Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ کی مدد ہی وجہ کامرانی ہے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ بندوں کے کل کاموں کا خالق وہی ہے ان سے جو بھی اچھائیاں سرزد ہوں اس پر قابل تعریف وہی ہے اس لئے کہ توفیق اسی کی طرف سے ہے اور اعانت و مدد بھی اسی کی جانب سے ہے اسی لئے فرماتا ہے کہ اے مسلمانوں تم نے آپ اپنی طاقت و قوت سے اپنے دشمنوں کو قتل نہیں کیا تم تو مٹی بھر تھے اور دشمن بہت زیادہ تھے تم بےکس اور کمزور تھے دشمن کس بل والے قوت طاقت والے تھے ۔ یہ اللہ ہی کی مدد تھی کہ اس نے تمہیں ان پر غالب کر دیا ، جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ١٢٣؁ ) 3-آل عمران:123 ) اللہ نے بدر کے دن تمہاری مدد کی اور آیت میں ہے آیت ( لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ ۙ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ 25؀ۚ ) 9- التوبہ:25 ) ، بہت سی جگہ اللہ جل شانہ نے تمہاری امداد فرمائی ہے ، حنین کے دن بھی جبکہ تمہیں اپنی زیادتی پر گھمنڈ ہوا لیکن وہ بےکارثابت ہوئی اور یہ وسیع زمین تم پر تنگ ہوگئی اور آخر منہ موڑ کر تم بھاگ کھڑے ہوئے ۔ پس ثابت ہے کہ گنتی کی زیادتی ، ہتھیاروں کی عمدگی اور سازو سامان کی فروانی پر غلبہ موقوف نہیں وہ تو اللہ کی مدد پر موقوف ہے ۔ جیسے ارشاد الٰہی ہے آیت ( کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ واللہ مع الصابرین ) یعنی بسا اوقات چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے لشکروں کے منہ پھیر دیئے ہیں اور ان پر غلبہ حاصل کر لیا ہے یہ سب اللہ کے حکم اور اس کی مدد سے ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ پھر مٹی کی اس مٹھی کا ذکر ہو رہا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی میں کافروں کی طرف پھینکی تھی پہلے تو آپ نے اپنی جھونپڑی میں اللہ تعالیٰ سے دعاکی ۔ روئے ، گڑگڑائے اور منجات کر کے باہر نکلے اور کنکریوں کی ایک مٹھی اٹھا کر کافروں کی طرف پھینکی اور فرمایا ان کے چہرے بگڑ جائیں ، ان کے منہ پھر جائیں ساتھ ہی صحابہ کو حکم دیا کہ فوراً عام حملہ کر دو ۔ ادھر حملہ ہوا ادھر سے وہ کنکریاں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے کافروں کی آنکھوں میں ڈال دیں ۔ وہ سب اپنی آنکھیں مل ہی رہ تھے جو لشکر اسلام ان کے کلے پر پہنچ گیا ۔ پس فرماتا ہے کہ وہ مٹھی تونے نہیں بلکہ ہم نے پھینکی تھی یعنی پھینکی تو حضور نے لیکن ان کی آنکھوں تک پہنچا کر انہیں شکست دینے والا اللہ تعالیٰ ہی تھا نہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کی جس میں یہ بھی کہا کہ اے میرے پروردگار اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کبھی بھی تیری عبادت زمین پر نہ کی جائے گی اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یارسول اللہ آپ ایک مٹھی زمین سے مٹی کی بھرلیں اور ان کے منہ کی طرف پھینک دیں آپ نے یہی کیا پس مشرکین کے سارے لشکر کے منہ اور آنکھ اور نتھنوں میں وہ مٹی گھس گئی اور انہیں پیٹھ پھیرتے ہی بنی ۔ سدی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں حضرت علی سے فرمایا کنکریوں کی ایک مٹھی زمین سے بھر کر مجھے دو حضرت علی نے مٹھی بھردی جس میں کنکریاں تھیں اور مٹی بھی ۔ آپ نے مشرکوں کی طرف وہ مٹھی پینکی جس سے ان کی آنکھیں بھر گئیں ۔ ادھر سے مسلمانوں نے ان پر حملہ کر دیا اور قتل کرنا اور قیمہ کرنا شروع کر دیا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ یہ تیرے بس کی بات نہ تھی بلکہ یہ اللہ کے بس کی چیز تھی ۔ ایک روایت میں ہے کہ تین کنکرلے کر آپ نے پھینکے تھے ایک دائیں ایک بائیں ایک بیچ میں ۔ گو حنین والے دن بھی آپ نے کنکریاں مشرکوں کی طرف پھینکی تھیں لیکن یہاں ذکر جنگ بدر کے دن کا ہے ۔ حکیم بن حزام کا بیان ہے کہ جنگ بدر کے دن ہم نے ایک آواز سنی کہ گویا آسمان سے کوئی کنکر کسی طشت میں گرا اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھینکی ہوئی کنکریاں ہم میں پہنچیں اور ہمیں شکست ہوئی ۔ یہ روایت اس سند سے بہت غریب ہے ۔ یہاں دو قول اور بھی ہیں لیکن بالکل غریب ہیں ۔ ایک تو یہ کہ خیبر کی جنگ کے موقع پر یوم ابن ابی حقیق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کمان منگائی لوگوں نے بہت لمبی کمان لا کر آپ کو دی آپ نے اس سے قلعے کی طرف تیر پھینکا وہ گھومتا ہوا چلا اور سردار قلعہ الوالحقیق کو اس کے گھر میں اس کے بسترے پر جا کر لگا اور اسی سے وہ مرا اس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ وہ تیر تونے نہیں بلکہ ہم نے پھینکا تھا ۔ یہ روایت غریب ہے ممکن ہے راوی کو شبہ ہوگیا ہو یا مراد ان کی یہ ہو کہ یہ آیت عام ہے یہ واقعہ بھی اسی میں شامل ہے ۔ ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ سورہ انفال کی اس آیت میں جنگ بدر کے بیان کا ذکر ہے ۔ تو یہ واقعہ اسی جنگ بدر کا ہے اور یہ بات بالکل ظاہر ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے تاکہ مومنوں کو اپنی نعمت کا اقرار کرا دے کہ باوجود ان کی کثرت ان کی قلت ، ان کے سازو سامان ان کی بےسرو سامانی کے رب العالمیں نے انہیں ان پر غالب کر دیا ۔ حدیث میں ہے ہر ایک امتحان ہمارا امتحان ہے اور ہم پر اللہ کا احسان ہے ۔ اللہ دعاؤں کا سننے والا ہے ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ مدد اور غلبے کا مستحق کون ہے؟ پھر فرماتا ہے اس فتح کے ساتھ ہی یہ خوش خبری بھی سن لو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے حیلے حوالے کمزور کر دے گا ان کی شان گھٹا دے گا ان کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہ ہوگا اور یہی ہوا بھی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی جنگ بدر کی ساری صورت حال تمہارے سامنے رکھ دی گئی ہے اور جس جس طرح اللہ نے تمہاری وہاں مدد فرمائی، اس کی وضاحت کے بعد تم یہ نہ سمجھ لینا کہ کافروں کا قتل، یہ تمہارا کارنامہ ہے۔ نہیں، بلکہ یہ اللہ کی اس مدد کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے تمہیں یہ فتح حاصل ہوئی اس لئے دراصل انہیں قتل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ 17۔ 2 جنگ بدر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر کافروں کی طرف پھینکی تھی، جسے ایک تو اللہ تعالیٰ نے کافروں کے مونہوں اور آنکھوں تک پہنچادیا اور دوسرے، اس میں یہ تاثیر پیدا فرمادی کہ اس سے ان کی آنکھیں چندھیا گئیں اور انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا، یہ معجزہ بھی، جو اس وقت اللہ کی مدد سے ظاہر ہوا، مسلمانوں کی کامیابی میں بہت مددگار ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اے پیغمبر کنکریاں بیشک آپ نے پھینکی تھیں، لیکن اس میں تاثیر ہم نے پیدا کی تھی، اگر ہم اس میں یہ تاثیر پیدا نہ کرتے تو یہ کنکریاں کیا کرسکتی تھیں ؟ اس لئے یہ بھی دراصل ہمارا ہی کام تھا نہ کہ آپ کا۔ 17۔ 3 بلاء یہاں نعمت کے معنی میں ہے۔ یعنی اللہ کی یہ تائید و نصرت، اللہ کا انعام ہے جو مومنوں پر ہوا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] ریت کی مٹھی کا کرشمہ :۔ میدان بدر میں اللہ کی مدد کی چوتھی صورت یہ تھی کہ جب جنگ پورے زوروں پر تھی اس وقت آپ نے ریت اور کنکریوں کی ایک مٹھی لی اور اسے کافروں کے لشکر کی طرف پھینک دیا اور فرمایا شاھت الوجوہ اس ریت کے ذرات کافروں کی آنکھوں میں جا لگے جس سے وہ آنکھیں ملتے رہ گئے اور انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو موقع دیا۔ کہ وہ کافروں کو بےدریغ قتل کرسکیں۔ بعض عقل پرست حضرات کہتے ہیں کہ مٹھی پھینکنے کے وقت ہوا کا رخ چونکہ کافروں کی طرف تھا، اس لیے کافروں کو یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ مٹھی بھر ریت کے ذرات آخر سب کافروں تک کیسے پہنچ گئے۔ پھر یہ ذرات آنکھوں میں ہی کیوں جا لگے۔ کسی اور جگہ بھی لگ سکتے تھے۔ آنکھ تو انتہائی مختصر حصہ جسم ہے۔ لازماً یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فعل تھا۔ جس کا صدور اس کے نبی کے ہاتھوں معجزہ کے طور پر ہوا تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس فعل کی نسبت براہ راست اپنی طرف کی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ : صاحب کشاف نے فرمایا، یہاں حرف ” فاء “ یعنی ” پس “ ایک شرط کا جواب ہے کہ اگر تم فخر کرو کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا تو درست نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انھیں قتل کیا، کیونکہ نہ تمہاری تعداد زیادہ تھی اور نہ تمہارے پاس اتنا سروسامان تھا کہ تم کافروں کے ہر طرح سے مسلح اور عظیم لشکر کو شکست دے سکتے۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یہ اس لیے فرمایا کہ مسلمان یہ سمجھیں کہ فتح ہماری قوت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے، لہٰذا ان کو چاہیے کہ کسی بات میں اپنا دخل نہ دیا کریں۔ (موضح)- وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ : یعنی وہ مٹھی جو آپ نے پھینکی، درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی، کیونکہ اگر وہ آپ کی پھینکی ہوئی ہوتی تو اتنی دور ہی جاسکتی جتنی ایک آدمی کے پھینکنے سے جاسکتی ہے، اس کو اتنا بڑھانا اور ٹھیک نشانے پر پہنچانا کہ ہر مشرک کی آنکھ میں پہنچ جائے صرف اللہ تعالیٰ کا کام تھا۔ یہ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو حافظ ابن کثیر نے علی بن طلحہ عن ابن عباس (رض) کی حسن سند سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا : ” یا رب اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر زمین میں تیری عبادت کبھی نہیں ہوگی۔ “ تو جبریل (علیہ السلام) نے کہا : ” آپ مٹی کی ایک مٹھی لیں اور ان کے چہروں پر پھینکیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مٹی کی ایک مٹھی پکڑی اور ان کے چہروں کی طرف پھینکی تو جو بھی مشرک تھا اس کی آنکھوں، نتھنوں اور منہ میں اس مٹھی کا کچھ حصہ جا پہنچا تو وہ پیٹھ دے کر بھاگ گئے۔ گویا مٹی پھینکی آپ نے لیکن اس کو نشانے تک اللہ نے پہنچایا، ابتدائی کام پھینکنا آپ کا تھا اور انتہا نشانے پر لگانا اللہ کا فعل تھا۔ اگر درحقیقت خود آپ ہی اللہ تعالیٰ تھے تو دونوں فعل آپ کے ہوئے، آپ سے ایک فعل (نشانے پر لگانے) کی نفی کیوں کی گئی ؟- بعض لوگ ” وَمَا رَمَيْتَ “ سے ثابت کرتے ہیں کہ درحقیقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ہی پروردگار عالم تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے پھینکنے کو اپنا پھینکنا قرار دیا، مگر اس صورت میں تو لازم آئے گا کہ ” وَلٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ “ سے بدری مسلمان بھی خود اللہ تعالیٰ ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفار کے قتل کرنے کو اپنا کام قرار دیا ہے۔ مگر یہ نہایت کفریہ بات ہے جس سے دین اسلام کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ وہ صحابہ کرام (رض) کچھ بدر ہی میں شہید ہوئے، کچھ بعد میں فوت یا شہید ہوئے، خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زہر کے اثر سے وفات پائی اور اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ زندہ حی و قیوم ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ہستی تو ایک ہی ہے، فرمایا : (قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ) ان لوگوں کا رب عجیب ہے، جو ایک نہیں بلکہ بڑی تعداد میں ہے اور وہ شہید ہوتا اور مرتا بھی ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ہندوؤں کی طرح ہر چیز کو رب مانتے ہیں اور اسے وحدت الوجود کہتے ہیں۔ جس کا نتیجہ قرآن و حدیث کے احکام کا خاتمہ اور اسلام و کفر اور جنت و دوزخ سب کے وجود کا انکار ہے۔ [ نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ]- وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِيْنَ مِنْهُ بَلَاۗءً حَسَـنًا : ” لِيُبْلِيَ “ یہ ” بَلَاءٌ“ سے مشتق ہے، از باب افعال، آزمانا، جو سختی اور مصیبت کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور نعمت عطا فرما کر بھی، اس لیے ” بَلَاءٌ“ کا معنی مصیبت بھی ہے اور انعام بھی۔ یہاں مراد انعام یا احسان اور عطا کے ساتھ آزمانا ہے۔ یعنی باوجود یہ کہ مسلمانوں کا سامان اور لشکر کافروں کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں فتح دی، تاکہ وہ اس نعمت کو پہچانیں اور اس کا شکر بجا لائیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

بالکل مایوسی اور ناامیدی کے عالم میں یہ فتح عظیم مسلمانوں کو حاصل ہوئی میدان جنگ سے واپس آکر آپس میں گفتگوئیں شروع ہوئیں صحابہ کرام اپنے اپنے کارنامے ایک دوسرے سے بیان کرنے لگے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ ، جس میں ان کو یہ ہدایت دی گئی کہ اپنی سعی و عمل پر ناز نہ کرو یہ جو کچھ ہوا وہ صرف تمہاری محنت و کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ خالص حق تعالیٰ کی نصرت و امداد کا ثمرہ تھا۔ جو دشمن تمہارے ہاتھوں قتل ہوئے ان کو درحقیقت تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے قتل کیا ہے۔ - اسی طرح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے ارشاد ہوا۔ (آیت) وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى۔ یعنی یہ مٹھی کنکریوں کی جو آپ نے پھینکی وہ درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پھینکنے کا یہ نتیجہ کہ لشکر دشمن کے ہر فرد کی آنکھوں میں پہنچ کر سب کو سراسیمہ کردے یہ آپ کے پھینکنے کا اثر نہیں تھا بلکہ حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ صورت پیدا فرمائی۔ - مارمیت اذ رمیت گفت حق کا رما بر کارہا دارد سبق - غور کیا جائے تو مسلمانوں کے لئے جہاد کی فتح و کامیابی سے زیادہ قیمتی یہ ہدایت تھی جس نے ان کے ذہنوں کو اسباب سے پھیر کر مسبب الاسباب سے وابستہ کردیا اور اس کے ذریعہ اس فخر و عجب کی خرابی سے بچا لیا جس کے نشہ میں عموما فاتح اقوام مبتلا ہوجایا کرتی ہیں۔ اور اس کے بعد یہ بتلایا کہ فتح و شکست ہمارے حکم کے تابع ہیں۔ اور ہماری فتح و نصرت ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو اطاعت گزار ہوں۔ (آیت) وَلِيُبْلِيَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ مِنْهُ بَلَاۗءً حَسَـنًا، یعنی یہ فتح عظیم ہم نے اس لئے دی کہ مومنین کو ان کی محنت کا پورا صلہ دے دے۔ بلاء کے لفظی معنی امتحان کے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا امتحان کبھی مصیبت و مشقت میں مبتلا کرکے ہوتا ہے اور کبھی راحت و دولت دے کر۔ بلاء حسن اس امتحان کو کہا گیا ہے جو راحت، دولت اور فتح و نصرت دے کرلیا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس کو ہمارا انعام سمجھ کر شکر گزار ہوتے ہیں یا اس کو اپنی ذاتی قابلیت کا اثر سمجھ کر فخر و ناز میں مبتلا ہوجاتے اور اپنے عمل کو برباد کردیتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کسی کے فخر و ناز کی کوئی گنجائش نہیں ہے بقول مولانارومی :- فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ جز شکستہ می نگیرد فضل شاہ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمْ تَقْتُلُوْہُمْ وَلٰكِنَّ اللہَ قَتَلَہُمْ۝ ٠ ۠ وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ رَمٰى۝ ٠ ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِيْنَ مِنْہُ بَلَاۗءً حَسَـنًا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝ ١٧- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- رمی - الرَّمْيُ يقال في الأعيان کالسّهم والحجر، نحو : وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى- [ الأنفال 17] ، ويقال في المقال، كناية عن الشّتم کالقذف، نحو : وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْواجَهُمْ- [ النور 6] ، يَرْمُونَ الْمُحْصَناتِ [ النور 4] ، وأَرْمَى فلان علی مائة، استعارة للزّيادة، وخرج يَتَرَمَّى: إذا رمی في الغرض .- ( ر م ی ) الرمی ( ض ) کے معنی پھینکنے کے ہیں یہ اجسام ( مادی چیزیں ) جیسے تیر وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى [ الأنفال 17] اے پیغمبر جب تو نے تیر چلائے تو تم نے تیر نہیں چلائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تیر چلائے ۔ اوراقوال کے متعلق استعمال ہو تو " قذف " کی طرح اس کے معنی سب و شتم اور تہمت طرازی کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْواجَهُمْ [ النور 6] جو لوگ اپنی بیبیوں پر ( زنا کا ) عیب لگائیں ۔- وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَناتِ [ النور 4] جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں ۔ محاورہ ہے ارمیٰ علٰی مائۃ : وہ سو سے زائد ہیں ۔ خرج یترمٰی : وہ نکل کر نشانہ بازی کرنے لگا ۔- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] ، وقال عزّ وجل : إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، - وسمي التکليف بلاء من أوجه :- أحدها : أن التکالیف کلها مشاق علی الأبدان، فصارت من هذا الوجه بلاء .- والثاني : أنّها اختبارات، ولهذا قال اللہ عزّ وجل : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] .- والثالث : أنّ اختبار اللہ تعالیٰ للعباد تارة بالمسار ليشکروا، وتارة بالمضار ليصبروا، فصارت المحنة والمنحة جمیعا بلاء، فالمحنة مقتضية للصبر، والمنحة مقتضية للشکر .- والقیام بحقوق الصبر أيسر من القیام بحقوق الشکر فصارت المنحة أعظم البلاء ین، وبهذا النظر قال عمر : ( بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نشکر) «4» ، ولهذا قال أمير المؤمنین : من وسع عليه دنیاه فلم يعلم أنه قد مکر به فهو مخدوع عن عقله «1» .- وقال تعالی: وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] ، وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال 17] ، وقوله عزّ وجل : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، راجع إلى الأمرین، إلى المحنة التي في قوله عزّ وجل : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] ، وإلى المنحة التي أنجاهم، وکذلک قوله تعالی: وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] ، راجع إلى الأمرین، كما وصف کتابه بقوله : قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] . وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها - ( ب ل ی )- بلی الوقب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ ۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] اور ہم کسی قدر خوف سے تمہاری آزمائش کریں گے ۔ إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ اور تکلف کو کئی وجوہ کی بناہ پر بلاء کہا گیا ہے ایک اسلئے کہ تکا لیف بدن پر شاق ہوتی ہیں اس لئے انہیں بلاء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ دوم یہ کہ تکلیف بھی ایک طرح سے آزمائش ہوتی ہے ۔ جیسے فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں ۔ سوم اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو بندوں کو خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ شکر گزار بنتے ہیں یا نہیں اور کبھی تنگی کے ذریعہ امتحان فرماتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں ۔ لہذا مصیبت اور نعمت دونوں آزمائش ہیں محنت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور منحتہ یعنی فضل وکرم شکر گزاری چاہتا ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ کہا حقہ صبر کرنا کہا حقہ شکر گزاری سے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے نعمت میں یہ نسبت مشقت کے بڑی آزمائش ہے اسی بنا پر حضرت عمر فرماتے ہیں کہ تکا لیف پر تو صابر رہے لیکن لیکن فراخ حالی میں صبر نہ کرسکے اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزامائش کی گرفت میں ہے تو و فریب خوردہ اور عقل وفکر سے مخزوم ہے قرآن میں ہے ۔ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں ۔ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً «2» [ الأنفال 17] اس سے غرض یہ تھی کہ مومنوں کو اپنے ( احسانوں ) سے اچھی طرح آزما لے ۔ اور آیت کریمہ : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہاراے پروردگار کی طرف سے بڑی ( سخت ) آزمائش تھی میں بلاء کا لفظ نعمت و مشقت دونوں طرح کی آزمائش کو شامل ہی چناچہ آیت : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49]( تہمارے بیٹوں کو ) تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ میں مشقت کا بیان ہے اور فرعون سے نجات میں نعمت کا تذکرہ ہے اسی طرح آیت وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] اور ان کو نشانیاں دی تھیں جنیہں صریح آزمائش تھی میں دونوں قسم کی آزمائش مراد ہے جیسا کہ کتاب اللہ کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ومارمیت اذرمیت کا مفہوم - پھر فرمایا ومارمیت اذرمیت ولکن اللہ رمی اور تم نے نہیں پھینکا جب پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا) یہ بات اس طرح ہوئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مٹھی مٹی لے کر کافروں کے چہروں کی طرف پھینک دی اور کافروں کے قدم اکھڑ گئے۔ ایک بھی کافر ایسا نہیں بچا جس کی آنکھ میں اس مٹی کا کچھ حصہ نہ پڑا ہو، اس میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مٹی ان کافروں کے چہروں اور ان کی آنکھوں تک پہنچا دی تھی۔ اس لئے کہ کسی مخلوق کی یہ طاقت نہیں تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس جگہ کھڑے تھے وہاں سے یہ مٹی ان کافروں کی آنکھوں تک پہنچا سکے۔ یہ تمام باتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت کی نشانیاں تھیں۔ نیز ان واقعات کا ہو بہو اسی طرح وقوع پذیر ہونا جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اطلاع دی تھی نبوت کی نشانی تھی ظن و تخمین اور اٹل کی بنا پر بتائی ہوئی باتیں اس طرح وقوع پذیر نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح یہ بات بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی نشانی تھی کہ بارش کی وجہ سے ریت کی تہ جم گئی اور اس پر مسلمانوں کے قدم جم گئے اور پھر مسلمان کافروں پر قہر الٰہی بن کر ٹوٹ پڑے۔ اس لئے کہ روایت میں ہے کہ کافروں کا جس جگہ پڑائو تھا وہ جگہ بارش کی وجہ سے کیچڑ بن گئی اور ان کے لئے اس پر چلنا پھرنا مشکل ہوگیا۔ ایک نشانی یہ بھی تھی کہ مسلمانوں کو کافروں کے لشکر کا سامنا کرنا پسند نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں میں طمانیت کی کیفیت پیدا کردی گئی۔ پھر یہ بھی ایک نشانی تھی کہ ان پر ایسے موقع پر غنودگی طاری کردی گئی جب گھبراہٹ کی وجہ سے آنکھوں سے نیند اڑ جاتی ہے ایک اور نشانی یہ تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کافروں پر ایک مٹھی مٹی پھینکی تھی جس کی وجہ سے ان کے قدم اکھڑ گئے تھے اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧) اور بدر کے روز جبریل امین (علیہ السلام) اور دوسرے فرشتوں نے کافروں کو قتل کیا اور مشرکین تک آپ نے مٹی نہیں پھینکی لیکن واقعی وہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی۔- تاکہ اس مٹی پھینکنے کی وجہ سے مدد اور غنیمت کے ذریعے مسلمانوں کو بہترین بدلہ دے، اللہ تعالیٰ تمہاری دعاؤں کو سننے والا اور تمہاری مدد سے باخبر ہے۔- شان نزول : (آیت) ” وما رمیت اذ رمیت “۔ (الخ)- امام حاکم (رح) نے سعید بن المسیب (رض) کے ذریعے مسیب سے روایت کیا ہے کہ ابی بن خلف احد کے روز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آیا، اس کا راستہ چھوڑ دیا اس کے سامنے سے حضرت مصعب بن عمیر (رض) آئے۔- اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی بن خلف کی ہنسلی اس کے خود اور زرہ کے درمیان سے دیکھی، آپ نے اس میں اپنا نیزہ مارا، وہ گھوڑے سے گرپڑا اور آپ کے نیزہ مارنے سے خون وغیرہ نہیں بہا البتہ اس کی زرہ کی کڑیوں میں سے ایک کڑی ٹوٹ گئی، اس کے ساتھی دوڑ کر اس کے پاس آئے۔ وہ بیل کی طرح چنگاڑ رہا تھا تو اس کے ساتھیوں نے کہا ایسی کون سی بات پیش آگئی ہے یہ تو معمولی سی خراش ہے تو اس نے ان سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بیان کیا کہ نہیں بلکہ میں ابی کو قتل کروں گا۔- اس کے بعد وہ کہنے لگا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جس قدر مجھے چوٹ آئی ہے اگر اس قدر ذی المجاز والوں کو آتی تو سب مرجاتے۔ غرض کہ ابی مکہ جانے سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا اور مرگیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، حدیث صحیح الاسناد ہے مگر غریب ہے۔- اور ابن جریر (رح) نے عبدالرحمن بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے دن تیر کمان منگوائی اور تیر قلعہ پر مارا، تیر گھستا چلا گیا تاآنکہ ابن ابی الحقیق کو مار ڈالا اور وہ اپنے بستر پر تھا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، یہ حدیث مرسل ہے، سند عمدہ مگر غریب ہے۔- مگر مشہور یہ ہے کہ یہ آیت بدر کے روز اس وقت اتری جب آپ نے کفار کی طرف ایک مٹھی بھر کر کنکریاں ماریں، چناچہ ابن جریر (رح) ، ابن ابی حاتم (رح) اور طبرانی (رح) نے حکیم بن حزام سے روایت کیا گیا ہے کہ جب بدر کا دن ہوا تو ہم نے کچھ آواز سنی، گویا کہ آسمان سے زمین کی طرف آئی گویا کہ وہ کنکریوں کی سی آواز ہے، جو ایک طشت میں آئیں اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کنکریوں کو پھینکا، ان ہی کی وجہ سے ہمیں شکست ہوئی، اسی چیز کی طرف اللہ تعالیٰ نے فرمان میں اشارہ ہے ، (آیت) ” وما رمیت اذ رمیت “۔ الخ اور ابوالشیخ (رح) نے اسی طرح جابر (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے، نیز ابن جریر (رح) نے دوسرے طریقہ سے اسی طرح مرسل روایت نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (فَلَمْ تَقْتُلُوْہُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمْ ) - ویسے تو ہر کام میں فاعل حقیقی اللہ ہی ہے ‘ ہم جو کام بھی کرتے ہیں وہ اللہ ہی کی مشیت سے ممکن ہوتا ہے ‘ اور جس شے کے اندر جو بھی تاثیر ہے وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ عام حالات کے لیے بھی اگرچہ یہی قاعدہ ہے : لَا فَاعِلَ فِی الْحَقِیْقَۃِ وَلَا مُؤَثِّرَ الاَّ اللّٰہ لیکن یہ تو مخصوص حالات تھے جن میں اللہ کی خصوصی مدد آئی تھی۔- (وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ج) - میدان جنگ میں جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ کنکریاں اپنی مٹھی میں لیں اور شاھَتِ الْوجُوْہ (چہرے بگڑ جائیں) فرماتے ہوئے کفار کی طرف پھینکیں۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ کنکریاں کہاں کہاں تک پہنچی ہوں گی اور ان کے کیسے کیسے اثرات کفار پر مرتب ہوئے ہوں گے۔ بہر حال یہاں پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس عمل کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب کر رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وہ کنکریاں آپ نے پھینکی تھیں ‘ تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔ اسی بات کو اقبال ؔ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ع ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ - (وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْہُ بَلَآءً حَسَنًا ط) ۔- اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی آزمائشیں اپنے بندوں کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ بَلَا ‘ یَبْلُو ‘ بَلَاءًکے معنی ہیں آزمانا ‘ تکلیف اور آزمائش میں ڈال کر کسی کو پرکھنا ‘ لیکن اَبْلٰی ‘ یُبْلِی جب باب افعال سے آتا ہے تو کسی کے جوہر نکھارنے کے معنی دیتا ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :14 معرکہ بدر میں جب مسلمانوں اور کفار کے لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے اور عام زد و خورد کا موقع آگیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر ریت ہاتھ میں لے کر شاھتِ الوُجُوہ کہتے ہوئے کفار کی طرف پھینکی اور اس کے ساتھ ہی آپ کے اشارے سے مسلمان یکبارگی کفار پر حملہ آور ہوئے ۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: جنگ بدر کے موقع پر جب دشمن پوری طاقت سے حملہ کرنے کے لئے چڑھا چلا آرہا تھا، اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک مٹھی میں مٹی اور کنکر اٹھاکر دشمن کی طرف پھینکتے تھے، اللہ تعالیٰ نے وہ کنکریاں دشمن کے ہر فرد تک پہنچادیں، جو ان کی آنکھوں وغیرہ میں جاکر لگیں اور ان سے لشکر میں افراتفری مچ گئی، یہ اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔