16۔ 1 گزشتہ آیت میں پیٹھ پھیرنے سے جو منع کیا گیا ہے، دو صورتیں اس سے مستشنٰی ہیں۔ ایک تحرف کی دوسری تحیز کی تَحَرُّفْ کے معنی ہیں ایک طرف پھرجانا، یعنی لڑائی میں جنگی چال کے طور پر یا دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کی غرض سے لڑتا لڑتا ایک طرف پھر جائے، دشمن یہ سمجھے کہ شاید یہ شکت خوردہ ہو کر بھاگ رہا ہے لیکن وہ پھر ایک دم پینترا بدل کر اچانک دشمن پر حملہ کردے۔ یہ پیٹھ پھیرنا نہیں ہے بلکہ یہ جنگی چال ہے جو بعض دفعہ ضروری ہوتی ہے۔ تَحَیُّزُ کے معنی ملنے اور پناہ لینے کے ہیں، کوئی مجاہد لڑتا لڑتا تنہا رہ جائے تو یہ لطائف الحیل میدان جنگ سے ایک طرف ہوجائے، تاکہ وہ اپنی جماعت کی طرف پناہ حاصل کرسکے اور اس کی مدد سے دوبارہ حملہ کرے۔ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ 16۔ 2 یعنی مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ کوئی شخص میدان جنگ سے پیٹھ پھیرے گا، اس کے لئے سخت وعید ہے۔
[١٥] جنگ سے منہ موڑنا کبیرہ گناہ ہے :۔ جنگ سے پسپائی کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً پوری فوج کی جنگی پالیسی ہی یہ ہو کہ اس مقام سے ہٹ کر فلاں مقام سے حملہ کرنا زیادہ سودمند ہوگا یا کوئی فوجی دستہ وہاں سے ہٹ کر اپنے مرکز سے جا ملنا چاہتا ہو، یا کوئی فرد پینترا بدلنے کی غرض سے پیچھے ہٹ آیا تو ایسی سب صورتیں جنگی تدبیریں کہلاتی ہیں۔ انہیں جنگ سے فرار یا پسپائی نہیں کہا جاتا بلکہ فرار سے مقصد ایسی پسپائی ہے جس سے محض اپنی جان بچانا مقصود ہو اور یہ گناہ کبیرہ ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فعل کو ان سات بڑے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کو ہلاک کردینے والے ہیں۔ (بخاری، کتاب المحاربین، باب رمی المحصنات)- اس گناہ کی شدت کی وجہ صرف یہ نہیں کہ ایک شخص اپنی جان بچا کر فوج میں ایک فرد کی کمی کا باعث بنتا ہے۔ بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس فعل سے باقی لوگوں کے بھی حوصلے پست ہوجاتے ہیں اور بھگدڑ مچ جاتی ہے اور بسا اوقات ایک یا چند شخصوں کا فرار پوری فوج کی شکست کا سبب بن جاتا ہے۔
اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ : ” مُتَحَيِّزًا “ ” تَحَرَّفَ “ سے اسم فاعل ہے، جس کا معنی ایک طرف ہونا ہے، یعنی ایک طرف سے دوسری طرف دشمن کو دھوکا دینے کے لیے پلٹنا، پینترا بدلنا۔ ” مُتَحَيِّزًا “ ” تَحَیَّزَ “ سے ہے، کسی جگہ اکٹھا ہونا، یعنی دشمن کو گھیرنے کے لیے یا ان کو دھوکا دینے کے لیے ایک طرف سے دوسری طرف پلٹنا یا پیچھے ہٹنا یا مسلمانوں کی بڑی جماعت کی طرف پناہ کے لیے اور دوبارہ حملے کے لیے لوٹ آنا گناہ نہیں، یعنی اللہ کا غضب اور جہنم کا ٹھکانا ہونا تو جنگ سے بھاگنے والے پر ہے، اگر فنون حرب کے تحت میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹ جائے تو گناہ نہیں۔
استثناء دو حالتوں کا ہے (آیت) اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ یعنی جنگ کے وقت پشت پھیرنا صرف دو حالتوں میں جائز ہے۔ ایک تو یہ کہ میدان سے پشت پھیرنا محض ایک جنگی چال کے طور پر دشمن کو دکھلانے کے لئے ہو حقیقتہ میدان سے ہٹنا مقصد نہ ہو بلکہ مخالف کو ایک غفلت میں ڈال کر یکبارگی حملہ پیش نظر ہو یہ معنی ہیں اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ کے کیونکہ تحرف کے معنی کسی ایک جانب مائل ہونے کے آتے ہیں۔ (روح المعانی) - دوسری استشنائی حالت جس میں میدان سے پشت پھیرنے کی اجازت ہے یہ ہے کہ اپنے موجودہ لشکر کی کمزوری کا احساس کرکے اس لئے پیچھے ہٹیں کہ مجاہدین کی مزید کمک حاصل کرکے پھر حملہ آور ہوں۔ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ کے یہی معنی ہیں کیونکہ تحیز کے لفظی معنی انضمام اور ملنے کے ہیں اور فہ کے معنی جماعت کے، مطلب یہ ہے کہ اپنی جماعت سے مل کر قوت حاصل کرنے اور پھر حملہ کرنے کی نیت سے میدان چھوڑے تو یہ جائز ہے۔- یہ استثناء ذکر کرنے کے بعد ان لوگوں کی سزا کا ذکر ہے جنہوں نے استثنائی حالات کے بغیر ناجائز طور پر میدان چھوڑا یا پشت موڑی۔ ارشاد ہے (آیت) فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ۔ یعنی میدان سے بھاگنے والے اللہ تعالیٰ کا غضب لے کر لوٹے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔- ان دونوں آیتوں میں سے یہ حکم معلوم ہوا کہ فریق مقابل کتنی ہی زیادہ تعداد اور قوت و شوکت میں ہو مسلمانوں کو ان کے مقابلہ سے پشت پھیرنا حرام ہے بجز دو استثنائی صورتوں کے یہ کہ پشت پھیرنا بھاگنے کے لئے نہ ہو بلکہ یا تو پینترا بدلنے کے طور پر ہو اور یا کمک حاصل کرکے دوبارہ حملہ کرنے کے قصد سے ہو۔ - غزوہ بدر میں یہ آیتیں نازل ہوئیں اس وقت یہی حکم عام تھا کہ خواہ کتنی بڑی تعداد سے مقابلہ ہوجائے اور اپنی تعداد سے ان کی کوئی نسبت نہ ہو پھر بھی پشت پھیرنا اور میدان چھوڑنا جائز نہیں۔ میدان بدر میں یہی صورت تھی کہ تین سو تیرہ کا مقابلہ تگنی تعداد یعنی ایک ہزار سے ہو رہا تھا۔ بعد میں تخفیف کے احکام سورة انفال کی آیت (٦٥) اور (٦٦) میں نازل ہوئے آیت (٦٥) میں بیس مسلمانوں کو دو سو کافروں کے اور سو مسلمانوں کو ایک ہزار کافروں کے مقابلہ میں جہاد کرنے کا حکم ہے اور آیت (٦٦) میں مزید تخفیف کا یہ قانون نازل ہوگیا۔ (آیت) اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا ۭفَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ ۔ یعنی اب اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے آسانی کردی اور تمہارے ضعف کے پیش نظر یہ قانون جاری کردیا کہ اگر مسلمان سو آدمی ثابت قدم ہوں تو دو سو کفار پر غالب آسکیں گے۔ اس میں اشارہ کردیا کہ اپنے سے دوگنی تعداد تک تو مسلمانوں ہی کے غالب رہنے کی توقع ہے اس لئے پشت پھیرنا جائز نہیں۔ ہاں فریق مخالف کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہوجائے تو ایسی حالت میں میدان چوڑ دینا جائز ہے۔- حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ جو شخص اکیلا تین آدمیوں کے مقابلہ سے بھاگا وہ بھاگا نہیں ہاں جو دو آدمیوں کے مقابلہ سے بھاگا وہ بھاگنے والا ہے یعنی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے (روح البیان) اب یہی حکم قیامت تک باقی ہے جمہور امت اور ائمہ اربعہ کے نزدیک حکم شرعی یہی ہے کہ جب تک فریق مخالف کی تعداد دوگنی سے زائد نہ ہو اس وقت تک میدان جنگ سے بھاگنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔- صحیحین میں بروایت حضرت ابوہریرہ منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سات کاموں کو انسان کے لئے مہلک فرمایا ان میں میدان جنگ سے بھاگنا بھی شمار فرمایا۔ اور غزوہ حنین کے واقعہ میں صحابہ کرام کی ابتدائی پسپائی کو قرآن کریم نے شیطانی لغزش قرار دیا جو اس کے گناہ عظیم ہونے کی دلیل ہے ارشاد فرمایا (آیت) اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّـيْطٰنُ ۔- اور ترمذی، ابوداؤد کی ایک روایت میں جو قصہ حضرت عبداللہ بن عمر کا منقول ہے کہ ایک مرتبہ جنگ سے بھاگ کر انہوں نے مدینہ میں پناہ لی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اعتراف جرم کیا کہ ہم میدان جنگ سے بھاگنے والے مجرم ہوگئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بجائے اظہار ناراضی کے ان کو تسلی دی اور فرمایا بل انتم العکارون وانا فئتکم یعنی تم بھاگنے والے نہیں بلکہ کمک حاصل کرکے دوبارہ حملہ کرنے والے ہو اور میں تمہارے لئے کمک ہوں۔ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ ان لوگوں کا بھاگ کر مدینہ میں پناہ لینا اس استثناء کے اندر داخل ہے جس میں کمک حاصل کرنے کے لئے میدان چھوڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ عمر کو حق تعالیٰ کے خوف اور ہیبت و عظمت کا جو مقام خاص حاصل تھا اس کی بنا پر وہ اس ظاہری پسپائی سے بھی گھبرائے اور اپنے آپ کو مجرم کی حیثیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیا۔- تیسری آیت میں غزوہ بدر کے بقیہ واقعہ کا بیان کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ غزوہ بدر کی معجزانہ فتح میں کثرت کے قلت سے اور قوت کے ضعف سے مغلوب ہوجانے کو اپنی سعی و عمل کا نتیجہ نہ سمجھو بلکہ اس ذات پاک کی طرف دیکھو جس کی نصرت و امداد نے یہ نقشہ جنگ پلٹ دیا۔- واقعہ جو اس آیت میں بیان ہوا اس کی تفصیل ابن جریر طبری اور بیہقی وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن عباس وغیرہ سے یہ نقل کی ہے کہ معرکہ بدر کے دن جب مکہ کے ایک ہزار جوانوں کا لشکر ٹیلہ کے پیچھے سے میدان میں آیا تو مسلمانوں کی قلت و ضعف اور اپنی کثرت و قوت پر فخر کرتا ہوا متکبرانہ انداز سے سامنے آیا۔ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی کہ یا اللہ یہ تیرے جھٹلانے والے قریش فخر وتکبر کرتے ہوئے آرہے ہیں آپ نے جو فتح کا وعدہ مجھ سے فرمایا ہے اس کو جلد پورا فرما ( روح البیان) تو جبریل امین نازل ہوئے اور عرض کیا کہ آپ ایک مٹھی خاک کی لے کر دشمن کے لشکر کی طرف پھینک دیں۔ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اور ابن ابی حاتم نے بروایت ابن زید نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ مٹی اور کنکروں کی مٹھی بھری ایک لشکر کے داہنے حصہ پر دوسری بائیں حصہ پر تیسری سامنے کی جانب پھینک دی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس ایک یا تین مٹھی بھر کنکریوں کو قدرت نے معجزانہ انداز میں اس طرح پھیلا دیا کہ مخالف لشکر کا کائی آدمی باقی نہ رہا جس کی آنکھوں میں اور چہروں پر یہ دھول اور کنکریاں نہ پہنچی ہوں جس کا اثر یہ ہوا کہ پورے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔ اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا فرشتے الگ ان کے ساتھ شریک قتال تھے۔ ( مظہری، روح) ۔- بالآخر کچھ لوگ مخالف فریق کے قتل ہوگئے کچھ گرفتار کرلئے گئے باقی بھاگ گئے اور میدان مسلمانوں کے ہاتھ آگیا۔
وَمَنْ يُّوَلِّہِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَۃٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَمَاْوٰىہُ جَہَنَّمُ ٠ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ١٦- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- ( متحرّفا)- ، اسم فاعل من تحرّف الخماسيّ فوزنه متفعّل بضم المیم وکسر العین .- ( متحيّزا)- اسم فاعل من تحيّز الخماسي فوزنه متفعّل بضم المیم وکسر العین، وفيه إعلال لأن أصله متحیوز، اجتمعت الیاء والواو والأولی منهما ساکنة قلبت الواو إلى ياء وأدغمت مع الیاء الأولی.- حيز - قال اللہ تعالی: أَوْ مُتَحَيِّزاً إِلى فِئَةٍ [ الأنفال 16] ، أي : صائرا إلى حيّز وأصله من الواو،- وذلک کلّ جمع منضمّ بعضه إلى بعض، وحُزْتُ الشیء أَحُوزُهُ حَوْزاً ، وحمی حَوْزَتَهُ ، أي :- جمعه، وتَحَوَّزَتِ الحيّة وتَحَيَّزَتْ ، أي : تلوّت والأَحْوَزِيُّ : الذي جمع حوزه متشمّرا، وعبّر به عن الخفیف السّريع .- فِئَةُ ( جماعت)- والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی:- إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48]- الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے ۔۔۔۔۔ بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔- باءَ- وقوله عزّ وجلّ : باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال 16] ، أي : حلّ مبّوأ ومعه غضب الله، أي : عقوبته، وقوله : بِغَضَبٍ في موضع حال، کخرج بسیفه، أي : رجع، لا مفعول نحو : مرّ بزید .- اور آیت کریمہ ؛۔ باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال 16] کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایسی جگہ پر اترا کہ اس کے ساتھ اللہ کا غضب یعنی عقوبت ہے ۔ تو یہاں بغضب موضع حال میں ہے جیسے خرج بسیفہ میں ہے اور مربزید کی طرح مفعول نہیں ہے ۔ اور بغضب پر باد لاکر تنبیہ کی ہے کہ موافق جگہ میں ہونے کے باوجود غضب الہی میں گرفتار بےتو ناموافق جگہ میں بالاولیٰ اس پر غضب ہوگا ۔ لہذا یہ فبشرھم بعذاب کی مثل ہے - غضب - الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] ، قيل :- هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ :- الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» .- ( غ ض ب ) الغضب - انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ - (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے - بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے - صير - الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] .- و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال .- ( ص ی ر ) الصیر - کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔
دشمن کی طرف جانے والے لشکر سے فرار کا بیان - قول باری ہے ومن یولھم یومئذدبرہ الامتحرفاً لقتال اومتحیزاً الی فئۃ فقد باء بغضب من اللہ وماولہ جھنم۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری۔ الایہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لئے۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا) ابونضرہ نے حضرت ابوسعید (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ بات معرکہ بدر کے لئے کہی گئی تھی ابونضرہ کہتے ہیں کہ اگر اس دن مسلمان کسی دوسری فوج سے جا ملتے تو وہ مشرکین کی فوج کے سوا اور کوئی فوج نہ ہوتی اس لئے کہ ان مسلمانوں کے سوا اس دن مسلمانوں کا کوئی اور جتھا نہیں تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ابونضرہ کی یہ بات درست نہیں ہے اس لئے کہ مدینہ کے اندر انصار کے بہت سے لوگ موجود تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اسلامی لشکر کے ساتھ چلنے کا حکم نہیں دیا تھا اور خود یہ لوگ جنگ کے امکان کے بارے میں سوچ نہیں رہے تھے۔ انکا خیال تھا کہ بس تجارتی قافلے سے مڈبھیڑ ہوگی اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ہی لوگوں کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چل پڑے تھے۔ اس لئے ا بونضرہ کا یہ قول غلط ہے کہ اس دن بدر کے میدان میں موجود مسلمانوں کے سوا اور کہیں مسلمان نہیں تھے۔ نیز یہ کہ اگر مسلمان کسی فوج کے ساتھ جا ملتے تو وہ مشرکین کی فوج ہوتی۔ ایک قول یہ ہے کہ اس دن مسلمانوں کے لئے کسی اور فوج کے ساتھ جا ملنا جائز ہی نہیں تھا اس لئے کہ مسلمان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت چھوڑ کر کسی اور کی معیت اختیار کرلینا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ماکان لاھل المدینۃ ومن حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ ولایرغبوا بانفسھم عن نفسہ۔ مدینے کے باشندوں اور گرد و نواح کے بدویوں کو یہ ہرگز زیبا نہ تھا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے اور اس کی طرف سے بےپروا ہو کر اپنے اپنے نفس کی کر میں لگ جاتے) اس لئے مسلمانوں کے واسطے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑ کر واپس ہوجانا اور آپ کو تنہا چھوڑ جانا جائز ہی نہیں تھا اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد اور لوگوں سے آپ کی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھانی تھی چناچہ ارشاد باری ہے واللہ یعصمک من الناس۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دینا مسلمانوں پر فرض تھا خواہ دشمنوں کی تعداد زیادہ ہوتی یا کم۔ نیز آیت زیر بحث میں وارد لفظ فئۃ کا اس دن مصداق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس تھی اس لئے جو شخص اس دن میدان کارزار سے کنارہ کشی کرتا تو اس کی یہ کنارہ کشی اس صورت میں جائز ہوتی جب وہ کسی فئۃ یعنی پشت پناہ سے جا ملنے کا ارادہ کرتا اور ظاہر ہے کہ اسی دن اس لفظ کا مصداق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ آپ ہی مسلمانوں کے لئے فئۃ یعنی پشت پناہ تھے۔ اس کی مزید وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے حضرت ابن عمر (رض) کا بیان ہے کہ میں ایک فوجی دستے میں شامل تھا کچھ لوگ میدان کارزار سے پیچھے ہٹے اور مدینہ کی طرف واپس ہوگئے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔ ہم نے سوچا کہ میدان سے بھاگ کر ہم تو فرار ہونے والے بن گئے اور آیت میں مذکورہ وعید کے سزاوار ہوگئے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم فرار ہونے والے قرار نہیں پاتے۔ میں تمہارے لئے فئۃ یعنی پشت پناہ ہوں۔ یعنی تم لوگ بھاگ کر میری طرف آئے ہو اس لئے آیت میں مذکورہ وعید کے مستحق نہیں بنوگے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور ہوتا جب وہ کفار کے مقابلے سے ہٹ آتا تو اس کے لئے فئۃ کی طرف پلٹ آنا جائز ہوجاتا اس لئے کہ ایسی حالت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس اس کے لئے فئۃ بن جاتی لیکن جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوتے تو اس صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے سوا مسلمانوں کے لئے کوئی اور فئۃ نہ ہوتا جس کی طرف ان کے لئے ہٹ آنا جائز ہوتا۔ ایسی صورت میں پھر کسی مسلمان کے لئے میدان کارزار سے ہٹنا جائز نہیں ہوسکتا۔ قو ل باری ومن یولھم فومئذ دبرہ) کے متعلق حسن کا قول ہے کہ اس میں اہل بدر پر سختی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن انما استزلھما الشیطن ببعض ماکسبوا۔ تم میں سے جو لوگ پیٹھ پھیر گئے تھے ان کی لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگا دیئے تھے) ایسا اس لئے کہا گیا کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ معرکہ حنین کے دن بھی مسلمانوں سے یہی لغزش ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے اپنے قول ویوم حنین اذا عجبتکم کثرتکم فلم یغن عنکم شیئاً وضاقت علیکم الارض بمارحبت ثم ولیتم مدبرین۔ ابھی غزوہ حنین کے روز (تم اس کی دستگیری کی شان دیکھ چکے ہو) اس روز تمہیں اپنی کثرت تعداد کا غرہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے) کے ذریعہ ان پر عتاب فرمایا۔- جنگ سے فرار کے اصول - مسلمانوں کے میدان کارزار چھوڑکر بھاگنے کے عدم جواز کا یہ حکم اس لئے تھا کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنفس نفیس ان کے ساتھ ہوتے تھے خواہ دشمن کی تعداد تھوڑی ہوتی یا زیادہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں ان کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا یایھا النبی حرض المومنین علی القتال ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا ممائتین وان یکن منکم مائۃ یغلبوا الفاً من الذین کفروا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کو جنگ پر ابھارو، اگر تم میں سے بیس آدمی صابرہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے) یہ حکم۔۔ واللہ اعلم…اس صورت کے لئے تھا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ موجود نہ ہوتے اس صورت میں بیس آدمیوں پر دو سو کے مقابلہ میں ڈٹ جانا ضروری ہوتا اور انہیں پیچھے ہٹنے کی اجازت نہ ہوتی جب دشمنوں کی تعداد اس سے زیادہ ہوتی تو ان کے لئے میدان کارزار چھوڑ کر مسلمانوں کے کسی گروہ کی طرف پلٹ آنا جائز ہوتا جس کی مدد لے کر پھر دوبارہ میدان کارزار گرم کرتے پھر یہ حکم اس قول باری کے ذریعے منسوخ ہوگیا۔ اچھا اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو وہ دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مسلمانوں پر یہ فرض تھا کہ ان کا ایک آدمی دس کے مقابلہ سے بھی نہ بھاگے۔ پھر یہ بوجھ ہلکا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا الان خفف اللہ عنکم تا آخر آیت مسلمانوں پر یہ فرض کردیا گیا کہ ان کے ایک سو آدمی دو سو کے مقابلہ سے نہ بھاگیں۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اگر ایک شخص دو کے مقابلے سے بھاگے گا تو وہ فرار ہونے والا کہلائے گا لیکن اگر وہ تین کے مقابلہ سے بھاگے گا تو اسے فرار ہونے والا نہیں کہیں گے۔- ابن عباس (رض) کا قول - ابوبکر حبصاص حضرت ابن عباس (رض) کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو شخص دو کے مقابلہ سے بھاگے گا وہ اس زحفا یعنی لشکر سے فرار ہونے والا کہلائے گا جو آیت میں مراد ہے آیت میں ایک مسلمان پر دو کافروں کے مقابلہ میں ڈٹ جانا واجب کردیا گیا ہے اگر کافروں کی تعداد دو سے زائد ہو تو اسی صورت میں اس ایک مسلمان کے لئے میدان سے ہٹ کر مسلمانوں کے کسی ایسے گروہ کی طرف پلٹ آنا جائز ہوگا جو میدان کارزار گرم کرنے کے لئے اس کی مدد کرسکتا ہو لیکن یہ ایک مسلمان اگر مسلمانوں کے کسی ایسے گروہ کی طرف پلٹ جانے کی نیت سے میدان کارزار چھوڑ دے گا۔ جو اس کی مدد کے لئے آمادہ نہ ہو تو اس صورت میں فرار ہونے والا یہ شخص اس وعید کا مستحق قرار پائے گا جس کا ذکر اس آیت میں ہے ومن یولھم یومئذ دبرہ) تا آخر آیت۔ اسی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے انا فئۃ کل مسلم۔ میں ہر مسلمان کے لئے پشت پناہ ہوں۔ حضرت عمر (رض) کو جب یہ اطلاع ملی کہ ابوعبید بن مسعود (رض) نے جنگ کے دن لڑائی جاری رکھی اور جان جوکھوں میں ڈال کر لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے لیکن پسپا نہیں ہوئے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ابوعبیدہ پر رحم فرمائے اگر وہ میدان جنگ سے ہٹ کر میری طرف پلٹ آتے تو میں ان کے لئے فئۃ بن جاتا “۔ پھر جب ابوعبید کے رفقا میدان چھوڑ کر حضرت عمر (رض) کے پاس پہنچ گئے تو آپ (رض) نے ان سے فرمایا کہ ” میں تمہارے لئے فئۃ ہوں “۔ آپ نے میدان چھوڑنے کی بنا پر ان پر کوئی سختی نہیں کی ہمارے نزدیک یہ حکم اس وقت تک ثابت رہے گا جب تک مسلمانوں کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تک نہ پہنچ جائے۔- پسپائی بطور جنگی چال - اگر بارہ ہزار سے تعداد کم ہو تو ان کے لئے اپنے سے دو چند دشمن کے مقابلہ سے پسپا ہونے کی صرف وہ صورتیں جائز ہوں گی ایک تو جنگی چال کے طور پر پسپائی اختیار کرنا درست ہوگا، اس کی صورت یہ ہوگی کہ دشمن کو چکمہ دینے کی خاطر اپنی جگہ سے ہٹ کر کسی اور جگہ چلے جائیں مثلا تنگ جگہ سے نکل کر کشادہ جگہ میں آجائیں یا اس کے برعکس صورت اختیار کریں یا دشمن کی گھات پر چھپ کر بیٹھ جائیں یا کوئی صورت جس میں جنگ سے منہ پھیر کر بھاگنا نہ پایا جاتا ہو۔ جواز کی دوسری صورت یہ ہے کہ دشمن کے سامنے سے پسپائی اختیار کر کے مسلمانوں کے کسی اور فوج یا گروہ سے جا ملیں اور ان کے ساتھ ملکر دوبارہ میدان کارزار گرم کریں لیکن جب مسلمانوں کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہوجائے تو امام محمد بن الحسن کے قول کے مطابق ان کے لئے کسی بھی صورت میں پسپائی اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا خواہ دشمن کی تعداد کتنی زیادہ کیوں نہ ہو۔ امام محمد نے اس مسئلے میں ہمارے اصحاب کے درمیان کسی اختلاف کا ذکر نہیں کیا ہے۔- بہترین لشکر - انہوں نے اس مسئلے میں ابن شہاب زہری کی روایت سے استدلال کیا ہے جسے انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے خیرالاصحاب اربعۃ وخیرالسرایا اربح مائۃ وخیرالجیوش اربعۃ آلاف ولن یوتی اثنا عشرالضامن قلۃ ولن یغلب۔ بہترین رفاقت وہ ہے جس میں چار افراد شامل ہوں بہترین فوجی دستہ وہ ہے جس میں چار سو کی نفری ہو اور بہترین لشکر وہ ہے جس میں چار ہزار کی نفری ہو بارہ ہزار نفری پر مشتمل فوج قلت تعداد کی بنا پر شسکت نہیں کھا سکتی اور کبھی مغلوب نہیں ہوسکتی) بعض طرق میں ہے ماغلب قوم یبعثون اثنی عشرالفا اذاجتمعت کلمتھم۔ وہ قوم کبھی مغلوب نہیں ہوسکتی جو بارہ ہزار نفری پر مشتمل فوج کھڑی کر دے بشرطیکہ اس فوج میں مکمل اتحاد ہو۔ طحاوی نے ذکر کیا ہے کہ امام مالک سے کسی نے سوال کیا کہ آیا ہمارے لئے ایسے لوگوں کے مقابلہ سے پیچھے ہٹ آنے کی گنجائش ہے جو اللہ کے احکام کو چھوڑ کر اپنے احکام کے مطابق فیصلے کرتے ہوں “۔ انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا اگر تمہارے ساتھ تمہاری طرح بارہ ہزار کی نفری ہو تو پھر تمہارے لئے پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں۔ اگر یہ تعداد نہ ہو تو پھر تمہارے لئے پیچھے ہٹ آنے کی گنجائش ہے۔ امام مالک سے یہ سوال عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز بن عبداللہ بن عمر (رض) نے کیا تھا۔ یہ مسلک امام محمد کے ذکر کردہ مسلک سے مطابقت رکھتا ہے۔ بارہ ہزار نفری کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایت منقول ہے وہ اس مسئلے کی بنیاد ہے۔ اگر مشرکین کی تعداد زیادہ بھی ہو تو بھی بارہ ہزار نفری کو ان کے مقابلہ سے پسپا ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ خواہ مشرکین ان سے کئی گنا زیادہ کیوں نہ ہوں۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق اس صورت میں پسپائی اختیار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے البتہ اس صورت میں ان پر جو چیز واجب کی گئی ہے وہ ان کا اتحاد اور ان کی یکجہتی ہے۔
آیت ١٦ ( وَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَءِذٍ دُبُرَہٗٓ ) - یعنی اگر کوئی مسلمان میدان جنگ سے جان بچانے کے لیے بھاگے گا۔- (اِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ ) - جیسے دو آدمی دوبدو مقابلہ کر رہے ہوں اور لڑتے لڑتے کوئی دائیں ‘ بائیں یا پیچھے کو ہٹے ‘ بہتر داؤ کے لیے پینترا بدلے تو یہ بھاگنا نہیں ہے ‘ بلکہ یہ تو ایک تدبیراتی حرکت ( ) شمار ہوگی۔ اسی طرح جنگی حکمت عملی کے تحت کمانڈر کے حکم سے کوئی دستہ کسی جگہ سے پیچھے ہٹ جائے اور کوئی دوسرا دستہ اس کی جگہ لے لے تو یہ بھی پسپائی کے زمرے میں نہیں آئے گا۔- (اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِءَۃٍ ) - یعنی لڑائی کے دوران اپنے لشکر کے کسی دوسرے حصے سے ملنے کے لیے منظم طریقے سے پیچھے ہٹنا ( ) بھی پیٹھ پھیرنے کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ ان دو استثنائی صورتوں کے علاوہ اگر کسی نے بزدلی دکھائی اور بھگڈر کے اندر جان بچا کر بھاگا :- (فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَاْوٰٹہُ جَہَنَّمُط وَبِءْسَ الْمَصِیْرُ ) ۔- اب اگلی آیات میں یہ بات واضح تر انداز میں سامنے آرہی ہے کہ غزوۂ بدر دنیوی قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں ‘ بلکہ اللہ کی خاص مشیت کے تحت وقوع پذیر ہوا تھا۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :13 دشمن کے شدید دباؤ پر مرتب پسیائی ( ) ناجائز نہیں ہے جبکہ اس کا مقصود اپنے عقبی مرکز کی طرف پلٹنا یا اپنی ہی فوج کے کسی دوسرے حصہ سے جا ملنا ہو ۔ البتہ جو چیز حرام کی گئی ہے وہ بھگدڑ ( ) ہے جو کسی جنگی مقصد کے لیے نہیں بلکہ محض بزدلی و شکست خوردگی کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس لیے ہوا کرتی ہے کہ بھگوڑے آدمی کو اپنے مقصد کی بہ نسبت جان زیادہ پیاری ہوتی ہے ۔ اس فرار کو بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین گناہ ایسے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی نیکی فائدہ نہیں دیتی ۔ ایک شرک ، دوسرے والدین کی حق تلفی ، تیسرے میدان قتال فی سبیل اللہ سے فرار ۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ نے سات بڑے گناہوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کے لیے تباہ کن اور اس کے انجام اُخروی کے لیے غارتگر ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ گناہ بھی ہے کہ آدمی کفر و اسلام کی جنگ میں کفار کے آگے پیٹھ پھیر کر بھاگے ۔ اس فعل کو اتنا بڑا گناہ قرار دینے کی وجہ سے صرف یہی نہیں ہے کہ یہ ایک بزدلانہ فعل ہے ، بلکہ اس کی وہ یہ ہے کہ ایک شخص کا بھگوڑا پن بسا اوقات ایک پوری پلٹن کو ، اور ایک پلٹن کا بھگوڑا پن ایک پوری فوج کو بدحواس کرکے بھگا دیتا ہے ۔ اور پھر جب ایک دفعہ کسی فوج میں بھگدڑ پڑ جائے تو کہا نہیں جا سکتا کہ تباہی کس حد پر جا کر ٹھیرے گی ۔ اس طرح کی بھگدڑ صرف فوج ہی کے لیے تباہ کن نہیں ہے بلکہ اس ملک کے لیے بھی تباہ کن ہے جس کی فوج ایسی شکست کھائے ۔
8: یہاں دشمن کے مقابلے سے پیٹھ پھیرنے کو ہر حالت میں ناجائز قرار دیا گیا ہے، چاہے دشمن کی تعداد کتنی زیادہ ہو، اور جنگ بدر کے وقت صورت حال یہی تھی، البتہ بعد میں اس حکم کی تفصیل اسی سورت کی آیت : ٦٥ اور ٦٦ میں بیان فرمائی گئی ہے جس کی روسے اب حکم یہ ہے کہ دشمن کی تعداد اگر دگنی یا اس سے کم ہو، تب تو میدان چھوڑنا حرام ہے ؛ لیکن اگر ان کی تعداد اس سے زیادہ ہو تو میدان چھوڑنے کی اجازت ہے، پھر جس وقت دشمن کو پیٹھ دکھانا ناجائز ہوتا ہے اس میں بھی اس آیت نے دو صورتوں کو مستثنی رکھا ہے، ایک یہ کہ بعض اوقات جنگ ہی کی کسی حکمت عملی کے طور پر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے مقصد میدان سے بھاگنا نہیں ہوتا ایسے میں پیچھے ہٹنا جائز ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ پیچھے ہٹ کر اپنی فوج کے پاس جانا اس سے مقصود ہو کہ ان کی مددلے کر دوبارہ حملہ کیا جائے، یہ صورت بھی جائز ہے۔