میدان بدر میں ابلیس مشرکین کا ہمراہی تھا جہاد میں ثابت قدمی نیک نیتی ذکر اللہ کی کثرت کی نصیحت فرما کر مشرکین کی مشابہت سے روک رہا ہے کہ جیسے وہ حق کو مٹانے اور لوگوں میں اپنی بہادری دھانے کے لئے فخر و غرور کے ساتھ اپنے شہروں سے چلے تم ایسا نہ کرنا ۔ چنانچہ ابو جہل سے جب کہا گیا کہ قافلہ تو بچ گیا اب لوٹ کر واپس چلنا چاہئے تو اس ملعون نے جواب دیا کہ واہ کس کا لوٹنا بدر کے پانی پر جا کر پڑاؤ کریں گے ۔ وہاں شرابیں اڑائیں گے کباب کھائیں گے گانا سنیں گے تاکہ لوگوں میں شہرت ہو جائے ۔ اللہ کی شان کے قربان جائیے ان کے ارمان قدرت نے پلٹ دیئے یہیں ان کی لاشیں گریں اور یہیں کے گڑھوں میں ذلت کے ساتھ ٹھونس دیئے گئے ۔ اللہ ان کے اعمال کا احاطہ کرنے والا ہے ان کے ارادے اس پر کھلے ہیں اسی لئے انہیں برے وقت سے پالا پڑا ۔ پس یہ مشرکین کا ذکر ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے سرتاج سے بدر میں لڑنے چلے تھے ان کے ساتھ گانے والیاں بھی تھیں باجے گاجے بھی تھے ۔ شیطان لعین ان کا پشت پناہ بنا ہوا تھا انہیں پھسلا رہا تھا ۔ ان کے کام کو خوبصورت بھلا دکھا رہا تھا ان کے کانوں میں پھونک رہا تھا کہ بھلا تمہیں کون ہرا سکتا ہے؟ ان کے دل سے بنوبکر کا مکہ پر چڑھائی کرنے کا خوف نکال رہا تھا اور سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت میں ان کے سامنے کھڑا ہو کر کہہ رہا تھا کہ میں تو اس علاقے کا سردار ہوں بنو مدلج سب میرے تابع ہیں میں تمہارا حمایتی ہوں بےفکر رہو ۔ شیطان کا کام بھی یہی ہے کہ جھوٹے وعدے دے ، نہ پورا ہونے والی امیدوں کے سبز باغ دکھائے اور دھوکے کے جال میں پھنسائے ۔ بدر والے دن یہ اپنے جھنڈے اور لشکر کو ساتھ لے کر مشکوں کی حمایت میں نکلا ان کے دلوں میں ڈالتا رہا کہ بس تم بازی لے گئے میں تمہارا مددگار ہوں ۔ لیکن جب مسلمانوں سے مقابلہ شروع ہوا اور اس خبیث کی نظریں فرشتوں پر پڑیں تو پچھلے پیروں بھاگا اور کہنے لگا میں وہ دیکھتا ہوں جس سے تمہاری آنکھیں اندھی ہیں ۔ ابن عباس کہتے ہیں بدر والے دن ابلیس اپنا جھنڈا بلند کئے مدلجی شخص کی صورت میں اپنے لشکر سمیت پہنچا اور شیطان سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت میں نمودار ہوا اور مشرکین کے دل بڑھائے ہمت دلائی جب میدان جنگ میں صف بندی ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کی مٹھی بھر کر مشرکوں کے منہ پر ماری اس سے ان کے قدم اکھڑ گئے اور ان میں بھگدڑ مچ گئی ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام شیطان کی طرف چلے اس وقت یہ ایک مشرک کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے ہوئے تھا آپ کو دیکھتے ہی اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑا کر اپنے لشکروں سمیت بھاگ کھڑا ہوا اس شخص نے کہا سراقہ تم تو کہہ رہے تھے کہ تم ہمارے حمایتی ہو پھر یہ کیا کر رہے ہو؟ یہ ملعون چونکہ فرشتوں کو دیکھ رہا تھا کہنے لگا میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں تو اللہ سے ڈرنے والا آدمی ہوں اللہ کے عذاب بڑے بھاری ہیں اور روایت میں ہے کہ اسے پیٹھ پھیرتا دیکھ کر حارث بن ہشام نے پکڑ لیا ۔ اس نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا جس سے یہ بیہوش ہو کر گر پڑا دوسرے لوگوں نے کہا سراقہ تو اس حال میں ہمیں ذلیل کرتا ہے؟ اور ایسے وقت ہمیں دھوکہ دیتا ہے وہ کہنے لگا ہاں ہاں میں تم سے بری الذمہ اور بےتعلق ہوں میں انہیں دیکھ رہا ہوں جنہیں تم نہیں دیکھ رہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تھوڑی سی دیر کے لئے ایک طرح کی بےخودی سی طاری ہو گئی پھر ہوشیار ہو کر فرمانے لگے صحابیو خوش ہو جاؤ یہ ہیں تمہاری دائیں جانب حضرت جبرائیل علیہ السلام اور یہ ہیں تمہاری بائیں طرف میکائیل علیہ السلام اور یہ ہیں حضرت اسرافیل علیہ السلام تینوں مع اپنی اپنی فوجوں کے آ موجود ہوئے ہیں ۔ ابلیس سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی صورت میں مشرکوں میں تھا ان کے دل بڑھا رہا تھا اور ان میں پشین گوئیاں کر رہا تھا کہ بےفکر رہو آج تمہیں کوئی ہرا نہیں سکتا ۔ لیکن فرشتوں کے لشکر کو دیکھتے ہی اس نے تو منہ موڑا اور یہ کہتا ہوا بھاگا کہ میں تم سے بری ہوں میں انہیں دیکھ رہا ہں جو تمہاری نگاہ میں نہیں آتے ۔ حارث بن ہشام چونکہ اسے سراقہ ہی سمجھے ہوئے تھا اس لئے اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا اس نے اس کے سینے میں اس زور سے گھونسہ مارا کہ یہ منہ کے بل گر پڑا اور شیطان بھاگ گیا سمندر میں کود پڑا اور اپنا کپڑا اونچا کر کے کہنے لگایا اللہ میں تجھے تیرا وہ وعدہ یاد دلاتا ہوں جو تو نے مجھ سے کیا ہے ۔ طبرانی میں حضرت رفاعہ بن رافع سے بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے ۔ حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں جب قریشیوں نے مکے سے نکلنے کا ارادہ کیا تو انہیں بنی بکر کی جنگ یاد آ گئی اور خیال کیا کہ ایسا نہ ہو ہماری عدم موجودگی میں یہاں چڑھائی کر دیں قریب تھا کہ وہ اپنے ارادے سے دست بردار ہو جائیں اسی وقت ابلیس لعین سراقہ کی صورت میں ان کے پاس آیا جو بنو کنانہ کے سرداروں میں سے تھا کہنے لگا اپنی قوم کا میں ذمہ دار ہوں تم ان کا بےخطر ساتھ دو اور مسلمانوں کے مقابلے کے لئے مکمل تیار ہو کر جاؤ ۔ خود بھی ان کے ساتھ چلا ہر منزل میں یہ اسے دیکھتے تھے سب کو یقین تھا کہ سراقہ خود ہمارے ساتھ ہے یہاں تک کہ لڑائی شروع ہو گئی اس وقت یہ مردود دم دبا کر بھاگا ۔ حارث بن ہشام یا عمیر بن وہب نے اسے جاتے دیکھ لیا اس نے شور مچا دیا کہ سراقہ کہاں بھاگا جا رہا ہے؟ شیطان انہیں موت اور دوزخ کے منہ میں دھکیل کر خود فرار ہوگیا ۔ کیونکہ اس نے اللہ کے لشکروں کو مسلمانوں کی امداد کے لئے آتے ہوئے دیکھ لیا تھا صاف کہدیا کہ میں تم سے بری ہوں میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اس بات میں وہ سچا بھی تھا ۔ پھر کہتا ہے میں اللہ کے خوف سے ڈرتا ہوں ۔ اللہ کے عذاب سخت اور بھاری ہیں ۔ اس نے جبرائیل علیہ السلام کو فرشتوں کے ساتھ اترتے دیکھ لیا تھا سمجھ گیا تھا کہ ان کے مقابلے کی مجھ میں یا مشرکوں میں طاقت نہیں وہ اپنے اس قول میں تو جھوٹا تھا کہ میں خوف الٰہی کرتا ہوں یہ تو صرف اس کی زبانی بات تھی دراصل وہ اپنے میں طاقت ہی نہیں پاتا تھا ۔ یہی اس دشمن رب کی عادت ہے کہ بھڑکاتا اور بہکاتا ہے حق کے مقابلے میں لاکھڑا کر دیتا ہے پھر روپوش ہو جاتا ہے ۔ قران فرماتا ہے شیطان انسان کو کفر کا حکم دیتا ہے پھر جب وہ کفر کر چکتا ہے تو یہ کہنے لگتا ہے کہ میں تجھ سے بیزار ہوں میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں اور آیت میں ہے کہ جب حق واضح جاتا ہے تو یہ کہتا ہے اللہ کے وعدے سچے ہیں میں خود جھوٹا میرے وعدے بھی سراسر جھوٹے میرا تم پر کوئی زور دعویٰ تو تھا ہی نہیں تم نے تو آپ میری آرزو پر گردن جھکا دی اب مھے سرزنش نہ کرو خود اپنے تئیں ملامت کرو نہ میں تمہیں بچا سکوں گا نہ تم میرے کام آسکو گے ۔ اس سے پہلے جو تم مجھے شریک رب بنا رہے تھے میں تو آج اس کا بھی انکاری ہوں ۔ یقین مانو کہ ظالموں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے ۔ حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر میری آنکھیں آج بھی ہوتیں تو میں تمہیں بدر کے میدان میں وہ گھاٹی دکھا دیتا جہاں سے فرشتے آتے تھے بیشک و شبہ مجھے وہ معلوم ہے انہیں ابلیس نے دیکھ لیا اور اللہ نے انہیں حکم دیا کہ مومنوں کو ثابت قدم رکھو یہ لوگوں کے پاس ان کے جان پہچان کے آدمیوں کی شکل میں آتے اور کہتے خوش ہو جاؤ یہ کافر بھی کوئی چیز ہیں اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے بےخوفی کے ساتھ شیر کا سا حملہ کر دو ۔ ابلیس یہ دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا اب تک وہ سراقہ کی شکل میں کفار میں موجود تھا ۔ ابو جہل نے یہ حال دیکھ کر اپنے لشکروں میں گشت شروع کیا کہہ رہا تھا کہ گھبراؤ نہیں اس کے بھاگ کھڑے ہونے سے دل تنگ نہ ہو جاؤ ، وہ تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے سیکھا پڑھا آیا تھا کہ تمیں عین موقعہ پر بزدل کر دے کوئی گھبرانے کی بات نہیں لات و عزیٰ کی قسم آج ان مسلمانوں کو ان کے نبی سمیت گرفتار کرلیں گے نامردی نہ کرو دل بڑھاؤ اور سخت حملہ کرو ۔ دیکھو خبردار انہیں قتل نہ کرنا زندہ پکڑنا تاکہ انہیں دل کھول کر سزا دیں ۔ یہ بھی اپنے زمانے کا فرعون ہی تھا اس نے بھی جادوگروں کے ایمان لانے کو کہا تھا کہ یہ تو صرف تمہارا ایک مکر ہے کہ یہاں سے تم ہمیں نکال دو ۔ اس نے بھی کہا تھا کہ جادوگرو یہ موسیٰ تمہارا استاد ہے حالانکہ یہ محض اس کا فریب تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عرفے کے دن جس قدر ابلیس حقیر و ذلیل رسوا اور درماندہ ہوتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں دیکھا گیا ۔ کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عام معافی اور عام رحمت اتری ہے ہر ایک کے گناہ عموماً معاف ہو جاتے ہیں ہاں بدر کے دن اس کی ذلت و رسوائی کا کچھ مت پوچھو جب اس نے دیکھا کہ فرشتوں کی فوجیں جبرائیل کی ماتحتی میں آ رہی ہیں ۔ جب دونوں فوجیں صف بندی کر کے آمنے سامنے آ گئیں تو اللہ کی قدرت و حکمت سے مسلمان کافروں کو بہت کم نظر آنے لگے اور کافر مسلمانوں کی نگاہ میں کم جچنے لگے ۔ اس پر کافروں نے قہقہہ لگایا کہ دیکھو مسلمان کیسے مذہبی دیوانے ہیں؟ مٹھی بھر آدمی ہم ایک ہزار کے لشکر سے ٹکرا رہے ہیں ابھی کوئی دم میں ان کا چورا ہو جائے گا پہلے ہی حملے میں وہ چوٹ کھائیں گے کہ سر ہلاتے رہ جائیں ۔ رب العالمین فرماتا ہے انہیں نہیں معلوم کہ یہ متوکلین کا گروہ ہے ان کا بھروسہ اس پر ہے جو غلبہ کا مالک ہے ، حکمت کا مالک ہے اللہ کے دین کی سختی مسلمانوں میں محسوس کر کے ان کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ انہیں ذہبی دیوانگی ہے ۔ دشمن الٰہی ابو جہل ملعون ٹیلے کے اوپر سے جھانک کر اللہ والوں کی کمی اور بےسروسامانی دیکھ کر گدھے کی طرح پھول گیا اور کہنے لگا لو پالا مار لیا ہے ، بس آج سے اللہ کی عبادت کرنے والوں سے زمین خالی نظر آئے گی ، ابھی ہم ان میں سے ایک ایک کے دو دو کر کے رکھ دیں گے ۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دین میں طعنہ دینے والے مکہ کے منافق تھے ۔ عامر کہتے ہیں یہ چند لوگ تھے جو زبانی مسلمان ہوئے تھے لیکن آج بدر کے میدان میں مشرکوں کے ساتھ تھے ۔ انہیں مسلمانوں کی کمی اور کمزوری دیکھ کر تعجب معلوم ہوا اور کہا کہ یہ لوگ تو مذہبی فریب خوردہ ہیں ۔ مجاہد کہتے ہیں یہ قریش کی ایک جماعت تھی قیس بن ولید بن مغیرہ ، ابو قیس بن فاکہ بن مغیرہ ، حارث بن زمعہ بن اسود بن عبدالمطلب اور علی بن امیہ بن خلف اور عاص بن منبہ بن حجاج یہ قریش کے ساتھ تھے لیکن یہ متردد تھے اور اسی میں رکے ہوئے تھے یہاں مسلمانوں کی حالت دیکھ کر کہنے لگے یہ لوگ تو صرف مذہبی مجنوں ہیں ورنہ مٹھی بھر بےرسد اور بےہتھیار آدمی اتنی ٹڈی دل شوکت و شان والی فوجوں کے سامنے کیوں کھڑے ہو جاتے؟ حسن فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بدر کی لڑائی میں نہیں آئے تھے ان کا نام منافق رکھ دیا گیا ۔ کہتے ہیں کہ یہ قوم اسلام کا اقرار کرتی تھی لیکن مشرکوں کی رو میں بہہ کر یہاں چلی آئی یہاں آکر مسلمانوں کا قلیل سا لشکر دیکھ کر انہوں نے یہ کہا جناب باری جل شانہ ارشاد فرماتا ہے کہ جو اس مالک الملک پر بھروسہ کرے اسے وہ ذی عزت کر دیتا ہے کیونکہ عزت اس کی لونڈی ہے ، غلبہ اس کا غلام ہے وہ بلند جناب ہے وہ بڑا ذی شان ہے وہ سچا سلطان ہے ۔ وہ حکیم ہے اس کے سب کام حکمت سے ہوتے ہیں وہ ہر چیز کو اس کی ٹھیک جگہ رکھتا ہے ۔ مستحقین امداد کی وہ مدد فرماتا ہے اور مستحقین ذلت کو وہ ذلیل کرتا ہے وہ سب کو خوب جانتا ہے ۔
47۔ 1 مشرکین مکہ، جب اپنے قافلے کی حفاظت اور لڑائی کی نیت سے نکلے، تو بڑے اتراتے اور فخرو غرور کرتے ہوئے نکلے، مسلمانوں کو اس کافرانہ شیوے سے روکا گیا ہے۔
[٥٢] لشکر کفار کا شان وشوکت کا مظاہرہ :۔ یہاں ان لوگوں سے مراد مشرکین ہیں۔ جن کا سردار ابو جہل اپنا لشکر لے کر مکہ سے بڑی دھوم دھام اور باجے گاجے کے ساتھ نکلا تھا تاکہ مسلمان انہیں دیکھ کر ہی مرعوب ہوجائیں۔ نیز دوسرے قبائل عرب پر ان کی دھاک بیٹھ جائے۔ راستہ میں اسے ابو سفیان کا یہ پیغام مل بھی گیا کہ قافلہ خطرہ سے بچ نکلا ہے لہذا تم واپس آجاؤ۔ لیکن ابو جہل نے غرور سے کہا۔ اب ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک بدر کے چشمہ پر پہنچ کر مجلس طرب و نشاط منعقد نہ کرلیں۔ وہاں گانے بجانے والی عورتیں خوشی اور کامیابی کے گیت گائیں گی۔ ہم وہاں شراب پئیں گے۔ مزے اڑائیں گے اور تین دن تک اونٹ ذبح کر کے قبائل عرب کی ضیافت کا اہتمام کریں گے تاکہ یہ دن عرب میں ہمیشہ کے لیے یادگار رہیں اور ان مٹھی بھر مسلمانوں پر ہمارا ایسا رعب طاری ہو کہ پھر کبھی ہمارے مقابلہ کی جرأت نہ کرسکیں۔ گویا اس وقت تک ابو جہل کا ارادہ صرف اپنی شان و شوکت جتلانے اور مسلمانوں پر رعب طاری کرنے کا تھا، لڑائی کا نہ تھا۔ پھر جب مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت وہاں پہنچ گئے اور لڑائی کی فضا بن گئی تو اس وقت بھی چند سرداروں نے ابو جہل کو لڑائی سے روکا۔ مگر پھر اس کا پندار اور غرور غالب آیا اور جن لوگوں نے اسے لڑائی روک دینے کا مشورہ دیا تھا انہیں بزدلی کے طعنے دینے لگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوگئی اور ابو جہل کو بالخصوص اس عذاب سے دوچار ہونا پڑا جس کی وہ طنزیہ دعا کیا کرتا تھا۔ اس کی موت دو نوجوان لڑکوں کے ہاتھوں واقع ہوئی اور وہ نہایت ذلت کی موت مرا۔
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ : مسلمانوں کو لڑائی میں ثابت قدمی اور ذکر الٰہی کی کثرت کا حکم دینے کے بعد اب کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) ان سے مراد ہیں ابو جہل اور اس کے ساتھی، جو تین مقصد لے کر نکلے تھے، ” بَطَرًا “ اپنی اکڑ اور بڑائی ثابت کرنے کے لیے، ” وَّرِئَاۗءَ النَّاسِ “ لوگوں کو اپنی شان و شوکت اور شجاعت دکھانے کے لیے اور ” وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ “ اللہ کے راستے، یعنی اسلام سے لوگوں کو روکنے کے لیے، جبکہ مومن صرف اور صرف اللہ کا دین غالب کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے نکلتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شان و شوکت کا اظہار، فخریہ اشعار اور شراب نوشی کی محفلوں کے بجائے انھیں موت کے پیالے پی کر، ذلت و رسوائی اور دردناک مصیبتوں کے ساتھ واپس لوٹنا پڑا۔ یہ لوگ گویا اپنے رب کے ساتھ مقابلے کے لیے نکلے تھے اور اس قادر وقہار کے احاطے سے تو ان کا کوئی چھوٹا بڑا عمل باہر نہ تھا، اس کے آگے ان کی کیا پیش جاسکتی تھی۔ خندق کے موقع پر کعب بن مالک (رض) نے کیا خوب کہا تھا : - جَاءَتْ سَخِیْنَۃُ کَیْ تُغَالِبَ رَبَّھَا - وَلَیُغْلَبَنَّ مُغَالِبُ الْغَلاَّبِ- ” سخینہ یعنی قریش اپنے رب سے مقابلے کے لیے آئے اور اس زبردست غالب کا مقابلہ کرنے والا یقیناً ہر صورت مغلوب ہوگا۔ “
سینتالیسویں آیت میں ایک اور مضر پہلو پر تنبیہ اور اس سے پرہیز کی ہدایت دی گئی ہے وہ ہے اپنی قوت و کثرت پر ناز یا کام میں اخلاص کے بجائے اپنی کوئی اور غرض مضمر ہونا کیونکہ یہ دونوں چیزیں بھی بڑی طاقتور جماعتوں کو پسپا اور زیر کردیا کرتی ہیں۔ - اس آیت میں اشارہ قریش مکہ کے حالات کی طرف بھی ہے جو اپنے تجارتی قافلہ کی حفاظت کے لئے بھاری تعداد اور سامان لے کر اپنی قوت و کثرت پر اتراتے ہوئے نکلے تھے۔ اور جب تجارتی قافلہ مسلمانوں کی زد سے باہر ہوگیا اس وقت بھی اس لئے واپس نہیں ہوئے کہ اپنی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرنا تھا۔ - مستند روایات میں ہے کہ جب ابوسفیان اپنا تجارتی قافلہ لے کر مسلمانوں کی زد سے بچ نکلے تو ابوجہل کے پاس قاصد بھیجا کہ اب تمہارے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں رہی واپس آجاؤ اور بھی بہت سے قریش سرداروں کی یہی رائے تھی۔ مگر ابوجہل اپنے کبر و غرور اور شہرت پرستی کے جذبہ میں قسم کھا بیٹھا کہ ہم اس وقت تک واپس نہ ہوں گے جب تک چند روز مقام بدر پر پہنچ کر اپنی فتح کا جشن نہ منالیں۔- جس کے نتیجہ میں وہ اور اس کے بڑے بڑے ساتھی سب وہیں ڈھیر ہوئے اور ایک گڑھے میں ڈالے گئے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو ان کے طریقہ کار سے پرہیز کرنے کی ہدایت فرمائی گئی۔
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بَطَرًا وَّرِئَاۗءَ النَّاسِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ ٤٧- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - بطر - البَطَر : دهش يعتري الإنسان من سوء احتمال النعمة وقلّة القیام بحقّها، وصرفها إلى غير وجهها . قال عزّ وجلّ : بَطَراً وَرِئاءَ النَّاسِ [ الأنفال 47] ، وقال : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها - [ القصص 58] أصله : بطرت معیشته، فصرف عنه الفعل ونصب، ويقارب البطر الطرب، وهو خطّة أكثر ما تعتري من الفرح، وقد يقال ذلک في التّرح، والبیطرة : معالجة الدابّة .- ( ب ط ر ) البطر ۔ وہ دہشت جو خوشحالی کے غلط استعمال حق نعمت میں کرتا ہی اور نعمت کے غلط طور پر صرف کرنے سے انسان کو لاحق ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ بَطَراً وَرِئاءَ النَّاسِ [ الأنفال 47] جو اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ۔ بَطِرَتْ مَعِيشَتَها[ القصص 58] بطرت معش تھا ( اپنی معشیت میں اترا رہے تھے ۔ یہ اصل میں بطرت معشیعۃ ہے فعل کی نسبت اس سے قطع کرکے بطور تمیز اسے منصوب کردیا گیا ہے ۔ اور قریبا طوف بمعنی بطر آتا ہے مگر طوف اس خفت کو کہتے ہیں جو فرط مسرت کی وجہ سے انسان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اور کبھی طرف بمعنی غم بھی آجاتا ہے ۔ البیطرۃ حیوانات کا علاج کرنا انکی چیر پھاڑ کرنا ۔- ریاء - قوله : «لا تَتَرَاءَى نارهما» ومنازلهم رِئَاءٌ ، أي : متقابلة . وفعل ذلک رِئَاءُ الناس، أي : مُرَاءَاةً وتشيّعا . والْمِرْآةُ ما يرى فيه صورة الأشياء، وهي مفعلة من : رأيت، نحو : المصحف من صحفت، وجمعها مَرَائِي، رئائ۔ راء ی یرائی ( باب مفاعلۃ) مراء ۃ ورئاء مصدر ( ر ء ی مادہ) خلاف اصل و خلاف حقیقت دکھانا۔ دکھاوا۔ خود نمائی۔ کسی کو دکھانے کے لئے کسی کام کا کرنا۔ رئاء الناس۔ مضاف مضاف الیہ۔ لوگوں کے دکھاوے کے لئے۔- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔
(٤٧) اور نافرمانی میں ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو مکہ مکرمہ سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو اپنی شان دکھلاتے ہوئے باہر نکلے اور یہ بھی مقصود تھا کہ لوگوں کو دین الہی اور اطاعت خداوندی سے روکیں اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ کے لیے نکلنے سے بخوبی آگاہ ہے۔- شان نزول : (آیت) ” ولا تکونو کالذین خرجوا “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا ہے کہ قریش جب مکہ مکرمہ سے بدر کی طرف بڑھے تو گانے اور دف بجانے والیاں کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔
آیت ٤٧ (وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بَطَرًا وَّرِءَآء النَّاسِ ) - یہ قریش کے لشکر کی طرف اشارہ ہے۔ جب یہ لشکر مکہ سے روانہ ہوا تو اس کی شان و شوکت واقعی مرعوب کن تھی۔ اس کے ساتھ عیش و طرب کا سامان بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ابو جہل اور دیگر سرداران قریش اپنے غرور اور تکبر کے باعث اس زعم میں تھے کہ مٹھی بھر مسلمان ہمارے اس طاقتور لشکر کے سامنے خس و خاشاک ثابت ہوں گے اور اہم انہیں کچل کر رکھ دیں گے۔- (وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِط وَاللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ ) - وہ اپنی ساری کوششیں اور توانائیاں مخلوق خدا کو اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے صرف کر رہے تھے ‘ مگر ان کی کوئی تدبیر اللہ کے قابو سے باہر جانے والی تو نہیں تھی۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :38 اشارہ ہے کفار قریش کی طرف ، جن کا لشکر مکہ سے اس شان سے نکلا تھا کہ گانے بجانے والی لونڈیاں ساتھ تھیں ، جگہ جگہ ٹھہر کر رقص و سرور اور شراب نوشی کی محفلیں برپا کرتے جا رہے تھے ، جو جو قبیلے اور قریے راستہ میں ملتے تھے ان پر اپنی طاقت و شوکت اور اپنی کثرت تعداد اور اپنے سروسامان کا رعب جماتے تھے اور ڈینگیں مارتے تھے کہ بھلا ہمارے مقابلہ میں کون سر اٹھا سکتا ہے ۔ یہ تو تھی ان کی اخلاقی حالت ۔ ، اور اس پر مزید لعنت یہ تھی کہ ان کے نکلنے کا مقصد ان کے اخلاق سے بھی زیادہ ناپاک تھا ۔ وہ اس لیے جان و مال کی بازی لگانے نہیں نکلے تھے کہ حق اور راستی اور انصاف کا علم بلند ہو ، بلکہ اس لیے نکلے تھے کہ ایسا نہ ہونے پائے ، ور وہ اکیلا گروہ بھی جو دنیا میں اس مقصد حق کے لیے اٹھا ہے ختم کر دیا جائے تا کہ اس علم کو اٹھانے والا دنیا بھر میں کوئی نہ رہے ۔ اس پر مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم کہیں ایسے نہ بن جانا ۔ تمہیں اللہ نے ایمان اور حق پرستی کی جو نعمت عطا کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمہارے اخلاق بھی پاکیزہ ہوں اور تمہارا مقصد جنگ بھی پاک ہو ۔ یہ ہدایت اسی زمانہ کے لیے نہ تھی ، آج کے لیے بھی ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے ۔ کفار کی فوجوں کا جو حال اس وقت تھا وہی آج بھی ہے ۔ قحبہ خانے اور فواحش کے اڈے اور شراب کے پیپے ان کے ساتھ جزلاینفک کی طرح لگے رہتے ہیں ۔ خفیہ طور پر نہیں ۔ بلکہ علی الاعلان نہایت بے شرمی کے ساتھ وہ عورتوں اور شراب کا زیادہ سے زیادہ راشن مانگتے ہیں اور ان کے سپاہیوں کو خود اپنی قوم ہی سے یہ مطالبہ کرنے میں باک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بڑی سے بڑی تعداد میں ان کی شہوت کا کھلونا بننے کے لیے پیش کرے ۔ پھر بھلا کوئی دوسری قوم ان سے کیا امید کر سکتی ہے کہ یہ اس کو اپنی اخلاقی گندگی کی سنڈاس بنانے میں کوئی کسر اٹھا رکھیں گے ۔ رہا ان کا تکبر اور تفاخر تو ان کے ہر سپاہی اور ہر افسر کی چال ڈھال اور انداز گفتگو میں وہ نمایاں دیکھا جا سکتا ہے اور ان میں سے ہر قوم کے مدبرین کی تقریروں میں لا غالب لکم الیوم اور من اشد منا قوة کی ڈینگیں سُنی جا سکتی ہیں ۔ ان اخلاقی نجاستوں سے زیادہ ناپاک ان کے مقاصد جنگ ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک نہایت مکاری کے ساتھ دنیا کو یقین دلاتا ہے کہ اس کے پیش نظر انسانیت کی فلاح کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ مگر درحقیقت ان کے پیش نظر ایک فلاح انسانیت ہی نہیں ہے ، باقی سب کچھ ہے ۔ ان کی لڑائی کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا نے اپنی زمین میں جو کچھ سارے انسانوں کے لیے پیدا کیا ہے اس پر تنہاان کی قوم متصرف ہو اور دوسرے اس کے چاکر اور دست نگر بن کر رہیں ۔ پس اہل ایمان کو قرآن کی یہ دائمی ہدایت ہے کہ ان فساق و فجار کے طور طریقوں سے بھی بچیں اور ان ناپاک مقاصد میں بھی اپنی جان و مال کھپانے سے پرہیز کریں جن کے لیے یہ لوگ لڑتے ہیں ۔
32:: اس سے مراد کفار قریش کا وہ لشکر ہے جو جنگ بدر کے موقع پر بڑا اکڑتا اور اتراتا اور اپنی شان وشوکت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکلا تھا۔ سبق یہ دینا ہے کہ جنگی طاقت کتنی بھی ہو، اس پر بھروسہ کرکے تکبر میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ بھروسہ صرف اﷲ تعالیٰ پر رکھنا چاہئے۔ 33: مطلب غالباً یہ ہے کہ بعض مرتبہ ایک شخص بظاہر اخلاص سے کام کرتا نظر آتا ہے، لیکن اس کی نیت دکھاوے کی ہوتی ہے، یا اس کے بر عکس بعض مرتبہ کسی شخص کا انداز بظاہر دکھاوے کا ہوتا ہے (جیسے دُشمن کو مرعوب کرنے کے لئے کبھی طاقت کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے) لیکن وہ اخلاص کے ساتھ بھروسہ اللہ ہی پر کرتا ہے۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ کو تمام اعمال کی اصل حقیقت کا پورا علم ہے، اس لئے وہ ان کی جزا یا سزا کا فیصلہ اپنے اسی علم پر محیط کی بنیا پر فرمائے گا، محض ظاہری حالت کی بنیاد پر نہیں (تفسیر کبیر) واللہ سبحانہ اعلم۔