Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 دوسرا مقصد اس کا کافروں کی تدبیر کو کمزور کرنا اور ان کی قوت و شوکت کو توڑنا تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧] یعنی مدد کی ان سب صورتوں کا فائدہ تو مسلمانوں کو پہنچتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ کافروں کو اتنا ہی نقصان بھی پہنچتا رہا اور جو تدبیر وہ مسلمانوں کے استیصال کے لیے کر رہے تھے۔ اللہ نے اسے توڑ کے رکھ دیا۔ اور ان کے سب منصوبے خاک میں ملا دیئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَيْدِ الْكٰفِرِيْنَ : یعنی یہ بات تو ہے ہی جس کا ذکر گزرا، یعنی فرشتوں کے ساتھ مدد، بارش برسانا، اونگھ ڈالنا، مشرکین کی آنکھوں میں خاک ڈالنا، ان کے ستر آدمیوں کا قتل اور ستر کا قید ہونا اور مسلمانوں کو فتح عظیم عطا ہونا وغیرہ، اس کے ساتھ مزید سنو کہ اللہ آئندہ بھی کفار کی سازشوں کو کمزور کر دے گا اور یہ اپنی کسی سازش میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ (ابن کثیر) یا یہ کہ انھوں نے جو یہ منصوبہ بنایا تھا کہ اپنے تجارتی قافلے کو بچا لے جائیں گے اور مسلمانوں کا زور بھی توڑ دیں گے، ان کا منصوبہ خاک میں ملا دیا، وہ خود مارے گئے اور تمہارے ہاتھوں قیدی بن گئے اور بھاری جانی و مالی نقصان اٹھا کر پسپا ہوئے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چوتھی آیت میں اس کے بالمقابل اس فتح کا ایک اور فائدہ بھی یہ بتلایا گیا کہ (آیت) ذٰلِكُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَيْدِ الْكٰفِرِيْنَ ۔ یعنی یہ فتح و نصرت اس لئے بھی مسلمانوں کو دی گئی کہ اس کے ذریعہ کافروں کی تدبیروں کو ناکام اور ناکارہ بنادیا جائے۔ جس سے وہ سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ نہیں۔ اور کوئی تدبیرب غیر اللہ تعالیٰ کی مدد کے کامیاب نہیں ہو سکتی۔ - پانچویں آیت میں شکست خوردہ قریشی کفار کو خطاب اور ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو قریشی لشکر کے مسلمانوں کے مقابلہ پر مکہ سے نکلنے کے وقت پیش آیا تھا۔ وہ یہ کہ جب قریشی کفار کا لشکر مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے تیار ہوگیا تو مکہ سے نکلنے سے پہلے لشکر کے سردار ابو جہل وغیرہ نے بیت اللہ کا پردہ پکڑ کر دعائیں مانگی تھیں، اور عجیب بات یہ ہے کہ اس دعا میں انہوں نے اپنی فتح کی دعا کرنے کے بجائے عام الفاظ میں اس طرح دعا مانگی :- یا اللہ دونوں لشکروں میں سے جو اعلی و افضل ہے اور دونوں جماعتوں میں سے جو زیادہ ہدایت پر ہے اور دونوں پارٹیوں میں سے جو زیادہ کریم و شریف ہے اور دونوں میں سے جو دین افضل ہے اس کو فتح دیجئے۔ ( مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكُمْ وَاَنَّ اللہَ مُوْہِنُ كَيْدِ الْكٰفِرِيْنَ۝ ١٨- وهن - الوَهْنُ : ضعف من حيث الخلق، أو الخلق . قال تعالی: قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي - [ مریم 4] ، فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران 146] ، وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان 14] أي : كلّما عظم في بطنها : زادها ضعفا علی ضعف : وَلا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ- [ النساء 104] ، - ( و ھ ن ) الوھن - کے معنی کسی معاملہ میں جسمانی طور پر کمزور ہونے یا اخلاقی کمزور یظاہر کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي[ مریم 4] اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران 146] تو جو مصیبتیں ان پر واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری ۔ وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان 14] تکلیف پر تکلیف سہہ کر ۔ یعنی جوں جوں پیٹ میں حمل کا بوجھ بڑھتا ہے کمزور ی پر کزوری بڑھتی چلی جاتی ہے ولا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء 104] اور دیکھو بےدل نہ ہونا اور کسی طرح کا غم کرنا ۔ اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا - كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨) اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کافروں کی تدبیر کو کمزور کرنا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (ذٰلِکُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ مُوْہِنُ کَیْدِ الْکٰفِرِیْنَ ) ۔- یہ گویا اہل ایمان اور کفار دونوں کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد صرف کفار سے خطاب ہے۔ ابو جہل کو بحیثیت سپہ سالار اپنے لشکر کی تعداد ‘ اسلحہ اور سازو سامان کی فراوانی کے حوالے سے پورا یقین تھا کہ ہم مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیں گے۔ چناچہ انہوں نے پہلے ہی پراپیگنڈا شروع کردیا تھا کہ معرکہ کا دن یوم الفرقان ثابت ہوگا اور اس دن یہ واضح ہوجائے گا کہ اللہ کس کے ساتھ ہے۔ اللہ کو تو کفار بھی مانتے تھے۔ چناچہ تاریخ کی کتابوں میں ابو جہل کی اس دعا کے الفاظ بھی منقول ہیں جو بدر کی رات اس نے خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی۔ اس رات جب ایک طرف حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا مانگ رہے تھے تو دوسری طرف ابو جہل بھی دعا مانگ رہا تھا۔ اس کی دعا حیرت انگیز حد تک موحدانہ ہے۔ اس دعا میں لات ‘ منات ‘ عزیٰ اور ہبل وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ‘ بلکہ اس دعا میں وہ براہ راست اللہ سے التجاکر رہا ہے : اللّٰھم اقطعنا للرحم فاحنہ الغداۃ کہ اے اللہ جس شخص نے ہمارے رحمی رشتے کاٹ دیے ہیں ‘ کل تو اسے کچل کر رکھ دے۔ اس دعا سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ابو جہل کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے قریش کے خون کے رشتے کٹ گئے تھے۔ مثلاً ایک بھائی مسلمان ہوگیا ہے اور باقی کافر ہیں ‘ تو نہ صرف یہ کہ ان میں اخوت کا رشتہ باقی نہ رہا ‘ بلکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ اسی طرح اولاد ماں باپ سے اور بیویاں اپنے شوہروں سے کٹ گئیں۔ چونکہ اس عمل سے قریش کی یک جہتی ‘ طاقت اور ساکھ بری طرح متاثر ہوئی تھی ‘ اس لیے سب سے زیادہ انہیں اسی بات کا قلق تھا۔ بہر حال ابوجہل سمیت تمام قریش کی خواہش تھی اور وہ دعا گو تھے کہ اس چپقلش کا واضح فیصلہ سامنے آجائے۔ ان کی اسی خواہش اور دعا کا جواب یہاں دیا جا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: یہ درحقیقت ایک سوال کا جواب ہے، سوال یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنی قدرت سے دشمن کو براہ راست ہلاک کرسکتا تھا، پھر اس نے مسلمانوں کو کیوں استعمال کیا، اور کنکریاں آنحضرت صلی اللہ سلیہ وسلم کے دست مبارک سے کیوں پھنکوائیں؟ جواب یہ دیا گیا ہے کہ اول تو اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ وہ تکوینی امور بھی کسی ظاہری سبب کے ذریعے انجام دلواتا ہے اور یہاں مسلمانوں کو اس لئے ذریعہ بنایا گیا کہ ان کو اجر وثواب حاصل ہو، اور دوسرے وہ کافروں کو بھی یہ دکھانا چاہتا تھا کہ جن سازشوں اور وسائل پر انہیں ناز ہے وہ سب ان لوگوں کے ہاتھوں خاک میں مل سکتے ہیں جنہیں تم کمزور سمجھتے رہے ہو۔