رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی ناپاک سازش کافروں نے یہی تین ارادے کئے تھے جب ابو طالب نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو کفار کے راز اور ان کے پوشیدہ چالیں معلوم بھی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ تین شور یکر رہے ہیں ۔ اس نے تعجب ہو کر پوچھا کہ آپ کو اس کی خبر کس نے دی؟ آپ نے فرمایا میرے پروردگر نے ، اس نے کہا آپ کا پروردگار بہترین پروردگار ہے ، تم اس کی خیر خواہی میں ہی رہنا ۔ آپ نے فرمایا میں اس کی خیر خواہی کیا کرتا وہ خو دمیری حفاظت اور بھلائی کرتا ہے ۔ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے لیکن اس واقعہ میں ابو طالب کا ذکر بہت غریب بلکہ منکر ہے اس لئے کہ آیت تو مدینے میں اتری ہے اور کافروں کا یہ مشورہ ہجرت کی رات تھا اور یہ واقعہ ابو طالب کی موت کے تقریباً تین سال کے بعد کا ہے ۔ اسی کی موت نے ان کی جراتیں دوبالا کر دی تھیں ، اس ہمت اور نصرت کے بعد ہی تو کافروں نے آپ کی ایذاء دہی پر کمر باندھی تھی ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ قریش کے تمام قبیلوں کے سرداروں نے دارالندوہ میں جمع ہونے کا ارادہ کیا ۔ ملعون ابلیس انہیں ایک بہت بڑے مقطع بزرگ کی صورت میں ملا ۔ انہوں نے پوچھا آپ کون ہیں؟ اس نے کہا اہل نجد کا شیخ ہوں ۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ لوگ آج ایک مشورے کی غرض سے جمع ہونے والے ہیں ، میں بھی حاضر ہوا کہ اس مجلس میں شامل ہو جاؤں اور رائے میں اور خیر خواہی میں کوئی کمی نہ کروں ۔ آخرمجلس جمع ہوئی تو اس نے کہا اس شخص کے بارے میں پورے غور و خوض سے کوئی صحیہ رائے قائم کرلو ۔ واللہ اس نے تو سب کا ناک میں دم کر دیا ہے ۔ وہ دلوں پر کیسے قبضہ کر لیتا ہے؟ کوئی نہیں جو اس کی باتوں کا بھوکوں کی طرح مشتاق نہ رہت اہو ۔ واللہ اگر تم نے اسے یہاں سے نکالا تو وہ اپنی شیریں زبانی اور آتش بیانی سے ہزارہا ساتھی پیدا کر لے گا اور پھر جو ادھر کا رخ کرے گا تو تمہیں چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا پھر تو تمہارے شریفوں کو تہ تیغ کر کے تم سب کو یہاں سے بیک بینی و دوگوش نکال باہر کرے گا ۔ سب نے کہا شیخ جی سچ فرماتے ہیں اور کوئی رائے پیش کرو اس پر ابو جہل ملعون نے کہا ایک رائے میری سن لو ۔ میرا خیال ہے کہ تم سب کے ذہن میں بھی یہ بات نہ آئی ہو گی ، بس یہی رائے ٹھیک ہے ، تم اس پر بےکھٹکے عمل کرو ۔ سب نے کہا چچا بیان فرما ئیے اس نے کہا ہر قبیلے سے ایک نوجوان جری بہادر شریف مانا ہوا شخص چن لو یہ سب نوجوان ایک ساتھ اس پر حملہ کریں اور اپنی تلواروں سے اس کے ٹکڑے اڑا دیں پھر تو اس کے قبیلے کے لوگ یعنی بنی ہاشم کو یہ تو ہمت نہ ہو گی قریش کے تمام قبیلوں سے لڑیں کیونکہ ہر قبیلے کا ایک نوجوان اس کے قتل میں شریک ہو گا ۔ اس کا خون تمام قبائل قریش میں بٹا ہوا ہو گا ناچار وہ دیت لینے پر آمادہ ہو جائیں گے ، ہم اس بلا سے چھوٹ جائیں گے اور اس شخص کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ اب تو شیخ تندی اجھل پڑا اور کہنے لگا اللہ جانتا ہے واللہ بس یہی ایک رائے بالکل ٹھیک ہے اس کے سوا کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آتی بس یہی کرو اور اس قصے کو ختم کرو اس سے بہتر کوئی صورت نہیں ہو سکتی ۔ چنانچہ یہ پختہ فیصلہ کر کے یہ مجلس برخاست ہوئی ۔ وہیں حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے فرمایا آج کی رات آپ اپنے گھر میں اپنے بسترے پر نہ سوئیں کافروں نے آپ کے خلاف آج میٹنگ میں یہ تجویز طے کی ہے ۔ چنانچہ آپ نے یہی کیا اس رات آپ اپنے گھر اپنے بستر پر نہ لیٹے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کی اجازت دے دی اور آپ کے مدینے پہنچ جانے کے بعد اس آیت میں اپنے اس احسان کا زکر فرمایا اور ان کے اس فریب کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ام یقولون شاعر الخ ، اس دن کا نام ہی یوم الزحمہ ہو گیا ۔ ان کے انہی ارادوں کا ذکر آیت وان کا دو الیستفزونک میں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف میں اللہ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ قریشیوں نے جمع ہو کر مکر کا ارادہ کیا ۔ جبرائیل علیہ اسللام نے آپ کو خبر کر دی اور کہا کہ آج آپ اس مکان میں نہ سوئیں جہاں سویا کرتے تھے ۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر اپنے بسترے پر اپنی سبز چادر اوڑھا کر لیٹنے کو فرمایا اور آپ باہر آئے ۔ قریش کے مختلف قبیلوں کا مقررہ جتھا آپ کے دراوزے کو گھیرے کھڑا تھا ۔ آپ نے زمین سے ایک مٹھی مٹی اور کنکر بھر کر ان کے سروں اور آنکھوں میں ڈال کر سورہ یاسین کی فھم لا یبصرون تک کی تلاوت کرتے ہوئے نکل گئے ۔ صحیح ابن حبان اور مستدرک ہاکم میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتی ہوئی آئیں آپ نے دریافت فرمایا کہ پیاری بیٹی کیوں رو رہی ہو؟ عرض کیا کہ ابا جی کیسے نہ روؤں یہ قریش خانہ کعبہ میں جمع ہیں لات و عزیٰ کی قسمیں کھا کر یہ طے کیا ہے کہ ہر قبیلے کے لوگ آپ کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوں اور ایک ساتھ حملہ کر کے قتل کر دیں تاکہ الزام سب پر آئے اور ایک بلوہ قرارپائے کوئی خاص شخص قاتل نہ ٹھہرے آپ نے فرمایا بیٹی پانی لاؤ پانی آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور مسجد حرام کی طرف چلے انہوں نے آپ کو دیکھا اور دیکھتے ہی غل مچایا کہ لو وہ آ گیا اٹھو اسی وقت ان کے سر جھک گئے ٹھوڑیاں سینے سے لگ گئیں نگاہ اونچی نہ کر سکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی مٹی کی بھر کر ان کی طرف پھینکی اور فرمایا یہ منہالٹے ہو جائیں گے یہ چہرے برباد ہو جائیں جس شخص پر ان کنکرکیوں میں سے کوئی کنکر پڑا وہ ہی بدر والے دن کفر کی حالت میں قتل کیا گیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ مکے میں رات کو مشرکوں کا مشورہ ہوا ۔ کسی نے کہا صبح کو اسے قید کر دو ، کسی نے کہا مار ڈالو ، کسی نے کہا دیس نکالا دے دو ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر مطلع فرما دیا ۔ اس رات حضرت علی آپ کے بسترے پر سوئے اور آپ مکے سے نکل کھڑے ہوئے ۔ غار میں جا کر بیٹھے رہے ۔ مشرکین یہ سمجھ کر کہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بسترے پر لیٹے ہوئے ہیں سار رات پہرہ دیتے رہے صبح سب کود کر اندر پہنچے دیکھا تو حضرت علی ہیں ساری تدبیر چوپٹ ہو گئی پوچھا کہ تمہارے ساتھی کہاں ہیں؟ آپ نے اپنی لا علمی ظاہر کی ۔ یہ لوگ قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے اس پہاڑ تک پہنچ گئے ۔ وہاں سے پھر کوئی پتہ نہ چلا سکا ۔ پہاڑ پر چڑھ گئے ، اس غار کے پاس سے گذرے لیکن دیکھا کہ وہاں مکڑی کا جالا تنا ہوا ہے کہنے لگے اگر اس میں جاتے تو یہ جالا کیسے ثابت رہ جاتا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتین اسی غار میں گذاریں ۔ پس فرماتا ہے کہ انہوں نے مکر کیا میں بھی ان سے ایسی مضبوط چال چلا کہ آج تجھے ان سے بجا کر لے ہی آیا ۔
30۔ 1 یہ اس سازش کا تذکرہ جو روسائے مکہ نے ایک رات دار الندہ میں تیار کی تھی اور بالاخر یہ طے پایا تھا کہ مختلف قبیلوں کے نوجوانوں کو آپ کے قتل پر مامور کیا جائے تاکہ کسی ایک کو قتل کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے بلکہ دیت دیکر جان چھوٹ جائے۔ 30۔ 2 چناچہ اس سازش کے تحت ایک رات یہ نوجوان آپ کے گھر کے باہر اس انتظار میں کھڑے رہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلیں تو آپ کا کام تمام کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سازش سے آگاہ فرمادیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکلنے کا پتہ ہی نہیں لگا، حتیٰ کہ آپ غار ثور میں پہنچ گئے۔ یہ کافروں کے مقابلے میں اللہ کی تدبیر تھی۔ جس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں کرسکتا۔
[١ ٣] آپ کو قید جلاوطن یا قتل کرنے کا مشورہ :۔ جب کچھ مسلمان ہجرت کر کے مدینہ چلے آئے تو کفار مکہ کو خطرہ لاحق ہوا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں مکہ سے ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا تو پھر یہ خطرہ ہمارے قابو سے نکل جائے گا۔ لہذا جیسے بھی ممکن ہو اس کا علاج فوری طور پر سوچنا چاہیے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے دارالندوہ میں میٹنگ کی اور شرکائے مجلس سے تجاویز و آراء طلب کی گئیں۔ کسی نے کہا کہ اسے پابہ زنجیر کر کے قید کردیا جائے۔ شیطان جو خود اس میٹنگ میں انسانی صورت میں حاضر ہوا تھا کہنے لگا : یہ تجویز درست نہیں۔ کیونکہ اس کے پیروکار اس کے اس قدر جانثار ہیں کہ وہ اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر بھی اس کو کسی نہ کسی وقت چھڑا لے جانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ دوسرے نے کہا اسے یہاں سے جلاوطن کردیا جائے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ کم از کم ہم تو ہر روز کی بک بک سے نجات پاجائیں گے۔ شیطان نے کہا یہ تجویز بھی درست نہیں۔ کیونکہ اس شخص کے کلام اور بیان میں اتنا جادو ہے کہ وہ جہاں جائے گا وہیں اس کے جانثار پیدا ہوجائیں گے۔ پھر وہ انہیں لے کر کسی وقت بھی آپ پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ بعد میں ابو جہل بولا کہ ہم سب قبائل میں سے ایک ایک نوجوان لے لیں اور یہ سب مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یکبارگی حملہ کر کے اسے جان سے ہی ختم کردیں۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ بنو عبد مناف سب قبیلوں سے لڑائی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ لامحالہ خون بہا پر فیصلہ ہوگا جو سب قبائل مل کر حصہ رسدی ادا کردیں گے۔ یہ رائے سن کر شیطان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی اور اس نے اس رائے کو بہت پسند کیا۔ پھر اس کام کے لیے وقت بھی اسی مجلس میں مقرر ہوگیا کہ فلاں رات یہ سب نوجوان مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کا محاصرہ کرلیں اور جب باہر نکلے تو سب یکبارگی اس پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کردیں۔ - آپ کی ہجرت کا فوری سبب :۔ ادھر یہ مشورے ہو رہے تھے ادھر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے نبی کو اس مجلس کی کارروائی سے مطلع کردیا اور ہجرت کی اجازت بھی دے دی۔ آپ کڑکتی دوپہر میں، جب لوگ عموماً آرام کر رہے ہوتے ہیں، چھپتے چھپاتے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے گھر گئے اور انہیں بتلایا کہ ہجرت کی اجازت مل گئی ہے سیدنا ابو بکرصدیق (رض) پہلے ہی اس موقع کے منتظر بیٹھے تھے۔ چناچہ سیدنا ابو بکرصدیق (رض) کے ہمراہ چھپتے چھپاتے غار ثور تک پہنچ گئے۔ (اس کی تفصیل کسی اور مقام پر آئے گی) اسی رات قاتلوں کے گروہ نے آپ کا محاصرہ کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ وہ بروقت اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئے۔ جب صبح تک آپ گھر سے نہ نکلے تو پھر وہ خود اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ سیدنا علی (رض) کے سوا کوئی موجود نہیں اور جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ جا چکے ہیں تو ان کی برہمی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ اللہ نے ان کی اس پورے ہاؤس کی منظور کردہ تدبیر کو بری طرح ناکام بنادیا تھا۔
وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جب تقریباً تمام صحابہ ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر، علی (رض) اور اکّا دکّا مسلمان مکہ میں رہ گئے تو کفار کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گئے تو وہ ہمارے لیے ایسا خطرہ ثابت ہوں گے جو ہمارے قابو سے باہر ہوگا۔ چناچہ ان کی دار الندوہ میں مجلس ہوئی، جس میں تجاویز و آراء طلب کی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا خلاصہ بیان فرمایا ہے، ایک رائے یہ تھی کہ آپ کو قید کردیں اور موت تک وہاں سے نہ نکلنے دیں، اس پر یہ امکان سامنے آیا کہ ان کے ساتھی کار روائی کرکے انھیں چھڑا لیں گے۔ ایک تجویز یہ آئی کہ انھیں قتل کردیا جائے، اس پر آپ کے خاندان بنو عبد مناف کے ساتھ لڑائی کا خطرہ سامنے آیا اور ایک مشورہ یہ آیا کہ ہم خود ہی انھیں مکہ سے نکال دیں، جہاں چاہیں جائیں، ہماری تو جان چھوٹے گی، اس پر یہ خطرہ سامنے آیا کہ وہ اپنے صدق و امانت، خوش خلقی اور خوش کلامی سے لوگوں کو اکٹھا کرکے تم پر حملہ آور ہوں گے۔ آخر فیصلہ یہ ٹھہرا کہ ہر قبیلے سے ایک نوجوان لیا جائے، وہ سب رات کو آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیں، آپ جونہی باہر نکلیں وہ سب مل کر حملہ کرکے آپ کا کام تمام کردیں۔ بنو عبد مناف کس کس سے لڑیں گے، آخر دیت پر راضی ہوجائیں گے۔ جبریل (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کو ان کی سازش کی اطلاع دے دی اور یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کی اجازت دے دی ہے۔ آپ اس رات اپنے بستر پر نہیں سوئے، بلکہ علی (رض) کو اپنے بستر پر سلا دیا۔ کافر ساری رات انتظار میں رہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خفیہ تدبیر سے کفار کی سازش کو ناکام کرکے آپ کو بحفاظت نکال لیا، اگلے دن آپ نے ابوبکر (رض) کی معیت میں ہجرت فرمائی۔ سیرت کی تمام کتابوں میں یہ قصہ مذکور ہے جس کا یہ خلاصہ قرآن مجید کے مطابق ہے۔ - عبد اللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں : ” ہجرت کی رات علی (رض) نے اپنی جان کا سودا کیا، وہ یہ کہ انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چادر اوڑھی اور آپ کی جگہ سو گئے۔ “ [ أحمد : ١؍٣٣٠، ٣٣١، ح : ٣٠٦٢۔ مستدرک حاکم : ٣؍٤، ح ٤٢٦٤۔ وصححہ الحاکم و وافقہ الذھبی ] ہجرت کے واقعہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة توبہ (٤٠) اور ” مکر “ کے معنی کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (٥٤) ۔
دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے ایک خاص انعام و احسان کا ذکر ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام پر بلکہ پوری دنیا پر ہوا ہے۔ کہ قبل از ہجرت جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کے نرغہ میں تھے اور وہ آپ کے قید یا قتل کرنے کے مشورے کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلامت و عافیت مدینہ طیبہ پہنچا دیا۔ جس کا واقعہ تفسیر ابن کثیر اور مظہری میں بروایت محمد بن اسحاق و امام احمد و ابن جریر وغیرہ یہ نقل کیا گیا ہے کہ جب مدینہ طیبہ سے آنے والے انصار کا مسلمان ہوجانا مکہ میں مشہور ہوا تو قریش مکہ کو یہ فکر دامنگیر ہوگئی کہ اب تک تو ان کا معاملہ صرف مکہ میں دائر تھا جہاں ہر طرح کی قوت ہمارے ہاتھ میں ہے اور اب جب کہ مدینہ میں اسلام پھیلنے لگا اور بہت سے صحابہ کرام ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچ گئے تو اب ان کا ایک مرکز مدینہ طیبہ قائم ہوگیا جہاں یہ ہر طرح کی قوت ہمارے خلاف جمع کرسکتے ہیں اور پھر ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ اور ان کو یہ بھی احساس ہوگیا کہ اب تک تو کچھ صحابہ کرام ہی ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچے ہیں اب یہ بھی قوی امکان ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی وہاں چلے جائیں اس لئے رؤ ساء مکہ نے مشورہ کے لئے دارالندوہ میں ایک خاص مجلس طلب کی۔ دارالند وہ مسجد حرام کے متصل قصی بن کلاب کا مکان تھا جس کو ان لوگوں نے قومی مسائل میں مشورہ اور مجلس کرنے کے لئے مخصوص کر رکھا تھا اور زمانہ اسلام میں اس کو مسجد حرام میں داخل کرلیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ باب الزیادات ہی وہ جگہ تھی جس کو دارالندوہ کہا جاتا تھا۔- حسب عادت اس مہم مشورہ کے لئے قریشی سرداروں کا اجتماع دارالندوہ میں ہوا جس میں ابوجہل، نضر بن حارث، عتبہ، امیہ بن خلف، ابو سفیان وغیرہ قریش کے تمام نمایاں اشخاص شامل ہوئے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بڑھتی ہوئی قوت کے مقابلہ کی تدبیریں زیر غور آئیں۔- ابھی مشورہ کی مجلس شروع ہی ہوئی تھی کہ ابلیس لعین ایک سن رسیدہ عربی شیخ کی صورت میں دارالندوہ کے دروازہ پر آکھڑا ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کہ تم کون ہو کیوں آئے ہو۔ بتلایا کہ میں نجد کا باشندہ ہوں مجھے معلوم ہوا کہ آپ لوگ ایک اہم مشورہ کر رہے ہیں تو قومی ہمدردی کے پیش نظر میں بھی حاضر ہوگیا کہ ممکن ہے میں کوئی مفید مشورہ دے سکوں۔- یہ سن کر اس کو اندر بلا لیا گیا اور مشورہ شروع ہوا تو سہیلی کی روایت کے مطابق ابو البختری ابن ہشام نے یہ مشورہ پیش کیا کہ ان کو یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آہنی زنجیروں میں قید کر کے مکان کا دروازہ بند کردیا جائے اور چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ معاذ اللہ وہ آپ اپنی موت مرجائیں یہ سن کر شیخ نجدی ابلیس لعین نے کہا کہ یہ رائے صحیح نہیں۔ کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو معاملہ چھپے گا نہیں بلکہ اس کی شہرت دور دور پہنچ جائے گی اور ان کے صحابہ اور رفقاء کے فدائیانہ کا رنامے تمہارے سامنے ہیں بہت ممکن ہے کہ یہ لوگ جمع ہو کر تم پر حملہ کردیں اور اپنے قیدی کو تم سے چھڑا لیں۔ سب طرف سے آوزیں اٹھیں کہ شیخ نجدی کی بات صحیح ہے اس کے بعد ابوالاسود نے یہ رائے پیش کی کہ ان کو مکہ سے نکال دیا جائے یہ باہر جاکر جو چاہیں کرتے رہیں ہمارا شہر ان کے فساد سے مامون ہوجائے گا۔ اور ہمیں کچھ جنگ وجدال بھی کرنا نہ پڑے گا۔ شیخ نجدی یہ سن کر پھر بولا کہ یہ رائے بھی صحیح نہیں، کیا تمیھیں معلوم نہیں کہ وہ کیسے شیریں کلام آدمی ہیں لوگ ان کا کلام سن کر مفتون اور مسحور ہوجاتے ہیں۔ اگر ان کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا تو بہت جلد اپنی طاقتور جماعت بنالیں گے اور تم پر حملہ کرکے شکست دے دیں گے۔ اب ابوجہل بولا کہ جو کرنے کا کام ہے تم میں سے کسی نے نہیں سمجھا۔ میری سمجھ میں ایک بات آئی ہے وہ یہ کہ ہم عرب کے سب قبیلوں میں سے ہر قبیلہ کا ایک نوجوان لے لیں اور ہر ایک کو عمدہ کام کرنے والی تلوار دے دیں۔ یہ سب لوگ یکبارگی ان پر حملہ کرکے قتل کردیں۔ ہم ان کے فساد سے تو اس طرح نجات حاصل کرلیں۔ اب رہا ان کے قبیلہ بنو عبد مناف کا مطالبہ جو ان کے قتل کا سبب ہم پر عائد ہوگا سو ایسی صورت میں جب کہ قتل کسی ایک نے نہیں بلکہ ہر قبیلہ کے ایک ایک شخص نے کیا ہے تو قصاص یعنی جان کے بدلے جان لینے کا مطالبہ تو باقی نہیں رہ سکتا۔ صرف خون بہا یا دیت کے مال کا مطالبہ رہ جائے گا وہ ہم سب قبیلوں سے جمع کرکے ان کو دے دیں گے اور بےفکر ہوجائیں گے۔- شیخ نجدی ابلیس لعین نے یہ سن کر کہا کہ بس رائے یہی ہے اور اس کے سوا کوئی چیز کارگر نہیں۔ پوری مجلس نے اسی کے حق میں رائے دے دی اور آج ہی رات میں اپنا یہ ناپاک عزم پورا کرنے کا تہیہ کرلیا گیا۔ - مگر انبیاء (علیہم السلام) کی غیبی طاقت کو یہ جاہل کیا سمجھ سکتے تھے۔ اس طرف جبرئیل امین نے ان کے دارالمشورہ کی ساری کیفیت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باخبر کرکے یہ تدبیر بتلائی کہ آج رات میں آپ اپنے بسترے پر آرام نہ کریں اور بتلایا کہ اب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ سے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔- ادھر مشورہ کے مطابق شام ہی سے قریشی نوجوانوں نے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیکھا تو حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کو حکم دیا کہ آج کی رات وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بسترے پر آرام کریں اور یہ خوشخبری سنا دی کہ اگرچہ بظاہر اس میں آپ کی جان کا خطرہ ہے مگر دشمن آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ حضرت علی مرتضی نے اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کردیا اور آپ کے بستر پر لیٹ گئے مگر اب مشکل یہ درپیش تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس محاصرہ سے کیسے نکلیں۔ اس مشکل کو اللہ تعالیٰ نے ایک معجزہ کے ذریعہ حل کیا وہ یہ کہ بامر الہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مٹھی میں مٹی بھر کر باہر تشریف لائے اور محاصرہ کرنے والے جو کچھ آپ کے بارے میں گفتگو کررہے تھے اس کا جواب دیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی نظروں اور فکروں کو آپ کی طرف سے پھیر دیا کہ کسی نے آپ کو نہ دیکھا حالانکہ آپ ان میں سے ہر ایک کے سر پر خاک ڈالتے ہوئے نکلے چلے گئے۔ آپ کے تشریف لے جا نے کے بعد کسی آنے والے نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کیوں کھڑے ہو تو انہوں نے بتلایا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتظار میں۔ اس نے کہا کہ تم کس خام خیالی میں ہو وہ تو یہاں سے نکل کر جا بھی چکے ہیں اور تم میں سے ہر ایک کے سر پر خاک ڈالتے ہوئے گئے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے سروں پر ہاتھ رکھا تو اس کی تصدیق ہوئی کہ ہر ایک کے سر پر مٹی پڑی ہوئی تھی۔- حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ کے بستر پر لیٹے ہوئے تھے مگر محاصرہ کرنے والوں نے ان کے کروٹیں بدلنے سے پہچان لیا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں اس لئے قتل پر اقدام نہیں کیا۔ صبح تک محاصرہ کرنے کے بعد یہ لوگ خائب و خاسر ہو کر واپس ہوگئے۔ یہ رات اور اس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا حضرت علی مرتضی کے خاص فضائل میں سے ہے۔ قریشی سرداروں کے مشورہ میں جو تین رائیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پیش کی گئی تھیں ان تینوں کو قرآن کریم کی اس آیت میں ذکر فرمایا (آیت) وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ ۔ یعنی وہ وقت یاد رکھنے کے قابل ہے جب کہ کفار آپ کے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کریں یا قتل کردیں یا شہر بدر کردیں۔ - مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی سب تدبیریں خاک میں ملادیں۔ اسی لئے آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ بہتر تدبیر کرنے والے ہیں۔ جو ساری تدبیروں پر غالب آجاتی ہے جیسا کہ اس واقعہ میں مشاہدہ ہوا۔ - لفظ مکر کے معنی عربی لغت میں یہ ہیں کہ کسی حیلہ و تدبیر کے ذریعہ اپنے مقابل شخص کو اس کے ارادہ سے روک دیا جائے۔ پھر اگر یہ کام کسی نیک مقصد سے کیا جائے تو یہ مکر محمود اور اچھا ہے اور کسی برے مقصد سے کیا جائے تو مذموم اور برا ہے اس لئے یہ لفظ انسان کے لئے بھی بولا جاسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے بھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کے لئے صرف ایسے ماحول میں استعمال ہوتا ہے جہاں کلام کے سیاق اور تقابل کے ذریعہ مکر مذموم کا شبہ نہ ہوسکے ( مظہر ی) جیسے یہاں ہے۔- اس جگہ یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ آخر آیت میں جو الفاظ ارشاد فرمائے وہ بصیغہ مضارع ہیں جو حال و استقبال کے معنی پر دلالت کرتا ہے ارشاد فرمایا (آیت) وَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ یعنی وہ اہل ایمان کی ایذا رسانی کی تدبیریں کرتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی تدبیروں کے ناکام کرنے کی تدبیر کرتے رہیں گے اس میں اشارہ ہے کہ کفار کا یہ دائمی شعار رہے گا کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی تدبیریں کریں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد بھی ہمشہ ہی سچے مسلمانوں سے ان کی تدبیروں کو دفع کرتی رہے گی۔
وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ ٠ ۭ وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ ٠ ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِـرِيْنَ ٣٠- مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔
(٣٠) اور جب دارالندوہ میں ابوجہل اور اس کی جماعت کے لوگ آپ کے بارے میں بڑی بڑی تدبیریں سوچ رہے تھے تو عمرو بن ہشام کہنے لگا کہ آپ کو قید کرلیں اور ابوجہل بن ہشام کا مشورہ یہ تھا کہ سب مل کر آپ کو قتل کرڈالیں اور ابو البختری بن ہشام کی رائے تھی کہ آپ کو جلاوطن کردیں۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ آپ کو قتل کرنے اور ایذا پہنچانے کے بارے میں اپنی منصوبہ بندی کررہے تھے اور اللہ تعالیٰ بدر کے روز ان لوگوں کے قتل اور نیست ونابود ہوجانے کی سکیم فرما رہے تھے اور سب سے زیادہ اچھی سکیم اور تدبیر کرنے والے اللہ تعالیٰ ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” واذ یمکربک الذین “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش کی ایک جماعت اور ہر ایک قبیلہ کے شرفا دار الندوہ میں جانے کے لیے جمع ہوئے، راستہ میں ان کو شیطان ایک بہت بوڑھے شخص کی شکل میں ملا، جب ان لوگوں نے اسے دیکھا تو دریافت کیا کہ تو کون ہے ؟ شیطان بولا کہ میں اہل نجد کا ایک شیخ ہوں، میں نے سنا کہ تم سب لوگ جمع ہورہے ہو تو اس لیے میں بھی آگیا تاکہ میرے مشورہ سے تم محروم نہ ہو، چناچہ یہ ابلیس بھی ان لوگوں کے ساتھ اندر چلا گیا اور جا کر کہنے لگا کہ اچھا اس شخص یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملہ میں غور کرو تو کسی نے کہا کہ ان کو مضبوط بیڑیوں میں قید کرکے ڈال دو ، یہاں تک کہ ان پر مدت گزر جائے تو جیسا کہ پہلے شعرا زھیر اور نابغہ وغیرہ ہلاک ہوئے ہیں یہ بھی ہلاک ہوجائیں گے کیوں کہ یہ بھی ان ہی میں سے ہے۔- ان کی یہ تدبیر سن کر اللہ تعالیٰ کا دشمن نجدی بوڑھا نے کہا یہ تمہاری رائے ٹھیک نہیں کیوں کہ ان کے قید کی جگہ سے ان ساتھیوں تک کوئی سبیل نکل جائے گی، اور وہ سب ایک دم آکر ہجوم کرجائیں گے جس کی وجہ سے تمہارے ہاتھوں سے ان کو لے جائیں گے اور پھر تم سے انکی حفاظت کریں گے اور تم پر وہ اطمینان نہیں کریں گے اور انکو تمہارے شہر سے لے جائیں گے لہٰذا اس کے علاوہ اور کوئی تدبیر سوچو، تو کسی نے کہا ان کو اپنے ہاں سے نکال دو اور ان سے راحت حاصل کروکیون کہ جب وہ تمہارے ہاں سے چلے جائیں گے تو انکی باتیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔- تو یہ نجدی بوڑھا نے کہا خدا کی قسم یہ بھی تمہاری ٹھیک رائے نہیں ہے کیا تم ان کی زبان کی مٹھاس اور سلاست بیان اور دلوں میں اتر جانے والی باتیں نہیں سنتے ہو، خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے ایسا کیا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا کلام عرب کے سامنے پیش کیا تو سب عرب ان کے گرد جمع ہوجائیں گے اور پھر سب تم پر حملہ آور ہو کر تمہیں تمہارے شہر سے نکال دیں گے، تمہارے شرفاء کو قتل کردیں گے سب نے اس رائے کو پسند کیا تو بوڑھا کہنے لگا کہ اس کے علاوہ اور کوئی تدبیر سوچو تو ابوجہل کہنے لگا کہ اب میں ایسے رائے پیش کرتا ہوں جو تم میں سے ابھی تک کسی کو نہیں سوجھی اور اس کے علاوہ تم دوسرے رائے بھی پسند نہیں کرو گے، سب نے کہا وہ کیا رائے ہے ؟ ابوجہل کہنے لگا کہ ہر ایک قبیلہ سے ایک دلیر اور بہادر نوجوان کا انتخاب کرلو اور پھر ان میں سے ہر ایک نوجوان کو ایک تلوار دے دو اور اس کے بعد سب مل کر ایک ساتھ (العیاذباللہ) آپ کو قتل کردیں، اس طریقہ سے قتل کرنے میں آپ کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس قبیلہ بنی ہاشم میں پورے قریش سے مقابلہ کی قدرت ہوگی، جب بنی ہاشم یہ مشکل صورتحال دیکھیں گے تو دیت قبول کرلیں گے اور ہمیں ان سے سکون سے مل جائے گا اور ہم سے ان کی تکالیف دور ہوجائیں گی، یہ سن کر نجدی بوڑھا کہنے لگا خدا کی قسم رائے صحیح ہے، اس سے بہتر اور کوئی رائے نہیں ہوسکتی، چناچہ سب اس رائے پر متفق ہو کر چلے گئے۔- دوسری طرف جبریل امین (علیہ السلام) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ جس بستر پر آپ رات کو آرام فرماتے ہیں، آج اس پر آرام نہ فرمائیں اور آپ کی قوم کے مکر سے آپ کو خبردار کیا گیا۔- لہذا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رات اپنے گھر میں آرام نہیں کیا اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کا حکم دیا لہٰذا چناچہ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو آپ پر یہ آیات اتریں جن میں اللہ تعالیٰ اپنے اس انعام کو جو آپ پر فرما دیا تھا یاد دلارہا ہے یعنی اس واقعہ کا بھی ذکر کریں جب کہ کافر لوگ آپ کے متعلق تدبیریں بنا رہے تھے۔- ابن جریر (رح) نے بواسطہ عبید بن عمیر (رح) ، مطلب بن ابی وداعۃ سے روایت کیا ہے کہ ابو طالب نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ کی قوم آپ کے بارے میں کیا مشورہ کررہی ہے۔- آپ نے فرمایا وہ مجھے قید کرنے یا قتل کر ڈالنے یا جلاوطن کرنے کی تیاری کررہی ہے، ابوطالب نے کہا کہ آپ کو اس کی کس نے خبردی آپ نے فرمایا میرے اللہ تعالیٰ نے، ابوطالب کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ تو تمہارا ہے ان کو نیکی کے بارے میں کہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کو وصیت کروں بلکہ وہ مجھے وصیت فرماتے ہیں، اس پر یہ آیت اتری کہ اس واقعہ کو بھی یاد کیجیے (الخ) ۔ حافظ ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ ابوطالب کا اس میں ذکر غریب بلکہ منکر ہے کیوں کہ یہ واقعہ ہجرت کی رات کو پیش آیا ہے اور ہجرت ابوطالب کے فوت ہونے کے تین سال بعد ہوئی ہے۔
آیت ٣٠ (وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) - (لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ ط) کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قید کردیں یا قتل کردیں یا (مکہ سے) نکال دیں۔- یہ ان سازشوں کا ذکر ہے جو قریش مکہ ہجرت سے پہلے کے زمانے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کر رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں ان کے باقی تمام حربے ناکام ہوگئے تو وہ (نعوذ باللہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کے درپے ہوگئے اور اس بارے میں سنجیدگی سے صلاح مشورے کرنے لگے۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :25 یہ اس موقع کا ذکر ہے جبکہ قریش کا یہ اندیشہ یقین کی حد کو پہنچ چکا تھا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ چلے جائیں گے ۔ اس وقت وہ آپس میں کہنے لگے اکہ اگر یہ شخص مکہ سے نکل گیا تو پھر خطرہ ہمارے قابو سے باہر ہو جائے گا ۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے معاملہ میں ایک آخری فیصلہ کرنے کے لیے دارالنَّدوہ میں تمام رؤسائے قوم کا ایک اجتماع کیا اور اس امر پر باہم مشاورت کی کہ اس خطرے کا سدّ باب کس طرح کیا جا ئے ۔ ایک فریق کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کو بیڑیاں پہنا کر ایک جگہ قید کر دیا جائے اور جیتے جی رہا نہ کیا جائے ۔ لیکن اس رائے کو قبول نہ کیا گیا کیونکہ کہنے والوں نے کہا کہ اگر ہم نے اسے قید کر دیا تو اس کے جو ساتھی قید خانے سے باہر ہونگے وہ برابر اپنا کام کرتے رہیں گے اور جب ذرا بھی قوت پکڑ لیں گے تو اسے چھڑانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے میں بھی دریغ نہ کریں گے ۔ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال دو ۔ پھر جب یہ ہمارے درمیان نہ رہے تو ہمیں اس سے کچھ بحث نہیں کہ کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے ، بہر حال اس کے وجود سے ہمارے نظام زندگی میں خلل پڑنا تو بند ہو جائے گا ۔ لیکن اسے بھی یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ شخص جادو بیان آدمی ہے ، دلوں کو موہنے میں اسے بلا کا کمال حاصل ہے ، اگر یہ یہاں سے نکل گیا تو نہ معلوم عرب کے کن کن قبیلوں کو اپنا پیرو بنالے گا اور پھر کتنی قوت حاصل کرکے قلب عرب کو اپنے اقتدار میں لانے کے لیے تم پر حملہ آور ہوگا ۔ آخر کار ابوجہل نے یہ رائے پیش کی کہ ہم اپنے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک عالی نسبت تیز دست جوان منتخب کریں اور یہ سب مل کر یک بارگی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑیں اور اسے قتل کر ڈالیں ۔ اس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف کے لیے ناممکن ہو جائے گا کہ سب سے لڑ سکیں اس لیے مجبوراً خون بہا پر فیصلہ کرنے کے لیے راضی ہوجائیں گے ۔ اس رائے کو سب نے پسند کیا ، قتل کے لیے آدمی بھی نامزد ہوگئے اور قتل کا وقت بھی مقرر کر دیا گیا ، حتیٰ کہ جو رات اس کام کے لیے تجویز کی گئی تھی اس میں ٹھیک وقت پر قاتلوں کا گروہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ بھی گیا ، لیکن ان کا ہاتھ پڑنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آنکھوں میں خاک جھونک کر نکل گئے اور ان کی بنی بنائی تدبیر عین وقت پر ناکام ہو کر رہ گئی ۔
18: یہ آیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے واقعے کی طرف اشارہ کررہی ہے، کفار مکہ نے جب یہ دیکھا کہ اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور مدینہ منورہ میں بڑی تعداد مسلمان ہوچکی ہے، تو انہوں نے ایک مجلس مشاورت منعقد کی اس میں مختلف تجویزیں پیش کی گئیں، یہ آیت ان تمام تجویزوں کا ذکر کررہی ہے، یعنی گرفتاری، قتل، اور جلا وطنی، آخر میں فیصلہ یہ ہوا تھا کہ مختلف قبیلوں سے ایک ایک نوجوان لے کر سب یکبارگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ آور ہوں، اللہ تعالیٰ نے یہ ساری باتیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے ذریعے بتادیں اور ہجرت کا حکم دے دیا، آپ کے گھر کا محاصرہ ہوچکا تھا، مگر آپ وہاں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اس طرح نکل آئے کہ وہ آپ کو نہ دیکھ سکے، تفصیلی واقعہ سیرت کی کتابوں میں موجود ہے اور معارف القرآن میں بھی اس آیت کے تحت بیان ہوا ہے۔