Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شہیدان وفا کے قصے جہاد کے میدان میں جو مسلمان بھی بھاگ کھڑا ہوا اس کی سزا اللہ کے ہاں جہنم کی آگ ہے ۔ جب لشکر کفار سے مڈبھیڑ ہو جائے اس وقت پیٹھ پھیڑ ہو جائے اس وقت پیٹھ پھیرنا حرام ہے ہاں اس شخص کے لئے جو فن جنگ کے طور پر پینترا بدلے یا دشمن کو اپنے پیچھے لگا کر موقعہ پر وار کرنے کے لئے بھاگے یا اس طرح لشکر پیچھے ہٹے اور دشمن کو گھات میں لے کر پھر ان پر اچانک چھاپہ مار دے تو بیشک اس کیلئے پیٹھ پھیرنا جائز ہے ، دوسری صورت یہ ہے کہ ایک لشکر میں سے دوسرے لشکر میں جانا ہو جہاں چھوٹے سے لشکر سے بڑے لشکر کا ٹکراؤ ہو یا امام اعظم سے ملنا ہو تو وہ بھی اس میں داخل ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا میں بھی اس میں ہی تھا لوگوں میں بھگدڑ مچی میں بھی بھاگا ہم لوگ بہت ہی نادم ہوئے کہ ہم اللہ کی راہ سے بھاگے ہیں اللہ کا غضب ہم پر ہے ہم اب مدینے جائیں اور وہاں رات گذار کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوں اگر ہماری توبہ کی کوئی صورت نکل آئے تو خیر ورنہ ہم جنگوں میں نکل جائیں ۔ چنانچہ نماز فجر سے پہلے ہم جا کر بیٹھ گئے جب حضور آئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تم کون لوگ ہو؟ ہم نے کہا بھاگنے والے آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم لوٹنے والے ہو میں تمہاری جماعت ہوں اور میں تمام مسلمانوں کی جماعت ہوں ہم نے بےساختہ آگے بڑھ کر حضور کے ہاتھ چوم لئے ۔ ابو داؤد و ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن کہہ کر فرماتے ہیں ہم اسے ابن ابی زیاد کے علاوہ کسی کی حدیث سے پہچانتے نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں حضور کے اس فرمان کے بعد آپ کا اس آیت کا تلاوت کرنا بھی مذکور ہے ۔ حضرت ابو عبیدہ جنگ فارس میں ایک پل پر گھیر لئے گئے مجوسیوں کے ٹڈی دل لشکروں نے چاروں طرف سے آپ کو گھیر لیا موقعہ تھا کہ آپ ان میں سے بچ کر نکل آتے لیکن آپ نے مردانہ وار اللہ کی راہ میں جام شہادت نوش فرمایا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا اگر وہ وہاں سے میرے پاس چلے آتے تو ان کے لئے جائز تھا کیونکہ میں مسلمانوں کی جماعت ہوں مجھ سے مل جانے میں کوئی حرج نہیں اور روایت میں ہے میں تمام مسلمانوں کی جماعت ہوں ۔ اور روایت میں ہے کہ تم اس آیت کا غلط مطلب نہ لینا یہ واقعہ بدر کے متعلق ہے ۔ اب تمام مسلمانوں کیلئے وہ فعتہ جس کی طرف پناہ لینے کے لئے واپس مڑنا جائز ہے ، میں ہوں ۔ ابن عمر سے نافع نے سوال کیا کہ ہم لوگ دشمن کی لڑائی کے وقت ثابت قدم نہیں رہ سکتے اور ہمیں یہ معلوم نہیں کہ فئتہ سے مراد امام لشکر ہے یا مسلمانوں کو جنگی مرکز آپ نے فرمایا فئتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے میں نے اس آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا یہ آیت بدر کے دن اتری ہے نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد ۔ ضحاک فرماتے ہیں لشکر کفار سے بھاگ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس پناہ لے اس کے لئے جائز ہے ۔ آج بھی امیر اور سالار لشکر کے پاس یا اپنے مرکز میں جو بھی آئے اس کیلئے یہی حکم ہے ۔ ہاں اس صورت کے سوا نامردی اور بزدلی کے طور پر لشکر گاہ سے جو بھاگ کھڑا ہو لڑائی میں پشت دکھائے وہ جہنمی ہے اور اس پر اللہ کا غضب ہے وہ حرمت کے کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے بخاری مسلم کی حدیث میں ہے سات گناہوں سے جو مہلک ہیں بچتے رہو پوچھا گیا کہ وہ کیا کیا ہیں؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، جادو ، کسی کو ناحق مار ڈالنا ، سود خوری ، یتیم کا مال کھانا ، میدان جہاد سے پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑا ہونا ، ایماندر پاک دامن بےعیب عورتوں پر تہمت لگانا ۔ فرمان ہے کہ ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کا غضب و غصہ لے کر لوٹتا ہے اس کی لوٹنے اور رہنے سہنے کی جگہ جہنم ہے جو بہت ہی بدتر ہے ۔ بشیر بن معبد کہتے ہیں میں حضور کے ہاتھ پر بیعت کرنے آیا تو آپ نے شرط بیان کی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، شہادت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت و رسالت کی شہادت دوں پانچوں وقت کی نماز قائم رکھوں اور زکوٰۃ ادا کرتا رہوں اور حج مطابق اسلام بجا لاؤں اور رمضان المبارک کے مہی نے کے روزے رکھوں اور اللہ کی راہ میں جہاد کروں ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ اس میں سے دو کام میرے بس کے نہیں ایک تو جہاد دوسرے زکوٰۃ میں نے تو سنا ہے کہ جہاد میں پیٹھ دکھانے والا اللہ کے غضب میں آ جاتا ہے مجھے توڈر ہے کہ موت کا بھیانک سماں کہیں کسی وقت میرا منہ نہ پھیر دے اور مال غنیمت اور عشر ہی میرے پاس ہوتا ہے وہ ہی میرے بچوں اور گھر والوں کا اثاثہ ہے سواری لیں اور دودھ پئیں اسے میں کسی کو کیسے دے دوں؟ آپ نے اپنا ہاتھ ہلا کر فرمایا جب جہاد بھی نہ ہو اور صدقہ بھی نہ ہو تو جنت کیسے مل جائے ؟ میں نے کہا اچھا یا رسول اللہ سب شرطیں منظور ہیں چنانچہ میں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔ یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں مسند احمد میں ہے اور اس سند سے غریب ہے ۔ طبرانی میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تین گناہوں کے ساتھ کوئی نیکی نفع نہیں دیتی اللہ کے ساتھ شرک ، ماں باپ کی نافرمانی لڑائی سے بھاگنا ، یہ حدیث بھی بہت غریب ہے ۔ اسی طبرانی میں ہے آپ فرماتے ہیں جس نے دعا ( استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو واتوب الیہ ) پڑھ لیا اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں گو وہ لڑائی سے بھاگا ہو ۔ ابو داؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں اور آنحضرت کے مولیٰ زید اس کے راوی ہیں ۔ ان سے اس کے سوا کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری ۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ بھاگنے کی حرمت کا یہ حکم صحابہ کے ساتھ مخصوص تھا اس لئے کہ ان پر جہاد فرض عین تھا اور کہا گیا ہے کہ انصار کے ساتھ ہی مخصوص تھا اسلئے کہ ان کی بیعت سننے اور ماننے کی تھی خوشی میں بھی اور ناخوشی میں بھی ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بدری صحابہ کے ساتھ یہ خاص تھا کیونکہ ان کی کوئی جماعت تھی ہی نہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ اے اللہ اگر تو اس جماعت کو ہلاک کر دے گا تو پھر زمین میں تیری عبادت نہ کی جائے گی ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں یو مئذ سے مراد بدر کا دن ہے اب اگر کوئی اپنی بری جماعت کی طرف آ جائے یا کسی قلعے میں پناہ لے تو میرے خیال میں تو اس پر کوئی حرج نہیں ۔ یزید بن ابی حبیب فرماتے ہیں کہ بدر والے دن جو بھاگے اس کیلئے دوزخ واجب تھی اس کے بعد جنگ احد ہوئی اس وقت یہ آیتیں اتریں ( اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰن ١٥٥؁ ) 3-آل عمران:155 ) سے عفا اللہ عنھم تک ۔ اس کے ساتھ سال بعد جنگ حنین ہوئی جس کے بارے میں قرانی ذکر ہے آیت ( ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ 25؀ۚ ) 9- التوبہ:25 ) پھر اللہ نے جس کی جاہی توبہ قبول فرمائی ۔ ابو داؤد نسائی مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے کہ ابو سعید فرماتے ہیں یہ آیت بدریوں کے بارے میں اتری ہے لیکن یہ یاد رہے کہ گویہ مان لیا جائے کہ سبب نزول اس آیت کا بدری لوگ ہیں مگر لڑائی سے منہ پھیرنا تو حرام ہے جیسے کہ اس سے پہلے حدیث میں گذرا کہ سات ہلاک کرنے والے گناہوں میں ایک یہ بھی ہے اور یہی مذہب جمہور کا ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 زَ حْفًا کے معنی ہیں ایک دوسرے کے مقابل اور دوبدو ہونا۔ یعنی مسلمان اور کافر جب ایک دوسرے کے بالمقابل صف آرا ہوں تو پیٹھ پھیر کا بھاگنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے اَ جْتَنِبُوْا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو ان سات میں ایک واتّوَلَیِ یَوم الزَّحْفِ (مقابلے والے دن پیٹھ پھیر جانا ہے)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا :” زَحَفَ الصَّبِیُّ “ جب بچہ زمین پر گھسٹتا ہوا چلے۔” زَحَفَ الْجَیْشُ “ بڑا لشکر بھی چونکہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے، اس لیے لشکر کے بڑھنے کو بھی ” زَحَفَ “ کہتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ دشمن جب مقابلے کے لیے میدان میں سامنے آکھڑا ہوا، تو بھاگو نہیں۔ یہ حکم صرف بدر ہی میں نہیں تھا بلکہ یہ حکم سب مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ہے۔ متعدد احادیث میں کفار سے بھاگنے کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ “ ان میں سے ایک دشمن سے مڈ بھیڑ کے وقت پیٹھ پھیرنا ہے۔ [ بخاری، الوصایا، باب قول اللہ تعالیٰ : ( إن الذین یأکلون۔۔ ) : ٢٧٦٦ ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی لیے بزدلی سے پناہ کی کئی دعائیں سکھائی ہیں، چناچہ آپ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے : ( اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ أَنْ اُرَدَّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ ) [ بخاری، الدعوات، باب الاستعاذۃ من أرذل العمر۔۔ : ٦٣٧٤، عن سعد (رض) ]- انس (رض) نے فرمایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی منزل پر اترتے تو میں کثرت سے آپ کو یہ پڑھتے ہوئے سنتا : ( اَللّٰھُمَّ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَ ضَلَعِ الدَّیْنِ وَ غَلَبَۃِ الرِّجَالِ ) [ بخاری، الجھاد والسیر، باب من غذا بصبی للخدمۃ : ٢٨٩٣ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے ایمان والوں جب تم کافروں سے ( جہاد میں) دو بدو مقابل ہوجاؤ تو ان سے پشت مت پھیرنا ( یعنی جہاد سے مت بھاگنا) اور جو شخص ان سے اس موقع پر ( یعنی مقابلہ کے وقت) پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لئے پینترا بدلتا ہو یا جو اپنی جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستثنی ہے باقی اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے ( فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ الایة کے اندر بھی ایک قصہ کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ آپ نے بدر کے روز ایک مٹھی کنکریوں کی اٹھا کر کافروں کی طرف پھینکی جس کے ریزے سب کی آنکھوں میں جاگرے اور ان کو شکست ہوئی اور فرشتوں کا امداد کے لئے آنا اوپر آچکا ہے اس پر بطور تفریع فرماتے ہیں کہ جب ایسے عجیب واقعات ہوئے جو کہ بالکل تمہارے اختیار سے خارج ہیں) سو ( اس سے معلوم ہوا کہ تاثیر حقیقی کے مرتبہ میں) تم نے ان ( کافروں) کو قتل نہیں کیا لیکن ( ہاں اس مرتبہ میں) اللہ تعالیٰ نے ( بیشک) ان کو قتل کیا ( یعنی موثر حقیقی اس کی قدرت ہے) اور ( اسی طرح تاثیر حقیقی کے مرتبہ میں) آپ نے خاک کی مٹھی ان کی طرف) نہیں پھینکی، لیکن ( ہاں اس مرتبہ میں) اللہ تعالیٰ نے (واقعی) وہ پھینکی اور ( باوجود اس کے کہ موثر حقیقی قدرت حق ہے پھر جو آثار قتل وغیرہ کو قدرت عبد پر مرتب فرما دیا تو اسمیں حکمت یہ ہے کہ) تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ( ان کے عمل کا) خواب اجر دے ( اور اجر کا ملنا حسب سنت الہیہ موقوف ہے اس پر کہ فعل ان کے عزم و اختیار سے صادر ہو) بلا شبہ اللہ تعالیٰ ( ان مومنین کے اقوال کے) خوب سننے والے ( اور ان کے افعال و احوال کے) خوب جاننے والے ہیں ( ان اقوال استغاثہ اور افعال قتال و احوال تشویش وغیرہا میں جو ان کو محنت پیش آئی ہم کو اس کی اطلاع ہے ان کو اس پر جزا دیں گے) ایک بات تو یہ ہوئی اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کافروں کی تدبیر کا کمزور کرنا تھا ( اور زیادہ کمزوری اس وقت ظاہر ہوئی ہے جب اپنے برابر والے کے بلکہ اپنے سے کمزور کے ہاتھ سے مغلوب ہوجائے اور یہ بھی موقوف ہے اس پر کہ وہ آثار مؤمنین کے ہاتھ سے ظاہر ہوں ورنہ کہہ سکتے تھے کہ تدابیر تو ہماری قوی تھیں لیکن اقوی کے سامنے کہ تدبیر الہی ہے نہ چل سکیں تو اس سے آئندہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کا حوصلہ پست نہ ہو کیونکہ ان کو تو ضعیف ہی سمجھتے) اگر تم لوگ فیصلہ چاہتے ہو تو وہ فیصلہ تو تمہارے پاس آموجود ہوا (جو حق پر تھا اس کو غلبہ ہوگیا) اور اگر (اب حق زیادہ واضح ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت سے) باز آجاؤ تو یہ تھمارے لئے نہایت خوب ہے اور اگر (اب بھی باز نہ آئے بلکہ) تم پھر وہی کام کرو گے (یعنی مخالفت) تو ہم بھی پھر یہی کام کریں گے (یعنی تم کو مغلوب اور مسلمانوں کو غالب کردینا) اور (اگر تم کو اپنی جمعیت کا گھمنڈ ہو کہ اب کی بار اس سے زیادہ جمع کرلیں گے تو یاد رکھو کہ) تمہاری جمعیت تمہارے ذرا بھی کام نہ آئے گی گو کتنی زیادہ ہو اور واقعی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ (اصل میں) ایمان والوں کے ساتھ (یعنی ان کا مددگار) ہے (گو کسی عارض کی وجہ سے کسی وقت ان کے غلبہ کا ظہور نہ ہو لیکن اصل محل غلبہ کے یہی ہیں اس لئے ان سے مقابلہ کرنا اپنا نقصان کرنا ہے) ۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ میں سے پہلی دو آیتوں میں اسلام کا ایک جنگی قانون بتلایا گیا ہے پہلی آیت میں لفظ زحف سے مراد دونوں لشکروں کا مقابلہ اور اختلاط ہے۔ معنی یہ ہیں کہ ایسی جنگ چھڑ جانے کے بعد پشت پھیرنا اور میدان سے بھاگنا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں۔- دوسری آیت میں اس حکم سے ایک استثناء کا ذکر اور ناجائز طور پر بھاگنے والوں کے عذاب شدید کا بیان ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَ۝ ١٥ ۚ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- زحف - أصل الزَّحْفِ : انبعاث مع جرّ الرّجل، کانبعاث الصّبيّ قبل أن يمشي وکالبعیر إذا أعيا فجرّ فرسنه «1» ، وکالعسکر إذا کثر فيعثر انبعاثه . قال : إِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفاً [ الأنفال 15] ، والزَّاحِفُ : السّهم يقع دون الغر - ( ز ح ف ) الزحف اصل میں اس کے معنی پاؤں کو گھسیٹ گھسیٹ کر چلنا کے ہیں جیسا کہ بچہ چلنے کے قابل ہونے سے پہلے اور اونٹ تھکن کی وجہ سے اپنے پاؤں گھسیٹ کر چلتا ہے ۔ یا فوج کثرت ازحام کی وجہ سے آہستہ گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھتی ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ إِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفاً [ الأنفال 15] جب کفار سے تمہاری مٹھ بھیڑ ہوجائے ۔ اور زاحف اس تیر کو کہتے ہیں جو نشانہ سے ورے گر جائے ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥، ١٦) بدر کے دن کافروں سے سامنا ہوجانے کے بعد ان سے پیٹھ مت پھیرو اور جو شخص بدر کے دن شکست کھا کر ان سے پیٹھ پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا اپنی جماعت کی طرف پناہ لینے اور مدد حاصل کرنے کی وجہ سے ہو اور اس سے مستثنی ہے باقی جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور ناراضگی کے ساتھ واپس لوٹے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا) - زحف میں باقاعدہ دو لشکروں کے ایک دوسرے کے مد مقابل آکر لڑنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ غزوۂ بدر سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے علاقے میں آٹھ مہمات ( ) بھیجی گئی تھیں ‘ مگر ان میں سے کوئی مہم بھی باقاعدہ جنگ کی شکل میں نہیں تھی۔ زیادہ سے زیادہ انہیں چھاپہ مار مہمات کہا جاسکتا ہے ‘ لیکن بدر میں مسلمانوں کی کفار کے ساتھ پہلی مرتبہ دو بدو جنگ ہوئی ہے۔ چناچہ ایسی صورت حال کے لیے ہدایات دی جارہی ہیں کہ جب میدان میں باقاعدہ جنگ کے لیے تم لوگ کفار کے مقابل آجاؤ :- (فَلاَ تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَ ) - مطلب یہ ہے کہ ڈٹے رہو ‘ مقابلہ کرو۔ جان چلی جائے لیکن قدم پیچھے نہ ہٹیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani