Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 تیسری ہدایت، اللہ اور رسول کی اطاعت، ظاہر بات ہے ان نازک حالات میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کتنی سخت خطرناک ہوسکتی ہے۔ اس لئے ایک مسلمان کے لئے ویسے تو ہر حالت میں اللہ اور رسول کی اطاعت ضروری ہے۔ تاہم میدان جنگ میں اس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے اور اس موقع پر تھوڑی سی بھی نافرمانی اللہ کی مدد سے محرومی کا باعث بن سکتی ہے۔ چوتھی ہدایت کہ آپس میں تنازع اور اختلاف نہ کرو، اس سے تم بزدل ہوجاؤ گے اور ہوا اکھڑ جائے گی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ایک حدیث میں فرمایا لوگو دشمن سے مڈ بھیڑ کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگا کرو تاہم جب کبھی دشمن سے لڑائی کا موقع پیدا ہوجائے تو صبر کرو (یعنی جم کر لڑو) اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے۔ (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥١] اختلاف اور جھگڑے کی ممانعت :۔ اور جو کچھ اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں حکم دے۔ اس میں نہ اختلاف پیدا کرو اور نہ تنازعہ کی شکل بنا لو۔ اگرچہ یہ حکم عام ہے۔ تاہم دوران جنگ اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو بالخصوص بیان کیا گیا ہے۔ اگر تم اس دوران اختلاف کا شکار ہوگئے تو تمہاری ہمتیں پست ہوجائیں گی اور تمہاری ساکھ کو سخت دھچکا لگے گا جو بالآخر تمہاری شکست کا پیش خیمہ بن سکتا ہے اور اس دوران پیدا ہونے والی مشکلات کو برداشت کرنے اور ان پر قابو پانے کو اپنا شعار بناؤ اور یہ یاد رکھو کہ اگر ایسی مشکلات پر صبر کرو گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ تمہاری مدد فرمائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چھیالیسویں آیت میں ایک تیسری چیز کی تلقین اور کی گئی وہ ہے (آیت) وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم پکڑو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی امداد و نصرت اس کی اطاعت ہی کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے معصیت اور نافرمانی تو اللہ کی ناراضی اور ہر فضل سے محرومی کے اسباب ہوتے ہیں۔ اس طرح میدان جنگ کے لئے قرآنی ہدایت نامہ کی تین دفعات ہوگئیں ثبات، ذکر اللہ، اطاعت۔ اس کے بعد فرمایا (آیت) وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا، اس میں مضر پہلوؤں پر تنبیہ کرکے ان سے بچنے کی ہدایت ہے۔ اور وہ مضر پہلو جو جنگ کی کامیابی میں مانع ہوتا ہے باہمی نزاع و اختلاف ہے۔ اس لئے فرمایا وَلَا تَنَازَعُوْا یعنی آپس میں نزاع اور کشاکش نہ کرو۔ ورنہ تم میں بزدلی پھیل جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ - اس میں باہمی نزاع کے دو نتیجے بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ تم ذاتی طور پر کمزور اور بزدل ہوجاؤ گے۔ دوسرے یہ کہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی دشمن کی نظروں میں حقیر ہوجاؤ گے باہمی کشاکش اور نزاع سے دوسروں کی نظر میں حقیر ہوجانا تو بدیہی امر ہے لیکن خود اپنی قوت پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے کہ اس میں کمزوری اور بزدلی آجائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی اتحاد و اعتماد کی صورت میں ہر ایک انسان کے ساتھ پوری جماعت کی طاقت لگی ہوئی ہوتی ہے اس لئے ایک آدمی اپنے اندر بقدر اپنی جماعت کے قوت محسوس کرتا ہے اور جب باہمی اتحاد و اعتماد نہ رہا تو اس کی اکیلی قوت رہ گئی وہ ظاہر ہے جنگ و قتال کے میدان میں کوئی چیز نہیں۔ - اس کے بعد ارشاد فرمایا واصْبِرُوْا۔ یعنی صبر کو لازم پکڑو۔ سیاق کلام سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نزاع اور جھگڑوں سے بچنے کا کامیاب نسخہ بتلایا گیا ہے اور بیان اس کا یہ ہے کہ کوئی جماعت کتنی ہی متحد الخیال اور متحد المقصد ہو مگر افراد انسانی کی طبعی خصوصیات ضرور مختلف ہوا کرتی ہیں نیز کسی مقصد کے لئے سعی و کوشش میں اہل عقل و تجربہ کی رایوں کا اختلاف بھی ناگزیر ہے۔ اس لئے دوسروں کے ساتھ چلنے اور ان کو ساتھ رکھنے کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آدمی خلاف طبع امور پر صبر کرنے اور نظر انداز کرنے کا عادی ہو اور اپنی رائے پر اتنا جماؤ اور اصرار نہ ہو کہ اس کو قبول نہ کیا جائے تو لڑ بیٹھے۔ اسی صفت کا دوسرا نام صبر ہے۔ آج کل یہ تو ہر شخص جانتا اور کہتا ہے کہ آپس کا نزاع بہت بری چیز ہے مگر اس سے بچنے کا جو گُر ہے کہ آدمی خلاف طبع امور پر صبر کرنے کا خوگر بنے اپنی بات منوانے اور چلانے کی فکر میں نہ پڑے۔ یہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے اسی لئے اتحاد و اتفاق کے سارے وعظ و پند بےسود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ آدمی کو دوسرے سے اپنی بات منوا لینے پر تو قدرت نہیں ہوتی مگر خود دوسرے کی بات مان لینا اور اگر اس کی عقل و دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کو نہ مانے تو کم از کم نزاع سے بچنے کے لئے سکوت کرلینا تو بہرحال اختیار میں ہے اس لئے قرآن کریم نے نزاع سے بچنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ صبر کی تلقین بھی ہر فرد جماعت کو کردی تاکہ نزاع سے بچنا عملی دنیا میں آسان ہوجائے۔ - یہاں یہی بات بھی قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ لَا تَنَازَعُوْا فرمایا ہے یعنی باہمی کشاکش کو روکا ہے رائے کے اختلاف یا اس کے اظہار سے منع نہیں کیا۔ اختلاف رائے جو دیانت اور اخلاص کے ساتھ ہو وہ کبھی نزاع کی صورت اختیار نہیں کیا کرتا۔ نزاع وجدال وہیں ہوتا ہے جہان اختلاف رائے کے ساتھ اپنی بات منوانے اور دوسرے کی بات نہ ماننے کا جذبہ کام کر رہا ہو۔ اور یہی وہ جذبہ ہے جس کو قرآن کریم نے واصْبِرُوْا کے لفظ سے ختم کیا ہے اور آخر میں صبر کرنے کا ایک عظیم الشان فائدہ بتلا کر صبر کی تلخی کو دور فرما دیا۔ ارشاد فرمایا (آیت) اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ۔ یعنی صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہر وقت ہر حال میں ان کا رفیق ہوتا ہے اور یہ اتنی بڑی دولت ہے کہ دونوں جہان کی ساری دولتیں اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔ - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض غزوات میں انھیں ہدایات کو مستحضر کرانے کے لئے عین میدان جنگ میں یہ خطبہ دیا " اے لوگو دشمن سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو اور جب ناگزیر طور مقابلہ ہو ہی جائے تو پھر صبر و ثبات کو لازم پکڑو اور یہ سمجھ لو کہ جنت تلواروں کے سایہ میں ہے "۔ ( مسلم)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝ ٤٦ ۚ- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - فشل - الفَشَلُ : ضعف مع جبن . قال تعالی: حَتَّى إِذا فَشِلْتُمْ [ آل عمران 152] ، فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنازَعْتُمْ [ الأنفال 43] ، وتَفَشَّلَ الماء : سال .- ( ف ش ل ) الفشل ( س ) کے معنی کمزوری کے ساتھ بزدلی کے ہیں قرآن پاک میں ہے : حَتَّى إِذا فَشِلْتُمْ [ آل عمران 152] یہاں تک کہ تم نے ہمت ہاردی اور حکم ( پیغمبر میں جھگڑا کرنے لگے ۔ فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] تو تم بزدل ہوجاؤ گے ۔ اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا ۔ لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنازَعْتُمْ [ الأنفال 43] تو تم لوگ جی چھوڑ دیتے اور ( جو ) معاملہ ) درپیش تھا اس ) میں جھگڑنے لگتے ۔ تفسل الماء : پانی بہہ پڑا ۔- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - الرِّيحُ معروف،- وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] . وأمّا قوله :- يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ.- وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ :- تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ :- مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء .- ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من - المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح .- الریح کے معنی معروف ہیں - ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير - سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔- المراوحتہ - کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

جنگ میں اطاعت خدا اور رسول - قول باری ہے (واطیعوا اللہ و رسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور آپس کے جھگڑوں اور اختلافات سے منع فرما دیا ہے اور یہ بتادیا ہے کہ آپس کے جھگڑے اور اختلاف کا نتیجہ فشل یعنی دل کے اندر کمزوری پیدا ہونے کی صورت میں نکلے گا۔ فشل کسی نادیدہ خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے دل میں کمزوری پیدا ہوجانے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے تاکہ آپس کے جھگڑوں اور اختلافات کا خاتمہ ہوجائے جن کے نتیجے میں دلوں کے اندر کمزوری پیدا ہوتی ہے چناچہ ارشاد ہے (اطیعو اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول۔ اطاعت کرو اللہ کی، اور اطاعت کرو رسول کی، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو ) ایک اور آیت میں فرمایا (ولو اراکھم کثیرا لغثلتم و لتنازعتم فی الامر۔ اگر کہیں وہ انہیں زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا شروع کردیتے) اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس نے ان مشرکین کو تمہارے نیند کے اندر تھوڑا کر کے دکھایا تاکہ تم انہیں زیادہ دیکھ کر لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا نہ شروع کر دو اور پھر تمہارے دلوں میں کمزوری نہ پیدا ہوجائے۔- بارہ ہزار کا لشکر اسلام شکست نہیں کھاتا - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ (ولن یغلب اثنی عشر الفا من قلۃ اذا اجتمعت کلمتھم۔ بارہ ہزار کی نفری قلت تعداد کی بنا پر مغلوب نہیں ہوسکتی بشرطیکہ ان میں اتفاق و اتحاد موجود ہو) یہ سب آیتیں اختلاف و تنازعہ کی نہی پر مشتمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں خبردار کردیا ہے کہ آپس کے جھگڑے اور تنازعات ہمت ہار جانے اور غلب ختم ہوجانے کا سبب ہیں۔ چناچہ فرمایا (وتذھب ریحکم اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی) ایک قول ہے کہ اس سے مراد فتح و نصرت کی ہوائیں ہیں جو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ چلاتا ہے جن کی وہ مدد کرتا ہے اور ان لوگوں کے خلاف چلاتا ہے جو اس کی مدد سے محروم رہتے ہیں۔ قتادہ سے یہ تفسیر مروی ہے ابو عبیدہ کا قول ہے کہ ” تمہارا غلبہ ختم ہوجائے گا “ یہ معنی اس محاورے سے ماخوذ ہے۔ ذہبت ریحہ یعنی اس کا غلبہ ختم ہوگیا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٦) اور دل و زبان کے ساتھ خوب تہلیل وتکبیر کرو تاکہ غصہ اور عذاب سے نجات پاؤ اور تمہاری غیبی مدد ہو، لڑائی کے معاملات میں اطاعت کرو اور لڑائی کے امور میں باہم اختلاف سے بچو کیوں کہ اس سے تمہاری طاقت کمزور پڑجاتی ہے اور لڑائی میں اپنے نبی کے ساتھ صبر کرو کیوں کہ لڑائی میں صبر کرنیوالوں کی اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ (وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ) - یہ تیسرا حکم ڈسپلن کے بارے میں ہے کہ جو حکم تمہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ملے اس کی دل و جان سے پابندی کرو۔ اگرچہ یہاں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی بات ہوئی ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو عملی طور پر یہ اطاعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی تھی ‘ کیونکہ جو حکم بھی آتا تھا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی طرف سے آتا تھا۔ قرآن بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ادا ہوتا تھا اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کسی تدبیر سے اجتہاد کے تحت کوئی فیصلہ فرماتے یا کوئی رائے ظاہر فرماتے تو وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی زبان مبارک سے ادا ہوتا تھا۔ لہٰذا عملاً اللہ کی اطاعت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی اطاعت میں مضمر ہے۔ اقبالؔ نے اس نکتے کو بہت خوبصورتی سے اس ایک مصرعے میں سمو دیا ہے : ع بمصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بر ساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست - (وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْاط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ) ۔- یہ وہی الفاظ ہیں جو ہم سورة آل عمران کی آیت ١٥٢ میں پڑھ چکے ہیں۔ وہاں غزوۂ احد کے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَہُمْ بِاِذْنِہٖج حَتّٰیٓ اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْم بَعْدِ مَآ اَرٰٹکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ط) اللہ تعالیٰ کو تو علم تھا کہ ایک سال بعد (غزوۂ احد میں) کیا صورت حال پیش آنے والی ہے۔ چناچہ ایک سال پہلے ہی مسلمانوں کو جنگی حکمت عملی کے بارے میں بہت واضح ہدایات دی جا رہی ہیں ‘ کہ ڈسپلن کی پابندی کرو اور اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کاربند رہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :37 یعنی اپنے جذبات و خواہشات کو قابو میں رکھو ۔ جلد بازی ، گھبراہٹ ، ہراس ، طمع اور نامناسب جوش سے بچو ۔ ٹھنڈے دلی اور جچی تلی قوت فیصلہ کے ساتھ کام کرو ۔ خطرات اور مشکلات سامنے ہوں تو تمہارے قدموں میں لغزش نہ آئے ۔ اشتعال انگیز مواقع پیش آئیں تو غیظ و غضب کا ہیجان تم سے کوئی بے محل حرکت سر زد نہ کرنے پائے ۔ مصائب کا حملہ ہو اور حالات بگڑتے نظر آرہے ہوں تو اضطراب میں تمہارے حواس پراگندہ نہ ہو جائیں ۔ حصول مقصد کے شوق سے بے قرار ہو کر یا کسی نیم پختہ تدبیر کو سرسری نظر میں کارگر دیکھ کر تمہارے ارادے شتاب کاری سے مغلوب نہ ہوں ۔ اور اگر کبھی دنیوی فوائد و منافع اور لذات نفس کی ترغیبات تمہیں اپنی طرف لبھا رہی ہوں تو ان کے مقابلہ میں بھی تمہاری نفس اس درجہ کمزور نہ ہو کہ بے اختیار ان کیطرف کھینچ جاؤ ۔ یہ تمام مفہومات صرف ایک لفظ”صبر“میں پوشیدہ ہیں ، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ان تمام حیثیات سے صابر ہوں ، میری تائید انہی کو حاصل ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani