اللہ کی نگاہ میں بدترین مخلوق اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو اپنی اور اپنے رسول کی فرمانبرداری کا حکم دیتا ہے اور مخالفت سے اور کافروں جیسا ہونے سے منع فرماتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اطاعت کو نہ چھوڑو ، تابع داری سے منہ نہ موڑو ۔ جن کاموں سے اللہ اور اسکا رسول روک دے رک جایا کرو ، سن کر ان سنی نہ کر دیا کرو ، مشرکوں کی طرح نہ بن جاؤ کہ سنا نہیں اور کہدیا کہ سن لیا ، نہ منافقوں کی طرح بنو کہ بظاہر ماننے والا ظاہر کر دیا اور درحقیقت یہ بات نہیں ۔ بدترین مخلوق جانوروں ، کیڑے مکوڑوں سے بھی برے اللہ کے نزدیک ایسے ہی لوگ ہیں جو حق باتوں سے اپنے کان بہرے کرلیں اور حق کے سمجھنے سے گونگے بن جائیں ، بےعقلی سے کام لیں ۔ اس لئے کہ تمام جانور بھی اللہ قادر کل کے زیر فرمان ہیں جو جس کام کیلئے بنایا گیا ہے اس میں مشغول ہے مگر یہ ہیں کہ پیدا کئے گئے عبادت کے لئے لیکن کفر کرتے ہیں ۔ چنانچہ اور آیت میں انہیں جانوروں سے تشبیہ دی گئی ۔ فرمان ہے آیت ( وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً ۭ ۻ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ١٧١ ) 2- البقرة:171 ) کافروں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی انہیں آواز دے تو سوائے پکارا اور ندا کے کچھ نہ سنیں اور آیت میں ہے کہ یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے اور غافل ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد اس سے بنا عبدالدار کے قریشی ہیں ۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں مراد اس سے منافق ہیں ۔ بات یہ ہے کہ مشرک منافق دونوں ہی مراد ہیں دونوں ہی مراد ہیں دونوں میں صحیح فہم اور سلامتی والی عقل نہیں ہوتی نہ ہی عمل صالح کی انہیں توفیق ہوتی ہے ۔ اگر ان میں بھلائی ہوتی تو اللہ انہیں سنا دیتا لیکن نہ ان میں بھلائی نہ توفیق الہٰ ۔ اللہ جل سانہ کو علم ہے کہ انہیں سنایا بھی سمجھایا بھی تو بھی یہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئیں گے بلکہ اور اکڑ کر بھاگ جائیں گے ۔
[١٩] پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے۔ یہاں ایسے مومنوں کی ہی تعریف کو دہرایا گیا ہے۔ یعنی ایسے مومن جو کسی حال میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے سرتابی نہ کریں۔ خواہ اس میں اپنا فائدہ نظر آ رہا ہو یا نقصان۔ جیسا کہ مسلمانوں میں سے ہی ایک گروہ غزوہ بدر سے جی چرا رہا تھا۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ : کفار کو تنبیہ کے بعد اب مسلمانوں کو تلقین ہو رہی ہے کہ جب تمہیں کسی معاملے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم معلوم ہوجائے تو اس کے خلاف کسی کی مت سنو بلکہ اس کی اطاعت کرو۔ پہلے اللہ کی اطاعت بطور تمہید ہے، کیونکہ رسول کی اطاعت بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے۔ سورت کے ابتدا میں اموال غنیمت کے متعلق اختلاف کو ختم کرنے کے لیے (ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ) کا اعلان فرمایا تھا اور اطاعت رسول کو ایمان کی شرط قرار دیا تھا، پھر درمیان میں اپنے انعامات ذکر فرمائے اور اب پہلے کلام کو پھر اطاعت کی تلقین پر ختم فرمایا۔ - وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ : اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب تم سن رہے ہو اس وقت اس سے منہ نہ پھیرو، دوسرے اوقات میں بیشک پھیر لو، بلکہ مطلب یہ ہے کہ تم ہر وقت اللہ کے احکام قرآن و حدیث کی صورت میں سنتے ہو، اگر نہ سنا ہو، یا علم نہ ہو تو عذر ہوسکتا ہے، مگر حکم سن کر پھر بجا نہ لانا ایمان والوں کو زیب نہیں دیتا۔ جو شخص خود حکم سن کر بجا نہیں لاتا اس تک حکم اگر کسی کے واسطے سے پہنچے گا تو کیسے مانے گا۔
خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو اللہ کا کہنا مانو اور اس کے رسول کا اور اس کہنا ماننے سے روگردانی مت کرو اور تم ( اعتقاد سے) سن تو لیتے ہی ہو ( یعنی جیسا اعتقاد سے سن لیتے ہو ایسا ہی عمل بھی کیا کرو) اور تم ترک اطاعت میں) ان لوگوں کی طرح مت ہونا جو دعوٰی تو کرتے ہیں کہ ہم نے سن لیا ( جیسا کفار کہ مطلق سماع کے اور منافقین سماع مع الاعتقاد کے مدعی تھے) حالانکہ وہ سنتے سناتے کچھ نہیں ( کیونکہ تفہم اور اعتقاد دونوں میں مفقود ہے مطلب یہ کہ ثمرہ اعتقاد سننے کا عمل ہے جب عمل نہ ہوا تو بعض وجوہ سے مشابہ اسی کے ہوگیا کہ جیسے اعتقاد کے ساتھ سنا ہی نہیں جس کو تم بھی سخت مزموم جانتے ہو) بیشک یہ بات ضرور ہے کہ اعتقاد سے سن کر عمل نہ کرنے والے اور ایک بلا اعتقاد سننے والے جو مثل نہ سننے کے ہے برے ہونے میں متفاوت ضرور ہیں کیونکہ کافر اور عاصی برابر نہیں چنانچہ) بدترین خلائق اللہ کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو ( حق بات کو اعتقاد کے ساتھ سننے سے) بہرے ہیں ( اور حق بات کے کہنے سے) گونگے ہیں ( اور) جو کہ ( حق بات کو) ذرا نہیں سمجھتے ( اور باوجود اعتقاد کے جن سے عمل میں کوتاہی ہوجاتی ہے وہ بدتر نہیں ہیں گو بد ہیں سو بد بھی نہ ہونا چاہئے) اور ( جن کا حال مذکور ہوا کہ وہ اعتقاد سے نہیں سنتے وجہ اس کی یہ ہے کہ ان میں ایک بڑی خوبی کی کسر ہے اور وہ خوبی طلب حق ہے کیونکہ مبدأ اعتقاد کا بھی طلب اور تلاش ہے گو اس وقت اعتقاد نہ ہو مگر کم از کم تردد تو ہو پھر اسی تردد و طلب کی برکت سے حق واضح ہوجاتا ہے اور وہ تردد اعتقاد بن جاتا ہے جس پر سماع کا نافع ہونا موقوف ہے سو ان میں یہی خوبی مفقود ہے چنانچہ) اگر اللہ تعالیٰ ان میں کوئی خوبی دیکھتے ( مراد یہ کہ ان میں وہ خوبی مذکورہ ہوتی کیونکہ خوبی کے وجود کے وقت علم الہی کا تعلق لازم ہے پس لازم بول کر ملزوم مراد لے لیا اور کوئی خوبی اس لئے کہا کہ جب ایسی خوبی نہیں جس پر مدار نجات ہے تو گویا کوئی خوبی بھی نہیں یعنی اگر ان میں طلب حق ہوتی) تو ( اللہ تعالی) ان کو ( اعتقاد کے ساتھ) سننے کی توفیق دیتے ( جیسا مذکور ہوا کہ طلب سے اعتقاد پیدا ہوجاتا ہے) اور اگر ( اللہ تعالیٰ ) ان کو اب ( حالت موجودہ میں کہ ان میں طلب حق نہیں ہے) سنا دیں ( جیسا کہ گاہ گاہ ظاہری کانوں سے سن ہی لیتے ہیں) تو ضرور روگردانی کریں گے بےرخی کرتے ہوئے ( یعنی یہ نہیں کہ تامل و تدبر کے بعد بوجہ ظہور غلطی کے روگردانی کی ہو کیونکہ یہاں غلطی کا نام و نشان ہی نہیں بلکہ غضب تو یہ ہے کہ ادھر توجہ ہی نہیں کرتے اور) اے ایمان والو ( ہم نے جو اوپر تم کو اطاعت کا حکم کیا ہے تو یاد رکھو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے کہ وہ حیات ابدی ہے جب یہ بات ہے تو) تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لایا کرو جب کہ رسول ( جن کا ارشاد خدا ہی کا ارشاد ہے) تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف ( یعنی دین کی طرف جس سے زندگی جاوید میسر ہوتی ہے) بلاتے ہوں ( تو اس حالت میں جب کہ ہر طرح تمہارا ہی فائدہ ہے کوئی وجہ نہیں کہ تم عمل نہ کرو) اور ( اس کے متعلق دو باتیں اور) جان رکھو ( ایک بات یہ) کہ اللہ تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان میں ( دو طریق سے ایک طریق یہ کہ مومن کے قلب میں اطاعت کی برکت سے کفر و معصیت کو نہیں آنے دیتا دوسرا طریق یہ کہ کافر کے قلب میں مخالف کی نحوست سے ایمان و اطاعت کو نہیں آنے دیتا اس سے معلوم ہوا کہ اطاعت کی مداومت بڑی نافع چیز ہے اور مخالفت کی مواظبت بڑی مضر چیز ہے) اور ( دوسری بات یہ جان رکھو کہ) بلاشبہ تم سب کو خدا ہی کے پاس جمع ہونا ہے ( اس وقت اطاعت پر جزا اور مخالفت پر سزا ہوگی اس سے بھی اطاعت کا نافع ہونا اور مخالفت کا مضر ہونا ثابت ہوا)- معارف ومسائل - غزوہ بدر جس کا واقعہ پھچلی آیات میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے اس میں اہل اسلام اور کفار دونوں کے لئے عبرت اور حکمت کے بہت سے اسباق ہیں جن کی طرف قصہ کے درمیانی جملوں میں تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ مثلا پچھلی آیات میں مشرکین مکہ کی شکست و ذلت کا واقعہ بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا تھا (آیت) ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَاۗقُّوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ، یعنی ہر طرح کی قوت و سامان کے باوجود مشرکین مکہ کی شکست کا اصلی سبب اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت تھی۔ اس میں ان لوگوں کے لئے ایک تازیانہ عبرت ہے جو زمین و آسمان کے خالق ومالک کی قدرت کاملہ اور غیبی قوت سے قطع نظر کرکے صرف مادی قوتوں پر بھروسہ کرتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے باوجود اس کی امداد و نصرت کی غلط آرزوؤں سے اپنے نفس کو فریب دیتے ہیں۔- آیات مذکورہ میں اسی مسئلہ کا دوسرا رخ مسلمانوں کو خطاب کرکے بیان فرمایا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو باوجود قلت تعداد اور بےسامانی کے یہ فتح عظیم صرف اللہ جل شانہ کی نصرت و امداد سے حاصل ہوئی اور یہ نصرت و امداد نتیجہ ہے ان کی اطاعت حق کا۔ اس اطاعت پر مضبوطی سے قائم رہنے کے لئے مسلمانوں کو حکم دیا گیا۔ (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ، یعنی اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اختیار کرو اور اس پر مضبوطی سے قائم رہوں۔ پھر اسی مضمون کی مزید تاکید کے لئے فرمایا (آیت) وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ ، یعنی قرآن اور کلمہ حق سن لینے کے باوجود اطاعت سے روگردانی نہ کرو۔ - سن لینے سے مراد حق بات کا سننا ہے اور سننے کے چار درجات ہیں ایک یہ کہ کوئی آواز صرف کانوں سے سن لی مگر نہ اس کو سمجھنے کی کوشش کی نہ سمجھا اور نہ اس پر اعتقاد و اعتماد کیا اور نہ عمل کیا۔ دوسرے یہ کہ کانوں سے سنا بھی اور سمجھا بھی مگر نہ اس پر اعتقاد کیا نہ عمل۔ تیسرے یہ کہ سنا بھی اور سمجھا بھی اور اعتقاد و اعتماد بھی کیا مگر عمل نہیں کیا۔ چوتھے یہ کہ سنا بھی سمجھا بھی اور اعتماد بھی کیا اور عمل بھی۔- یہ ظاہر ہے کہ سننے کا اصل مقصد پوری طرح تو چوتھے درجہ ہی سے حاصل ہوتا ہے جو مومنین کاملین کا مقام ہے اور ابتدائی تینوں درجوں میں سننا ناقص اور نامکمل ہے جس کو ایک حیثیت سے نہ سننا بھی کہہ سکتے ہیں جیسا کہ اگلی آیات میں آتا ہے۔ اور تیسرا درجہ جس میں حق کا سننا، سمجھنا، اعتقاد کرنا تو موجود ہے مگر عمل نہیں، اس میں اگرچہ سننے کا اصل مقصد پورا نہیں ہوتا مگر اعتقاد بھی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اس لئے وہ بھی بیکار نہیں، یہ درجہ گناہگار مسلمانوں کا ہے۔ اور دوسرا درجہ جس میں صرف سننا اور سمجھنا ہے نہ اعتقاد ہے نہ عمل، یہ منافقین کا درجہ ہے کہ قرآن کو سنتے بھی ہیں سمجھتے بھی ہیں اور ظاہر میں اعتقاد و عمل کا دعوی بھی ہے مگر حقیقت میں عقیدہ اور عمل سے خالی ہیں اور پہلا درجہ عام مشرکین و کفار کا ہے جنہوں نے کلمہ حق اور قرآن کی آیات کانوں سے تو سن لی مگر کبھی سمجھنے اور غور کرنے کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ - آیت مذکورہ میں مسلمانوں کو خطاب ہے کہ تم لوگ حق بات کو سن تو لیتے ہی ہو یعنی سننا سمجھنا، اعتقاد رکھنا تو تمہاری طرف سے موجود ہے مگر آگے اس پر عمل بھی پورا کرو اطاعت سے روگردانی نہ کرو تاکہ سننے کا اصل مقصد مکمل ہوجائے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ ٢٠ ۚۖ- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔
(٢٠) یعنی صلح کے معاملات میں حکم الہی اور فرمان رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلاف ورزی مت کرو، اور تم نصائح قرآنی اور امورصلح کو سن تو لیتے ہی ہو۔
آیت ٢٠ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ ) - یعنی جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کی طرف چلنے کا ارادہ کرلیا تو پھر تمہاری طرف سے ردّو قدح اور بحث و استدلال کیوں ہو رہا تھا ؟ تم سب کو تو چاہیے تھا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی پر فوراً سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاکہتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر سر تسلیم خم کردیتے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں خاص طور پر ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے اس موقع پر کمزوری دکھائی تھی ۔