Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 مشرکین جس طرح بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے، اسی طرح طواف کے دوران وہ انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹیاں اور ہاتھوں سے تالیاں بجاتے۔ اس کو بھی وہ عبادت اور نیکی تصور کرتے تھے۔ جس طرح آج بھی جاہل صوفی مسجدوں اور آستانوں میں رقص کرتے، ڈھول پیٹتے اور دھمالیں ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں۔ یہی ہماری نماز اور عبادت ہے۔ ناچ ناچ کر ہم اپنے یار (اللہ) کو منالیں گے۔ نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٦] کفار مکہ کی عبادت بیت اللہ :۔ ان مشرک متولیوں کی بیت اللہ کے اندر عبادت کے بھی عجیب اطوار ہیں جو ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں اور سیٹیاں اور تالیاں بجا کر جو اپنی تفریح طبع کا سامان کرتے ہیں۔ اس کا نام انہوں نے عبادت رکھ لیا۔ پھر اس پر دعویٰ یہ کہ اگر مسلمانوں کا دین سچا ہے تو ہم پر عذاب کیوں نازل نہیں ہوتا غالباً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عذاب صرف آسمان سے پتھروں کی شکل میں یا خوفناک چیخ یا زبردست زلزلہ وغیرہ کی صورت میں ہی آیا کرتا ہے جو خرق عادت کے طور پر واقع ہو۔ حالانکہ غزوہ بدر میں ان کی شکست فاش اللہ کا ایسا عذاب تھا جس نے کفر اور کافروں کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ انہوں نے جنگ پر اصرار تو محض اس توقع پر کیا تھا کہ مسلمانوں کی اس قلیل سی جماعت کو لگے ہاتھوں صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرتے چلیں۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ جنگ ہی اللہ کا عذاب بن کر ان پر مسلط ہونے والی ہے یا یہ کہ ان کی دعا کی قبولیت کا وقت اب آچکا ہے اور تقدیر الٰہی کا فیصلہ ہمارے خلاف صادر ہونے والا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَةً : (مُكَاۗءً ) مَکَا یَمْکُوْ مَکْوًا وَ مُکَاءً “ سیٹی بجانا اور ” وَّتَصْدِيَةً “ ” صَدّٰی یُصَدِّیْ تَصْدِیَۃً “ (تفعیل) تالیاں بجانا۔ یعنی وہ لوگ کعبہ کے پاس عین حرم میں تالیاں پیٹتے اور سیٹیاں بجاتے اور اسے اپنی نماز، اللہ کی عبادت اور اس کے قرب کا ذریعہ قرار دیتے۔ افسوس کہ اب مسلمانوں نے بھی نمازیں اور قرآن چھوڑ کر عاشقانہ اشعار، سیٹیوں اور تالیوں کے مجموعے قوالی کو طریقت و معرفت کا نام دے کر روح کی غذا قرار دے رکھا ہے۔ بیشمار لوگ اسے تصوف کا اہم رکن قرار دے کر صرف سیٹیوں اور تالیوں ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ باقاعدہ مرشد کے اردگرد طواف اور رقص کرکے اسے اپنی نماز سمجھتے ہیں اور برملا کہتے ہیں ؂- نماز عابداں سجدہ سجود است - نماز عاشقاں کلی وجود است - ” عابدوں کی نماز سجدہ سجود ہے مگر عاشقوں کی نماز (معشوق کا) پورا وجود ہی ہے۔ “ - ایک صوفی نے تو صاف ہی اپنے مرشد کو قبلہ بھی قرار دے دیا ہے، چناچہ وہ کہتا ہے ؂- ہر قوم راست را ہے، دینے و قبلہ گاہے - من قبلہ راست کردم برسمت کج کلا ہے - ” ہر قوم کا ایک راستہ، ایک دین اور ایک قبلہ ہوتا ہے، مگر میں نے تو اپنا قبلہ ایک ٹیڑھی ٹوپی والے کی طرف سیدھا کرلیا ہے۔ “ اگر ان میں سے کوئی نماز پڑھتا بھی ہے تو ایسے طریقے سے جس طریقے سے پڑھنے والے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ دوبارہ نماز پڑھ، تو نے نماز پڑھی ہی نہیں۔ اللہ کی قسم جب تک مسلمان تصور شیخ کا شرک اور صوفیوں کی عبادت کے یہ خود ساختہ طریقے اور موسیقی و رقص جیسی دل میں نفاق پیدا کرنے والی خرافات ترک نہیں کرتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ارکان اسلام و ایمان کی پابندی، خصوصاً جہاد نہیں کرتے کبھی دنیا میں سر نہیں اٹھا سکتے، ہمیشہ ذلت و خواری ہی ان پر مسلط رہے گی۔ - فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : کفر و شرک کے ارتکاب، سیٹیوں، تالیوں اور رقص کو نماز سمجھنے کا نتیجہ دنیا اور آخرت کے عذاب کی صورت میں چکھو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسرا جرم ان لوگوں کا یہ بتلایا کہ کفر و شرک کی گندگی تو تھی ہی ان کے افعال و اعمال تو عام انسانی سطح سے بھی گرے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے جس فعل کا نام نماز رکھتے ہیں وہ بجز اس کے نہیں کہ اس میں کچھ منہ سے سیٹیاں بجائیں کچھ ہاتھوں سے تالیاں اور یہ ظاہر ہے کہ جس کو ذرا بھی عقل ہو وہ ان افعال کو عبادت و نماز کیا کوئی صحیح انسانی فعل بھی نہیں کہہ سکتا۔ اس لئے آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ ۔ یعنی تمہارے کفر اور جرائم کا انجام یہی ہے کہ اب اللہ کا عذاب چکھو۔ عذاب سے اس جگہ عذاب آخرت بھی مراد ہوسکتا ہے اور عذاب دنیا بھی جو غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں ان پر نازل ہوا۔- اس کے بعد چھتیسویں آیت میں کفار مکہ کے ایک اور واقعہ کا بیان ہے جس میں انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قوت جمع کرنے کے لئے مال بھی ہاتھ سے گیا اور مقصد حاصل ہونے کے بجائے خود ذلیل و خوار ہوئے۔ - واقعہ اس کا بروایت محمد بن اسحاق حضرت عبداللہ بن عباس سے یہ منقول ہے کہ غزوہ بدر کے شکست زدہ زخم خوردہ، بچے کھچے کفار مکہ جب وہاں سے واپس مکہ پہنچے تو جن لوگوں کے باپ بیٹے اس جہاد میں مارے گئے تھے وہ تجارتی قافلہ کے امیر ابو سفیان کے پاس پہنچے اور کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ جنگ تمہارے تجارتی قافلہ کی حفاظت کے لئے لڑی گئی جس کے نتیجہ میں یہ تمام جانی اور مالی نقصانات اٹھانے پڑے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ اس مشترک تجارتی کمپنی سے ہماری کچھ مدد کی جائے تاکہ ہم آئندہ مسلمانوں سے اپنا انتقام لے سکیں، ان لوگوں نے اس کو منظور کر کے ایک بڑی رقم دے دی جس کو انہوں نے غزوہ بدر کا انتقام لینے کے لئے غزوہ احد میں خرچ کیا اور اس میں بھی انجام کار مغلوب ہوئے اور شکست کے غم کے ساتھ مال ضائع کرنے کی حسرت مزید ہوگئی۔ - قرآن کریم نے اس آیت میں یہ واقعہ پیش آنے سے پہلے ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے انجام کی خبر دے دی۔ ارشاد فرمایا : وہ لوگ جو کافر ہیں اپنے مالوں کو اس کام کے لئے خرچ کرنا چاہتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کے دین سے روک دیں۔ سو اس کا انجام یہ ہوگا کہ یہ اپنا مال بھی خرچ کر ڈالیں گے اور پھر ان کو مال خرچ کرنے پر حسرت ہوگی، اور انجام کار مغلوب ہوجائیں گے۔ چناچہ غزوہ احد میں ٹھیک یہی صورت ہوئی کہ جمع شدہ مال بھی خرچ کر ڈالا۔ اور پھر مغلوب ہوئے تو شکست کے غم کے ساتھ مال ضائع ہونے پر الگ حسرت و ندامت ہوئی۔- اور بغوی وغیرہ بعض مفسرین نے اس آیت کے مضمون کو خود غزوہ بدر کے اخراجات پر محمول فرمایا ہے کہ غزوہ بدر میں ایک ہزار جوانوں کا جو لشکر مسلمانوں کے مقابلہ پر گیا تھا ان کے کھانے پینے کے کل اخراجات مکہ کے بارہ سرداروں نے اپنے ذمہ لئے تھے جن میں ابو جہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ شامل تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک ہزار آدمیوں کے آنے جانے کھانے پینے وغیرہ کے اخراجات پر بڑی رقم خرچ ہوئی۔ تو ان لوگوں کو اپنی شکست کے ساتھ اپنے اموال ضائع ہونے پر بھی شدید حسرت و ندامت پیش آئی (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ صَلَاتُہُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَۃً۝ ٠ ۭ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۝ ٣٥- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - مكاء - مكا الطّير يمكو مُكَاءً : صفر، قال تعالی: وَما کانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكاءً وَتَصْدِيَةً [ الأنفال 35] تنبيها أن ذلک منهم جار مجری مکاء الطّير في قلّة الغناء، والمُكَّاء : طائر، ومَكَت استه : صوّتت ( م ک و ) مکا لطیر یمکو ا مکاء کے معنی پرند کے سیٹی بجانے کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛ ۔ وَما کانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكاءً وَتَصْدِيَةً [ الأنفال 35] میں ان کی نماز کو مکاء کہ کر متنبہ کی ہے کہ وہ نماز بےروح ہونے کے اعتبار سے پرندوں کی سیٹی کے بمنزلہ ہے اور مکاء ایک پرند کا نام ہے ۔ سکت استہ گو زمار نا ۔- صدی - الصَّدَى: صوت يرجع إليك من کلّ مکان صقیل، والتَّصْدِيَةُ : كلّ صوت يجري مجری الصَّدَى في أن لا غناء فيه، وقوله : وَما کانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكاءً وَتَصْدِيَةً- [ الأنفال 35] ، أي : غناء ما يوردونه غناء الصّدى، ومکاء الطّير . والتَّصَدِّي : أن يقابل الشیء مقابلة الصَّدَى، أي : الصّوت الرّاجع من الجبل، قال : أَمَّا مَنِ اسْتَغْنى فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى- [ عبس 5- 6] ، والصَّدَى يقال لذکر البوم وللدّماغ لکون الدّماغ متصوّرا بصورة الصّدى، ولهذا يسمّى: هامة، وقولهم : أصمّ اللہ صَدَاهُ فدعاء عليه بالخرس، والمعنی: لا جعل اللہ له صوتا حتّى لا يكون له صدی يرجع إليه بصوته، وقد يقال للعطش : صَدَى، يقال :- رجل صَدْيَانٌ ، وامرأة صَدْيَا، وصَادِيَةٌ.- ( ص د ی ) الصدیٰ ۔ صدائے باز گشت جو کسی شفاف مکان سے ٹکرا کر واپس آئے اور التصدیہ ( تفعیل ) ہر اس آواز کو کہتے ہیں جو صدی کی طرح ہو یعنی جس کا کوئی مفہوم نہ ہو ۔ اور آیت : ۔ وَما کانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكاءً وَتَصْدِيَةً [ الأنفال 35] اور لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاسسیٹیاں اور تالیان بجانے کے سوا کچھ نہ تھی ۔ میں بتایا ہے کہ ان کی نماز بےمعنی ہونے میں صدی یا پرند کی چہچہا ہٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔ التصدی صدائے باز گشت کی طرح کسی چیز کے درپے ہونا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا مَنِ اسْتَغْنى فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى[ عبس 5- 6] جو پرواہ انہیں کرتا اس کی طرف تم توجہ کرتے ہو ۔ الصدیٰ کے معنی بو مہ یا دماغ کے ہیں کیونکہ دماغ بھی بومہ کی شکل پر ہوتا ہے اسی لئے اس کو ہامہ بھی کہا جاتا ہے مشہور محاورہ ہے ۔ ( مثل ) اصم اللہ صداہ : خدا اسے ہلاک کرے یعنی اس میں آواز ہی نہ رہے حتیٰ کہ اس کی صدائے باز گشت آئے ۔ صد ی پیاس صد یان پیا سا آدمی امراءۃ صد یاء وصادیۃ : پیاسی عورت ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٥) اور ان کی عبادت، خانہ کعبہ کے پاس صرف یہ تھی کہ سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا، لہٰذا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے منکر ہونے کے سبب بدر کے دن مزہ چکھو۔- شان نزول : (آیت) وما کان صلاتہم عند البیت “۔ (الخ)- واحدی (رح) نے حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ کافر لوگ بیت اللہ شریف کے طواف کے وقت سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتے تھے، اس پر یہ آیت اتری اور ابن جریر (رح) نے سعید (رح) سے روایت کیا ہے کہ قریش رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طواف میں پریشان کرتے تھے، اور آپ کا مذاق اڑاتے اور سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتے تھے اس پر یہ آیت اتری ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ (وَمَا کَانَ صَلاَتُہُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ الاَّ مُکَآءً وَّتَصْدِیَۃً ط) ۔- قریش مکہ نے اپنی عبادات کا حلیہ اس طرح بگاڑا تھا کہ اپنی نماز میں سیٹیوں اور تالیوں جیسی خرافات بھی شامل کر رکھی تھیں۔ اسی طرح خانہ کعبہ کا سب سے اعلیٰ طواف ان کے نزدیک وہ تھا جو بالکل برہنہ ہو کر کیا جاتا۔- (فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ ) ۔- یہاں واضح کردیا گیا کہ اللہ کا عذاب صرف آسمان سے پتھروں کی صورت ہی میں نہیں آیا کرتا بلکہ غزوۂ بدر میں ان کی فیصلہ کن شکست ان کے حق میں اللہ کا عذاب ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :28 یہ اشارہ اس غلط فہمی کی تردید میں ہے جو لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی تھی اور جس سے عام طور پر اہل عرب دھوکا کھا رہے تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ قریش چونکہ بیت اللہ کے مجاور اور متولی ہیں اور وہاں عبادت بجا لاتے ہیں اس لیے ان پر اللہ کا فضل ہے ۔ اس کے رد میں فرمایا کہ محض میراث میں مجاورت اور تولیت پالینے سے کوئی شخص یا گروہ کسی عبادت گاہ کا جائز مجاور ومتولی نہیں ہو سکتا ۔ جائز مجاور و متولی تو صرف خدا ترس اور پرہیزگار لوگ ہی ہو سکتے ہیں ۔ اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ ایک جماعت کو ، جو خالص خدا کی عبادت کر نے والی ہے ، اس عبادت گاہ میں آنے سے روکتے ہیں جو خا لص خدا کی عبادت ہی کے لیے وقف کی گئی تھی ۔ اس طرح یہ متولی اور خادم بن کر رہنے کے بجائے اس عبادت گاہ کے مالک بن بیٹھے ہیں اور اپنے آپ کو اس بات کا مختار سمجھنے لگے ہیں کہ جس یہ ناراض ہوں اسے عبادت گاہ میں نہ آنے دیں ۔ یہ حرکت ان کے ناخدا ترس اور ناپرہیز گار ہونے کے صریح دلیل ہے ۔ رہی ان کی عبادت جو وہ بیت اللہ میں کرتے ہیں تو اس کے اندر نہ خضوع و خشوع ہے ، نہ تو جہ الی اللہ ہے ، نہ ذکر الہٰی ہے ، بس ایک بے معنی شور و غل اور لہو و لعب ہے جس کا نام انہوں نے عبادت رکھ چھوڑا ہے ۔ ایسی نام و نہاد خدمت بیت اللہ اور ایسی جھوٹی عبادت پر آخر یہ فضلِ الہٰی کے مستحق کیسے ہوگئے اور یہ چیز انہیں عذاب الہٰی سے کیونکر محفوظ رکھ سکتی ہے؟ سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :29 وہ سمجھتے تھے کہ عذاب الہٰی صرف آسمان سے پھتروں کی شکل میں یا کسی اور طرح قوائے فطرت کے ہیجان ہی کی شکل میں آیا کرتا ہے ۔ مگر یہاں انہیں بتایا گیا ہے کہ جنگ بدر میں ان کی فیصلہ کن شکست ، جس کی وجہ سے اسلام کے لیے زندگی کا اور قدیم نظام جاہلیت کے لیے موت کا فیصلہ ہوا ہے ، دراصل ان کے حق میں اللہ کا عذاب ہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani