ایمان والوں کا متعین و مددگار اللہ عز اسمہ اللہ تعالی کافروں سے فرما رہا ہے کہ تم یہ دعائیں کرتے تھے کہ ہم میں اور مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ فیصلہ کر دے جو حق پر ہوا سے غالب کر دے اور اس کی مد فرمائے تو اب تمہاری یہ خواہش بھی پوری ہوگئی مسلمان بحکم الٰہی اپنے دشمنوں پر غالب آگئے ۔ ابو جہل نے بدر والے دن کہا تھا کہ اے اللہ ہم میں سے جو رشتوں ناتوں کا توڑنے والا ہو اور غیر معروف چیز لے کر آیا ہو اسے توکل کی لڑائی میں شکست دے پس اللہ تعالیٰ نے یہی کیا اور یہ اور اس کا لشکر ہار گئے ، مکے سے نکلنے سے پہلے ان مشرکوں نے خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر دعا کی تھی کہ الٰہی دونوں لشکروں میں سے تیرے نزدیک جو اعلیٰ ہو اور زیادہ بزرگ ہو اور زیادہ بہتری والا ہو تو اس کی مدد کر ۔ پس اس آیت میں ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ لو اللہ کی مدد آ گئی تمہارا کہا ہوا پورا ہوگیا ۔ ہم نے اپنے نبی کو جو ہمارے نزدیک بزرگ ، بہتر اور اعلیٰ تھے غالب کر دیا ۔ خود قرآن نے ان کی دعا نقل کی ہے کہ یہ کہتے تھے دعا ( وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 32 ) 8- الانفال:32 ) ، الٰہی اگر یہ تیری جانب سے راست ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر لا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر اب بھی تم اپنے کفر سے باز آجاؤ تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول کو نہ جھٹلاؤ تو دونوں جہان میں بھلائی پاؤ گے اور اگر پھر تم نے یہی کفر و گمراہی کو تو ہم بھی اسی طرح مسلمانوں کے ہاتھوں تمہیں پست کریں گے ۔ اگر تم نے پھر اسی طرح فتح مانگی تو ہم پھر اپنے نیک بندوں پر اپنی مدد اتاریں گے لیکن اول قول قوی ہے ۔ یاد رکھو گو تم سب کے سب مل کر چڑھائی کرو تمہاری تعداد کتنی ہی بڑھ جائے اپنے تمام لشکر جمع کر لو لیکن سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جائیں گی ۔ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو اسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا ۔ ظاہر ہے کہ خالق کائنات مومنوں کے ساتھ ہے اس لئے کہ وہ اس کے رسول کے ساتھ ہیں ۔
19۔ 1 ابو جہل وغیرہ روسائے قریش نے مکہ سے نکلتے وقت دعا کی تھی کہ اللہ ہم میں سے جو تیرا زیادہ نافرمان اور قاطع رحم ہے، کل کو تو اسے ہلاک کردے اپنے طور پر وہ مسلمانوں کو قاطع رحم اور نافرمان سمجھتے تھے، اس لئے اس قسم کی دعا کی۔ اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمادی تو اللہ تعالیٰ ان کافروں سے کہہ رہا ہے کہ فتح یعنی حق اور باطل کے درمیان فیصلہ طلب کر رہے تھے تو وہ فیصلہ تو سامنے آچکا ہے، اس لئے اب تم کفر سے باز آجاؤ، تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر پھر تم دوبارہ مسلمانوں کے مقابلے میں آؤ گے تو ہم بھی دوبارہ ان کی مدد کریں گے اور تمہاری جماعت کثرت کے باوجود تمہارے کچھ کام نہ آئے گی۔
[١٨] کافروں کو اپنی سرگرمیوں سے رک جانے کی نصیحت :۔ کفار مکہ مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر تم دعویٰ میں سچے ہو تو یہ فیصلہ کب ہوگا ؟ (٣٢ : ٢٨) یعنی ہمارے اور تمہارے درمیان کب فیصلہ ہوگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا خطاب انہیں ہزیمت خوردہ کافروں سے ہے کہ اب وہ فیصلہ آچکا ہے۔ جسے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ کس طرح حالات کی ناسازی کے باوجود مسلمانوں کو معجزانہ طور پر فتح نصیب ہوئی ہے۔ لہذا اب بھی اگر راہ راست پر آجاؤ تو یہی بات تمہارے حق میں بہتر ہوگی اور اگر پھر تم نے پہلی سی نافرمانی، مخالفت اور سرکشی والی روش اختیار کی تو ہم پھر تمہیں اسی طرح سزا دیں گے اور جس طرح آج تمہارا لاؤ لشکر کسی کام نہیں آسکا۔ آئندہ بھی نہیں آئے گا۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ساتھی اور حامی و ناصر خود ان کا پروردگار ہے۔- بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ مکہ سے روانگی کے وقت ابو جہل وغیرہ نے کعبہ کا پردہ پکڑ کر یہ دعا کی تھی کہ یا اللہ ہم دونوں فریقوں سے جو اعلیٰ و افضل ہے اسے فتح نصیب فرما اور فساد مچانے والے کو مغلوب کر۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ اب فیصلہ تمہارے پاس آچکا۔ اس بات کا فیصلہ کردیا کہ ان دونوں فریقوں میں اعلیٰ و افضل کون سا فریق تھا اور مفسد کون سا۔
اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ : فتح کا معنی یہاں فیصلہ ہے، جیسا کہ کفار کہتے تھے : (مَتٰى ھٰذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) [ السجدۃ : ٢٨ ] ” یہ فیصلہ کب ہوگا، اگر تم سچے ہو ؟ “ عبداللہ بن ثعلبہ (رض) بیان فرماتے ہیں : ” جب (بدر کے دن) لوگ ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو ابوجہل نے کہا، اے اللہ ہم میں سے جو شخص زیادہ رشتوں کو توڑنے والا اور ہمارے سامنے غیر معروف بات پیش کرنے والا ہے، اسے آج صبح ہلاک کر دے، تو یہ فیصلہ طلب کرنے والا ابوجہل تھا۔ “ [ مستدرک حاکم ٢؍٣٢٨، ح : ٣٢٦٤۔ أحمد : ٥؍٤٣١، ح : ٢٣٦٦١، و صححہ شعیب أرنؤوط۔ السنن الکبریٰ للنسائی : ٦؍٣٥٠، ح : ١١٢٠١ ] ” اگر تم فیصلہ چاہو۔ “ یہ خطاب کفار سے ہے، کیونکہ انھوں نے مکہ سے روانہ ہوتے وقت اور ابوجہل نے معرکۂ بدر سے پہلے یہ دعا کی تھی : ” اے اللہ ہم میں سے جو حق پر ہے اسے غالب اور جو باطل پر ہے اسے رسوا کر۔ “ گویا یہاں ” الْفَتْحُ “ کا معنی حکم اور فیصلہ ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” مکی سورتوں میں ہر جگہ کافروں کا یہ کلام نقل فرمایا کہ ہر گھڑی کہتے ہیں : (مَتٰى ھٰذَا الْفَتْحُ ) یعنی کب فیصلہ ہوگا، سو اب فرمایا کہ یہ فیصلہ آپہنچا۔ “ (موضح)- وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ : یعنی اگر پھر مسلمانوں کی مخالفت اور ان سے جنگ کرو گے تو ہم پھر تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے، اگرچہ تمہاری جماعت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔- وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ : ” اَنَّ “ سے پہلے کئی الفاظ مقدر مانے جاسکتے ہیں، آسان یہ ہے کہ اس جملے کو ” وَاعْلَمُوْا “ کا مفعول مان لیا جائے، یعنی جان لو کہ یقیناً اللہ مومنوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ ہو کوئی اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے ؟
یہ بیوقوف تو یوں سمجھ رہے تھے کہ بمقابلہ مسلمانوں کے ہم ہی اعلی و افضل اور زیادہ ہدایت پر ہیں اس لئے یہ دعا ہمارے حق میں ہے اور اس دعا کے ذریعہ وہ یہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے۔ اور جب ہم فتح پائیں تو یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے حق پر ہونے کا فیصلہ ہوگا۔ - مگر ان کو یہ خبر نہ تھی کہ اس دعا میں درحقیقت وہ اپنے لئے بددعا اور مسلمانوں کے لئے دعا کر رہے ہیں انجام جنگ سامنے آنے کے بعد قرآن کریم نے ان کو بتلایا (آیت) اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ ، یعنی اگر تم خدائی فیصلہ چاہتے ہو تو وہ سامنے آچکا کہ حق کو فتح اور باطل کو شکست ہوگئی۔ (آیت) وَاِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ اور اگر تم اب بھی اپنے کفر وعناد سے باز آگئے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے (آیت) وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ اور اگر تم پھر اپنی شرارت اور جنگ کی طرف لوٹے تو ہم بھی مسلمانوں کی امداد کی طرف لوٹیں گے۔ (آیت) وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَـيْــــًٔـا وَّلَوْ كَثُرَتْ یعنی تمہاری جماعت اور جتھا کتنا ہی زیادہ ہو اللہ تعالیٰ کی نصرت کے مقابلہ میں تمہیں کچھ کام نہ دے گا۔ (آیت) وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ یعنی کوئی جماعت تمہیں کیا کام دے سکتی ہے جب کہ قادر مطلق اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ ہے۔
اِنْ تَسْـتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ ٠ ۚ وَاِنْ تَنْتَہُوْا فَہُوَخَيْرٌ لَّكُمْ ٠ ۚ وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ ٠ ۚ وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَـيْــــًٔـا وَّلَوْ كَثُرَتْ ٠ ۙ وَاَنَّ اللہَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ ١٩ ۧ- اسْتِفْتَاحُ :- طلب الفتح أو الفتاح . قال : إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جاءَكُمُ الْفَتْحُ [ الأنفال 19] ، أي : إن طلبتم الظّفر أو طلبتم الفتاح۔ أي : الحکم أو طلبتم مبدأ الخیرات۔ فقد جاء کم ذلک بمجیء النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم . وقوله : وَكانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا [ البقرة 89]- الاستفتاح - کے معنی غلبہ یا فیصلہ طلب کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جاءَكُمُ الْفَتْحُ [ الأنفال 19] ( کافرو) اگر تم محمدؤ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فتح چاہتے ہو تو تمہارے پاس فتح آچکی ۔ یعنی اگر تم کامیابی یا فیصلہ طلب کرتے ہو تو وہ آچکا ہے اور یا یہ معنی ہیں کہ اگر تم مبدء خیرات طلب کرتے ہو تو آنحضرت کی بعثت سے تمہیں مل چکا ہے اور آیت کریمہ : وَكانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا [ البقرة 89] اور وہ پہلے ہمیشہ کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے ۔ - ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی - فِئَةُ ( جماعت)- والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی:- إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48]- الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے ۔۔۔۔۔ بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔
(١٩) اگر تم مدد طلب کرتے تو مدد تو تمہارے مقابلہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے لیے آچکی ہے کیوں کہ ابوجہل نے لڑائی شروع ہونے اور شکست کھانے سے پہلے دعا کی تھی کہ الہ العالمین دونوں ادیان میں جو تجھے سب سے زیادہ محبوب ہو اور جو سب سے افضل ہو اس کی مدد فرما، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی مدد فرمائی۔- اور اگر تم قتال اور کفر سے باز آجاؤ تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔- اور اگر تم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑائی کی تیاری کرو گے تو پھر بدر کی طرح ہم دوبارہ تمہارا خاتمہ کردیں گے اور تمہاری جماعت خواہ کتنی بھی زیادہ ہو، عذاب الہی کے مقابلہ میں تمہارے کچھ کام نہ آئے گی اور اللہ تعالیٰ کی مدد ایمان والوں کے ساتھ ہے۔- شان نزول : (آیت) ” ان تستفتحوافقد “۔ (الخ)- حضرت امام حاکم (رح) نے عبداللہ بن ثعلبہ بن صغیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ دعا کرنے میں ابوجہل تھا کیوں کہ اس نے مقابلہ کے وقت کہا ” اے اللہ جو ہم میں قاطع رحم ہو اور ایسی باتیں کرتا ہو جن کا اسے علم نہ ہو اس کو ہلاک کردے تو اس کے حق میں یہ استفتاح تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی کہ “ اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو فیصلہ تمہارے سامنے آموجود ہوا۔ (الخ)- اور ابن ابی حاتم (رح) نے عطیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابوجہل نے دعا کی اے اللہ دونوں جماعتوں میں جو زیادہ عزت و شرافت والی ہو اس کی مدد فرما، چناچہ یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ١٩ (اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَ کُمُ الْفَتْحُ ج) ۔- اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کن فتح کے ذریعے بتادیا کہ اس کی تائید و نصرت کس گروہ کے ساتھ ہے۔ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا پوری طرح واضح ہوگیا ۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :15 مکہ سے روانہ ہوتے وقت مشرکین نے کعبہ کے پردے پکڑ کر دعا مانگی تھی کہ خدایا دونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطا کر ۔ اور ابوجہل نے خاص طور پر کہا تھا کہ خدایا ہم میں سے جو برسر حق ہو اسے فتح دے اور جو برسرِ ظلم ہو اسے رسوا کردے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی منہ مانگی دعائیں حرف بحرف پوری کردیں اور فیصلہ کر کے بتا دیا کہ دونوں میں سے کون اچھا اور برسرِ حق ہے ۔