Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی پیغمبر کی موجودگی میں قوم پر عذاب نہیں آتا، اس لحاظ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود گرامی ان کے حفظ وامان کا سبب تھا۔ 33۔ 2 اس سے مراد یہ ہے کہ آئندہ مسلمان ہو کر استغفار کریں گے، یا یہ کہ طواف کرتے وقت مشرکین غَفْرَانَکَ رَبَّنَا غْفُرَانَکَ کہا کرتے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] عذاب سے امان کی صورتیں :۔ ابو جہل کے اس قول کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔- ١۔ سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ابو جہل نے یہ کہا تھا کہ اے اللہ اگر یہ قرآن تیری طرف سے (نازل شدہ) سچا کلام ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی عذاب ہم پر بھیج دے۔ اس کے جواب میں اگلی آیات وَمَاکَان اللّٰہُ سے لے کر عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ تک نازل ہوئیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے دو امان کی چیزیں اتاری ہیں۔ پھر یہ آیت پڑھی۔ پھر فرمایا کہ جب میں (دنیا سے) چلا گیا تو تمہارے لیے امن کی چیز استغفار کو قیامت تک کے لیے چھوڑ جاؤں گا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- یعنی فوری طور پر تم پر پتھروں کا عذاب نازل نہ کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تم میں ابھی اللہ کا رسول موجود ہے۔ اس کی موجودگی میں تم پر عذاب نہیں آسکتا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کا رسول اور مومنوں کی جماعت ہر وقت اللہ سے استغفار کرتے رہتے ہیں اور میرا قانون یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں استغفار کرنے والے لوگ موجود رہیں میں اس پر عذاب نازل نہیں کیا کرتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَان اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ : یعنی جب تک آپ ان میں موجود تھے اللہ تعالیٰ ان پر کبھی عذاب بھیجنے والا نہیں تھا، کیونکہ اس کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ان کا رسول اور ایمان والے ان میں موجود رہتے ہیں۔ چناچہ نوح، ہود، صالح اور لوط ( علیہ السلام) کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ قوم لوط کے متعلق فرمایا : (فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) [ الذاریات : ٣٥ ] ” ہم نے اس بستی سے جو بھی مومن تھا نکال لیا۔ “ اسی طرح نوح (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ تمام اہل ایمان کو کشتی میں بٹھا لو، پھر عذاب بڑھنا شروع ہوا۔ دیکھیے سورة ہود (٤٠) اور سورة مومنون (٢٧)- وَمَا كَان اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ : یعنی یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ جب تک کوئی قوم اپنے گناہوں پر نادم ہو کر استغفار کرتی رہتی ہے وہ اسے ہلاک نہیں کرتا۔ یہاں فرمایا : ” جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔ “ اس کی دو توج ہیں زیادہ معتبر ہیں، ایک تو یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہجرت کر جانے کے بعد بھی کچھ مسلمان مجبوراً مکہ میں رہ گئے تھے اور وہ اپنے رب سے استغفار کرتے رہتے تھے، ان کے استغفار کی برکت سے اہل مکہ پر عذاب نہیں آیا، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ( لَوْ تَزَيَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا) [ الفتح : ٢٥ ] ” اگر وہ (مومن اور کافر) الگ الگ ہوگئے ہوتے تو ہم ضرور ان لوگوں کو جنھوں نے ان میں سے کفر کیا تھا، عذاب دیتے دردناک عذاب۔ “ دوسری توجیہ یہ ہے کہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کے علم میں ایسے لوگ موجود تھے جو آئندہ چل کر مسلمان ہوں گے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں گے، اس لیے ان پر ایسا عذاب نہیں آسکتا تھا جو سب کو سرے سے فنا کر ڈالے۔ اس توجیہ کی طرف اشارہ بھی سورة فتح (٢٥) میں موجود ہے : (لِيُدْخِلَ اللّٰهُ فِيْ رَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ) ” تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جسے چاہے داخل کرلے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قرآن کریم نے خود اس کا جواب دیا۔ پہلے ارشاد فرمایا (آیت) وَمَا كَان اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کریں گے کہ آپ کے مکہ میں ہوتے ہوئے ان پر عذاب نازل کریں کیونکہ اول تو سب ہی انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ حق تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ جس بستی میں وہ موجود ہوں اس پر اس وقت تک عذاب نازل نہیں فرماتے جب تک اپنے پیغمبروں کو وہاں سے نکال نہ لیں۔ جیسے حضرت ہود (علیہ السلام) اور صالح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کے معاملہ میں مشاہدہ ہوا کہ جب تک یہ حضرات بستی میں رہے عذاب نہیں آیا جب وہاں سے نکال لئے گئے اس وقت عذاب نازل ہوا۔ خصوصا سید الانبیاء جو رحمة للعالمین کا لقب دے کر بھیجے گئے ہیں آپ کے کسی بستی میں موجود ہوتے ہوئے ان پر عذاب آنا آپ کی شان کے خلاف تھا۔- خلاصہ جواب کا یہ ہوا کہ تم تو قرآن اور اسلام کی مخالفت کی وجہ سے اسی کے مستحق ہو کہ تم پر پتھر برسائے جائیں مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکہ میں موجود ہونا اس سے مانع ہے۔ امام ابن جریر نے فرمایا کہ آیت کا یہ حصہ اس وقت نازل ہوا جب کہ آپ مکہ مکرمہ میں موجود تھے پھر ہجرت مدینہ کے بعد آیت کا دوسرا حصہ یہ نازل ہوا (آیت) وَمَا كَان اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کرنے والے نہیں جب کہ وہ مانع رفع ہوگیا کہ آپ وہاں موجود تھے مگر اس وقت بھی ایک مانع عذاب کا یہ موجود رہا کہ بہت سے ضعفاء مسلمین جو ہجرت نہ کرسکتے تھے مکہ میں رہ گئے تھے اور وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے تھے۔ ان کی خاطر سے اہل مکہ پر عذاب نازل نہیں کیا گیا۔- پھر جب یہ سب حضرات بھی ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچ گئے تو بعد کی آیت کا یہ جملہ نازل ہوا (آیت) وَمَا لَهُمْ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَهُمْ يَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔ یعنی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہ دیں حالانکہ وہ لوگوں کو مسجد حرام میں عبادت کرنے سے روکتے ہیں۔- مطلب یہ ہے کہ اب مانع عذاب دونوں رفع ہوچکے، نہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں رہے اور نہ استغفار کرنے والے مسلمان مکہ میں باقی رہے تو اب عذاب آنے سے کوئی رکاوٹ باقی نہیں۔ خصوصا ان کے استحقاق عذاب میں خود مخالف اسلام ہونے کے علاوہ اس جرم کا بھی اضافہ ہوگیا کہ یہ لوگ خود تو عبادت کے قابل نہ تھے اور جو مسلمان عبادت عمرہ و طواف کے لئے مسجد حرام میں جانا چاہیں ان کو روکنے لگے تو اب ان کا استحقاق عذاب بالکل مکمل ہوگیا، چناچہ فتح مکہ کے ذریعہ ان پر عذاب نازل کیا گیا۔- مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکنے کا واقعہ غزوہ حدیبیہ میں پیش آیا تھا جب کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کے ساتھ عمرہ کے قصد سے تشریف لے گئے اور مشرکین مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا اور آپ کو اور سب صحابہ کرام کو اپنے احرام کھولنے اور واپس جانے پر مجبور کیا یہ واقعہ ٦ ہجری کا ہے اس کے دو سال بعد ٨ ہجری میں مکہ مکرمہ فتح ہوگیا، اس طرح ان پر مسلمانوں کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا۔ - ابن جریر کی اس تفسیر کا مدار اس پر ہے کہ مانع عذاب آپ کا مکہ میں ہونا قرار دیا جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دنیا میں وجود مانع عذاب ہے جب تک آپ دنیا میں تشریف فرما ہیں آپ کی قوم پر عذاب نہیں آسکتا۔ اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ آپ کا حال دوسرے انبیاء کی طرح نہیں کہ وہ خاص خاص مقامات یا قبائل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ جب وہاں سے نکل کر کسی دوسرے خطہ میں پہنچ گئے تو اس کی قوم پر عذاب آجاتا تھا۔ بخلاف سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہ آپ کی نبوت و رسالت سارے عالم کے لئے اور قیامت تک کے لئے عام اور شامل ہے پوری دنیا آپ کا مقام بعثت اور دائرہ رسالت ہے اس لئے جب تک آپ دنیا کے کسی حصہ میں موجود ہیں آپ کی قوم پر عذاب نہیں آسکتا۔ - اس تفسیر پر مطلب یہ ہوگا کہ اہل مکہ کے افعال کا تقاضا تو یہی تھا کہ ان پر پتھر برسائے جائیں مگر دو چیزیں اس عذاب سے مانع ہوئیں، ایک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دنیا میں تشریف فرما ہونا، دوسرے اہل مکہ کا استغفار کرنا کیونکہ یہ لوگ مشرک و کافر ہونے کے باوجود اپنے طواف وغیرہ میں غفرانک غفرانک کہا کرتے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ استغفار کفر و شرک کے ساتھ گو آخرت میں نافع نہ ہو مگر دنیا میں اس کا بھی یہ نفع ان کو مل گیا کہ دنیا میں عذاب سے بچ گئے۔ اللہ تعالیٰ کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتے۔ کفار و مشرکین اگر کوئی نیک عمل کرتے ہیں تو اس کا بدلہ ان کو اسی دنیا میں دے دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جو یہ ارشاد فرمایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہ دے حالانکہ یہ لوگ مسلمانوں کو مسجد حرام میں عبادت کرنے سے روکتے ہیں، اس کا مطلب اس صورت میں یہ ہوگا کہ دنیا میں عذاب نہ ہونے سے یہ لوگ مغرور اور مطمئن نہ ہوجائیں کہ ہم مجرم ہی نہیں یا ہم پر عذاب نہیں ہوگا۔ اگر دنیا میں نہ ہوا تو آخرت کے عذاب سے ان کی کسی طرح نجات نہیں۔ اس تفسیر پر مَا لَهُمْ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ میں عذاب سے عذاب آخرت مراد ہوگا۔- آیات مذکورہ سے چند فوائد حاصل ہوئے اول یہ کہ جس بستی میں لوگ استغفار کرتے ہوں اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ اس پر عذاب نازل نہیں کرتے۔- دوسرے یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہوتے ہوئے آپ کی امت پر خواہ مسلم ہوں یا کافر عذاب نہیں آئے گا اور مراد اس سے یہ ہے کہ عذاب عام جس سے پوری قوم تباہ ہوجائے ایسا عذاب نہیں آئے گا جیسے قوم نوح، قوم لوط، قوم شعیب وغیرہ کے ساتھ پہش آیا کہ ان کا نام و نشان مٹ گیا۔ افراد و احاد پر کوئی عذاب آجائے وہ اس کے منافی نہیں جیسا کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں خسف اور مسخ کا عذاب آئے گا۔ خسف کے معنی زمین میں اتر جانا اور مسنح کے معنی صورت مسخ ہو کر بندر یا سور وغیرہ جانوروں کی شکل میں تبدیل ہوجانا۔ اس کی مراد یہی ہے کہ بعض بعض افراد امت پر ایسے عذاب بھی آئیں گے۔- اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دنیا میں ہونا قیامت تک باقی رہے گا کیونکہ آپ کی رسالت قیامت تک کے لئے ہے۔ نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت بھی زندہ ہیں گو اس زندگی کی صورت سابق زندگی سے مختلف ہے اور یہ بحث لغو اور فضول ہے کہ ان دونوں زندگیوں میں فرق کیا ہے کیونکہ نہ اس پر امت کا کوئی دینی یا دنیوی کام موقوف ہے نہ خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے ایسی فضول اور بےضرورت بحثوں کو پسند فرمایا بلکہ منع فرمایا ہے۔ - خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے روضہ میں زندہ ہونا اور آپ کی رسالت کا قیامت تک قائم رہنا اس کی دلیل ہے کہ آپ قیامت تک دنیا میں ہیں اس لئے یہ امت قیامت تک عذاب عام سے مامون رہے گی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِيْہِمْ۝ ٠ ۭ وَمَا كَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۝ ٣٣- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قوم کو پیغمبر کی موجودگی میں عذاب الٰہی نہیں ہوتا - قول باری ہے وماکان اللہ لیعذبھم وانت فیھم وماکان اللہ معذبھم وھم یستغفرون۔ اس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہیں تھا جب کہ تو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ یہ اللہ کا باقاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے) یعنی اللہ تعالیٰ انہیں ایسا عذاب دینے والا نہیں تھا جو ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان موجود ہوتے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تھا اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہوتے ہوئے انہیں عذاب نہیں دیا جائے گا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے یعنی اہل مکہ کے درمیان سے نکل جائیں گے تو یہ لوگ عذاب کے مستحق قرار پائیں گے۔ اللہ کی دی ہوئی نعمت ان سے سلب کرلی جائے گی اور سب کے سب اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آجائیں گے آپ نہیں دیکھتے کہ پہلی امتیں جب عذاب الٰہی کی زد میں آکر مٹ جانے کے مرحلے پر پہنچ جاتیں تو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو ان کے درمیان سے نکل جانے کا حکم دے دیتا۔ حضرت لوط، حضرت صالح اور حضرت شعیب (علیہم السلام) کی قوموں کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ قول باری وماکان اللہ معذبھم وھم یستغفرون) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے ہجرت کر گئے تو مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی تعداد وہاں رہ گئی۔ مجاہد، قتادہ اور سدی کا قول ہے کہ اگر یہ لوگ استغفار کرتے تو اللہ انہیں عذاب نہ دیتا۔ قول باری ہے وما لھم الایعذبھم اللہ وھم یصدوان عن المسجد الحرام لیکن اب کیوں نہ وہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ مسجد حرام کا راستہ روک رہے ہیں) یہ عذاب اس عذاب سے مختلف ہے جس کا ذکر پہلی آیت میں ہوا ہے اس لئے کہ یہ آخرت کا عذاب ہے اور پہلا عذاب دنیا میں ملنے والا عذاب ہے جس سے ان کی جڑ کٹ کر رہ جاتی۔ قول باری ہے وماکانوا اولیاء ہ حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولی نہیں ہیں) اس کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ حسن کے قول کے مطابق ان مشرکین کا یہ دعویٰ تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تردید کردی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مشرکین مسجد حرام کے متولی نہیں ہیں بلکہ اس کے جائز متولی وہ لوگ ہیں جو تقویٰ اور پرہیزگاری کے وصف سے متصف ہیں۔ اگر اس سے مسجد حرام کے متولی مراد ہیں تو اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ انہیں مسجد حرام میں داخل ہونے اور اسے آباد کرنے سے روک دیا گیا ہے۔- احترام مساجد اہل ایمان کا کام ہے - اس کی نظیر یہ قول باری ہے ماکان للمشرکین ان یعمروا مساجد اللہ ۔ مشرکین کو اللہ کی مسجدیں آباد کرنے کی اجازت نہیں ہے) قول باری ہے وماکان صدرتھم عند البیت الامکاء و تصدیۃ۔ بیت اللہ کے پاس ان کی نماز کیا ہوتی ہے بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں) مکاء سیٹیاں بجانے کو کہتے ہیں اور تالیاں پیٹنے کو۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، حسن، مجاہد، عطیہ، قتادہ اور سدی سے یہی مروی ہے۔ سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ تصدیہ کے معنی ہیں ” بیت اللہ میں داخل ہونے سے لوگوں کو ان کا روکنا “ مکاء اور تصدیہ کو صلاۃ کا نام دیا گیا اس لئے کہ مشرکین دعا اور تسبیح کی بجائے سیٹیاں بجایا کرتے تھے اور تالیاں پیٹتے تھے ۔ ایک قول ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں یہ حرکتیں کرتے تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣) اللہ تعالیٰ آپ کے ان میں موجود ہوتے ہوئے ابوجہل بن ہشام نے کہا اے اللہ اگر یہ قرآن واقعی آپ کی طرف سے نازل شدہ شدہ ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسائیے یا ہم پر کوئی سخت عذاب نازل کیجیے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی اللہ ایسا ہرگز نہ کریں گے کہ ان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہوتے ہوئے ان کو ایسا اجتماعی عذاب دیں۔- ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور ” غفرانک غفرانک “۔ کہتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” وما کان اللہ لعیذبھم “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے یزید بن رومان اور محمد بن قیس (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش میں سے کچھ لوگوں نے بعض سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمارے درمیان عزت دی ہے اے اللہ اگر یہ حق ہو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسائیے، جب شام ہوئی تو اپنے اس قول پر شرمسار ہوئے اور کہنے لگے اے اللہ ہم تجھ سے معافی مانگتے ہیں۔- اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (آیت) ” وما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون “۔ سے ” لا یعلمون “۔ تک نازل فرمائی۔- ابن جریر (رح) ہی نے ابن انبری سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ (وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ ط) اگرچہ وہ لوگ عذاب کے پوری طرح مستحق ہوچکے تھے ‘ لیکن جس طرح کے عذاب کے لیے وہ لوگ دعائیں کر رہے تھے ویسا عذاب سنت الٰہی کے مطابق ان پر اس وقت تک نہیں آسکتا تھا جب تک اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں ان کے درمیان موجود تھے ‘ کیونکہ ایسے عذاب کے نزول سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے رسول ( علیہ السلام) اور اہل ایمان کو ہجرت کا حکم دے دیتا ہے اور ان کے نکل جانے کے بعد ہی کسی آبادی پر اجتماعی عذاب آیا کرتا ہے۔ - (وَمَا کَان اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ) ۔- اس لحاظ سے مکہ کی آبادی کا معاملہ بہت گڈ مڈ تھا۔ مکہ میں عوام الناس بھی تھے ‘ سادہ لوح لوگ بھی تھے جو اپنے طور پر اللہ کا ذکر کرتے تھے ‘ تلبیہ پڑھتے تھے اور اللہ سے استغفار بھی کرتے تھے۔ دوسری طرف اللہ کا قانون ہے جس کا ذکر اسی سورت کی آیت ٣٧ میں ہوا ہے کہ جب تک وہ پاک اور ناپاک کو چھانٹ کر الگ نہیں کردیتا (لِیَمِیْزَ اللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ ) اس وقت تک اس نوعیت کا عذاب کسی قوم پر نہیں آتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :27 یہ ان کے اس سوال کا جواب ہے جو ان کی اوپر والی ظاہری دعا میں متضمن تھا ۔ اس جواب میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکی دور میں کیوں عذاب نہیں بھیجا ۔ اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ جب تک نبی کسی بستی میں موجود ہو اور حق کی طرف دعوت دے رہا ہو اس وقت تک بستی کے لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے اور عذاب بھیج کر قبل از وقت ان سے اصلاح پذیری کا موقع سلب نہیں کر لیاجاتا ۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب تک بستی میں سے ایسے لوگ پے در پے نکلتے چلے آرہے ہوں جو اپنی سابقہ غفلت اور غلط روی پر متنبہ ہو کر اللہ سے معافی کی درخواست کرتے ہوں اور آئندہ کے لیے اپنے رویہ کی اصلاح کر لیتے ہوں ، اس وقت تک کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ اس بستی کو تباہ کر کے رکھ دے ۔ البتہ عذاب کا اصلی وقت وہ ہوتا ہے جب نبی اس بستی پر حجّت پوری کرنے کے بعد مایوس ہو کر وہاں سے نکل جائے یا نکال دی جائے یا قتل کر ڈالا جائے ، اور وہ بستی اپنے طرز عمل سے ثابت کر دے کہ وہ کسی صالح عنصر کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

19: مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے کفر اور شرک کی وجہ سے مستحق تواسی بات کے تھے کہ ان پر عذاب نازل کیا جائے، لیکن دو وجہ سے اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل نہیں فرمایا، ایک وجہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ مکہ مکرمہ میں موجود ہیں اور آپ کے ہوتے ہوئے عذاب نازل نہیں ہوسکتا، کیونکہ نبی کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتا، جب نبی بستی سے نکل جاتے ہیں تب عذاب آتا ہے، اس کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ اللعلمین بناکر بھیجا گیا ہے اس لئے آپ کی برکت سے عذاب عام اس امت پر نہیں آئے گا، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں بہت سے مسلمان استغفار کرتے رہتے ہیں ان کے استغفار کی برکت سے عذاب رکا ہوا ہے اور بعض مفسرین نے اس کی یہ تشریح بھی کی ہے کہ خود مشرکین مکہ بھی اپنے طواف کے دوران کثرت سے غفرانک کہتے رہتے تھے جو استغفار ہی کی ایک قسم ہے اگرچہ کفر وشرک کے ساتھ استغفار آخرت کے عذاب کو دور کرنے کے لئے توکافی نہیں تھا ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کافروں کی نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اس لئے ان کے استغفار کا اثر یہ ہے کہ ان پر دنیا میں کوئی اس طرح کا عذاب عام نازل نہیں ہوا جیسا عاد وثمود وغیرہ پر آیا تھا۔