28۔ 1 مال اور اولاد کی محبت ہی عام طور پر انسان کو خیانت پر اور اللہ اور رسول کی اطاعت سے گریز پر مجبور کرتی ہے اس لئے ان کو فتنہ (آزمائش) قرار دیا گیا ہے، یعنی اس کے ذریعے سے انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ ان کی محبت میں امانت اور اطاعت کے تقاضے پورے کرتا ہے یا نہیں ؟ اگر پورے کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ اس آزمائش میں کامیاب ہے۔ بصورت دیگر ناکام۔ اس صورت میں یہی مال اور اولاد اس کے لئے عذاب الٰہی کا باعث بن جائیں گے۔
[٢٩] مال اور اولاد سے آزمائش :۔ مال اور اولاد ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کا فطری لگاؤ اور محبت ہوتی ہے اور انہیں کے ذریعہ مسلمان کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے اور یہ آزمائش ایسی پرخطر ہوتی ہے کہ انسان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ آزمائش میں پڑا ہوا ہے۔ سابقہ آیت کی طرح یہ آیت بھی اپنے اندر بڑا وسیع مفہوم رکھتی ہے۔ پھر ان میں سے مال کا فتنہ اولاد کے فتنہ سے شدید ہوتا ہے۔ جیسا درج ذیل احادیث میں واضح ہے۔- ١۔ عمر و بن عوف (رض) سے روایت ہے (جو بنی عامر کے حلیف تھے) کہ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم میں تمہارے محتاج ہونے سے نہیں ڈرتا۔ بلکہ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کردی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی۔ پھر تم اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگ جاؤ، تو وہ تمہیں اس طرح ہلاک کر دے جیسے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب، شہود الملائکۃ بدرا) نیز کتاب الرقاق، باب مایحذرمن زھرۃ الدنیا والتنافس فیھا)- ٢۔ آپ نے فرمایا : ہر امت کی ایک آزمائش ہے اور میری امت کی آزمائش مال ہے۔ (ترمذی بحوالہ مشکوۃ، کتاب الرقاق، دوسری فصل)- ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ کہتے سنا ہے۔ محتاج مہاجرین دولت مند مہاجرین سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ (ترمذی، ابو اب الزہد۔ باب ان فقراء المھاجرین یدخلون الجنۃ قبل اغنیاء ھم )- ٤۔ سیدنا عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا : میں نے جنت میں جھانکا تو دیکھا کہ وہاں ان لوگوں کی کثرت ہے جو دنیا میں محتاج تھے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب فضل الفقر )- ٥۔ مال کا فتنہ :۔ ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ (خطبہ ارشاد فرمانے) منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا اپنے بعد میں جس بات سے ڈرتا ہوں وہ یہ ہے کہ زمین کی برکتیں تم پر کھول دی جائیں گی۔ (تم مالدار ہوجاؤ گے) پھر آپ نے دنیا کی آرائش کا بیان شروع کیا، پہلے ایک بات بیان کی، پھر دوسری۔ اس دوران ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا بھلائی سے برائی پیدا ہوگی ؟ یہ سن کر آپ خاموش ہوگئے ہم سمجھے کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے اور لوگ ایسے خاموش بیٹھے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ پھر آپ نے اپنے منہ سے پسینہ پونچھا (وحی بند ہوئی) تو آپ نے پوچھا : وہ سائل کہاں ہے جو ابھی پوچھ رہا تھا۔ پھر آپ نے سوال کا جواب دیتے ہوئے تین بار فرمایا : مال و دولت سے بھلائی ہی نہیں ہوتی۔ پھر فرمایا : بھلائی سے تو بھلائی ہی پیدا ہوتی ہے مگر بہار کے موسم میں جب ہری ہری گھاس پیدا ہوتی ہے (جو ایک نعمت ہے، اس کا زیادہ کھا لینا) جانور کو یا تو مار ڈالتا ہے یا مرنے کے قریب کردیتا ہے۔ الا یہ کہ جانور اپنی کو کھیں بھرنے کے بعد دھوپ میں جا کھڑا ہو اور پیشاب کرے پھر اس کے ہضم ہوجانے کے بعد) اور گھاس چرے اور یہ مال و دولت بھی ہرا بھرا اور شیریں ہے اور بہتر مسلمان وہ ہے جو اپنے حق کے مطابق ہی لے پھر اس میں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور یتیموں اور مسکینوں پر خرچ کرے اور جو شخص اپنے حق پر اکتفا نہ کرے اس کی مثال اس کھانے والے کی سی ہے جس کا پیٹ بھرتا ہی نہیں اور یہ مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب فضل النفقہ فی سبیل اللہ )- ٦۔ ابراہیم بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف (رض) کے سامنے ایک روز کھانا رکھا گیا۔ تو کہنے لگے مصعب بن عمیر (رض) جنگ احد میں شہید ہوگئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے ان کے کفن کے لیے ایک چادر ملی اور حمزہ یا کسی اور کا نام لے کر کہا کہ وہ شہید ہوئے اور وہ بھی مجھ سے بہتر تھے ان کے کفن کو بھی صرف ایک چادر تھی۔ میں ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ عیش و آرام کے سامان ہمیں دنیا میں ہی دے دیئے جائیں، یہ کہہ کر رونا شروع کردیا۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب الکفن من جمیع المال)- ٧۔ سیدنا ابوذر غفاری (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بلاشبہ قیامت کے دن بہت مال و دولت رکھنے والے ہی زیادہ نادار ہوں گے۔ مگر جسے اللہ نے دولت دی اور اس نے اپنے دائیں سے بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے ہر طرف سے دولت کو اللہ کی راہ میں لٹا دیا اور اس مال سے بھلائی کمائی۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب المکثرون ھم المقلون)- ٨۔ آپ نے فرمایا : جو شخص اللہ عزوجل سے ڈرتا ہو اس کو دولت مندی کا کوئی خطرہ نہیں (احمد، بحوالہ مشکوۃ، باب استحباب المال، فصل ثالث)- اولاد کے ذریعہ آزمائش کیسے ہوتی ہے ؟:۔ اور اولاد کے ذریعہ انسان کی آزمائش کا دائرہ مال کی آزمائش سے زیادہ وسیع ہے۔ اولاد اگر کسی کے ہاں نہ ہو تو بھی یہ ایک آزمائش ہے۔ ایسی صورت میں انسان اور بالخصوص عورتیں شرک جیسے بدترین گناہ پر آمادہ ہوجاتی ہیں اور پیروں فقیروں کے مزاروں اور مقبروں کے طواف کرتی اور ان کی منتیں مانتی ہیں اور اگر کسی کے ہاں زیادہ ہو تو وہ دوسری طرح آزمائش ہوتی ہے۔ کفار مکہ میں جو قتل اولاد کا دستور عام رائج تھا تو اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہم انہیں کھلائیں گے کہاں سے ؟ گویا اولاد کے رزق کا اپنے آپ کو ٹھیکیدار سمجھنا اور اللہ پر قطعاً توکل نہ کرنا بھی شرک سے ملتا جلتا اور بعض پہلوؤں میں اس سے بڑھ کر کبیرہ گناہ ہے۔ پھر اولاد کی تربیت کا مرحلہ آتا ہے تو یہ بھی انسان کے لیے بہت بڑی آزمائش کا وقت ہوتا ہے کہ آیا وہ اپنی اولاد کو دینی تربیت دیتا اور دین کی راہ پر چلاتا ہے یا محض ان کے لئے دنیا کمانے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور یہ انسان کی زندگی کا ایسا نازک موڑ ہوتا ہے جس کے اچھے یا برے نتائج خود اس کو اس دنیا میں بھگتنا پڑتے ہیں اور آخرت میں تو ان پر سزا و جزا کا مرتب ہونا ایک یقینی بات ہے۔ پھر اس کے بعد اولاد کی آرزوؤں کی تکمیل کا مرحلہ پھر ان کی شادی اور شادی کے سلسلہ میں رشتہ کے انتخاب کا مرحلہ آتا ہے کہ وہ کس قسم کا رشتہ اپنے بیٹے یا بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے اور یہ بھی ایسا مرحلہ ہوتا ہے جس کے نتائج انتہائی دور رس ہوتے ہیں اور ایسے ہی مرحلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنی دینداری کے دعویٰ میں کس حد تک سچا اور مخلص ہے اور اسے اللہ اور اس کے رسول سے کس قدر محبت ہے۔ مختصر یہ کہ اولاد کا فتنہ ایسا فتنہ ہے جس کے ذریعہ انسان کی ہر وقت آزمائش ہوتی رہتی ہے۔- پھر بعض دفعہ مال اور اولاد دونوں کے فتنے ایک فتنہ میں مشترک ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ بعض مسلمانوں نے محض مال اور اولاد کی خاطر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی۔ حالانکہ اگر وہ چاہتے تو ان میں ہجرت کرنے کی استطاعت موجود تھی۔ ان پر جائیداد اور اولاد کی محبت غالب آگئی اور انہوں نے کافروں میں رہنا اور ذلت کی زندگی بسر کرنا گوارا کرلیا۔ ایسے مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سخت وعید فرمائی ہے۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ: مال اور اولاد کی محبت انسان کے لیے بہت بڑی آزمائش ہے، کیونکہ عام طور پر انھی کے لیے آدمی خیانت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کا ارتکاب کرتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَۃٌ مَجْبَنَۃٌ مَجْھَلَۃٌ مَحْزَنَۃٌ )” بیشک بچہ بخل، بزدلی، جہالت اور غم کا باعث ہوتا ہے۔ “ [ صحیح الجامع الصغیر : ١٩٩٠۔ مستدرک حاکم : ٣؍٢٩٦، ح : ٥٢٨٤، عن الأسود بن خلف ] درحقیقت اللہ تعالیٰ آزمانا چاہتا ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو ترجیح دیتا ہے، یا مال اور اولاد کی ایسی محبت کو جس سے خیانت اور احکام الٰہی کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ اس ناجائز محبت پر غالب آنے کا طریقہ اس بات کا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بہت ہی بڑا اجر ہے۔
(آیت) وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۔ یعنی یہ بات سمجھ رکھو کہ تمہارے مال و اولاد تمہارے لئے فتنہ ہیں۔ - فتنہ کے معنی امتحان کے بھی آتے ہیں اور عذاب کے بھی اور ایسی چیزوں کو بھی فتنہ کہا جاتا ہے جو عذاب کا سبب بنیں۔ قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں ان تینوں معنی کے لئے لفظ فتنہ استعمال ہوا ہے۔ یہاں تنیوں معنی کی گنجائش ہے بعض اوقات مال و اولاد خود بھی انسان کے لئے دنیا ہی میں وبال جان بن جاتے ہیں اور ان کے سبب غفلت و معصیت میں مبتلا ہو کر سبب عذاب بن جانا تو بالکل ظاہر ہے۔ اول یہ کہ مال و اولاد کے ذریعہ تمہارا امتحان لینا مقصود ہے کہ یہ چیزیں ہمارے انعامات ہیں۔ تم انعام لے کر شکر گزار اور اطاعت شعار بنتے ہو یا ناشکرے اور نافرمان۔ دوسرے اور تیسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مال اور اولاد کی محبت میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا تو یہی مال و اولاد تمہارے لئے عذاب بن جائیں گے۔ بعض اوقات تو دنیا ہی میں یہ چیزیں انسان کو سخت مصیبتوں میں مبتلا کردیتی ہیں اور دنیا ہی میں مال و اولاد کو وہ عذاب محسوس کرنے لگتے ہیں ورنہ یہ تو لازمی ہے کہ دنیا میں جو مال اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف کمایا گیا یا خرچ کیا گیا وہ مال ہی آخرت میں اس کے لئے سانپ بچھو اور آگ میں داغ دینے کا ذریعہ بن جائے گا۔ جیسا کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اور بیشمار روایات حدیث میں اس کی تصریحات موجود ہیں۔ اور تیسرے معنی یہ کہ یہ چیزیں سبب عذاب بن جائیں یہ تو ظاہر ہی ہے کہ جب یہ چیزیں اللہ تعالیٰ سے غفلت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا سبب بنیں تو عذاب کا سبب بن گئیں۔ آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۔ یعنی یہ بھی سمجھ لو کہ جو شخص اللہ اور رسول کے احکام کی تعمیل میں مال و اولاد کی محبت سے مغلوب نہ ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔- اس آیت کا مضمون تو سب مسلمانوں کو عام اور شامل ہے مگر واقعہ اس کے نزول کا اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت ابو لبابہ (رض) کا قصہ ہے جو غزوہ بنو قریظہ میں پیش آیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے بنو قریظہ کے قلعہ کا اکیس روز تک محاصرہ جاری رکھا جس سے عاجز ہو کر انہوں نے وطن چھوڑ کر ملک شام چلے جانے کی درخواست کی آپ نے ان کی شرارتوں کے پیش نظر اس کو قبول نہیں فرمایا بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ صلح کی صرف یہ صورت ہے کہ سعد بن معاذ تمہارے بارے میں جو کچھ فیصلہ کریں اس پر راضی ہوجاؤ۔ انہوں نے درخواست کی کہ سعد بن معاذ کے بجائے ابو لبابہ کو یہ کام سپرد کردیا جائے۔ کیونکہ حضرت ابولبابہ کے اہل و عیال اور جائیداد بنو قریظہ میں تھے، ان سے یہ خیال تھا کہ وہ ہمارے معاملہ میں رعایت کریں گے۔ آپ نے ان کی درخواست پر حضرت ابو لبابہ کو بھیج دیا۔ بنوقریظہ کے سب مرد و زن ان کے گرد جمع ہو کر رونے لگے اور یہ پوچھا کہ اگر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر اتر آئیں تو کیا ہمارے معاملہ میں وہ کچھ نرمی فرمائیں گے۔ ابولبابہ کو معلوم تھا کہ ان کے معاملہ میں نرمی برتنے کی رائے نہیں ہے۔ انہوں نے کچھ ان لوگوں کی گریہ وزاری سے اور کچھ اپنے اہل و عیال کی محبت سے متاثر ہو کر اپنے گلے پر تلوار کی طرح ہاتھ پھیر کر اشارہ سے بتلا دیا کہ ذبح کئے جاؤ گے۔ گویا اس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راز فاش کردیا۔- مال و اولاد کی محبت میں یہ کام کر تو گزرے۔ مگر فورا تنبہ ہوا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خیانت کی۔ جب وہاں سے واپس ہوئے تو اس درجہ ندامت سوار ہوئی کہ آپ کی خدمت میں لوٹنے کے بجائے سیدھے مسجد میں پہنچے اور مسجد کے ایک ستون کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ دیا اور قسم کھائی کہ جب تک میری توبہ قبول نہ ہوگی اسی طرح بندھا رہوں گا چاہے اسی حالت میں موت آجائے۔ چناچہ سات روز مکمل اسی طرح بندھے کھڑے رہے ان کی بیوی اور لڑکی نگہداشت کرتی تھیں، انسانی ضرورت کے وقت اور نماز کے وقت کھول دیتی اور فارغ ہونے کے بعد پھر باندھ دیتی تھیں، کھانے پینے کے پاس نہ جاتے تھے یہاں تک کہ غشی طاری ہوجاتی تھی۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اول اس کی اطلاع ملی تو فرمایا کہ اگر وہ اول ہی میرے پاس آجاتے تو میں ان کے لئے استغفار کرتا اور توبہ قبول ہوجاتی اب جب کہ وہ یہ کام کر گزرے تو اب قبولیت توبہ نازل ہونے کا انتظار ہی کرنا ہے۔- چنانچہ سات روز کے بعد آخر شب میں آپ پر یہ آیتیں ان کی توبہ قبول ہونے کے متعلق نازل ہوئیں بعض حضرات نے ان کو خوشخبری سنائی اور کھولنا چاہا مگر انہوں نے کہا کہ جب تک خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے نہ کھولیں گے میں کھلنا پسند نہ کروں گا۔ چناچہ جب آپ صبح کی نماز کے وقت مسجد میں تشریف لائے تو اپنے دست مبارک سے ان کو کھولا۔ آیت مذکورہ میں جو خیانت کرنے اور مال و اولاد کی محبت سے مغلوب ہونے کی ممانعت کا ذکر آیا ہے اس کا اصل سبب یہ واقعہ ہے۔ واللہ اعلم۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ ٠ ۙ وَّاَنَّ اللہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ ٢٨ ۧ- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11]- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
(٢٨) اور لبابہ یہ بات بھی یاد رکھو کہ بنی قریظہ میں جو تمہارے اموال واولاد ہیں وہ تمہارے لیے ایک آزمایش ہیں، اور جہاد پر جنت میں بہت بڑا ثواب ہے۔
آیت ٢٨ (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌلا) - فتنہ کے معنی آزمائش اور اس کسوٹی کے ہیں جس پر کسی کو پرکھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے مال اور اولاد انسان کے لیے بہت بڑی آزمائشیں ہیں۔ یقیناً مال اور اولاد ہی انسان کے پاؤں کی سب سے بڑی بیڑیاں ہیں جو اسے نصرت دین کی جدوجہد سے روک کر اس کی عاقبت خراب کرتی ہیں۔ چناچہ وہ اپنی شعوری اور فعال زندگی کے شب و روز مال کمانے ‘ اسے سینت سینت کر رکھنے اور اولاد کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں اس انداز سے کھپا دیتا ہے کہ اس میں اور کو لہو کے بیل میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ اس کے بعد اس کے جسم میں زندگی کی کوئی رمق باقی بچتی ہی نہیں جسے وہ دین کی جدو جہد کے لیے پیش کر کے اپنے اللہ کے حضور سرخرو ہو سکے۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :22 ”اپنی امانتوں“سے مراد وہ تمام ذمہ داریاں ہیں جو کسی پر اعتبار ( ) کر کے اس کے سپرد کی جائیں ، خواہ وہ عہد وفا کی ذمہ داریاں ہوں ، یا اجتماعی معاہدات کی ، یا جماعت کے رازوں کی ، یا شخصی و جماعتی اموال کی ، یا کسی ایسے عہدہ و منصب کی جو کسی شخص پر بھروسہ کرتے ہوئے جماعت اس کے حوالے کرے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء حاشیہ ۸۸ ) ۔ سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :23 انسان کے اخلاص ایمانی میں جو چیز بالعموم خلل ڈالتی ہے اور جس کی وجہ سے انسان اکثر منافقت ، غداری اور خیانت میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے مالی مفاد اور اپنی اولاد کے مفاد سے اس کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی ہوتی ہے ۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ مال اور اولاد ، جن کی محبت میں گرفتار ہو کر تم عموماً راستی سے ہٹ جاتے ہو ، دراصل یہ دنیا کی امتحان گاہ میں تمہارے لیے سامان آزمائش ہیں ۔ جسے تم بیٹا یا بیٹی کہتے ہو حقیقت کی زبان میں وہ در اصل امتحان کا ایک پرچہ ہے ۔ اور جسے تم جائیداد یا کاروبار کہتے ہو وہ بھی درحقیقت ایک دوسرا پرچہ امتحان ہے ۔ یہ چیزیں تمہارے حوالہ کی ہی اس لیے کی گئی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے تمہیں جانچ کر دیکھا جائے کہ تم کہاں تک حقوق اور حدود کا لحاظ کرتے ہو ، کہاں تک اپنے نفس کو جو ان دنیوی چیزوں کی محبت میں اسیر ہوتا ہے ، اسی طرح قابو میں رکھتے ہو کہ پوری طرح بندہ حق بھی بنے رہو اور ان چیزوں کے حقوق اس حد تک ادا بھی کرتے رہو جس حد تک حضرت حق نے خود ان کا استحقاق مقرر کیا ہے ۔
16: مال اور اولاد کی محبت تو انسان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور معقول حد تک ہو تو بری بھی نہیں ہے، لیکن آزمائش یہ ہے کہ یہ محبت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پرتو آمادہ نہیں کررہی ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کے ساتھ یہ محبت ہوگی تونہ صرف جائز بلکہ باعث ثواب ہے ؛ لیکن اگر وہ نافرمانی تک لے جائے توایک وبال ہے اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی اس سے حفاظت فرمائیں، آمین۔