48۔ 1 مشرکین جب مکہ سے روانہ ہوئے تو انہیں اپنے حریف قبیلے بنی بکر بن کنانہ سے اندیشہ تھا کہ وہ پیچھے سے انہیں نقصان نہ پہنچائے چناچہ شیطان سراقہ بن مالک کی صورت بنا کر آیا، جو بنی بکر بن کنانہ کے ایک سردار تھے، اور انہیں نہ صرف فتح و غلبہ کی بشارت دی بلکہ اپنی حمایت کا بھی پورا یقین دلایا۔ لیکن جب ملائکہ کی صورت میں امداد الٰہی اسے نظر آئی تو ایڑیوں کے بل بھاگ کھڑا ہوا۔ 48۔ 2 اللہ کا خوف تو اس کے دل میں کیا ہونا تھا ؟ تاہم اسے یقین ہوگیا تھا کہ مسلمانوں کو اللہ کی خاص مدد حاصل ہے مشرکین ان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔ 48۔ 3 ممکن ہے یہ شیطان کے کلام کا حصہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے جملہ مستانفہ ہو۔
[٥٣] جنگ بدر میں سراقہ بن مالک کا موجود ہونا اور کافروں کی حوصلہ افزائی :۔ قریش اور بنو کنانہ کی آپس میں دشمنی تھی اور انہیں یہ خطرہ تھا کہ بنو کنانہ کہیں مسلمانوں کی حمایت کر کے ہمارے لیے خطرہ یا شکست کا باعث نہ بن جائیں۔ ان کے اس خدشہ کو مٹانے کے لیے شیطان خود بنو کنانہ کے رئیس سراقہ بن مالک کی شکل میں کافروں کے لشکر میں آموجود ہوا اور ابو جہل سے کہنے لگا کہ ہماری طرف سے تم لوگ بالکل مطمئن رہو۔ اس معاملہ میں ہم لوگ تمہاری حمایت کریں گے اور مل کر مسلمانوں کا استیصال کریں گے۔ ویسے بھی تم لوگوں کی فتح یقینی ہے۔ تمہاری اتنی بڑی جمعیت کے سامنے ان تھوڑے سے مسلمانوں کی کیا حیثیت ہے۔ پھر جب میدان کار زار گرم ہوا اور اس نے مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے اترتے دیکھ لیے اور یہ اندازہ کرلیا کہ اب مشرکین کی شکست یقینی ہے تو وہاں سے کھسکنے لگا۔ اس وقت ابو جہل نے کہا : عین مشکل کے وقت اب کہاں جاتے ہو ؟ کہنے لگا جو کچھ مجھے نظر آ رہا ہے وہ تم نہیں دیکھ سکتے۔ یہ کہہ کر چلتا بنا۔ اس وقت بھی شیطان لعین نے اپنے ساتھیوں کو یہ نہ بتلایا کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اس کے مطابق تمہاری ہلاکت ہونے والی ہے۔ لہذا تم بروقت اس کا تدارک سوچ لو۔ بلکہ انہیں دغا دے کر واپس چلا گیا۔
وَاِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ : ” جَارٌ“ کا معنی یہاں مجیر، معین، ناصر یعنی حمایتی و مدد گار ہے۔ ” نَكَصَ “ الٹے پاؤں پیچھے ہٹا۔ شیطان کے ان کے لیے ان کے اعمال کو مزین کرنے، انھیں ان کے غالب ہونے اور اپنی حمایت کا یقین دلانے کی تفسیر بعض مفسرین، مثلاً طبری، ابن کثیر اور قرطبی (رح) نے ابن عباس (رض) سے نقل فرمائی ہے کہ قریش اور بنو کنانہ کی باہم دشمنی تھی اور انھیں ان کی طرف سے خطرہ تھا کہ وہ پیچھے سے ہم پر حملہ نہ کردیں۔ شیطان نے ان کے سردار سراقہ بن مالک بن جعشم کی شکل میں آکر ان کی طرف سے قریش کو بےفکر ہوجانے کا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا اور اپنے لشکر کو بھی لے کر آیا، مگر بدر میں جب مسلمانوں کے ساتھ جبریل (علیہ السلام) اور فرشتوں کو دیکھا تو الٹے پاؤں یہ الفاظ کہتا ہوا بھاگ گیا جن کا قرآن مجید میں ذکر ہے۔ - بعض مفسرین مثلاً صاحب المنار نے یہ تفسیر کی ہے کہ شیطان انسانی شکل میں نہیں آیا بلکہ یہ تمام باتیں بطور وسوسہ اس نے ان کے دلوں میں ڈالیں کہ میں تمہارا حمایتی ہوں، یعنی جن بتوں اور خداؤں کو تم پوجتے ہو وہ ہر طرح سے تمہاری حمایت اور مدد کریں گے اور اس وقت تم اتنی تعداد اور قوت میں ہو کہ تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ وہ اپنے بتوں اور خداؤں کے بھروسے پر جو درحقیقت شیطان پر بھروسا تھا اور اپنی قوت کے زعم میں شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسے پر اپنی فتح کا یقین کر بیٹھے، مگر بدر کے میدان میں لڑائی شروع ہونے کے بعد انھیں مسلمان دگنے نظر آنے لگے تو شیطان کے سارے دلائے ہوئے وسوسے اور یقین باطل ہوگئے۔ سید رشید رضا نے شیطان کے انسانی صورت میں آنے کی روایات کی صحت میں شک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ روایات ابن عباس (رض) سے مروی ہیں جو اس وقت پانچ برس کے تھے، انھوں نے کسی اور ہی سے سنی ہوں گی، مگر صحابہ کی مرسلات بھی قبول ہوتی ہیں، کیونکہ انھوں نے کسی نہ کسی صحابی ہی سے سنی ہوتی ہیں جو سب معتبر ہیں۔ - ابن کثیر کی تخریج ” ہدایۃ المستنیر “ میں لکھا ہے کہ ابن کثیر نے ان آیات کے تحت ابن عباس (رض) سے کئی روایات ذکر کی ہیں جن میں سے کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں، مگر ان کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان واقعات کا اصل ضرور ہے، اس لیے انھیں بیان کرنے میں کوئی مانع نہیں اور ” الاستیعاب فی بیان الأسباب “ میں سلیم الہلالی اور محمد بن موسیٰ نے لکھا ہے کہ ابن عباس (رض) کی ( یہاں مذکور) روایت حسن ہے، اس میں دو علتیں بیان کی گئی ہیں مگر ان کی کچھ حیثیت نہیں۔ - چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی کوئی وضاحت صحیح حدیث میں نہیں آئی اور یہ معاملہ غیب سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے اگرچہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ شیطان نے واقعی انسانی وجود میں آ کر انھیں یہ کہا یا محض دل میں غرور پیدا کر کے انھیں دھوکا دیا، مگر قرآن کے الفاظ ” وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ “ اور ” نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْهِ “ سے یہی راجح نظر آتا ہے کہ وہ ظالم انسانی شکل میں آیا تھا اور شیطان کا بعض اوقات انسانی شکل میں آنا کچھ بعید نہیں، جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز میں حملہ آور ہوا تو آپ نے پکڑ کر اس کا گلا گھونٹا، مگر پھر سلیمان (علیہ السلام) کی دعا یاد کر کے اسے چھوڑ دیا۔ [ بخاری، الصلاۃ، باب الأسیر أو الغریم یربط فی المسجد : ٤٦١ ] ابوہریرہ (رض) کو بھی تین دن نظر آتا رہا اور وہ گرفتار کر کے اسے چھوڑ دیتے رہے، اس لیے اس اہم موقع پر خود اس کا آنا کوئی بعید نہیں ہے۔ - اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ : یعنی مجھے وہ فرشتے نظر آ رہے ہیں جو تمہیں نظر نہیں آ رہے۔ - اِنِّىْٓ اَخَاف اللّٰهَ : ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے اس دن تک مہلت دی جو اللہ کے علم میں ہے۔ دیکھیے سورة حجر (٣٧، ٣٨) اور سورة ص (٨٠، ٨١) قیامت تک وعدہ نہیں فرمایا اس لیے ہوسکتا ہے کہ ابلیس نے فرشتوں کو دیکھ کر یہ سمجھا ہو کہ میری مہلت کی مدت ختم ہوچکی ہے، اس لیے اس نے اللہ سے ڈرنے کا ذکر کیا، ورنہ وہ ظالم کب اللہ سے ڈرتا تھا۔
خلاصہ تفسیر - اور اس وقت کا ان سے ذکر کیجئے جب کہ شیطان نے ان (کفار) کو (بذریعہ وسوسہ) انکے اعمال ( کفریہ عداوت و مخالفت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( خوشنما کرکے دکھلائے ( کہ انہوں نے ان باتوں کو اچھا سمجھا) اور ( وسوسہ سے بڑھ کر یہ کیا کہ بالمشافہ ان سے) کہا کہ ( تم کو وہ قوت و شوکت ہے کہ تمہارے مخالف) لوگوں میں سے آج کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور میں تمہارا حامی ہوں ( نہ بیرونی دشمنوں سے ڈرو اور نہ اندرونی دشمنوں سے اندیشہ کرو) پھر جب دونوں جماعتیں ( کفار و مسلیمن کی) ایک دوسرے کے بالمقابل ہوئیں (اور اس نے ملائکہ کا نزول دیکھا) تو وہ الٹے پاؤں بھاگا اور یہ کہا کہ میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں ( میں حامی وامی کچھ نہیں بنتا کیونکہ) میں ان چیزوں کو دیکھ رہا ہوں جو تم کو نظر نہیں آتیں ( مراد فرشتے ہیں) میں تو خدا سے ڈرتا ہوں ( کبھی کسی فرشتہ سے دنیا ہی میں میری خبر لوا دے) اللہ تعالیٰ سکت سزا دینے والے ہیں۔ اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جب منافقین ( مدینہ والوں میں سے) اور جن کے دلوں میں ( شک کی) بیماری تھی (مکہ والوں میں سے مسلمانوں کا بےسرو سامانی کے ساتھ مقابلہ کفار میں آجانا دیکھ کر) یوں کہتے تھے کہ ان ( مسلمان) لوگوں کو ان کے دین نے بھول میں ڈال رکھا ہے ( کہ اپنے دین کے حق ہونے کے بھروسے ایسے خطرہ میں آپڑے۔ اللہ جواب دیتے ہیں) اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو ( وہ اکثر غالب ہی آتا ہے کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ زبردست ہیں ( اس لئے اپنے اوپر بھروسہ کرنے والے کو غالب کردیتے ہیں کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ زبردست ہیں ( اس لئے اپنے اوپر بھروسہ کرنے والے کو غالب کردیتے ہیں اور احیانًا ایسا شخص مغلوب ہوجائے تو اس میں کچھ مصلحت ہوتی ہے کیونکہ) وہ حکمت والے ( بھی) ہیں ( غرض ظاہری سامان و بےسامانی پر مدار نہیں قادر کوئی اور ہی ہے ) ۔ - معارف و مسائل - سورة انفال میں شروع سے غزوہ بدر میں پیش آنے والے واقعات اور حالات کا اور ان سے حاصل ہونی والی نصائح اور عبرتوں کا اور متعلقہ احکام کا بیان چل رہا ہے۔- اسی میں ایک واقعہ قریش مکہ کو شیطان کے فریب دے کر مسلمانوں کے مقابلہ پر ابھارنے اور پھر عین میدان جنگ میں ساتھ چھوڑ کر الگ ہوجانے کا ہے جو آیات مذکورہ کے شروع میں مذکورہ ہے۔ - شیطان کا یہ فریب قریش کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کی صورت سے تھا یا انسانی شکل میں آکر روبرو گفتگو سے۔ اس میں دونوں احتمال ہیں مگر الفاظ قرآن سے زیادہ تر تائید دوسری ہی صورت کی ہوتی ہے کہ بشکل انسانی سامنے آکر فریب دیا۔ - امام ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ جب قریش مکہ کا لشکر مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے مکہ سے نکلا تو ان کے دلوں پر ایک خطرہ اس کا سوار تھا کہ ہمارے قریب میں قبیلہ بنو بکر بھی ہمارا دشمن ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم مسلمانوں کے مقابلہ پر جائیں اور یہ دشمن قبیلہ موقع پا کر ہمارے گھروں اور عورتوں، بچوں پر چھاپہ مار دے۔ امیر قافلہ ابو سفیان کی گھبرائی ہوئی فریاد پر تیار ہو کر نکل تو کھڑے ہوئے مگر یہ خطرہ ان کے لئے زنجیر پا بنا ہوا تھا کہ اچانک شیطان سراقہ بن مالک کی صورت میں اس طرح سامنے آیا کہ اس کے ہاتھ میں جھنڈا اور اس کے ساتھ ایک دستہ بہادر فوج کا ہے۔ سراقہ بن مالک اس علاقہ اور قبیلہ کا بڑا سردار تھا جن سے حملہ کا خطرہ تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر قریشی جوانوں کے لشکر سے خطاب کیا اور دو طرح سے فریب میں مبتلا کیا۔ اول یہ کہ (آیت) لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ ، یعنی آج تمام لوگوں میں تم پر کوئی غالب آنے والا نہیں۔ مطلب یہ تھا کہ مجھے تمہارے مقابل فریق کی قوت کا بھی اندازہ ہے اور تمہاری قوت و کثرت کو بھی دیکھ رہا ہوں اس لئے تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم بےفکر ہو کر آگے بڑھو تمہیں غالب رہو گے کوئی تمہارے مقابلہ پر غالب آنے والا نہیں۔ - دوسرے یہ کہ (آیت) اِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ ، یعنی تمہیں جو بنی بکر وغیرہ سے خطرہ لگا ہوا ہے کہ وہ تمہارے پیچھے مکہ پر چڑھ دوڑیں گے۔ اس کی میں ذمہ داری لیتا ہوں کہ ایسا نہ ہوگا میں تمہارا حامی ہوں۔ قریش مکہ سراقہ بن مالک اور اس کی بڑی شخصیت اور اثر و رسوخ سے پہلے سے واقف تھے اس کی بات سن کر ان کے دل جم گئے اور قبیلہ بنی بکر کے خطرہ سے بےفکر ہو کر مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے آمادہ ہوگئے۔ اس دو گونہ فریب سے شیطان نے ان لوگوں کو اپنے مقتل کی طرف ہانک دیا (آیت) فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْهِ ۔ جب مشرکین مکہ اور مسلمانوں کی دونوں جماعتیں ( مقام بدر میں) آمنے سامنے ہوئیں تو شیطان پچھلے پاؤں لوٹ گیا۔ - غزوہ بدر میں چونکہ مشرکین مکہ کی پیٹھ پر ایک شیطانی لشکر بھی آگیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلہ میں فرشتوں کا لشکر جبرئیل و میکائیل کی قیادت میں بھیج دیا۔ امام ابن جریر وغیرہ نے بروایت ابن عباس نقل کیا ہے کہ شیطان نے جو اس وقت بشکل انسانی سراقہ بن مالک کی صورت میں اپنے شیطانی لشکر کی قیادت کر رہا تھا، جب جبریل امین اور ان کے ساتھ فرشتوں کا لشکر دیکھا تو گھبرا اٹھا اس وقت اس کا ہاتھ ایک قریشی جوان حارث بن ہشام کے ہاتھ میں تھا فورا اس سے اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہا۔ حارث نے ٹوکا کہ یہ کیا کرتے ہو تو اس کے سینہ پر مار کر حارث کو گرا دیا۔ اور اپنے شیطانی لشکر کو لے کر بھاگ پڑا۔ حارث نے اس کو سراقہ سمجھتے ہوئے کہا کہ اے عرب کے سردار سراقہ تو نے تو یہ کہا تھا کہ میں تمہارا حامی اور مددگار ہوں اور عین میدان جنگ میں یہ حرکت کر رہے ہو۔ تو شیطان نے بشکل سراقہ جواب دیا (آیت) اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَاف اللّٰهَ ۔ یعنی میں تمہارے معاہدہ سے بری ہوتا ہوں کیونکہ میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تمہاری آنکھیں نہیں دیکھتیں مراد فرشتوں کا لشکر تھا۔ اور یہ کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اس لئے تمہارا ساتھ چھوڑتا ہوں۔ - شیطان نے فرشتوں کا لشکر دیکھا تو ان کی قوت سے وہ واقف تھا سمجھ گیا کہ اب اپنی خیر نہیں اور یہ جو کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ امام تفسیر قتادہ نے کہا کہ یہ اس نے جھوٹ بولا اگر وہ خدا سے ڈرا کرتا تو نافرمانی کیوں کرتا۔ مگر اکثر حضرات نے فرمایا کہ ڈرنا بھی اپنی جگہ صحیح ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور عذاب شدید کو پوری طرح جانتا ہے اس لئے نہ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں البتہ نرا خوف بغیر ایمان و اطاعت کے کوئی فائدہ نہیں رکھتا۔ - ابو جہل نے جب سراقہ اور اس کے لشکر کی پسپائی سے اپنے لشکر کی ہمت کو ٹوٹتے دیکھا تو بات بنائی اور کہا کہ سراقہ کے بھاگ جانے سے تم متاثر نہ ہو اس نے تو خفیہ طور پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سازش کر رکھی تھی شیطان کی پسپائی کے بعد ان کا جو حشر ہونا تھا ہوگیا۔ پھر جب یہ لوگ مکہ واپس آئے اور ان میں سے کسی کی ملاقات سراقہ بن مالک کے ساتھ ہوئی تو اس نے سراقہ کو ملامت کی کہ جنگ بدر میں ہماری شکست اور سارے نقصان کی ذمہ داری تجھ پر ہے تو نے عین میدان جنگ میں پسپا ہو کر ہمارے جوانوں کی ہمت توڑ دی۔ اس نے کہا کہ میں نہ تمہارے ساتھ گیا نہ تمہارے کسی کام میں شریک ہوا۔ میں نے تو تمہاری شکست کی خبر بھی تمہارے مکہ پہنچنے کے بعد سنی۔ - یہ سب روایات امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ شیطان لعین کی یہ عام عادت ہے کہ انسان کو برائی میں مبتلا کرکے عین موقع پر الگ ہوجاتا ہے قرآن کریم نے اس کی یہ عادت بار بار بیان فرمائی ہے، ایک آیت میں ہے (آیت) كَمَثَلِ الشَّيْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ ۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكَ اِنِّىْٓ اَخَاف اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ آیت متذکرہ کے اس واقعہ سے چند فوائد حاصل ہوئے۔
وَاِذْ زَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ ٠ ۚ فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْہِ وَقَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللہَ ٠ ۭ وَاللہُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ٤٨ ۧ- زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - غلب - الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3]- ( غ ل ب ) الغلبتہ - کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - جار - الجار : من يقرب مسکنه منك، وهو من الأسماء المتضایفة، فإنّ الجار لا يكون جارا لغیره إلا وذلک الغیر جار له قال تعالی: وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى وَالْجارِ الْجُنُبِ [ النساء 36] ، ويقال : استجرته فأجارني، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِنِّي جارٌ لَكُمْ [ الأنفال 48] ، وقال عزّ وجلّ : وَهُوَ يُجِيرُ وَلا يُجارُ عَلَيْهِ- [ المؤمنون 88] ، وقد تصوّر من الجار معنی القرب، فقیل لمن يقرب من غيره :، قال تعالی: لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب 60] ، وقال تعالی: وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد 4] - ( ج و ر )- الجارو ( پڑسی ۔ ہمسایہ ہر وہ شخص جس کی سکونت گاہ دوسرے کے قرب میں ہو وہ اس کا جار کہلاتا ہے یہ ، ، اسماء متضا یفہ ، ، یعنی ان الفاظ سے ہے جو ایک دوسرے کے تقابل سے اپنے معنی دیتے ہیں جیسا کہ اخ اور صدیق کے معنی دیتے ہیں جیسا کہ اخ اور صداقت دونوں جانب سے ہوتی ہے ) کیونکہ کسی کا پڑوسی ہونا اسی وقت متصور ہوسکتا ہے جب دوسرا بھی اسکا پڑسی ہو ۔ چونکہ ہمسائے کا حق عقلا اور شرعا بہت بڑا حق سمجھا گیا ہے اس بنا پر ہر وہ شخص جس کا حق بڑا ہو یا وہ کسی دوسرے کے حق بڑا خیال کرتا ہو اسے اس کا ، ، جار ، ، کہہ دیتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى وَالْجارِ الْجُنُبِ [ النساء 36] اور رشتہ دار ہمسایہ اور اجنبی ہمسایوں ۔ میں نے اس سے پناہ طلب کی چناچہ اس نے مجھے پناہ دے دی ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِنِّي جارٌ لَكُمْ [ الأنفال 48] اور میں تمہارا حامی اور مدد گارہوں میں جار اسی معنی پر محمول ہے نیز فرمایا : ۔ وَهُوَ يُجِيرُ وَلا يُجارُ عَلَيْهِ [ المؤمنون 88] اور وہ پناہ دیتا ہے اور اسکے بالمقابل کوئی پناہ نہیں دے سکتا ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - فِئَةُ ( جماعت)- والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی:- إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48]- الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے ۔۔۔۔۔ بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔- نكص - النُّكُوصُ : الإِحْجَامُ عن الشیء . قال تعالی: نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] .- ( ن ک ص ) النکوص ( ن ض ) کسی چیز سے پیچھے ہٹنا ۔ قرآن پاک میں ہے : نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] تو پسپاہوکر چل دیا ۔- عقب - العَقِبُ : مؤخّر الرّجل، وقیل : عَقْبٌ ، وجمعه : أعقاب، وروي : «ويل للأعقاب من النّار» واستعیر العَقِبُ للولد وولد الولد . قال تعالی: وَجَعَلَها كَلِمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف 28] ، وعَقِبِ الشّهر، من قولهم : جاء في عقب الشّهر، أي : آخره، وجاء في عَقِبِه : إذا بقیت منه بقيّة، ورجع علی عَقِبِه : إذا انثنی راجعا، وانقلب علی عقبيه، نحو رجع علی حافرته ونحو : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وقولهم : رجع عوده علی بدئه قال : وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام 71] ، انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران 144] ، وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] ، فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون 66]- ( ع ق ب ) ب والعقب پاؤں کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی اس کی جمع اعقاب ہے حدیث میں ہے ویلمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف 28] وضو میں خشک رہنے والی ایڑیوں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور بطور استعارہ عقب کا لفظ بیٹے پوتے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ اور یہی بات اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے ۔ جاء فی عقب الشھر مہنے کے آخری دنوں میں آیا ۔ رجع علٰی عقیبہ الٹے پاؤں واپس لوٹا ۔ انقلب علٰی عقیبہ وہ الٹے پاؤں واپس لوٹا جیسے : ۔ رجع علٰی ھافرتہ کا محاورہ ہے اور جیسا کہ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے لوٹ گئے ۔ نیز کہا جاتا ہے ۔ رجع عودہ علٰی بدئہ یعنی جس راستہ پر گیا تھا اسی راستہ سے واپس لوٹ ایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام 71] تو کیا ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) اور جو الٹے پاؤں پھر جائیگا ۔ ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] تو پسپا ہوکر چل دیا ۔ فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون 66] اور تم الٹے پاؤں پھر پھرجاتے تھے ۔ عقبہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا اس کا جانشین ہوا جیسا کہ دبرہ اقفاہ کا محاورہ ہے ۔- برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] - ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں - عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب - والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] .- اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔
(٤٨) اور ابلیس نے ان کے لڑائی کے لیے نکلنے کا وانھیں خوشنما کرکے دکھلایا اور یہ وسوسہ اور خیال دل میں ڈالا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) تم پر غالب آنے والے نہیں اور میں تمہاری مدد کروں گا۔- پھر جب مسلمانوں کی جماعتیں اور کافروں کی جماعتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئیں اور ابلیس نے حضرت جبرائیل امین کو فرشتوں کے ساتھ دیکھا تو واپس بھاگا اور کافروں سے کہنے لگا کہ میرا تم سے اور تمہارے قتال سے کوئی تعلق نہیں، میں جبرائیل امین (علیہ السلام) کو دیکھ رہا ہوں اور تم نہیں دیکھتے، شیطان کو اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اس کو پکڑ کر سب لوگوں کو اس کی صورت سے آشنا نہ کردیں کہ پھر دنیا میں اس کی کوئی اطاعت ہی نہ کرے۔
آیت ٤٨ (وَاِذْ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لاَ غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ ) - یعنی ان کے دلوں میں شیطان نے متکبرانہ خیالات پیدا کردیے تھے اور انہیں خوش فہمی میں مبتلا کردیا تھا کہ تمہارا یہ سازوسامان ‘ یہ اسلحہ ‘ یہ اتنا بڑا لشکر ‘ یہ سب کچھ غیر معمولی اور انہونی صورت حال ہے۔ عرب کی تاریخ میں اس طرح کے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔ کس میں ہمت ہے کہ آج اس لشکر کے سامنے ٹھہر سکے اور کس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ آج تمہارے اوپر غلبہ پا سکے ؟- (وَاِنِّیْ جَارٌ لَّکُمْ ج) (فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِءَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ ) (وَقَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْکُمْ اِنِّیْٓ اَرٰی مَا لاَ تَرَوْنَ ) - چونکہ ابلیس (عزازیل) کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے ‘ لہٰذا ناری مخلوق ہونے کی وجہ سے اس نے فرشتوں کو نازل ہوتے دیکھ لیا اور یہ کہتے ہوئے الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا کہ میں تو یہاں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ہے۔
34: شیطان کی طرف سے یہ یقین دہانی اس طرح بھی ہوسکتی ہے کہ اس نے مشرکین کے دل میں یہ خیال ڈالا ہو، لیکن اگلے جملے میں جو واقعہ ذکر فرمایا گیا ہے اس سے ظاہر یہی ہے کہ اس نے کسی انسانی شکل میں آکر مشرکین کو اکسایا تھا ؛ چنانچہ حافظ ابن جریر (رح) وغیرہ نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ جب مشرکین مکہ جنگ کے ارادے سے روانہ ہونے لگے تو انہیں یہ خطرہ لاحق ہوا کہ انکے پیچھے ان کے گھروں پر قبیلہ بکر کے لوگ حملہ نہ کردیں جن سے ان کی پرانی دشمنی چلی آتی تھی، اس موقع پر شیطان اس قبیلے کے ایک سردار سراقہ کے روپ میں ان کے سامنے آیا اور اس نے اطمینان دلایا کہ تمہارے لشکر کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کوئی تم پر غالب نہیں آسکے گا، اور دوسرے یہ کہ تم ہمارے قبیلے کی طرف سے بے فکر رہو میں خود تمہارا محافظ ہوں، اور تمہارے ساتھ چلوں گا، مشرکین مکہ اس کی بات پر مطمئن ہوگئے، لیکن جب بدر کے میدان میں فرشتوں کا لشکر سامنے آیا تو شیطان جو سراقہ کی شکل میں ان کے ساتھ تھا یہ کہہ کر بھاگ کھڑا ہوا کہ میں تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتا اور مجھے وہ فوج نظر آرہی ہے جو تم نہیں دیکھ سکتے، بعد میں جب مشرکین کا لشکر شکست کھاکر مکہ مکرمہ لوٹا توانہوں نے سراقہ سے شکایت کی کہ تم نے ہمیں بڑا دھوکہ دیا، سراقہ نے جواب میں کہا کہ مجھے تو اس قصے کا ذرا بھی پتہ نہیں اور نہ میں نے ایسی کوئی بات کہی تھی۔