Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ارشاد ہے کہ فی الواقع یہ کفار عذابوں کے لائق ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے عذاب رکے ہوئے ہیں چنانچہ آپ کی ہجرت کے بعد ان پر عذاب الٰہی آیا ۔ بدر کے دن ان کے تمام سردار مار ڈالے گئے یا قید کر دیئے گئے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ٰ نے انہیں استغفار کی ہدایت کی کہ اپنے شرک و فساد سے ہٹ جائیں اور اللہ سے معاف طلب کریں ۔ کہتے ہیں کہ وہ لوگ معافی نہیں مانگتے تھے ورنہ عذاب نہ ہوتا ۔ ہاں ان میں جو کمزر مسلمان رہ گئے تھے اور ہجرت پر قادر نہ تھے وہ استغفار میں لگے رہتے تھے اور ان کی ان میں موجودگی اللہ کے عذابوں کے رکنے کا ذریعہ تھی چنانچہ حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد الٰہی ہے ھم الذین کفروا الخ ، یعنی یہ مکے والے ہی تو وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی نہ آنے دیا کہ وہ جہاں تھے وہیں رکے کھڑے رہے اور اپنے حلالا ہونے کی جگہ نہ پہنچ سکے ۔ اگر شہر مکہ میں کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں ایسی نہ ہوتیں کہ تم ان کے حال سے واقف نہیں تھے ، اور عین ممکن تھا کہ لڑائی کی صورت میں تم انہیں بھی پامال کر ڈالتے اور نادانستہ ان کی طرف سے تمہیں نقصان پہنچ جاتا تو بیشک تمہیں اسی وقت لڑائی کی اجازت مل جاتی ۔ اس وقت کی صلح اس لئے ہے کہ اللہ جسے جاہے اپنی رحمت میں لے لے ۔ اگر مکے میں رکے ہوئے مسلمان وہاں سے کہیں تل جاتے تو یقینا ان کافروں کو درد ناک مار مری جاتی ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اہل مکہ کے لئے باعث امن رہی پھر حضور کی ہجرت کے بعد جو ضعیف مسلمان وہاں رہ گئے تھے اور استغفار کرتے رہے تھے ، ان کی موجودگی کی وجہ سے عذاب نہ آیا جب وہ بھی مکے سے نکل گئے تب یہ آیت اتری کہ اب کوئی مانع باقی نہ رہا پس مسلمانوں کو مکے پر چڑھائی کرنے کی اجازت مل گئی اور یہ مفتوح ہوئے ۔ ہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ اگر مراد ان کا خود کا استغفار ہو تو اس آیت نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا ۔ چنانچہ حسن بصری وغیرہ کا یہ قول بھی ہے کہ اہل مکہ سے جنگ بھی ہوئی ، انہیں ضرور بھی پہنچے ، ان پر قحط سالیاں بھی آئیں پس ان مشرکوں کا اس آیت میں استثنا کر لیا گیا ہے ۔ انہیں اللہ کے عذاب کیوں نہ ہوں؟ یہ مومن لوگوں کو کعبتہ اللہ میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں جو مومن بوجہ اپنی کمزوری کے اب تک مکہ میں ہی ہیں اور ان کے سوار اور مومنوں کو بھی طواف و نماز سے روکتے ہیں حالانکہ اصل اہلیت ان ہی میں ہے ۔ ان مشرکوں میں اس کی اہلیت نہیں جیسے فرمان ہے ما کان للمشرکین ان یعمروا مسجد اللہ الخ ، مشرکین اللہ کے گھروں کی آبادی کے اہل نہیں وہ تو کفر میں مبتلا ہیں ان کے اعمال اکارت ہیں اور وہ ہمیشہ کے جہنمی ہیں ۔ مسجدوں کی آبادی کے اہل اللہ پر ، قیامت پر ایمان رکھنے والے ، نمازی ، زکوٰۃ ادا کرنے والے ، صرف خوف الٰہی رکھنے والے ہی ہیں اور وہی راہ یافتہ لوگ ہیں اور آیت میں ہے کہ راہ رب سے روکنا ، اللہ کے ساتھ کفر کرنا ، مسجد حرام کی بےحرمتی کرنا اور اس کے لائق لوگوں کو اس سے نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ آپ کے دوست کون ہیں؟ آپ نے فرمایا ہر ایک پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والا پھر آپ نے پڑھا ان اولیاء الا المتقون مستدرک حاکم میں ہے کہ حضور نے قریشیوں کو جمع کیا پھر پوچھا کہ تم میں اس وقت کوئی اور تو نہیں؟ انہوں نے کہا بہنوں کی اولاد اور حلیف اور مولیٰ ہیں ۔ فرمایا یہ تینوں تو تم میں سے ہی ہیں ۔ سنو تم میں سے میرے دوست وہی ہیں جو تقوے اور پرہیز گاری والے ہوں پس اللہ کے اولیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم اور کل مجاہد خواہ وہ کوئی ہو اور کہیں کے ہوں ۔ پھر ان کی ایک اور شرارت اور بےڈھنگا پن بیان فرماتا ہے ۔ کعبے میں آ کر کیا کرتے ہیں؟ یا تو جانروں کی سی سیٹیاں بجاتے ہیں ، منہ میں انگلیاں رکھین اور سیتیاں شروع کریں یا تالیاں پیٹنے لگے ۔ طواف کرتے ہیں تو ننے ہو کر ، رخسار جھکا کر ، سیٹی بجائی ، تالی بجائی ، چلئے نماز ہو گئی ۔ کبھی رخسار زمین پر لٹکا لیا ۔ بائیں طرف سے طواف کیا ۔ یہ بھی مقصود تھا کہ حضور کی نماز بگاڑیں ، مومنوں کا مذاق اڑائیں ، لوگوں کو راہ رب سے روکیں ۔ اب اپنے کفر کا بھر پور پھل چکھو ، بدر کے دن قید ہو کے قتل ہوئے ، تولار چلی ، چیخ اور زلزلے آئے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 یعنی وہ مشرکین اپنے آپ کو مسجد حرام (خانہ کعبہ) کا متولی سمجھتے تھے اور اس اعتبار سے جس کو چاہتے طواف کی اجازت دیتے اور جس کو چاہتے نہ دیتے۔ چناچہ مسلمانوں کو بھی وہ مسجد حرام میں آنے سے روکتے تھے حالانکہ وہ اس کے متولی ہی نہیں تھے، زبردستی بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس کے متولی تو متقی افراد ہی بن سکتے ہیں نہ کہ مشرک۔ علاوہ ازیں اس آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے، اس سے مراد فتح مکہ ہے جو مشرکین کے لئے عذاب عظیم رکھتا ہے۔ اس سے قبل کی آیت میں جس عذاب کی نفی ہے، جو پیغمبر کی موجودگی یا استغفار کرتے رہنے کی وجہ سے نہیں آتا، اس سے مراد عذاب استیصال اور ہلاکت کلی ہے۔ عبرت وتبیہ کے طور پر چھوٹے موٹے عذاب اس کے منافی نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٥] تولیت کعبہ کے لئے شرائط کفار مکہ کا بیت اللہ پر غاصبانہ قبضہ :۔ یعنی ان لوگوں کے عذاب کے مستحق ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اگر ان پر عذاب نہیں آ رہا تو اس کی مندرجہ بالا وجوہ ہیں اور ان کے عذاب کے مستحق ہونے کی بھی دو وجہیں ہیں ایک یہ کہ انہوں نے مسلمانوں پر بیت اللہ میں داخلہ پر پابندی لگا رکھی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بیت اللہ پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے متولی ہیں کیونکہ ہم سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ حالانکہ متولی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو بیت اللہ میں داخل ہونے سے ہی روک دے۔ نیز یہ کہ تولیت کے لیے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہو اور وہ موحد تھے۔ مشرک نہیں تھے۔ یعنی اگر اولاد ابراہیم مشرک ہے تو اس سے تولیت چھین کر اس شخص کو دی جائے گی جو موحد اور پرہیزگار ہو خواہ وہ اولاد ابراہیم سے ہو یا نہ ہو۔ کعبہ کی تولیت کے لیے شرط اول پرہیزگاری اور اللہ کا تقویٰ ہے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہونا نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا لَهُمْ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ : اس آیت میں ان کے عذاب کا مستحق ہونے کی چند وجہیں بیان کی ہیں، ایک تو یہ کہ انھوں نے مسلمانوں کے مسجد حرام میں داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ دوسری یہ کہ وہ زبردستی مسجد حرام کے مالک اور متولی بنے بیٹھے ہیں، حالانکہ کعبہ کی تولیت صرف موحدین متقین کا حق ہے، مشرکین کا نہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (١٧، ١٨) تیسری یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کی شان کے لائق اور اس کے بتائے ہوئے طریقے سے کرنے کے بجائے تالیاں پیٹ کر اور سیٹیاں بجا کر قوالی کے ذریعے سے کرتے ہیں۔ اس لیے ان پر عذاب کیوں نہ آئے، عذاب آئے گا اور ضرور آئے گا۔ پچھلی آیت میں جس عذاب کی نفی کی تھی وہ تھا جس سے قوموں کا نام و نشان مٹ جاتا تھا، یعنی عذاب استیصال۔ اس آیت میں اس عذاب کا ذکر ہے جو قحط، خوف اور جنگ کی صورت میں عبرت کے لیے ان پر مسلط ہوا، دیکھیے سورة نحل (١١٢، ١١٣) ، سورة سجدہ (٢١) اور سورة دخان (١٠ تا ١٦) یہ عذاب جنگ بدر، قحط، بھوک، خوف اور آخر میں فتح مکہ کی صورت میں اہل مکہ پر مسلط ہوا۔ جس سے ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے، یا قید ہوئے اور جو مرنے سے بچ گئے وہ آخر کار اسلام میں داخل ہوگئے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ( ان موانع کے سبب عذاب خارق نازل نہ ہونے سے باکل ہی عذاب سے مطمئن نہ ہوجائیں کیونکہ جس طرح امور مذکورہ مانع عذاب ہیں اسی طرح ان کی حرکتیں مقتضی عذاب بھی ہیں پس مانع کا اثر عذاب خارق میں ظاہر ہوا اور مقتضی کا اثر نفس عذاب میں ظاہر ہوگا کہ عذاب غیر خارق ان پر نازل ہوگا چناچہ اس مقتضی کا بیان فرماتے ہیں کہ) ان کا کیا استحقاق ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ (بالکل ہی معمولی) سزا ( بھی) نہ دے حالانکہ ( ان کی یہ حرکتیں مقتضی سزا کی ہیں مثلا) وہ لوگ ( پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو) مسجد حرام ( میں جانے اور اس میں نماز پڑھنے اور اس میں طواف کرنے) سے روکتے ہیں ( جیسا حدیبیہ میں حقیقةً روکا جس کا قصہ سورة بقرہ میں گزر چکا اور زمانہ قیام مکہ میں حکمًا روکا کہ اس قدر تنگ کیا کہ ہجرت کی ضرورت ہوئی) حالانکہ وہ لوگ اس مسجد کے متولی ( بننے کے بھی لائق) نہیں ( اور عابدین کو روکنا تو درکنار رہا جس کا اختیار خود متولی کو بھی نہیں ہوتا) اس کے متولی ( بننے کے لائق) تو سوا متقیوں کے ( کہ وہ اہل ایمان ہیں) اور کوئی بھی اشخاص نہیں لیکن ان میں اکثر لوگ ( اپنی نالائقی کا) علم نہیں رکھتے ( خواہ علم ہی نہ ہو یا یہ کہ جب اس علم پر عمل نہ کیا تو وہ مثل عدم علم کے ہے غرض جو سچ مچ نمازی تھے ان کو تو مسجد سے اس طرح روکا) اور ( خود مسجد کا کیسا حق ادا کیا اور اس میں کیسی اچھی نماز پڑھی جس کا بیان یہ ہے کہ) ان کی نماز خانہ کعبہ ( مذکور بعنوان مسجد حرام) کے پاس صرف یہ تھی سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا ( یعنی بجائے نماز کے ان کی یہ نامعقول حرکتیں ہوتی تھیں) سو ( ان حرکات کا ضرور مقتضا ہے کہ ان پر کوئی نہ کوئی عذاب گو وہ معمولی اور عادی ہو نازل کرکے ان کو خطاب کیا جائے کہ لو) اس عذاب کا مزہ چکھو اپنے کفر کے سبب (جس کا ایک اثر وہ قول ہے لَوْ نَشَاۗءُ اور ایک اثر وہ قول ہے۔ اِنْ كَانَ هٰذَا الخ اور ایک اثر وہ فعل ہے۔ يَصُدُّوْنَ الخ اور ایک اثر وہ فعل ہے مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَةً الخ۔ چناچہ غزوات متعددہ میں یہ سزا واقع ہوئی جیسا کہ اس سورت کے رکوع دوم میں بھی ہے (آیت) ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ الخ بعد ذلک با نھم شآقآوا الخ کے یہاں تک تو ان لوگوں کے اقوال و اعمال بدنیہ کا ذکر تھا آگے ان کے اعمال مالیہ کا بیان ہے کہ) بلا شک یہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اس لئے خرچ کر رہے ہیں کہ اللہ کی راہ سے ( یعنی دین سے لوگوں کو) روکیں ( چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ اور مخالفت کے سامان جمع کرنے میں ظاہر ہے کہ جو خرچ ہوتا تھا اس میں یہی غرض تھی) سو یہ لوگ تو اپنے مالوں کو ( اسی غرض کے لئے) خرچ کرتے ہی رہیں گے ( مگر) پھر ( آخر میں جب آثار ناکامی کے محسوس ہوں گے) وہ مال ان کے حق میں باعث حسرت ہوجائیں گے ( کہ خواہ مخواہ خرچ کیا اور) پھر ( آخر) مغلوب ( ہی) ہوجائیں گے ( جس سے حسرت ضیاع اموال کے ساتھ یہ دوسری حسرت مغلوبیت کی جمع ہوجائے گی) اور ( یہ سزا و حسرت و مغلوبیت تو ان کی دنیا میں ہے باقی آخرت کی سزا وہ الگ ہے جس کا بیان یہ ہے کہ) کافر لوگوں کو دوزخ کی طرف ( لے جانے کے لئے قیامت میں) جمع کیا جائے گا تاکہ اللہ تعالیٰ ناپاک ( لوگوں) کو پاک (لوگوں) سے الگ کردے ( کیونکہ جب دوزخیوں کو دوزخ کی طرف لائیں گے ظاہر ہے کہ اہل جنت ان سے علیحدہ رہ جائیں گے) اور ( ان سے الگ کرکے) ناپاکوں کو ایک دوسرے سے ملا دے یعنی ان سب کو متصل کرد پھر ( متصل کرکے) ان سب کو جہنم میں ڈال دے ایسے ہی لوگ پورے خسارہ میں ہیں ( جس کا کہیں منتہی نہیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر یہ لوگ ( اپنے کفر سے) باز آجائیں گے ( اور اسلام قبول کرلیں گے) تو ان کے سارے گناہ جو ( اسلام سے) پہلے ہوچکے ہیں سب معاف کردیئے جائیں گے ( یہ حکم تو حالت اسلام کا ہوا) اور اگر اپنی وہی ( کفر کی عادت رکھیں گے تو ( ان کو سنا دیجئے کہ) کفار سابقین کے حق میں ( ہمارا) قانون نافذ ہوچکا ہے ( کہ دنیا میں ہلاک اور آخرت میں عذاب وہی تمہارے لئے ہوگا چناچہ قتل سے ہلاک بھی ہوئے اور غیر کفار عرب کا ہلاک ذمی ہونا بھی ہے تم جانو)- معارف و مسائل - پچھلی آیتوں میں یہ بتلایا گیا تھا کہ مشرکین مکہ اپنے کفر و انکار کی وجہ اگرچہ اس کے مستحق ہیں کہ ان پر آسمانی عذاب آجائے لیکن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکہ میں موجود ہونا عذاب عام آنے سے مانع ہے اور ہجرت کے بعد ان ضعفاء مسلمین کی وجہ سے ایسا عذاب نہیں آتا جو مکہ میں رہ کر اللہ سے استغفار کرتے ہیں۔- مذکورہ آیتوں میں یہ بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا ضعفاء مسلمین کی رعایت سے اگر دنیا میں ان کا عذاب ٹل ہی گیا تو ان لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ عذاب کے مستحق نہیں بلکہ ان کا استحقاق عذاب کھلا ہوا ہے اور علاوہ کفر و انکار کے اور بھی ان کے ایسے جرائم میں جن کی وجہ سے ان پر عذاب آجانا چاہئے۔ ان دونوں آیتوں میں ان کے تین جرم شمار کئے گئے ہیں۔- اول یہ کہ یہ لوگ خود تو مسجد حرام میں عبادت گزاری کے قابل ہی نہیں اور جو مسلمان وہاں عبادت نماز طواف وغیرہ ادا کرنا چاہتے ہیں ان کو آنے سے روک دیتے ہیں۔ اس میں واقعہ حدیبیہ کی طرف اشارہ ہے جب کہ ٦ ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ مکرمہ پہنچے تھے اور مشرکین مکہ نے آپ کو روک کر واپس جانے پر مجبور کیا تھا۔ - دوسرا جرم یہ فرمایا کہ یہ بیوقوف یوں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم مسجد حرام کے متولی ہیں جس کو چاہیں اس میں آنے کی اجازت دیں جس کو چاہیں نہ دیں۔- ان کا یہ خیال دو غلط فہمیوں کا نتیجہ تھا۔ اول یہ کہ اپنے آپ کو مسجد حرام کا متولی سمجھا حالانکہ کوئی کافر کسی مسجد کا متولی نہیں ہوسکتا دوسرے یہ کہ متولی کو یہ حق ہے کہ جس کو چاہے مسجد میں آنے سے روک دے۔ جبکہ مسجد خانہ خدا ہے اس میں آنے سے روکنے کا کسی کو حق نہیں بجز ایسی خاص صورتوں کے جن میں مسجد کی بےحرمتی یا دوسرے نمازیوں کی تکلیف کا اندیشہ ہو۔ جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنی مسجدوں کو بچاؤ چھوٹے بچوں سے، اور پاگل آدمیوں سے اور باہمی جھگڑوں سے، چھوٹے بچوں سے مراد وہ بچے ہیں جن سے ناپاکی کا خطرہ ہے، اور پاگل سے ناپاکی کا بھی خطرہ ہے اور نمازیوں کی ایذاء کا بھی۔- اس حدیث کی رو سے متولی مسجد کے لئے یہ تو حق ہے کہ ایسے چھوٹے بچوں، پاگلوں کو مسجد میں نہ آنے دے اور باہمی جھگڑے مسجد میں نہ ہونے دے لیکن بغیر ایس صورتوں کے کسی مسلمان کو مسجد سے روکنے کا کسی متولی مسجد کو حق نہیں۔ - قرآن کریم کی آیت متذکرہ میں صرف پہلی بات بیان کرنے پر اکتفاء کیا کہ ان لوگوں کو مسجد حرام کا متولی کیسے مانا جائے۔ جب کہ اصول یہ ہے کہ اس کے متولی صرف متقی مسلمان ہی ہو سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسجد کا متولی مسلمان دیندار پرہیزگار ہونا چاہئے اور بعض حضرات مفسرین نے (آیت) اِنْ اَوْلِيَاۗؤ ُ هٗٓ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع قرار دے کر یہ معنی لکھے ہیں کہ اللہ کے ولی صرف متقی پرہیزگار لوگ ہوسکتے ہیں۔- اس تفسیر کے مطابق آیت سے یہ نتیجہ نکلا کہ جو لوگ شریعت و سنت کے خلاف عمل کرنے کے باوجود ولی اللہ ہونے کا دعوی کریں وہ جھوٹے ہیں اور جو ایسے لوگوں کو ولی اللہ سمجھیں وہ دھوکے میں ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا لَہُمْ اَلَّا يُعَذِّبَہُمُ اللہُ وَہُمْ يَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوْٓا اَوْلِيَاۗءَہٗ۝ ٠ ۭ اِنْ اَوْلِيَاۗؤُہٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٣٤- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- حَرَمُ ( محترم)- والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام،- ولي - والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤) اور جب آپ ان کے ہاں سے تشریف لے آئے تو اب ان کا کیا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک نہ کرے وہ تو حدیبیہ کے سال رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو مسجد حرام کا طواف کرنے سے بھی منع کرتے ہیں حالانکہ وہ مسجد کے متولی بننے کے بھی مستحق نہیں، اس کے حقیقی متولی تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی جماعت ہے جو کہ کفر وشرک اور فواحش سے پرہیز کرتے ہیں مگر ان میں سے سب اس چیز کی خبر نہیں رکھتے اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ومالہم الا یعذبھم اللہ “۔ (الخ)- اس کے بعد آپ مدینہ منورہ آگئے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” وما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون “۔ کیوں کہ مسلمانوں میں سے کچھ حضرات مکہ مکرمہ میں باقی رہ گئے تھے اور وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے رہتے تھے، جب وہ حضرات بھی مکہ مکرمہ سے تشریف لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (آیت) ” وما لھم الا یعذبھم اللہ “۔ کہ ان کا کیا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ذرا سی سزا بھی نہ دے چناچہ فتح مکہ کی اجازت دی گئی اور یہی وہ عذاب ہے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

20: یعنی اگرچہ مذکورہ بالا دو وجہ سے ان پر دُنیا میں کوئی عام عذاب تو نہیں آیا، مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ لوگ عذاب کے مستحق نہیں ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کفر وشرک کے علاوہ ان کی ایک خرابی یہ ہے کہ مسلمانوں کو مسجد حرام میں عبادت کرنے سے روکتے ہیں، جیسا کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے واقعے میں پیچھے گذرچکا ہے۔ (دیکھئے اس سورت کا ابتدائی تعارف) لہٰذا جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور دوسرے صحابہ مکہ مکرَّمہ سے نکل جائیں گے توان پر جزوی عذاب آئے گا، جو بعد میں فتح مکہ کی صورت میں سامنے آیا، اور پھر آخرت میں ان کو مکمل عذاب ہوگا۔