دنیا و آخرت کی سعادت مندی فرقان سے مراد نجات ہے دنیوی بھی اور اخروی بھی اور فتح و نصرت غلبہ و امتیاز بھی مراد ہے جس سے حق و باطل میں تمیز ہو جائے ۔ بات یہی ہے کہ جو اللہ کی فرمانبرداری کرے ، نافرمانی سے بچے اللہ اس کی مدد کرتا ہے ۔ جو حق و باطل میں تمیز کر لیتا ہے ، دنیاو آخرت کی سعادت مندی حاصل کر لیتا ہے اس کے گناہ مٹ جاتے ہیں لوگوں سے پوشیدہ کروئے جات یہیں اور اللہ کی طرف سے اجر و ثواب کا وہ کامل مستحق ٹھہر جاتا ہے ۔ جیسے فرمان عالی شان ہے یایھا الزین امنو اتقواللہ وامنو ابر سولہ یوتکم کفلین من رحمتہ ویجعل لکم نور ا تمشون بہ و یغفر لکم واللہ غفور الرحیم یعنی اے مسلمانو اللہ کا ڈر دلوں میں رکھو ۔ اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دوہرے حصے دے گا اور تمہارے لئے ایک نور مہیا کر دے گا جس کے ساتھ تم چلتے پھرتے رہو گے اور تمہیں بخش بھی دے گا ، اللہ غفورو رحیم ہے ۔
29۔ 1 تقویٰ کا مطلب ہے، اوامر الٰہی کی مخالفت اور اس کی مناہی کے ارتکاب سے بچنا اور فرقان کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں مثلاً ایسی چیز جس سے حق و باطل کے درمیان فرق کیا جاسکے۔ مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کی بدولت دل مضبوط، بصیرت تیزتر اور ہدایت کا راستہ واضح تر ہوجاتا ہے، جس سے انسان کو ہر ایسے موقعے پر، جب عام انسان شک و شبہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہوں، صراط مستقیم کی توفیق مل جاتی ہے۔ علاوہ ازیں فتح اور نصرت اور نجات و مخرج بھی اس کے معنی کئے گئے ہیں۔ اور سارے ہی مراد ہوسکتے ہیں، کیونکہ تقویٰ سے یقینا یہ سارے ہی فوائد حاصل ہوتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ کفر، مغفرت گناہ اور فضل عظیم بھی حاصل ہوتا ہے۔
[٣٠] تقویٰ کے ثمرات :۔ یعنی اگر تم اس بات سے ڈرتے رہے کہ تم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو اللہ کی رضا کے خلاف ہو تو اللہ تمہارے اندر ایسا نور بصیرت یا قوت تمیز پیدا کر دے گا جو زندگی کے ہر موڑ پر تمہاری رہنمائی کرے گا کہ فلاں کام اللہ کی رضا کے مطابق ہے اور فلاں اس کی مرضی کے خلاف ہے یعنی جو لوگ ایمان لانے کے بعد تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں تین قسم کے انعامات سے نوازتا ہے۔ ایک تو ان میں حق و باطل میں تمیز کرنے کی بصیرت پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسرے ان کی برائیوں کو مٹا دیا جاتا ہے اور تیسرے ان کے اکثر و بیشتر گناہ معاف ہی کردیئے جاتے ہیں اور تقویٰ کے یہ ثمرات محض تقویٰ کی بنا پر نہیں بلکہ اس لیے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لامحدود فضل کا مالک ہے۔
اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا : مال اور اولاد کی آزمائش سے خبردار کرنے کے بعد اب تقویٰ کی تعلیم دی ہے اور اس کے فوائد بیان کیے ہیں، تقویٰ کا مادہ ” و ق ی “ ہے اور یہ اسم مصدر ہے۔ ” تَتَّقُوا “ باب افتعال سے ہے، اس کا معنی بچنا ہے، آدمی اسی چیز سے بچتا ہے جس سے ڈرتا ہو، اس لیے اس کا معنی ڈرنا بھی کرلیا جاتا ہے۔ ” فَرْقٌ“ اور ” فُرْقَانٌ“ مصدر ہیں، دونوں کا ایک ہی معنی ہے، مگر ” فُرْقَانًا “ کے حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی اگر تم ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی نافرمانی سے بچتے رہو گے، خواہ کوئی دوسرا تمہارے پاس ہو یا نہ ہو تو تمہیں چار نعمتیں عطا ہوں گی، پہلی یہ کہ تم میں حق اور باطل کو پہچاننے اور ان کے درمیان فرق کرنے کی بہت بڑی قوت پیدا ہوجائے گی اور اس قوت کی بدولت اللہ تعالیٰ تمہیں کسی بھی شبہ، شک یا تذبذب کا شکار ہونے کے بجائے واضح طور پر ہر کام کے درست یا نا درست ہونے کی پہچان اور پھر اس کے مطابق عمل کرنے کی قوت عطا کرے گا، تم آسانی سے حق کا فیصلہ کرکے اس پر عمل کرسکو گے۔ دیکھیے سورة حدید (٢٨) اسی طرح وہ تمہیں فتح و نصرت عطا کرکے تمہارے اور تمہارے دشمنوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ دوسری یہ کہ وہ تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تیسری یہ کہ قیامت کے دن وہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ - وَاللّٰهُ ذو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ : یہ چوتھی نعمت ہے۔ فضل کا معنی زائد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں اتنا ہی بدلہ نہیں دے گا جتنا تم عمل کر وگے بلکہ اس سے کہیں زیادہ دے گا، کیونکہ وہ بہت زائد حتیٰ کہ تمہاری سوچ سے بھی بہت زائد عطیہ دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ) [ السجدۃ : ١٧ ] ” پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔ “
خلاصہ تفسیر - ( اور) اے ایمان والو ( اطاعت کی اور برکات سنو وہ یہ کہ) اگر تم اللہ سے ڈر ( کر اطاعت کرتے) رہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک فیصلہ کی چیز دے گا ( اس میں ہدایت اور نور قلب جس سے حق و باطل میں علمی فیصلہ ہوتا ہے اور غلبہ علی الاعداء اور نجات آخرت جس سے حق و باطل میں عملی فیصلہ ہوتا ہے سب آگیا) اور تم سے تمہارے گناہ دور کردے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے ( خدا جانے اپنے فضل سے اور کیا کیا دے دے جو قیاس و گمان میں بھی نہ آتا ہو) اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کے سامنے تذکیر نعمت کے لئے) اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت ( بری بری) تدبیریں سوچ رہے تھے کہ ( آیا) آپ کو قید کرلیں یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کردیں اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر ( ان تدبیروں کے دفع کرنے کے لئے) کررہے تھے اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے ( جس کے سامنے ان کی ساری تدبیریں گاؤ خورد ہوگئیں اور آپ بال بال محفوظ رہے اور صحیح سالم مدینہ آپہنچے۔ چونکہ آپ کا اس طرح بچ رہنا مومنین کے حق میں بےانتہا ابواب سعادات کی مفتاح ہے اس لئے اس واقعہ کے ذکر کا حکم فرمایا) اور ( ان کفار کی یہ حالت ہے کہ) جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن ( کر دیکھ) لیا ( یہ تو کوئی معجزہ نہیں کیونکہ) اگر ہم ارادہ کریں تو اس کی برابر ہم بھی کہہ لائیں ( پس) یہ ( قرآن) تو ( کلام الہی و معجزہ وغیرہ) کچھ بھی نہیں صرف بےسند باتیں ہیں جو پہلوں سے منقول چلی آرہی ہیں ( کہ پہلے اہل ملل بھی یہی دعوٰی توحید و بعثت وغیرہ کے کرتے آئے ہیں انہی کے مضامین آپ نقل کررہے ہیں) اور ( اس سے بڑھ کر قابل ذکر وہ حالت ہے) جب کہ ان لوگوں نے ( اپنے اس جہل مرکب میں غایت صلابت و جلادت ظاہر کرنے کو یہ بھی) کہا کہ اے اللہ اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر ( اس کے نہ ماننے کی وجہ سے) آسمان سے پتھر برسایئے یا ہم پر کوئی ( اور) دردناک عذاب واقع کر دیجئے ( جو کہ خارق عادت ہونے میں مثل بارش سنگ کے ہو اور جب ایسے عذاب واقع نہ ہوئے تو اپنی حقانیت پر ناز کرتے ہیں) اور ( یہ نہیں سمجھتے کہ باوجود ان کے بطلان کے خاص موانع کی وجہ سے یہ عقوبات مذکورہ نازل نہیں ہوتیں ان موانع کا بیان یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ ایسا نہ کریں گے کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو ( ایسا) عذاب دیں اور ( نیز) اللہ تعالیٰ ان کو ( ایسا) عذاب نہ دیں گے جس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے رہتے ہیں ( گو وہ آخرت میں بوجہ ایمان نہ ہونے کے نافع نہ ہو لیکن آخر عمل صالح ہے دنیا میں تو کفار کو نافع ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ کہ ان عقوبات خارقہ سے دو امر مانع ہیں، ایک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تشریف رکھنا مکہ میں یا دنیا میں۔ اور دوسرا ان لوگوں کا اپنے طواف وغیرہ میں یہ کہنا غفرانک جو کہ بعد ہجرت و بعد وفات بھی باقی تھا اور ایک مانع حدیثوں میں ہے کہ حضور کی امت میں کسی کا ہونا گو امت دعوت ہی ہو یہ مانع باوجود کسی کے استغفار نہ کرنے کے بھی باقی ہے پس یہ امور فی نفسة مانع ہوئے گو احیانًا مانع کے ہوتے ہوئے بھی کوئی عذاب خارق کسی عارضی مصلحت سے واقع ہوجائے جیسا قذف و مسخ وغیرہ کا قرب قیامت میں ہونا حدیثوں میں وارد ہے۔- معارف ومسائل - پچلھی آیت میں اس کا ذکر تھا کہ انسان کے لئے مال اور اولاد ایک فتنہ یعنی آزمائش کی چیز ہے۔ کیونکہ ان چیزوں کی محبت میں مغلوب ہو کر انسان عمومًا اللہ تعالیٰ اور آخرت سے غافل ہوجاتا ہے حالانکہ اس عظیم نعمت کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی وجہ سے اس کی طرف اور زیادہ جھکتا۔ - مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت اسی مضمون کی تکمیل ہے اس میں فرمایا ہے کہ جو شخص عقل کو طبیعت پر غالب رکھ کر اس آزمائش میں ثابت قدم رہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و محبت کو سب چیزوں پر مقدم رکھے جس کو قرآن و شریعت کی اصطلاح میں تقوی کہا جاتا ہے تو اس کو اس کے صلہ میں تین چیزیں عطا ہوتی ہیں فرقان، کفارہ سیئات، مغفرت۔ - فرقان اور فرق دونوں مصدر ایک ہی معنی کے ہیں۔ محاورات میں فرقان اس چیز کے لئے بولا جاتا ہے جو دو چیزوں میں واضح طور پر فرق اور فصل کردے۔ اسی لئے فیصلہ کو فرقان کہتے ہیں کیونکہ وہ حق اور ناحق میں فرق واضح کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کو بھی فرقان کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ اہل حق کو فتح اور ان کے مخالف کو شکست ہو کر حق و باطل کا فرق واضح ہوجاتا ہے قرآن کریم میں اسی معنی کے لئے غزہ بدر کو یوم الفرقان کے نام سے موسوم کیا ہے۔ - اس آیت میں تقوٰی اختیار کرنے والوں کو فرقان عطا ہونے کا اکثر مفسرین صحابہ کے نزدیک یہی مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد اور حفاظت ان کے ساتھ ہوتی ہے کوئی دشمن ان کو گزند نہیں پہنچا سکتا اور تمام مقاصد میں کامیابی ان کی رفیق ہوتی ہے :- ہر کہ ترسید از حق و تقوے گزید ترسد از وے جن و انس و ہر کہ دید - تفسیر مہائمی میں ہے کہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پچھلے واقعہ میں حضرت ابو لبابہ سے جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کی خاطر لغزش ہوگئی تھی وہ اس لئے بھی خطا تھی کہ اہل و عیال کی حفاظت کا بھی صحیح راستہ یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت کو اپنا شعار بنایا جاتا تو سب مال و اولاد اللہ تعالیٰ کی پناہ اور حفاظت میں آجاتے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ فرقان سے مراد اس آیت میں وہ عقل و بصیرت ہے جس کے ذریعہ حق و باطل، کھرے کھوٹے میں امتیاز کرنا سہل ہوجائے تو معنی یہ ہوئے کہ تقوی اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ایسی بصیرت اور فراست عطا فرما دیتے ہیں کہ ان کو اچھے برے میں فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔- دوسری چیز جو تقوی کے صلہ میں عطا ہوتی ہے وہ کفارہ سیئات ہے یعنی جو خطائیں اور لغزشیں اس سے سرزد ہوتی ہیں دنیا میں ان کا کفارہ اور بدل کردیا جاتا ہے یعنی اس کے ایسے اعمال صالحہ کی توفیق ہوجاتی ہے جو اس کی سب لغزشوں پر غالب آجاتے ہیں۔ تیسری چیز جو تقوٰی کے صلہ میں ملتی ہے وہ آخرت کی مغفرت اور سب گناہوں، خطاؤں کی معافی ہے۔- آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَاللّٰهُ ذو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ ، یعنی اللہ تعالیٰ بڑے فضل و احسان والے ہیں۔ اس میں اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ عمل کی جزاء تو عمل کے پیمانہ پر ہوتی ہے۔ یہاں بھی تقوی کی جو جزاء خیر تین چیزوں میں مذکور ہے وہ تو جزاء اور بدلہ کے طور پر ہے مگر اللہ تعالیٰ بڑے فضل و احسان والے ہیں ان کی داد و دہش کسی پیمانہ کے ساتھ مقید نہیں اور ان کے احسان و انعام کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا اس لئے تقوی اختیار کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام سے ان تین چیزوں کے علاوہ بھی بہت بڑی امیدیں رکھنا چاہئے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللہَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَـيِّاٰتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ٠ ۭ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ ٢٩- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- فُرْقَانُ- والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] .- اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون شهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی عطا کی ۔ - كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا)- والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] - والتَّكْفِيرُ- : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر - «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی:- كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] .- الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : - التکفیرۃ - اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
(٢٩) اگر تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تقاضے پورے کرتے رہو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور نجات عطا فرمائے گا اور تمہارے تمام صغیرہ گناہوں کو معاف فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مغفرت اور جنت کے ذریعے بڑا فضل فرمانے والے ہیں۔
آیت ٢٩ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا) - اگر تم تقویٰ کی روش اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یکے بعد دیگرے تمہارے لیے فرقان آتا رہے گا۔ جیسے پہلا فرقان غزوۂ بدر میں تمہاری فتح کی صورت میں آگیا۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :24 کسوٹی اس چیز کو کہتے ہیں جو کھرے اور کھوٹے کے امتیاز کو نمایاں کرتی ہے ۔ یہی مفہوم”فرقان“کا بھی ہے اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اس لفظ سے کیا ہے ۔ ارشاد الہٰی کا منشا یہ ہے کہ اگر تم دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہو ئے کام کرو تو تمہاری دلی خواہش یہ ہو کہ تم سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہونے پائے جو رضائے الہٰی کے خلاف ہو ، تو اللہ تعالیٰ تمہارے اندر وہ قوت تمیز پیدا کردے گا جس سے قدم قدم پر تمہیں خود یہ معلوم ہوتا رہے گا کہ کونسا رویہ صحیح ہے اور کونسا غلط ، کس رویہ میں خدا کی رضا ہے اور کس میں اس کی ناراضی ۔ زندگی کے ہر موڑ ، ہر دوراہے ، ہر نشیب اور ہر فراز پر تمہاری اندرونی بصیرت تمہیں بتانے لگے گی کہ کدھر قدم اُٹھانا چاہیے اور کدھر نہ اٹھانا چاہیے ، کونسی راہ حق ہے اور خدا کی طرف جاتی ہے اور کونسی راہ باطل ہے اور شیطان سے ملاتی ہے ۔
17: تقوی کی یہ خاصیت ہے کہ وہ انسان کو ایسی سمجھ عطا کردیتا ہے جو حق اور ناحق میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور گناہ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کی عقل خراب کردیتا ہے جس سے وہ اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگتا ہے