عذاب الٰہی نہ آنے کا سبب : اللہ کے رسول اور استغفار اللہ تعالیٰ مشرکوں کے غرور و تکبر ، ان کی سرکشی اور ناحق شناسی کی ، ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی حالت بیان کرتا ہے کہ جھوٹ موت بک دیتے ہیں کہ ہاں بھئی ہم نے قرآن سن لیا ، اس میں رکھا کیا ہے ۔ ہم خود قدر ہیں ، اگر چاہیں تو اسی جیسا کلام کہدیں ۔ حالانکہ وہ کہہ نہیں سکتے ۔ اپنی عاجزی اور تہی دستی کو خوب جانتے ، لیکن زبان سے شیخی بگھارتے تھے ۔ جہاں قرآن سنا تو اس کی قدر گھٹانے کیلئے بک دیا جب کہ ان سے زبردست دعوے کے ساتھ کہا گیا کہ لاؤ اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر لاؤ تو سب عاجز ہوگئے ۔ پس یہ قول صرف جاہلوں کی خوش طبعی کیلئے کہتے تھے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ کہنے والا نصر بن حارث ملعون تھا ۔ یہ خبیث فارس کے ملک گیا تو تھا اور رستم و اسفند یار کے قصے یاد کر آیا تھا ۔ یہاں حضور کو نبوت مل چکی تھی آپ لوگوں کو کلام اللہ شریف سنا رہے ہوتے جب آپ فارغ ہوتے تو یہ اپنی مجلس جماتا اور فارس کے قصے سناتا ، پھر فخراً کہتا کہو میرا بیان اچھا ہے یا محمد کا ؟ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ یہ بدر کے دن قید ہو کر لا یا گیا اور حضور کے فرمان سے آپ کے سامنے اس کی گردن ماری گئی فالحمدللہ اسے قید کرنے والے حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ تھے ۔ قبہ بن ابی معیط ، طعیمہ بن عدی ، نصر بن حارث ، یہ تینوں اسی قید میں قتل کئے گئے ۔ حضرت مقداد بنے کہا بھی کہ یا رسول اللہ میرا قیدی؟ آپ نے فرمایا یہ اللہ عزوجل کی کتاب کے بارے میں زبان درازی کرتا تھا ۔ انہوں نے بعد از قتل پھر کہا کہ حضور میں جسے باندھ کر لایا ہوں؟ آپ نے دعا کی کہ یا اللہ اپنے فضل سے مقداد کو غنی کر دے ۔ آپ خوش ہوگئے اور عرض کیا کہ حضور یہی میرا مقصد اور مقصود تھا ۔ اسی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام ہے لیکن یہ غلط ہے بدر والے دن وہ تو زندہ ہی نہ تھا بلکہ حضور کا فرمان مروی ہے کہ اگر آج یہ زندہ ہوتا اور مجھ سے ان قیدیوں کو طلب کرتا تو میں اسے دے دیتا ۔ اس لئے کہ طائف سے لوٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی اپنی پناہ میں مکہ میں لے گیا تھا ۔ یہ کفار کہتے تھے کہ قرآن میں سوائے پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی کہانیوں کے کیا دھرا ہے انہیں کو پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتا رہتا ہے ۔ حالانکہ یہ محض جھوت بات تھی جو انہوں نے گھڑ لی تھی اسی لئے ان کے اس قول کو نقل کر کے جناب باری نے فرمایا ہے کہ انہیں جواب دے کہ اسے تو آسمان و زمین کی تمام غائب باتوں کے جاننے والے نے اتارا ہے جو غفور بھی ہے اور رحیم بھی ہے ۔ توبہ کرنے والوں کی خطائیں معاف فرماتا ہے ، اپنے سامنے جھکنے والوں پر بڑے کرم کرتا ہے ۔ پھر ان کی جہالت کا کرشمہ بیان ہو رہا ہے کہ چاہئے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ یا اللہ اگر یہ حق ہے تو ہمیں اس کی ہدایت دے اور اس کی اتباع کی توفیق نصیب فرما لیکن بجائے اس کے یہ دعا کرنے لگے کہ ہمیں جلد عذاب کر ۔ بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ہر چیز کا وقت مقرر ہے ورنہ اس پر بھی عذاب آ جاتا لیکن اگر تمہارا یہی حال رہا تو پھر بھی وہ دن دور نہیں اچانک ان کی بےخبری میں اپنے وقت پر آ ہی جائے گا ۔ یہ تو کہا کرتے تھے کہ ہمارا فیصلہ فیصلے کے دن سے پہلے ہی ہو جائے گا بطور مذاق عذاب کے واقع ہونے کی درخوات کرتے تھے جو کافروں پر آنے ولاا ہے ، جسے کوئی روک نہیں سکتا ، جو اس اللہ کی طرف سے ہو گا جو سیڑھیوں والا ہے ۔ اگلی امتوں کے جاہلوں کا بھی یہی وطیرہ رہا ۔ قوم شعیب نے کہا تھا کہ اے مدعی نبوت اگر تو سجا ہے تو ہم پر آسمان کو گرا دے ۔ اسی طرح ان لوگوں نے کہا ۔ ابو جہل وعیرہ نے یہ دعا کی تھی جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ رسول اللہ کی موجودگی اور انہی میں سے بعض کا استغفار اللہ کے عذاب کی ڈھال ہے ۔ نصر بن حارث بن کلدہ نے بھی یہی دعا کی تھی جس کا ذکر سال سائل میں ہے ان کے اسی قول کا ذکر آیت وقالو ربنا عجل لنا الخ ، میں ہے اور آیت ولقد جئتمونا فرادی الخ ، میں ہے اور آیت سال سائل الخ ، میں ہے ۔ غرض دس سے اوپر اوپر آیتیں اس بیان میں ہیں ۔ عمرو بن عاص جنگ احد میں اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے اللہ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا لا یا ہوا دین حق ہے تو مجھے مریے گھورے سمیت زمین میں دھنسا دے گو اس امت کے بع وقوفوں نے یہ تمنا کی لیکن اللہ نے اس امت پر رحم فرمایا اور جواب دیا کہ ایک تو پیغمبر کی موجودگی عام عذاب سے مانع ہے دوسرے تم لوگوں کا استغفار ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ مشرک حج میں طواف کے وقت کہتے تھے لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے بس بس لیکن وہ پھر کہتے الا شریک ھو لک تملیکہ و ما ملک یعنی ہم حاضر ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں ۔ پھر کہتے ہاں وہ شریک جو خود بھی تیری ملکیت میں ہیں اور جن چیزوں کو وہ مالک ہیں ان کا بھی اصل مالک تو ہی ہے اور کہتے غفوانک غفوانک اے اللہ ہم تجھ سے استغفار کرتے ہیں اے اللہ تو ہمیں معاف فرما ۔ اسی طلب بخشش کو عذاب کے جلد نہ آنے کا سبب بتایا گیا ہے ۔ فرماتے ہیں ان میں دو سبب تھے ایک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے استغفار پس آپ تو چل دیئے اور استغفار باقی رہ گیا قرشی آپ سمیں کہا کرتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اللہ نے ہم میں سے ہم پر بزرگ بنایا اے اللہ اگر یہ سچا ہے تو تو ہمیں عذاب کر ۔ جب ایمان لائے تو اپنے اس قول پر برا ہی نادم ہوئے اور استغفار کیا اسی کا بیان دوسری آیت میں ہے ۔ پس انبیاء کی موجودگی میں قوموں پر عذاب نہیں آتا ہاں وہ نکل جائیں پھر عذاب برس پڑتے ہیں اور چونکہ ان کی قسمت میں ایمان تھا اور بعد از ایمان وہ استغفار اہل مکہ کے لئے باعث امن و امان تھا ۔ ان دو وجہ امن میں سے ایک تو اب نہ رہا دوسرا اب بھی موجود ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھ پر دو امن میری امت کیلئے اترے ہیں ایک میری موجودگی دوسرے ان کا استغفار پس جب میں چلا جاؤ گا تو استغفار قیامت تک کیلئے ان میں چھوڑ جاؤں گا ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ شیطان نے کہا اے اللہ مجھے تیری عزت کی قسم میں تو جب تک تیرے بندوں کے جسم میں روح ہے انہیں بہکاتا رہوں گا ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا مجھے بھی میری جلالت اور میری بزرگی کی قسم جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے میں بھی انہیں بخشتا رہوں گا ( مستدرک حاکم ) مسند احمد میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بندہ اللہ کے عذابوں سے امن میں رہتا ہے جب تک وہ اللہ عزوجل سے استغفار کرتا ہے ۔
[٣٢] نضر بن حارث کا قول کہ ہم بھی ایسا کلام لاسکتے ہیں :۔ یہ نضر بن حارث تھا جو روسائے قریش میں سے تھا اور فارس کی طرف تجارتی سفر کیا کرتا تھا وہ کہتا تھا کہ اس کلام کو ہم نے سن لیا ہے۔ اس میں سوائے قصے کہانیوں کے اور کیا رکھا ہے ہم چاہیں تو ایسا کلام لاسکتے ہیں۔ چناچہ وہ فارس سے رستم و اسفند یار کے قصے اٹھا لایا اور کہنے لگا کہ قرآن میں عاد اور ثمود کے قصے ہیں اور میرے پاس رستم و اسفند یار کے قصے ہیں۔ لیکن اس کی اس بات کو اس کے ہم مشرب کافروں نے بھی تسلیم نہ کیا۔ کیونکہ جب قرآن نے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ کفار کو چیلنج کیا کہ اپنے تمام ادیبوں اور شاعروں کو اکٹھا کر کے قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ تو سب نے عاجزی کا اظہار کردیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نضر بن حارث کا اپنا ادبی ذوق بھی انتہائی پست قسم کا تھا۔ قرآن کی ہدایات پر اس کی نظر پڑنا تو بڑی دور کی بات ہے۔
وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا قَالُوْا : ” اَسَاطِيْرُ “ یہ ” اُسْطُوْرَۃٌ، اُسْطَارَۃٌ، اُسْطِیْرَۃٌ“ کی جمع ہے، بےترتیب کہانیاں۔ (قاموس) ابن جریر نے فرمایا کہ ” سَطْرٌ“ کی جمع ” اَسْطُرٌ“ ہے اور اس کی جمع ” اَسَاطِيْرُ “ ہے۔ کفار کہتے تھے کہ یہ قرآن ہے ہی کیا، محض پہلے لوگوں کی بےترتیب فرضی کہانیاں ہیں۔ یہ انھوں نے محض جہل کی وجہ سے کہا، کیونکہ قرآن ترتیب وار تاریخ اور قصے بیان کرنے کے لیے نہیں، بلکہ نصیحت کے لیے اتارا گیا ہے، اس لیے جس مقام پر جس واقعے کے جس قدر بیان کی ضرورت تھی، بیان فرما دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر ان کا یہ اعتراض اور اس کا جواب اس مقام سے کچھ مفصل ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة فرقان (٥، ٦) ۔- لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ : یہ ان کے عجز کی دلیل ہے، اللہ تعالیٰ نے انھیں پہلے پورے قرآن، پھر اس کی دس سورتوں اور پھر صرف ایک سورت کی مثل لانے کے لیے کہا۔ وہ جواب میں کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو اس جیسا ہم بھی کہہ دیں، کوئی ان سے پوچھے اگر واقعی ایسا ہی ہے تو تمہیں کس نے اس جیسا کلام لانے سے روکا ہے، تمہاری مقابلے کی غیرت کہاں گئی ؟ اس قدر لاجواب ہونے کے باوجود تم کیوں نہیں کہنا چاہتے ؟ کچھ تو زبان کھولو، صرف (اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ) کی تین آیتوں جیسی ہی سورت لے آؤ۔ معلوم ہوا تم صاف جھوٹ کہہ رہے ہو۔ دیکھیے سورة بقرہ ( ٢٣، ٢٤) ۔
اکتیسویں اور بتیسویں آیتوں میں اسی دارالندوہ کے ایک شریک نضر بن حارث کی ایک بےہودہ گفتگو اور تینتیسویں آیت میں یہود و نصاری کی کتابیں اور ان کی عبادتیں دیکھنے کا بار بار اتفاق ہوتا تھا اس لئے جب اس نے قرآن کریم میں پچلھی امتوں کے حالات سنے تو کہنے لگا کہ (آیت) قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ ۙ اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ، یعنی یہ باتیں تو ہماری سنی ہوئی ہیں اگر ہم چاہیں تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں یہ تو پچھلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ اور جب بعض صحابہ نے اس کو لاجواب کیا کہ اگر تم ایسا کلام کہہ سکتے ہو تو پھر کہتے کیوں نہیں جب کہ قرآن نے حق و باطل کا فیصلہ اس پر رکھ دیا ہے اور پوری دنیا کو یہ چیلنج دیا ہے کہ اگر خلاف کرنے والے سچے ہیں تو قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت ہی کی مثال پیش کریں۔ اور خلاف میں سر دھڑ کی بازی لگانے والے مال و اولاد قربان کرنے والے سب مل کر بھی ایک چھوٹی سی سورت قرآن کے مقابلہ میں پیش نہ کرسکے تو اب یہ کہنا کہ ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام کہہ سکتے ہیں ایک ایسی بات ہے جو کوئی غیرت مند آدمی نہیں کہہ سکتا۔ پھر جب نضر بن حارث سے صحابہ کرام نے اس کلام الہی کا حق ہونا بیان کیا تو اپنے غلط مذہب پر پختگی دکھلانے کے لئے کہنے لگا :
وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآ ٠ ۙ اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ٣١- تلاوة- تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31]- - التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- سطر - السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر :- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطراوأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5]- ( س ط ر ) السطر - والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔
(٣١) اور جب نضر بن حارث اور اس کی جماعت کے سامنے ہمارے احکام پڑھے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تو ہم نے سن لیا اگر ہم ارادہ کریں تو جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں، اس جیسا ہم بھی کہہ سکتے ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ کہتے ہیں وہ تو پہلے لوگوں کی بےبنیاد باتیں ہیں۔- شان نزول : (آیت ) ” واذا تتلی علیہم ایتنا “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے حضرت سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط، طعیمۃ بن عدی اور نضر بن حارث کو قتل کروایا اور مقداد نے نضر کو قید کیا تھا جب نضر کی گردن مارنے کا آپ نے حکم فرمایا تو مقداد نے کہا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ میرا قیدی ہے، آپ نے ارشاد فرمایا اس نے اللہ کی کتاب کے بارے میں بہت زبان درازی کی ہے اور اسی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے تو انہوں نے اس آیت کو سن کر کہا کہ ہم نے یہ آیت سن لی ہے۔
آیت ٣١ (وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآلا اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ) ۔- تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں یہ قول نضر بن حارث سے منسوب ہے۔ لیکن ان کی اس طرح کی باتیں صرف کہنے کی حد تک تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کو بار بار یہ چیلنج دیا گیا کہ اگر تم لوگ اس قرآن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نہیں سمجھتے تو تم بھی اسی طرح کا کلام بنا کرلے آؤ اور کسی ثالث سے فیصلہ کرا لو ‘ مگر وہ لوگ اس چیلنج کو قبول کرنے کی کبھی جرأت نہ کرسکے۔ اسی طرح پچھلی صدی تک عام مستشرقین بھی یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تورات اور انجیل سے معلومات لے کر قرآن بنایا ہے ‘ مگر آج کل چونکہ تحقیق کا دور ہے ‘ اس لیے ان کے ایسے بےت کے الزامات خود بخود ہی کم ہوگئے ہیں۔