؤ اور موتیوں سے جڑاؤ کئے ہوئے ہیں پروردگار مجھے بتایا جائے کہ یہ مکانات اور یہ درجے کسی نبی کے ہیں یا کسی صدیق کے یا کسی شہید کے ؟ اللہ فرمائے گا یہ اس کے ہیں جو ان کی قیمت ادا کر دے ۔ وہ کہے گا اللہ کس سے ان کی قیمت ادا ہو سکے گی ؟ فرمائے گا تیرے پاس تو اس کی قیمت ہے وہ خوش ہو کر پوچھے گا کہ پروردگار کیا ؟ اللہ فرمائے گا یہی کہ تیرا جو حق اس مسلمان پر ہے تو اسے معاف کر دے ، بہت جلد کہے گا کہ اللہ میں نے معاف کیا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ اب اس کا ہاتھ تھام لے اور تم دونوں جنت میں چلے جاؤ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا آخری حصہ تلاوت فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور آپس کی اصلاح کرو دیکھو اللہ تعالیٰ خود قیامت کے دن مومنوں میں صلح کرائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 اَنْفَا ل، نَفَل، ُ کی جمع ہے جس کے معنی زیادہ کے ہیں، یہ مال و اسباب کو کہا جاتا ہے، جو کافروں کے ساتھ جنگ میں ہاتھ لگے، جسے غنیمت بھی کہا جاتا ہے اس کو (نفل) (زیادہ) اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو پچھلی امتوں پر حرام تھیں۔ یہ گویا امت محمدیہ پر ایک زائد چیز حلال کی گئی ہے اس لئے کہ یہ جہاد کے اجر سے (جو آخرت میں ملے گا) ایک زائد چیز ہے جو بعض دفعہ دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ 1۔ 2 یعنی اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ اللہ کے رسول اللہ کے حکم سے اسے تقسیم فرمائے گا۔ نہ کہ تم آپس میں جس طرح چاہو تقسیم کرلو۔ 1۔ 3 اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں باتوں پر عمل بغیر ایمان مکمل نہیں۔ اس سے تقوٰ ی، اصلاح ذات البین اور اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی اہمیت واضح ہے خاص طور پر مال غنیمت کی تقسیم میں ان تینوں امور پر عمل نہایت ضروری ہے کیونکہ مال کی تقسیم میں باہمی فساد کا بھی شدید اندیشہ رہتا ہے اس کے علاج کے لئے اصلاح ذات البین پر زور دیا۔ ہیرا پھیری اور خیانت کا بھی امکان رہتا ہے اس کے لیے تقوی کا حکم دیا۔ اس کے باوجود بھی کوئی کوتاہی ہوجائے تو اس کا حل اللہ اور رسول کی اطاعت میں مضمر ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] انفال سے مراد کون سے اموال ہیں ؟:۔ اموال زائدہ یا انفال سے مراد وہ اموال ہیں جو کسی کی محنت کا صلہ نہ ہوں بلکہ اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے عطا کئے ہوں اور ان کی کئی اقسام ہیں مثلاً (١) اموال غنیمت جو اگرچہ مجاہدین کی محنت کا صلہ معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اسے اس لیے انفال میں شمار کیا گیا کہ پہلی امتوں پر غنیمت کے اموال حرام تھے۔ ایسے سب اموال ایک میدان میں اکٹھے کردیئے جاتے پھر رات کو آگ اتر کر ان کو بھسم کردیتی تھی۔ مگر اس امت پر حلال کی گئی ہے (٢) اموال فے یعنی ایسے اموال جو لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں (٣) اموال سلب یعنی وہ مال جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے (٤) دیگر اموال جیسے جزیہ، صدقات اور عطیات وغیرہ۔ یہ سب انفال کے ضمن میں آتے ہیں۔- [ ٢] سورة انفال کا شان نزول غزوہ بدر اور اموال غنیمت میں جھگڑا :۔ غزوہ بدر کے اختتام پر یہ صورت پیدا ہوئی کہ جس فریق نے اموال غنیمت لوٹے تھے وہ ان پر قابض ہوگیا تھا۔ ایک دوسرا فریق جس نے کفار کا تعاقب کیا تھا یہ کہتا تھا کہ ہم بھی ان اموال میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو وہ مڑ کر حملہ کرسکتے تھے اور اس طرح فتح شکست میں تبدیل ہوسکتی تھی اور ایک تیسرا فریق جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد حفاظت کی خاطر حصار بنائے ہوئے تھا وہ کہتا تھا کہ ہم بھی ان اموال میں برابر کے حصہ دار ہیں کیونکہ اگر ہم آپ کی حفاظت نہ کرتے اور خدانخواستہ آپ کو کوئی گزند پہنچ جاتا تو فتح شکست میں بدل سکتی تھی۔ مگر قابضین ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ جس سے ان مجاہدین میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس صورت حال کا حل دریافت کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے اور وحی الٰہی کا انتظار کرنے لگے۔ اس وقت یہ آیت بلکہ اس سورة کا کثیر حصہ نازل ہوا۔ جس کی ابتدا ہی مسلمانوں کی اخلاقی کمزوریوں اور ان کی اصلاح کے طریقوں سے کی گئی ہے۔- [ ٣] اموال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے لئے کیوں ؟:۔ اموال غنیمت وغیرہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک فیصلہ دے دیا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ لہذا تمہیں اس میں جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اموال کے متعلق جو فیصلہ کرے گا وہی تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔- سیدنا سعد (رض) فرماتے ہیں کہ بدر کے دن میں ایک تلوار لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ اللہ نے مشرکین (کو قتل کرنے) سے میرا سینہ ٹھنڈا کردیا۔ یا کچھ ایسے ہی الفاظ کہے اور کہا کہ یہ تلوار آپ مجھے ہی دے دیجئے۔ آپ نے فرمایا یہ تلوار میری ہے نہ تیری ہے۔ میں نے (دل میں) کہا : ہوسکتا ہے۔ آپ یہ تلوار کسی ایسے آدمی کو دے دیں۔ جس نے مجھ جیسی محنت نہ کی ہو، پھر میرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قاصد آیا اور آپ کی طرف سے کہا کہ : تو نے مجھ سے تلوار مانگی تھی۔ اس وقت وہ میری نہ تھی اور اب مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ لہذا وہ تمہیں دیتا ہوں۔ اس وقت یہ آیت اتری۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر، مسلم، کتاب الجہادوالسیہ، باب الانفال)- اور اموال غنیمت کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق قرار دینے کی وجہ یہ تھی کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح خالصتاً اللہ کی مدد اور مہربانی سے حاصل ہوئی تھی۔ جیسا کہ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔- پھر اسی سورة کی آیت نمبر ٤١ کی رو سے اموال غنیمت میں پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مقرر کیا گیا اور باقی ٥ ٤ مجاہدین میں برابر تقسیم کا حکم دیا گیا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- سیدنا عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ اللہ نے مال غنیمت ہمارے ہاتھوں سے نکال کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں دے دیا۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو برابر تقسیم کردیا (حاکم کتاب التفسیر)- رہے اموال فئ، اموال سلب اور متفرق اموال تو ان کے الگ الگ احکام ہیں جو اپنے اپنے موقعہ پر بیان ہوں گے۔- [ ٤] یعنی اموال غنیمت کے جھگڑے میں پڑ کر اپنے تعلقات خراب نہ کرلو۔ بلکہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے حکم کو تسلیم کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اموال کو جس طرح تقسیم کرے اسے قبول کرو اور ہر کام میں اس کی اطاعت کو اپنا شعار بنا لو اور اگر تم فی الواقع اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھتے ہو تو تمہیں برضا ورغبت ان احکام کو تسلیم کرلینا چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ : ” الْاَنْفَالِ “ یہ ” نَفَلٌ“ (نون اور فاء کے فتح کے ساتھ) کی جمع ہے، جیسا کہ ” فَرَسٌ“ کی جمع ” اَفْرَاسٌ“ ہے۔ جس کا معنی زائد چیز ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ) [ بنی إسرائیل : ٧٩ ] ” اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کے ساتھ بیدار رہ، اس حال میں کہ تیرے لیے زائد ہے۔ “ یعنی رات کا قیام فرض نمازوں سے زائد ہے۔ یہ لفظ کئی معنوں میں آتا ہے : 1 مال غنیمت، کیونکہ جہاد کا اصل مقصد تو ثواب اور حصول جنت ہے، غنیمت تو ایک زائد چیز ہے۔ شاید اسی لیے پہلی امتوں کے لیے غنیمت حلال نہیں تھی، اس امت کو ثواب پر مزید غنیمت بھی حلال کردی گئی۔ 2 امیر کسی خاص کارنامے پر غنیمت کے حصے سے زائد کسی انعام کا اعلان کر دے، یا دینا چاہے تو یہ بھی نفل ہے۔ 3 مقتول کے پاس جو بھی سامان اسلحہ یا سواری وغیرہ ہو وہ قاتل کو دیا جائے، اسے ” سلب “ کہتے ہیں، یہ بھی نفل ہے۔ 4 عام جنگ کے علاوہ کچھ دستے جنگ کے لیے جاتے ہوئے یا واپسی پر کسی بستی پر حملے کے لیے بھیجے جائیں اور وہ غنیمت لے کر آئیں تو وہ پورے لشکر کے لیے ہوگی، مگر اس دستے کو مجموعی غنیمت میں سے الگ زائد حصہ بھی دیا جائے گا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاتے وقت چوتھا حصہ اور واپسی پر تیسرا حصہ عطا فرماتے تھے۔ 5 امیر غنیمت کی تقسیم سے پہلے کوئی ایک چیز اپنے لیے چن لے، مثلاً کوئی اسلحہ یا سواری، یا لونڈی وغیرہ، اسے ” صفی “ بھی کہتے تھے۔ - زمانۂ جاہلیت میں معمول تھا کہ جنگ میں جو شخص جو کچھ لوٹ لیتا اسی کا ہوتا۔ اسلام میں سب سے پہلا عظیم الشان معرکہ بدر واقع ہوا تو ابھی تک کفار سے حاصل ہونے والے مال کی تقسیم کا طریقہ مقرر نہیں ہوا تھا۔ بدر میں جب بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا تو یہ مسئلہ پیش آیا۔ چناچہ عبادہ بن صامت (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے تو میں آپ کے ساتھ بدر میں شریک ہوا۔ لوگوں کا باہمی مقابلہ ہوا، اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست دی، تو ایک گروہ انھیں ہزیمت دیتے اور قتل کرتے ہوئے ان کے پیچھے چل پڑا، ایک گروہ لشکر گاہ پر متوجہ ہو کر اس کی حفاظت اور مال جمع کرنے لگ گیا اور ایک گروہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد گھیرا ڈالے رکھا کہ دشمن آپ کے متعلق کسی غفلت سے فائدہ نہ اٹھا لے۔ آخر سب لوگ واپس آ کر جمع ہوئے تو جنھوں نے غنیمتیں جمع کی تھیں، کہنے لگے، یہ ہم نے جمع کی ہیں، کسی اور کا ان میں کوئی حصہ نہیں، جو دشمن کے پیچھے گئے تھے انھوں نے کہا تم ہم سے زیادہ اس کے حق دار نہیں ہو، ہم نے دشمن کو ان سے ہٹایا اور انھیں مار بھگایا ہے۔ جنھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد گھیر ڈالے رکھا، انھوں نے کہا، ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھیرے میں رکھا اور اس بات سے ڈرے کہ دشمن کسی طرح کی غفلت میں آپ کو نقصان نہ پہنچائے، چناچہ ہم اس کام میں مشغول رہے، تو اس وقت یہ آیات اتریں : (يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب دشمن کی زمین میں حملے کے لیے جاتے تو چوتھا حصہ بطور نفل (زائد) دیتے تھے، پھر جب واپس آتے، لوگ تھکے ہوئے ہوتے تو تیسرا حصہ بطور نفل عطا فرماتے تھے اور آپ خصوصاً زائد حصے دینا پسند نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے : ” مومنوں کا قوت والا ان کے کمزور پر غنیمت واپس لاتا ہے۔ “ [ أحمد : ٥؍٣٢٣، ٣٢٤، ح ٢٢٧٦٢، وقال شعیب الأرنؤوط حسن لغیرہ ] ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان اور مستدرک حاکم میں بھی اس حدیث کے بعض اجزا مروی ہیں۔- قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ : فرمایا آپ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کس کا حق ہیں، کس طرح تقسیم ہوں گی، آپ فرما دیں کہ غنیمتیں حقیقت میں تم میں سے کسی کی بھی ملکیت نہیں، یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملکیت ہیں، تمہارا ان میں کچھ دخل نہیں، کیونکہ فتح تمہاری طاقت سے نہیں بلکہ اللہ کی مدد سے ہوئی ہے۔ آگے دور تک یہ بات بیان کی ہے کہ فتح اللہ کی مدد ہی سے ہوئی ہے اور ہوتی ہے، اس لیے تم اللہ سے ڈرو اور ان اموال کی وجہ سے تمہارے باہمی تعلقات میں جو خرابی آئی ہے اسے درست کرو اور اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کا رسول جو بھی حکم دیں اس کی اطاعت کرو، جسے جتنا دیں یا نہ دیں، وہ اس پر راضی رہے اور اس مال کی بنا پر تمہارے آپس کے تعلقات ہرگز خراب نہیں ہونے چاہییں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم آپس کے تعلقات بگاڑنے سے بچو، اس لیے کہ یہ چیز (دین) کو مونڈ دینے والی ہے۔ “ [ ترمذی، صفۃ القیامۃ، باب فی فضل صلاح ذات البین : ٢٥٠٨، عن أبی ہریرہ (رض) ] تفسیر ابن کثیر میں یہاں مسند ابی یعلی کے حوالے سے انس بن مالک (رض) سے مروی ایک حدیث نقل کی گئی ہے جس میں اپنے بھائی کو معاف کرنے والے کے لیے اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں جانے کا ذکر ہے، یہ روایت مستدرک میں بھی ہے، جسے امام حاکم نے صحیح کہا ہے، مگر ذہبی نے اس کے ایک راوی عباد کو ضعیف اور اس کے شیخ کو ” لَا یُعْرَفُ “ کہا ہے۔ - اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو بھی ایمان کی شرط قرار دیا گیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے مراد (جیسا کہ ظاہر ہے) آپ کی سنت کی پیروی ہے، لہٰذا جو شخص آپ کی سنت سے منہ موڑ کر صرف قرآن کی اطاعت کرنا چاہتا ہے (جبکہ حدیث کے بغیر قرآن پر عمل کسی صورت ممکن ہی نہیں) وہ قرآن کی واضح تصریح کے مطابق دائرۂ ایمان سے خارج ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مضامین سورت :- سورة انفال جو اس وقت شروع ہو رہی ہے مدنی سورت ہے۔ اس سے پہلی سورت یعنی سورة اعراف میں مشرکین اور اہل کتاب کے جہل وعناد اور کفر و فساد کا تذکرہ اور اس کے متعلقہ مباحث کا بیان تھا۔- اس سورت میں زیادہ تر مضامین غزوہ بدر کے موقع پر انھیں لوگوں کے انجام بد، ناکامی اور شکست، اور ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کی کامیابی اور فتوحات سے متعلق ہیں جو مسلمانوں کے لئے احسان و انعام اور کفار کے لئے عذاب و انتقام تھا۔- اور چونکہ اس انعام کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں کا خلوص اور للّٰہیت اور ان کا باہمی اتفاق ہے اور یہ اخلاص و اتفاق نتیجہ ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت کا اس لئے شروع سورت میں تقوی اور اطاعت حق اور ذکر اللہ اور توکل وغیرہ کی تعلیم دی گئی۔ - خلاصہ تفسیر - یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم دریافت کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ یہ غنیمتیں اللہ کی ہیں (یعنی وہ اللہ کی ملک ہیں اس کو ہی حق ہے کہ ان کے متعلق جو چاہیں حکم دے) اور رسول کی ہیں (بایں معنی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے حکم پاکر اس کو نافذ کریں گے حاصل یہ ہے کہ اموال غنیمت کے بارے میں تمہاری رائے اور تجویز کا کوئی دخل نہیں بلکہ اس کا فیصلہ حکم شرعی پر ہوگا) تو تم (دنیا کی حرص مت کرو آخرت کے طالب رہو اس طرح پر کہ) اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو (کہ آپس میں حسد اور بغض نہ رہے) اور اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو۔ - معارف و مسائل - یہ آیت غزوہ بدر میں پیش آنے والے ایک واقعہ سے متعلق ہے۔ آیت کی مفصل تفسیر سے پہلے وہ واقعہ سامنے رکھا جائے تو تفسیر سمجھنا آسان ہوجائے گا۔- واقعہ یہ ہے کہ غزوہ بدر جو کفر و اسلام کا سب سے پہلا معرکہ تھا اس میں جب مسلمانوں کو فتح ہوئی اور کچھ مال غنیمت ہاتھ آیا تو صحابہ کرام کے درمیان اس کی تقسیم کے متعلق ایک ایسا واقعہ پیش آگیا جو اخلاص و اتفاق کے اس مقام کے شایان نہ تھا جس پر صحابہ کرام کی پوری زندگی ڈھلی ہوئی تھی اس لئے سب سے پہلی ہی آیت میں اس کا فیصلہ فرما دیا گیا تاکہ اس مقدس گروہ کے قلوب میں صدق و اخلاص اور اتفاق و ایثار کے سوا کچھ نہ رہے۔- اس واقعہ کی تفصیل غزوہ بدر کے شریک حضرت عبادہ (رض) کی زبانی مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ، مستدرک، حاکم وغیرہ میں اس طرح منقول ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت سے کسی نے آیت مذکورہ میں لفظ انقال کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت تو ہمارے یعنی اصحاب بدر ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کا واقعہ یہ تھا کہ مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں ہمارے درمیان کچھ اختلاف پیدا ہوگیا تھا جس نے ہمارے اخلاق پر برا اثر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ اموال غنیمت کو ہمارے ہاتھوں سے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد کردیا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب حاضرین بدر میں اس کو مساوی طور پر تقسیم فرمادیا۔- صورت یہ پیش آئی تھی کہ ہم سب غزوہ بدر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے اور دونوں فریق میں گھمسان کی جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست دی تو اب ہمارے لشکر کے تین حصے ہوگئے۔ کچھ لوگوں نے دشمن کا تعاقب کیا تاکہ وہ پھر واپس نہ آسکے۔ کچھ لوگ کفار کے چھوڑے ہوئے اموال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے اور کچھ لوگ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد اس لئے جمع رہے کہ کسی طرف سے چھپا ہوا دشمن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ نہ کردے۔ جب جنگ ختم ہوگئی اور رات کو ہر شخص اپنے ٹھکانے پر پہنچا تو جن لوگوں نے مال غنیمت جمع کیا تھا وہ کہنے لگے کہ یہ مال تو ہم نے جمع کیا ہے اس لئے اس میں ہمارے سوا کسی کا حصہ نہیں۔ اور جو لوگ دشمن کے تعاقب میں گئے تھے انہوں نے کہا کہ تم لوگ ہم سے زیادہ اس کے حقدار نہیں ہو۔ کیونکہ ہم نے ہی دشمن کو پسپا کیا اور تمہارے لئے یہ موقع فراہم کیا کہ تم بےفکر ہو کر مال غنیمت جمع کرلو۔ اور جو لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کے لئے آپ کے گرد جمع رہے انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے تو ہم بھی مال غنیمت جمع کرنے میں تمہارے ساتھ شریک ہوتے لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت جو جہاد کا سب سے اہم کام تھا ہم اس میں مشغول رہے اس لئے ہم بھی اس کے مستحق ہیں۔- صحابہ کرام کی یہ گفتگو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی اس پر یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی جس نے واضح کردیا کہ یہ مال اللہ کا ہے اس کا کوئی مالک و حقدار نہیں بجز اس کے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطا فرمایئں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشادات ربانی کے ماتحت اس مال کو سب شرکاء جہاد میں مساوی طور پر تقسیم فرما دیا (ابن کثیر) اور سب کے سب اللہ و رسول کے اس فیصلہ پر راضی ہوگئے۔ اور ان کے خلاف شان جو صورت حال باہمی مسابقت کی پیش آگئی تھی اس پر نادم ہوئے۔- اور مسند احمد ہی میں اس آیت کے شان نزول کا ایک دوسرا واقعہ حضرت سعد بن ابی وقاص کا بھی منقول ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر میں میرے بھائی عمیر شہید ہوگئے۔ میں نے ان کے بالمقابل مشرکین میں سے سعید بن العاص کو قتل کردیا اور اس کی تلوار لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا۔ میں چاہتا تھا کہ یہ تلوار مجھے مل جائے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اس کو مال غنیمت میں جمع کردو۔ میں حکم ماننے پر مجبور تھا مگر میرا دل اس کا سخت صدمہ محسوس کر رہا تھا کہ میرا بھائی شہید ہوا اور میں نے اس کے بالمقابل ایک دشمن کو مار کر اس کی تلوار حاصل کی وہ بھی مجھ سے لے لی گئی مگر بایں ہمہ تعمیل ارشاد کے لئے مال غنیمت میں جمع کرنے کے لئے آگے بڑھا تو ابھی دور نہیں گیا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سورة انفال کی یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے مجھے بلوا کر یہ تلوار مجھے عنایت فرما دی۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت سعد نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض بھی کیا تھا کہ یہ تلوار مجھے دے دی جائے مگر آپ نے فرمایا کہ نہ یہ میری چیز ہے جو کسی کو دے دوں اور نہ آپ کی ملک ہے اس کو پورے مال غنیمت میں جمع کردو اس کا فیصلہ جو کچھ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کے مطابق ہوگا۔ (ابن کثیر مظہری) - اس میں کوئی بعد نہیں کہ یہ دونوں واقعے پیش آئے ہوں اور دونوں ہی کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ہو۔ - آیت کی پوری تفسیر یہ ہے :- اس میں لفظ انفال نفل کی جمع ہے جس کے معنی ہیں فضل و انعام نفلی نماز، روزہ صدقہ کو بھی نفل اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کے ذمہ واجب نہیں، کرنے والے اپنی خوشی سے کرتے ہیں۔ اصطلاح قرآن و سنت میں لفظ نفل اور انفال مال غنیمت کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کفار سے بوقت جہاد حاصل ہوتا ہے مگر قرآن کریم میں اس معنی کے لئے تین لفظ استعمال ہوئے ہیں انفال، غنیمہ، فیئے۔ لفظ انفال تو اسی آیت میں مذکور ہے اور لفظ غنیمة اور اس کی تفصیل اسی سورت کی اکتالیسویں آیت میں آنے والی ہے اور لفظ فیئے اور اس کے متعلق تفصیل سورة حشر میں بیان ہوئی ہے (آیت) وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي، اور ان تینوں کے معانی تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ مختلف ہیں، فرق معمولی اور قلیل ہونے کی وجہ سے بعض اوقات ایک لفظ دوسرے کی جگہ مطلقا مال غنیمت کے لئے بھی استعمال کرلیا جاتا ہے۔ غنیمة عموما اس مال کو کہتے ہیں جو جنگ و جہاد کے ذریعہ مخالف فریق سے حاصل ہو۔ اور فیئے اس مال کو کہتے ہیں جو بغیر جنگ و قتال کے کفار سے ملے خواہ وہ چھوڑ کر بھاگ جایئں۔ یا رضامندی سے دے دینا قبول کریں۔ اور نفل اور انفال کا لفظ اکثر اس انعام کے لئے بولا جاتا ہے جو امیر جہاد کسی خاص مجاہد کو اس کی کار گزاری کے صلہ میں علاوہ حصہ غنیمت کے بطور انعام عطا کرے۔ یہ معنی تفسیر ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کئے ہیں (ابن کثیر) اور کبھی مطلقا مال غنیمت کو بھی نفل اور انفال کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس آیت میں اکثر مفسرین نے یہی عام معنی نقل کئے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس سے یہی عام معنی نقل کئے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لفظ عام اور خاص دونوں معنی کے لئے بولا جاتا ہے اس لئے کوئی اختلاف نہیں۔ اور اس کی بہترین تشریح و تحقیق وہ ہے جو امام ابو عبید نے اپنی کتاب الاموال میں ذکر کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اصل لغت میں نفل کہتے ہیں فضل و انعام کو اور اس امت مرحومہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی انعام ہے کہ جہاد و قتال کے ذریعہ جو اموال کفار سے حاصل ہوں ان کو مسلمانوں کے لئے حلال کردیا گیا۔ ورنہ پچھلی امتوں میں یہ دستور نہ تھا بلکہ مال غنیمت کے لئے قانون یہ تھا کہ وہ کسی کے لئے حلال نہیں تھے تمام اموال غنیمت کو ایک جگہ جمع کردیا جاتا تھا۔ اور آسمان سے قدرتی طور پر ایک آگ (بجلی) آتی تھی اس کو جلا کر خاک کردیتی تھی یہی اس جہاد کے مقبول عند اللہ ہونے کی علامت ہوتی تھی۔ اور اگر کوئی مال غنیمت جمع کیا گیا اور آسمانی بجلی نے آکر اس کو نہ جلایا تو یہ علامت اس کی ہوتی تھی کہ یہ جہاد اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں اس لئے اس مال غنیمت کو بھی مردود اور منحوس سمجھا جاتا تھا اور اسے کوئی استعمال نہ کرتا تھا۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بروایت حضرت جابر (رض) بخاری ومسلم میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا ہوئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پیغمبر اور ان کی امت کو نہیں ملیں انھیں پانچ میں سے ایک یہ ہے کہ احلت لی الغنائم ولم تحل لاحد قبلی، یعنی میرے لئے اموال غنیمت حلال کردیئے گئے حالانکہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھے۔ - آیت مذکورہ میں انفال کا حکم یہ بتلایا گیا کہ وہ اللہ کے ہیں اور رسول کے۔ معنی اس کے یہ ہیں کہ اصل ملکیت تو اللہ تعالیٰ کی ہے اور متصرف ان میں اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں جو حکم خداوندی کے مطابق اپنی صوابدید پر ان کو تقسیم کرتے ہیں۔ - اسی لئے ائمہ تفسیر کی ایک جماعت نے جن میں حضرت عبداللہ بن عباس، مجاہد، عکرمہ، سدی، وغیرہ (رض) اجمعین داخل ہیں یہ فرمایا کہ یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا جب تک تقسیم غنائم کا وہ قانون نازل نہ ہوا تھا جو اسی سورت کے پانچویں رکوع میں آرہا ہے کیونکہ اس میں پورے مال غنیمت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے کہ جس طرح چاہیں تصرف فرمائیں اور آگے جو تفصیلی احکام آئے ہیں ان میں یہ ہے کہ کل مال غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں عام مسلمانوں کی ضرویات کے لئے محفوظ کردیا جائے اور چار حصے شرکاء جہاد میں ایک خاص قانون کے تحت تقسیم کردیئے جائیں جن کی تفصیل احایث صحیحہ میں مذکور ہے۔ اس تفصیلی بیان نے سورة انفال کی پہلی آیت کو منسوخ کردیا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہاں کوئی ناسخ منسوخ نہیں بلکہ اجمال و تفصیل کا فرق ہے سورة انفال کی پہلی آیت میں اجمال ہے اور اکتالیسویں آیت میں اسی کی تفصیل ہے۔ البتہ مال فیئے جس کے احکام سورة حشر میں بیان ہوئے ہیں وہ پورا کا پورا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زیر تصرف ہے آپ اپنی صوابدید سے جس طرح چاہیں عمل فرمائیں۔ اسی لئے اس جگہ احکام بیان فرمانے کے بعد یہ ارشاد فرمایا ہے۔ (آیت) وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا۔ یعنی جو کچھ تم کو ہمارا رسول دے دے اس کو لے لو اور جس کو روک دے اس سے باز رہو۔ - اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مال غنیمت وہ ہے جو جنگ و جہاد کے ذریعہ ہاتھ آئے اور مال فیئے وہ جو بغیر قتال و جہاد کے ہاتھ آجائے۔ اور لفظ انفال دونوں کے لئے عام بھی بولا جاتا ہے اور خاص اس انعام کو بھی کہتے ہیں جو کسی غازی کو امیر جہاد عطا کرے۔- اس سلسلہ میں غازیوں کو انعام دینے کی چار صورتیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد سے رائج ہیں ایک یہ کہ یہ اعلان فرمادیں کہ جو شخص کسی مخالف کو قتل کرے تو جو سامان مقتول سپاہی سے حاصل ہو وہ اسی کا ہے جس نے قتل کیا۔ یہ سامان مال غنیمت میں جمع ہی نہ کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ بڑے لشکر میں سے کوئی جماعت الگ کرکے کسی خاص جانب جہاد کیلئے بھیجی جائے اور یہ حکم دے دیا جائے کہ اس جانب سے جو مال غنیمت حاصل ہو وہ اسی خاص جماعت کا ہوگا جو وہاں گئی ہے صرف اتنا کرنا ہوگا کہ اس مال میں سے پانچواں حصہ عام مسلمانوں کی ضروریات کے لئے بیت المال میں جمع کیا جائے گا۔ تیسرے یہ کہ پانچواں حصہ جو بیت المال میں جمع کیا جاتا ہے اس میں سے کسی خاص غازی کو اس کی ممتاز کارگزاری کے صلہ میں امیر کی صوابدید کے مطابق دیا جائے۔ چوتھے یہ کہ پورے مال غنیمت میں سے کچھ حصہ الگ کرکے خدمت پیشہ لوگوں کو بطور انعام دیا جائے جو مجاہدین کے گھوڑوں وغیرہ کی نگہداشت کرتے ہیں اور ان کے کاموں میں مدد کرتے ہیں۔ ( ابن کثیر) - خلاصہ مضمون آیت کا یہ ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا کہ لوگ آپ سے انفال کے متعلق سوال کرتے ہیں آپ ان سے کہہ دیجیئے کے انفال سب اللہ کے ہیں اور اس کے رسول کے یعنی خود کوئی ان کا حقدار یا مالک نہیں، اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے رسول جو کچھ فیصلہ فرمائیں وہ ہی نافذ ہوگا۔- لوگوں کے باہمی اتفاق و اتحاد کی بنیاد تقوی اور خوف خدا ہے :- اس آیت کے آخری جملہ میں ارشاد فرمایا (آیت) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۠ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ ، جس میں صحابہ کرام کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور آپس کے تعلقات کو درست رکھو اس میں اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے جو غزوہ بدر میں اموال غنیمت کی تقسیم کی بابت صحابہ کرام کے آپس میں پیش آگیا تھا جس میں باہمی کشیدگی اور ناراضی کا خطرہ تھا۔ حق تعالیٰ نے تقسیم غنیمت کا قضیہ تو خود اس آیت کے ذریعہ طے فرما دیا۔ اب ان کے دلوں کی اصلاح اور باہمی تعلقات کی خوشگواری کی تدبیر بتلائی گئی ہے جس کا مرکزی نقطہ تقوی اور خوف خدا ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ جب تقوی اور خوف خدا و آخرت غالب ہوتا ہے تو بڑے بڑے جھگڑے منٹوں میں ختم ہوجاتے ہیں۔ باہمی منافرت کے پہاڑ گرد بن کر اڑ جاتے ہیں، اہل تقوی کا حال بقول مولانا رومی یہ ہوجاتا ہے : - خود چہ جائے جنگ و جدل نیک و بد کیں الم از صلحہا ہم میر مد - یعنی ان لوگوں کو کسی جنگ و جدل اور جھگڑے سے تو کیا دلچسپی ہوتی۔ ان کو تو خلائق کی صلح اور دوستی کے لئے بھی فرصت نہیں ملتی۔ کیونکہ جس کا قلب اللہ تعالیٰ کی محبت و خوف اور یاد میں مشغول ہو اس کو دوسروں سے تعلقات بڑھانے کی کہاں فرصت :- بسوادی جاناں زجاں مشتغل بذکر حبیب از جہاں مشتغل - اسی لئے اس آیت میں تقوی کی تدبیر بتلا کر فرمایا اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ، یعنی بذریعہ تقوی آپس کے تعلقات کی اصلاح کرو، اس کی مزید تشریح اس طرح فرمائی (آیت) وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ ، یعنی اللہ اور رسول کی مکمل اطاعت ہو اگر تم مومن ہو، یعنی ایمان کا تقاضا ہے اطاعت اور اطاعت نتیجہ ہے تقوی کا اور جب یہ چیزیں لوگوں کو حاصل ہوجائیں تو ان کے آپس کے جھگڑے خود بخود ختم ہوجائیں گے اور دشمنی کی جگہ دلوں میں الفت و محبت پیدا ہوجائے گی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ۝ ٠ ۭ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلہِ وَالرَّسُوْلِ۝ ٠ ۚ فَاتَّقُوا اللہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ۝ ٠ ۠ وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ١- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- نفل - النَّفَلُ قيل : هو الغَنِيمَةُ بعَيْنِهَا لکن اختلفتِ العبارةُ عنه لاختلافِ الاعْتِبَارِ ، فإنه إذا اعتُبِر بکونه مظفوراً به يقال له : غَنِيمَةٌ ، وإذا اعْتُبِرَ بکونه مِنْحَةً من اللہ ابتداءً من غير وجوبٍ يقال له : نَفَلٌ ، ومنهم من فَرَقَ بينهما من حيثُ العمومُ والخصوصُ ، فقال : الغَنِيمَةُ ما حَصَلَ مسْتَغْنَماً بِتَعَبٍ کان أو غَيْرِ تَعَبٍ ، وباستحقاقٍ کان أو غيرِ استحقاقٍ ، وقبل الظَّفَرِ کان أو بَعْدَهُ. والنَّفَلُ : ما يَحْصُلُ للإنسانِ قبْلَ القِسْمَةِ من جُمْلَةِ الغَنِيمَةِ ، وقیل : هو ما يَحْصُلُ للمسلمین بغیر قتالٍ ، وهو الفَيْءُ «2» ، وقیل هو ما يُفْصَلُ من المَتَاعِ ونحوه بَعْدَ ما تُقْسَمُ الغنائمُ ، وعلی ذلک حُمِلَ قولُه تعالی: يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفالِ الآية [ الأنفال 1] ، وأصل ذلک من النَّفْلِ. أي : الزیادةِ علی الواجبِ ، ويقال له : النَّافِلَةُ. قال تعالی: وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَكَ [ الإسراء 79] ، وعلی هذا قوله : وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ وَيَعْقُوبَ نافِلَةً [ الأنبیاء 72] وهو وَلَدُ الوَلَدِ ، ويقال :- نَفَلْتُهُ كذا . أي : أعطيْتُهُ نَفْلًا، ونَفَلَهُ السّلطانُ : أعطاه سَلَبَ قَتِيلِهِ نَفْلًا . أي : تَفَضُّلًا وتبرُّعاً ، والنَّوْفَلُ : الكثيرُ العَطَاءِ ، وانْتَفَلْتُ من کذا : انْتَقَيْتُ منه .- ( ن ف ل )- النفل بعض کے نزدیک نفل اور غنیمت ایک ہی چیز کے دونام ہیں ان میں صرف اعتباری فرق ہے اس لحاظ سے کہ وہ فتح کے بعد چھینا ہوا مال ہوتا ہے اسے غنیمت کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا غیر لازم ہونے کے لحاظ نفل کہلاتا ہے ۔ بعض کے نزدیک ان میں نسبت عموم وخصؤص مطلق ہے یعنی غنیمت عام ہے اور ہر اس مال کو کہتے ہیں جو لوٹ سے حاصل ہو خواہ مشقت سے ہو یا بلا مشقت کے فتح سے قبل حاصل ہو یا بعد میں استحقاق سے حاصل ہو یا بغیر استحقاق کے اور نفل خاض کر اس مال کو کہتے ہیں ۔ جو غنیمت سے قبل از تقسیم حاصل ہوا ہو ۔ بعض کے نزدیک نفل وہ مال ہے جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائے اور اسے فے بھی کہتے ہیں اور بعض نے کہا ہے جو سامان وغیرہ تقسیم غنائم کے بعد بانٹا جاتا ہے ۔ اسے نفل کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفالِالآية [ الأنفال 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجاہد لوگ ) آپ سے غنیمت کے مال کے بارے میں در یافت کرتے ہیں کہ کیا حکم ہے ) اصل میں انفال نفل سے ہے جس کے معنی واجب پر زیادتی کے ہیں اور اسے نافلۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَكَ [ الإسراء 79] اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو اور تہجد کی نماز پڑھا کرو یہ شب خیزی تمہارے لئے سبب زیادہ ثواب اور نماز تہجد تم کو نفل ہی اور آیت کریمہ : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ وَيَعْقُوبَ نافِلَةً [ الأنبیاء 72] اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق عطا کئے اور مستنراد وبر آن یعقوب ۔ میں نافلۃ بھی اسی معنی پر محمول ہے اور یہاں اس سے مراد اولاد کی اولاد ہے محاورہ ہے ۔ نقلتہ کذا میں نے اسے بطور نفل کے دیا ۔ نفلۃ السلطان بادشاہ نے اسے تبرع کے طور پر قتیل کا سامان سے دیا النوافل عطائے کثیر ۔ انتفلت من کذا میں نے اس سے چن لیا ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سورة الانفال - مال غنیمت اور اس کے احکام - ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) مجاہد، ضحاک ، قتادہ، عکرمہ اور عطاء کا قول ہے کہ انفال غنائم کو کہتے ہیں۔ عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت کی ہے کہ انفال ان تمام چیزوں کا نام ہے جو مشرکین سے قتال کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگیں خواہ وہ کوئی سواری ہو غلام یا مال ومتاع۔ اسی لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار تھا کہ آپ ان چیزوں کو جہاں چاہیں کھپا دیں۔ مجاہد سے ایک روایت ہے کہ انفال خمس یعنی مال غنیمت کے پانچویں حصے کو کہتے ہیں جو ان لوگوں کا حق ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا حق دار ٹھہرایا ہے جن کا قول ہے کہ انفال کا تعلق ان فوجی دستوں سے تھا جو اصل فوج کے آگے آگے ہوتے تھے۔ لغت میں نفل اس چیز کو کہتے ہیں جو اصل حق سے زائد ہوتی ہے۔ اسی سے نافلہ کا لفظ بنا ہے جو تطوع کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ہمارے نزدیک نفل مال غنیمت محفوظ کرلینے سے پہلے دیا جاتا ہے لیکن اس کے بعد یہ صرف پانچویں حصے سے دیا جاسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ سپہ سالار یا امام کسی سر یہ یعنی فوجی دستے سے کہہ دے کر خمس نکالنے کے بعد تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہوگا۔ یاخمس نکالنے سے پہلے پورے مال غنیمت میں سے چوتھائی حصہ ہوگا یا یوں اعلان کر دے کہ جس شخص کو جو چیز ہاتھ لگے وہ اس کی ہوگی، یہ بات قتال پر ابھارنے اور دشمن کے خلاف بھڑکانے کی خاطر کہی جائے۔ یا یوں کہے کہ جس شخص نے کسی دشمن کو قتل کردیا اسے اس کا سارا سامان یعنی سلب مل جائے گا لیکن جب مال غنیمت محفوظ کرلیا جائے تو پھر امام کے لئے لشکر کے حصے میں سے کسی کو بطور نفل کچھ دینا جائز نہیں ہوگا۔ تاہم اس کے لئے پانچویں حصے میں سے کسی کو بطور نفل کچھ دے دینا بھی جائز ہوگا۔ اس آیت کے نزول کے سبب کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جنگ بدر میں ایک تلوار میرے ہاتھ لگی میں اسے لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگیا اور عرض کیا کہ یہ تلوار مجھے بطور نفل دے دیجئے “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا کہ اسے تم نے جہاں سے اٹھایا ہے وہیں لے جا کر رکھ دو “۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی یسئلونک عن الانفال۔ تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلا کر فرمایا کہ جائو اور جا کر اپنی تلوار لے لو “۔ معاویہ بن صالح نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری یسئلونک عن الانفال کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا :” انفال ان غنائم کا نام تھا جو صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہوتے تھے اور ان میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی واعلموا انما غنمتم من شئی فان اللہ خمسہ وللرسول اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمات تم نے حاصل کیا ہے ان کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ……کا ہے) تا آخر آیت۔ ابن جریج نے کہا ہے کہ مجھے سلیمان نے مجاہد سے یہ بات بتائی ہے۔ حضرت عبادہ بن الصامت (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) اور دیگر حضرات کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معرکہ بدر کے دن مختلف انفال تقسیم کئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو کوئی چیز ہاتھ لگی ہو وہ اس کی ہے “۔ اس پر صحابہ کرام کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا، کچھ لوگ تو اس بارے میں ہماری رائے رکھتے تھے جبکہ کچھ دوسرے حضرات یہ کہتے تھے کہ ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد اپنی جانوں کا حلقہ باندھ دیا جب ہمارے اختلافات بڑھ گئے اور ہمارے اخلاق بگڑ گئے تو اللہ تعالیٰ نے وہ سارا مال ہمارے ہاتھوں سے چھین کر اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کردیا جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خمس نکالنے کے بعد تمام لوگوں میں تقسیم کردیا۔ اس میں تقویٰ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور آپس کے تعلقات کو درست کرنے کی بات تھی) اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یسئلونک عن الانفال قل لانفال للہ وللرسول) حضرت عبادہ بن الصامت فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا لیروقوی المسلمین علی ضعیفھم۔ مسلمانوں میں سے جو قوی اور طاقت ور ہیں وہ کمزوروں پر اس مال کو لوٹا دیں) اعمش نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا تم سے پہلے سیاہ سر رکھنے والی کسی قوم کے لئے مال غنیمت حلال نہیں تھا۔ آسمان سے ایک آگ اترتی اور مال غنیمت کو جلا دیتی “۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ معرکہ بدر کے دن لوگوں نے مال غنیمت کے لئے بڑی جلد بازی کا مظاہرہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لولاکتاب من اللہ سبق لمستکم فیما اخذتم عذاب عظیم فکلوا مما غنمتم حلالاً طیباً اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے کیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔ پس جو کچھ تم نے حاصل کیا ہے اسے کھائو کہ وہ حلال اور پاک ہے) ۔- حضرت عبادہ (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں یہ ذک رہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معرکہ بدر کے دن جنگ شروع ہونے سے قبل اعلان فرمایا تھا ” جو چیز کسی کے ہاتھ آئے وہ اس کی ہوگی “۔ نیز ” جو شخص کسی کو قتل کر دے گا اس کا سامان اسے مل جائے گا “۔ اور قول کے مطابق یہ بات غلط ہے بلکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معرکہ حنین کے روز یہ اعلان فرمایا تھا من قتل قتیلا فلہ سلبہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا اس کا سامان اسے مل جائے گا) درج بالا بات کے غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا تھا لم تحل الغنائم لقوم سودالروس غیرکم۔ تمہارے سوا سیاہ سر رکھنے والی کسی قول کے لئے مال غنیمت حلال نہیں تھا) نیز یہ کہ قول باری یسئلونک عن الانفال) کا نزول میدان بدر میں مال غنیمت سمیٹ لینے کے بعد ہوا تھا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ جن حضرات نے یہ نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ شروع ہونے سے پہلے جو چیز جس کے ہاتھ لگی تھی وہ اسے بطور نفل دے دی تھی ان کی یہ روایت غلط ہے کیونکہ مال غنیمت کی اباحت جنگ کے بعد ہوئی تھی۔ اس بات کے غلط ہونے پر یہ امر بھی دلالت کرتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا من اخذشیئاً فھولہ) نیز فرمایا تھا من قتل قتیلاً فلہ کذا) پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت لوگوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کردیا۔ اس روایت کے غلط ہونے کا یہیں سے پتہ چلتا ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے وعدہ خلافی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ سوچا جاسکتا ہے کہ آپ ایک شخص کے لئے کوئی چیز مخصوص کردیں اور پھر اس سے وہ چیز لے کر کسی اور کو دے دیں اس بارے میں درست بات یہ ہے کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مال غنیمت کے متعلق کوئی اعلان نہیں ہوا تھا۔ پھر جب مسلمان جنگ سے فارغ ہوگئے اور مال غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یسئلونک عن الانفال) اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت کا معاملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد کردیا کہ اس میں جس کو جتنا چاہیں دے دیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سارا مال لوگوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کردیا۔ پھر یہ حکم اس قول باری کے ذریعہ منسوخ کردیا گیا (واعلموا انما غنمتم من شئی) تا آخر آیت جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد سے مروی ہے کہ آپ نے پانچواں حصہ اپنے اہل کو اور ان مسلمانوں کو دے دیا جن کا آیت میں ذکر ہے اور باقی چار حصے جنگ میں شریک ہونے والوں کے درمیان تقسیم کردیئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوار اور پیدل سپاہی کے حصول کی بھی وضاحت فرما دی تھی۔ مال غنیمت اکٹھا کرلینے سے پہلے کسی کو بطور نفل کچھ دے دینے کا حکم باقی رہ گیا۔ مثلاً امام یا سالار لشکر یہ اعلان کر دے “۔ جو شخص کسی دشمن کو قتل کر دے گا اس کا سامان اسے مل جائے گا “ یا ” جو چیز کسی کے ہاتھ آجائے گی وہ اس کی ہوگی “۔ اسی طرح خمس میں سے کسی کو بطور نفل کچھ دے دینے کا حکم بھی باقی رہ گیا، اسی طرح قتال کے بغیر مشرکین کا کوئی گرا پڑا مال بھی اسی حکم کے تحت رہا۔ یہ تمام مال نفل کے ذیل میں آتا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار تھا کہ اس میں سے جس کو جتنا چاہیں دے دیں۔ اس نفل کا حکم منسوخ ہوگیا تھا جو مال غنیمت اکٹھا ہوجانے کے بعد خمس کے ماسوا باقی ماندہ چار حصوں میں سے کسی کو دے دیا جاتا۔- غزوہ بدر میں ہاتھ آنے والے مال غنیمت کی تقسیم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی صوابدید کے مطابق کی تھی اور وہ تقسیم اس طرح نہیں تھی جس طرح اب غنائم کی تقسیم ہوتی ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے موقع پر سارا مال غنیمت جنگ کے شرکاء میں مساوی طور پر تقسیم کردیا تھا اور اس میں سے خمس بھی علیحدہ نہیں کیا تھا۔ اس موقع پر جو تقسیم ہوئی وہ اگر اس تقسیم کے مطابق ہوتی جس پر تقسیم غنائم کے حکم کو استقرار ہوگیا تھا تو پھر آپ خمس ضرور نکالتے اور سوار سپاہی کو پیدل سپاہی سے زیادہ حصہ دیتے۔ اس موقع پر پورے لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے۔ ایک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور دوسرا حضرت مقداد (رض) بن الاسود کا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غنائم بدر کو تمام شرکاء کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کردیا تو ہمیں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ قول باری قل الانفال للہ والرسول) تقسیم غنائم کا معاملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تفویض کرنے کا مقتضی ہے تاکہ اپنی صوابدید کے مطابق جس کو جتنا چاہیں دے دیں پھر مال غنیمت محفوظ کرلینے کے بعد کسی کو بطور نفل کچھ دینے کا حکم منسوخ ہوگیا لیکن مال غنیمت کو محفوظ کرلینے سے قبل لشکر اسلامی کو قتال پر ابھارنے اور انہیں دشمنوں کے خلاف پر انگیختہ کرنے کی خاطر کسی کو بطور نفل کچھ دے دینے کا حکم باقی رہ گیا۔ اسی طرح اس مال کو بطور نفل دینے کا حکم بھی باقی رہ گیا جو قتال کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آجائے نیز اس مال کا بھی جس کی تقسیم نہ ہوسکتی ہو اور اس کے ساتھ خمس میں سے کسی کو کچھ دے دینے کا حکم بھی۔ یوم بدر کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اعلان نہیں کیا تھا کہ من اصاب شیئاً فھولہ جو شے کسی کے ہاتھ آجائے وہ اس کی ہوگی) یا یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تھا کہ من قتل قتیلاً فلہ سلبہ۔ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کر دے گا اسے مقتول کا سامان مل جائے گا۔ جس روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم بدر کے موقع پر یہ دونوں اعلانات کئے تھے اس کے غلط ہونے پر یہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی۔ انہیں ابودائود نے انہیں ہناد بن السری نے ابوبکر سے انہوں نے عاصم سے انہوں نے مصعب بن سعد سے انہوں نے اپنے والد سے وہ فرماتے ہیں کہ میں معرکہ بدر کے موقع پر ایک تلوار لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا :” اللہ کے رسول، آج اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے خلاف میرے دل میں لگی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کردیا ہے اس لئے یہ تلوار مجھے بطور ہبہ عطا کر دیجئے۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” یہ تلوار نہ میری ہے اور نہ تمہاری “۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تو میں یہ سوچتے ہوئے واپس چلا گیا کہ آج یہ تلوار اس شخص کو مل جائے گی جس کی کارکردگی مجھ سے کم تر ہوگی۔ میں ابھی اسی سوچ میں تھا کہ اتنے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قاصد مجھے بلانے آگیا میں نے سوچا کہ جو گفتگو میں نے آپ سے کی تھی اس کے متعلق شاید میرے بارے میں خدا کی طر ف سے کوئی حکم نازل ہوا ہے چناچہ میں حاضر ہوگیا مجھے دیکھتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تم نے مجھ سے یہ تلوار مانگی تھی اس وقت تک یہ تلوار نہ میر ی تھی نہ تمہاری، اب اللہ تعالیٰ نے اسے میری ملکیت میں دے دیا ہے اس لئے میں اسے تمہیں دیتا ہوں “۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ یسئلونک عن الانفال قل الانفال للہ والرسول) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات بتادی کہ سورة انفال کے نزول سے پہلے وہ تلوار نہ تو آپ کی ملکیت تھی نہ حضرت سعد (رض) کی۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ معاملہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں دے دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی ملکیت کے لئے حضرت سعد کو ترجیح دی۔ اس پوری روایت میں اس روایت کے فساد کی دلیل موجود ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ شروع ہونے سے پہلے لوگوں کو بطور نفل کچھ دینے کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا تھا کہ من اخذشیئاً فھولہ)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١) بدر کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خاص عنیمتوں کا حکم پوچھتے ہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجیے کہ بدر کے دن کی غنیمتیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملک ہیں، تمہیں اس بارے میں کوئی اختیار نہیں۔ یہ یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم اس میں نافذ ہوگا، غنائم کے لینے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور باہمی جھگڑوں کی اصلاح کرو کہ کہیں غنی فقیر پر اور قوی ضعیف پر اور جوان بوڑھے پر زیادتی نہ کربیٹھے ،- جب تم لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو تو صلح کے معاملات میں ان ہی کی پیروی کرو۔- شان نزول : (آیت) ” یسئلونک عن الانفال “۔ (الخ)- امام ابوداؤد (رح) ، نسائی (رح) ، ابن حبان (رح) اور حاکم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اعلان کردیا تھا کہ جو شخص کسی شخص کو قتل کرے یا قید کرے اس کو اتنا اتنا انعام ملے گا، سو بوڑھے تو جھنڈوں کے نیچے رہے اور جوان لوگ قتل غنیمت کی طرف دوڑے، بوڑھوں نے ان جوانوں سے کہا ہمیں بھی اس میں شریک کرو ہم تمہارے مددگار تھے، اور اگر تم پر کوئی حادثہ آپڑتا تو تم ہماری ہی پناہ لیتے۔ اس بارے میں ان لوگوں کے درمیان گفتگو ہوگئی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک مقدمہ آیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور امام احمد (رح) نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت کیا ہے کہ بدر کے روز میرا بھائی عمیر قتل کیا گیا تو میں نے اس کے بدلے سعید بن العاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار لے کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا کہ یہ تلوار مجھے دے دیجے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جاؤ اس کو غنیمت میں رکھ دو ، میں لوٹا مگر مجھے بہت دکھ ہوا، میں ذرا ہی چلا تھا کہ سورة انفال نازل ہوگئی آپ نے فرمایا جاؤ اپنی تلوار لے لو۔- اور امام ابو داؤد (رح) ، ترمذی (رح) اور نسائی (رح) نے حضرت سعد (رض) سے روایت کیا ہے کہ میں بدر کے روز ایک تلوار لیکر آیا اور عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے میرے سینہ کو مشرکین سے محفوظ رکھا ہے، یہ تلوار مجھے ہبہ کردیجیے، آپ نے فرمایا یہ نہ میری ہے اور نہ تمہاری، مجھ کو رنج ہوا میں نے دل میں کہا کہ مجھ ہی کو ملے گی، چناچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی وہ اس وقت میری نہ تھی اور اب وہ میری ہے میں تمہیں دیتا ہوں فرماتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوگئی۔- ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چار اخماس نکالنے کے بعد، پانچویں حصہ کا حکم دریافت کیا گیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ (یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ ط قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ ج (فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْص وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) - یہاں مال غنیمت کے لیے لفظ انفال استعمال کیا گیا ہے۔ انفال جمع ہے نفل کی اور نفل کے معنی ہیں اضافی شے۔ مثلاً نماز نفل ‘ جسے ادا کرلیں تو باعث ثواب ہے اور اگر ادا نہ کریں تو مواخذہ نہیں۔ اسی طرح جنگ میں اصل مطلوب شے تو فتح ہے جب کہ مال غنیمت ایک اضافی انعام ہے۔ - جیسا کہ تمہیدی گفتگو میں بتایا جا چکا ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد مسلمانوں میں مال غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ سنجیدہ صورت اختیار کر گیا تھا۔ یہاں ایک مختصر قطعی اور دو ٹوک حکم کے ذریعے سے اس مسئلہ کی جڑ کاٹ دی گئی ہے اور بہت واضح انداز میں بتادیا گیا ہے کہ انفال کل کے کل اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملکیت ہیں۔ اس لیے کہ یہ فتح تمہیں اللہ کی خصوصی مدد اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے نصیب ہوئی ہے۔ لہٰذا انفال کے حق دار بھی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں۔ اس قانون کے تحت یہ تمام غنیمتیں اسلامی ریاست کی ملکیت قرار پائیں اور تمام مجاہدین کو حکم دے دیا گیا کہ انفرادی طور جو چیز جس کسی کے پاس ہے وہ اسے لا کر بیت المال میں جمع کرا دے۔ اس طریقے سے سب لوگوں کو پر لا کر کھڑا کردیا گیا اور یوں یہ مسئلہ احسن طور پر حل ہوگیا۔ اس کے بعد جس کو جو دیا گیا اس نے وہ بخوشی قبول کرلیا۔- اگلی آیات اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ ان میں بندۂ مومن کی شخصیت کے کچھ خدوخال بیان ہوئے ہیں۔ مگر ان خدوخال کے بارے میں جاننے سے پہلے یہ نکتہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ مؤمن اور مسلمان دو مترادف الفاظ یا اصطلاحات نہیں ہیں۔ قرآن ان دونوں میں واضح فرق کرتا ہے۔ یہ فرق سورة الحجرات کی آیت ١٤ میں اس طرح بیان ہوا ہے : (قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط) (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہ بدو لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ‘ ان سے کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو ‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں جبکہ ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ اسلام اور ایمان کا یہ فرق اچھی طرح سمجھنے کے لیے ارکان اسلام کی تفصیل ذہن میں تازہ کرلیجئے جو قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا کا مرحلۂ اولیٰ طے کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :- (بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ : شَھَادَۃِ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقَام الصَّلَاۃِ وَاِیْتَاء الزَّکَاۃِ وَحَجِّ الْبَیْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ ) (١) - اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں ‘ نماز قائم کرنا ‘ زکوٰۃ ادا کرنا ‘ بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔- یہ پانچ ارکان اسلام ہیں ‘ جن سے ہر مسلمان واقف ہے۔ مگر جب ایمان کی بات ہوگی تو ان پانچ ارکان کے ساتھ دو مزید ارکان اضافی طور پر شامل ہوجائیں گے ‘ اور وہ ہیں دل کا یقین اور عمل میں جہاد۔ چناچہ ملاحظہ ہو سورة الحجرات کی اگلی آیت میں بندۂ مؤمن کی شخصیت کا یہ نقشہ : (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط اُولٰٓءِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ ) مؤمن تو بس وہ ہیں جو ایمان لائیں اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ‘ پھر ان کے دلوں میں شک باقی نہ رہے اور وہ جہاد کریں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔ صرف وہی لوگ (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں۔ یعنی کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد انسان قانونی طور پر مسلمان ہوگیا اور تمام ارکان اسلام اس کے لیے لازمی قرار پائے۔ مگر حقیقی مؤمن وہ تب بنے گا جب اس کے دل کو گہرے یقین (ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا) والا ایمان نصیب ہوگا اور عملی طور پر وہ جہاد میں بھی حصہ لے گا۔ - بندۂ مؤمن کی اسی تعریف ( ) کی روشنی میں اہل ایمان کی کیفیت یہاں سورة الانفال میں دو حصوں میں الگ الگ بیان ہوئی ہے۔ وہ اس طرح کہ حقیقی ایمان والے حصے کی کیفیت کو آیت ٢ اور ٣ میں بیان کیا گیا ہے ‘ جبکہ اس کے دوسرے (جہاد والے ) حصے کی کیفیات کو سورت کی آخری آیت سے پہلے والی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک پرکار ( ) کو کھول دیا گیا ہو ‘ جس کی ایک نوک سورت کے آغاز پر ہے (پہلی آیت چھوڑ کر) جبکہ دوسری نوک سورت کے آخر پر ہے (آخری آیت چھوڑ کر) ۔ اس وضاحت کے بعد اب ملاحظہ ہو بندۂ مؤمن کی تعریف ( ) کا پہلا حصہ :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :1 یہ اس تبصرہ جنگ کی عجیب تمہید ہے ۔ بدر میں جو مال غنیمت لشکر قریش سے لوٹا گیا تھا اس کی تقسیم پر مسلمانوں کے درمیان نزاغ برپا ہوگئی ۔ چونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان لوگوں کو پہلی مرتبہ پرچم اسلام کے نیچے لڑنے کا اتفاق ہوا تھا اس لیے ان کو معلوم نہ تھا کہ اس مسلک میں جنگ اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق کیا ضابطہ ہے ۔ کچھ ابتدائی ہدایات سورہ بقرہ اور سورہ محمد میں دی جا چکی تھیں ۔ لیکن”تہذیب جنگ“ کی بنیاد ابھی رکھنی باقی تھی ۔ بہت سے تمدنی معاملات کی طرح مسلمان ابھی تک جنگ کے معاملہ میں بھی اکثر پرانی جاہلیت ہی کے تصورات لیے ہوئے تھے ۔ اس وجہ سے بدر کی لڑائی میں کفار کی شکست کے بعد جن لوگوں نے جو جو کچھ مال غنیمت لوٹا تھا وہ عرب کے پرانے طریقہ کے مطابق اپنے آپ کو اس کا مالک سمجھ بیٹھے تھے ۔ لیکن ایک دوسرا فریق جس نے غنیمت کی طرف رخ کرنے کے بجائے کفار کا تعاقب کیا تھا ، اس بات کا مدعی ہوا کہ اس مال میں ہمارا برابر کا حصہ ہے کیونکہ اگر ہم دشمن کا پیچھا کرکے اسے دور تک بھگا نہ دیتے اور تمہاری طرح غنیمت پر ٹوٹ پڑتے تو ممکن تھا کہ دشمن پھر پلٹ کر حملہ کر دیتا اور فتح شکست سے بدل جاتی ۔ ایک تیسرے فریق نے بھی ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کر رہا تھا ، اپنے دعاوی پیش کیے ۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ سب سے بڑھ کر قیمتی خدمت تو اس جنگ میں ہم نے انجام دی ہے ۔ اگر ہم رسول اللہ کے گرد اپنی جانوں کا حصار بنائے ہوئے نہ رہتے اور آپ کو کوئی گزند پہنچ جاتا تو فتح ہی کب نصیب ہو سکتی تھی کہ کوئی مال غنیمت ہاتھ آتا اور اس کی تقسیم کا سوال اٹھتا ۔ مگر مال عملاً جس فریق کے قبضہ میں تھا اس کی ملکیت گویا کسی ثبوت کی محتاج نہ تھی اور وہ دلیل کا یہ حق ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ ایک امرِ واقعی کے اس زور سے بدل جائے ۔ آخر کار اس نزاع نے تلخی کی صورت اختیار کرنی شروع کردی اور زبانوں سے دلوں تک بدمزگی پھیلنے لگی ۔ یہ تھا وہ نفسیاتی موقع جسے اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال نازل کرنے کے لیے منتخب فرمایا اور جنگ پر اپنے تبصرے کی ابتدا اسی مسئلے سے کی ۔ پھر پہلا ہی فقرہ جو ارشاد ہوا اسی میں سوال کا جواب موجود تھا فرمایا”تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں“؟ یہ ان اموال کو ”غنائم“ کے بجائے” انفال “ کے لفظ سے تعبیر کرنا بجائے خود مسئلے کا فیصلہ اپنے اندر رکھتا تھا ۔ انفال جمع ہے نفل کی ۔ عربی زبان میں نفل اس چیز کو کہتے ہیں جو واجب سے یا حق سے زائد ہو ۔ جب یہ تابع کی طرف سے ہو تو اس سے مراد وہ رضا کارانہ خدمت ہوتی ہے جو ایک بندہ اپنے آقا کے لیے فرض سے بڑھ کر تَطُوَّعًا بجا لاتا ہے ۔ اور جب یہ متبوع کی طرف سے ہو تو اس سے مرادہ وہ عطیہ و انعام ہوتا ہے جو آقا اپنے بندے کو اس کے حق سے زائد دیتا ہے ۔ پس ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ساری ردّ و کد ، یہ نزاع ، یہ پوچھ گچھ کیا خدا کے بخشے ہوئے ، انعامات کے بارے میں ہو رہی ہے؟ اگر یہ بات ہے تو تم لوگ ان کے مالک و مختار کہاں بنے جا رہے ہو کہ خواد ان کی تقسیم کا فیصلہ کرو ۔ مال جس کا بخشا ہوا ہے ۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ کیسے دیا جائے اور کسے نہیں ، اور جس کو بھی دیا جائے اسے کتنا دیا جائے ۔ یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی اخلاقی اصلاح تھی ۔ مسلمان کی جنگ دنیا کے مادی فائدے بٹورنے کیلے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اخلاقی وتمدنی بگاڑ کو اس اصول حق کے مطابق درست کرنے کے لیے ہے ، جسے مجبوراً اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جبکہ مزاحم قوتیں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے اصلاح کو ناممکن بنا دیں ۔ پس مصلحین کی نظر اپنے مقصد پر ہونی چاہیے نہ کہ ان فوائد پر جو مقصد کے لیے سعی کرتے ہوئے بطور انعام خدا کی عنایت سے حاصل ہوں ۔ ان فوائد سے اگر ابتدا ہی میں ان کی نظر نہ ہٹا دی جائے تو بہت جلدی ، اخلاقی انحطاط رونما ہو کر یہی فوائد مقصود قرار پا جائیں ۔ پھر یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی انتظامی اصلاح بھی تھی ۔ قدیم زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ جو مال جس کے ہاتھ لگتا وہی اس کا مالک قرار پاتا ۔ یا پھر بادشاہ یا سپہ سالار تمام غنائم پر قابض ہو جاتا ۔ پہلی صورت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ فتح یاب فوجوں کے درمیان اموال غنیمت پر سخت تنافُس برپا ہو جاتا اور بسا اوقات ان کی خانہ جنگی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتی ۔ دوسری صورت میں سپاہیوں کو چوری کا عارضہ لگ جاتا تھا اور وہ غنائم کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے ۔ قرآن مجید نے انفال کو اللہ اور رسول کا مال قرار دے کر پہلے تو یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ تمام مال غنیمت لا کر بےکم و کاست امام کے سامنے رکھ دیا جائے اور ایک سوئی تک چھپا کر نہ رکھی جائے ۔ پھر آگے چل کر اس مال کی تقسیم کا قانون بنا دیا کہ پانچواں حصہ خدا کے کام اور اس کے غریب بندوں کی مدد کے لیے بیت المال میں رکھ لیا جائے اور باقی چار حصے اس پوری فوج میں تقسیم کر دیے جائیں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو ۔ اس طرح وہ دونوں خرابیاں دور ہوگئیں جو جاہلیت کے طریقہ میں تھیں ۔ اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ذہن میں رہنا چاہیے ، یہاں انفال کے قصے کو صرف اتنی بات کہہ کر ختم کر دیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ہیں ۔ تقسیم کے مسئلے کو یہاں نہیں چھیڑا گیا تا کہ پہلےتسلیم و اطاعت مکمل ہو جائے ۔ پھر چند رکوع کے بعد بتایا گیا کہ ان اموال کو تقسیم کس طرح کیا جائے ۔ اسی لیے یہاں انہیں”انفال “کہا گیا ہے اور رکوع ۵ میں جب تقسیم کا حکم بیان کرنے کی نوبت آئی تو انہی اموال کو”غنائم“کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: جنگ بدر کے موقع پر جب دُشمن کو شکست ہوگئی تو صحابہ کرامؓ تین حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے، ایک حصہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے آپ کے ساتھ رہا، دوسرا حصہ دُشمن کے تعاقب میں روانہ ہوگیا، اور تیسرا حصہ دُشمن کے چھوڑے ہوئے مالِ غنیمت کو جمع کرنے میں مشغول ہوگیا۔ یہ چونکہ پہلی جنگ تھی، اور مالِ غنیمت کے بارے میں مفصل ہدایات نہیں آئی تھیں، اس لئے اس تیسرے حصے نے یہ سمجھا کہ جو مال انہوں نے اکٹھا کیا ہے، وہ انہی کا ہے۔ (اور شاید زمانہ جاہلیت میں معمول ایسا ہی رہا ہوگا) لیکن جنگ ختم ہونے کے بعد پہلے دوگروہوں کو یہ خیال ہوا کہ وہ بھی جنگ میں برابر کے شریک تھے، بلکہ مالِ غنیمت اکٹھا ہونے کے وقت زیادہ اہم خدمات انجام دے رہے تھے، اس لئے ان کو بھی اس مال میں حصہ دار ہونا چاہئے۔ یہ ایک فطری تقاضا تھا جس کی بنا پر ان حضرات کے درمیان بحث کی بھی نوبت آئی۔ جب معاملہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو یہ آیات نازل ہوئیں جن میں بتادیا گیا کہ مالِ غنیمت کے بارے میں فیصلے کا مکمل اختیار اللہ اور اس کے رسول کو ہے۔ چنانچہ بعد میں اسی سورت کی آیت نمبر ۴۱ میں مالِ غنیمت کی تقسیم کے بارے میں مفصل احکام آگئے۔ زیر نظر آیت نے ہدایت دی کہ اگر مسلمانوں کے درمیان کوئی رنجش ہوئی ہے تو اس وضاحت کے بعد اسے دور کرکے باہمی تعلقات درست کرلینے چاہئیں۔