Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شمع رسالت کے جاں نثاروں کی دعائیں ایک مطلب تو اس کا یہ ہے کہ جیسے تم نے مال غنیمت میں اختلاف کیا آخر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے نبی کو اس کی تقسیم کا اختیار دے دیا اور اپنے عدل و انصاف کے ساتھ اسے تم میں بانٹ دیا درحقیقت تمہارے لئے اسی میں بھلائی تھی اسی طرح اس نے باوجود تمہاری اس چاہت کے کہ قریش کا تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے اور جنگی جماعت سے مقابلہ نہ ہو اس نے تمہارا مقابلہ بغیر کسی وعدے کے ایک پر شکوہ جماعت سے کرا دیا اور تمہیں اس پر غالب کر دیا کہ اللہ کی بات بلند ہو جائے اور تمہیں فتح ، نصرت ، غلبہ اور شان شوکت عطا ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم الخ ) ، تم پر جہاد فرض کیا گیا حالانکہ تم اسے برا جانتے ہو بہت ممکن ہے کہ ایک چیز کو اپنے حق میں اچھی نہ جانو اور درحقیقت وہی تمہارے حق میں بہتر ہو اور حق میں وہ بد تر ہو ۔ دراصل حقائق کا علم اللہ ہی کو ہے تم محض بےعلم ہو ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جیسے مومنوں کے ایک گروہ کی چاہت کے خلاف تجھے تیرے رب نے شہر سے باہر لڑائی کیلئے نکالا اور نتیجہ اسی کا اچھا ہوا ایسے ہی جو لوگ جہاد کیلئے نکلنا بوجھ سمجھ رہے ہیں دراصل یہی ان کے حق میں بہتر ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مال غنیمت میں ان کا اختلاف بالکل بدر والے دن کے اختلاف کے مشابہ تھا ۔ کہنے لگے تھے آپ نے ہمیں قافلے کا فرمایا تھا لشکر کا نہیں ہم جنگی تیاری کر کے نکلے ہی نہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے اسی ارادے سے نکلے تھے کہ ابو سفیان کے اس قافلے کو روکیں جو شام سے مدینہ کو قریشیوں کے بہت سے مال اسباب لے کر آ رہا تھا ۔ حضور نے لوگوں کو تیار کیا اور تین سو دس سے کچھ اوپر لوگوں کو لے کر آپ مدینے سے چلے اور سمندر کے کنارے کے راستے کی طرف سے بدر کے مقام سے چلے ۔ ابو سفیان کو چونکہ آپ کے نکلنے کی خبر پہنچ چکی تھی اس نے اپنا راستہ بدل دیا اور ایک تیز رو قاصد کو مکے دوڑایا ۔ وہاں سے قریش قریب ایک ہزار کے لشکر جرار لے کر لو ہے میں ڈوبے ہوئے بدر کے میدان میں پہنچ گئے پس یہ دونوں جماعتیں ٹکرا گئیں ایک گھمسان کی لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حق کو فتح دلوائی اپنا دین بلند کیا اور اپنے نبی کی مدد کی اور اسلام کو کفر پر غالب کیا جیسے کہ اب بیان ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یہاں مقصد بیان صرف اتنا ہی ہے کہ جب حضور کو یہ پتہ چلا کہ مشرکین کی جنگی مہم مکے سے آ رہی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ سے بذریعہ وحی کے وعدہ کیا کہ یا تو قافلہ آپ کو ملے گا یا لشکر کفار ۔ اکثر مسلمان جی سے چاہتے تھے کہ قافلہ مل جائے کیونکہ یہ نسبتاً ہلکی چیز تھی لیکن اللہ کا ارادہ تھا کہ اسی وقت بغیر زیادہ تیاری اور اہتمام کے اور آپس کے قول قرار کے مڈ بھیڑ ہو جائے اور حق وباطل کی تمیز ہو جائے کفار کی ہمت ٹوٹ جائے اور دین حق نکھر آئے ۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ ابو سفیان کا قافلہ لوٹ رہا ہے تو کیا تم اس کے لئے تیار ہو کہ ہم اس قافلے کی طرف بڑھیں ؟ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال غنیمت دلوا دے ۔ ہم سب نے تیاری ظاہر کی آپ ہمیں لے کر چلے ایک دن یا دو دن کا سفر کر کے آپ نے ہم سے فرمایا کہ قریشیوں سے جہاد کے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہیں تمہارے چلنے کا علم ہو گیا ہے اور وہ تم سے لڑنے کیلئے چل پڑے ہیں ۔ ہم نے جواب دیا کہ واللہ ہم میں ان سے مقابلے کی طاقت نہیں ہم تو صرف قافلے کے ارادے سے نکلے ہیں ۔ آپ نے پھر یہی سوال کیا اور ہم نے پھر یہی جواب دیا ۔ اب حضرت مقداد بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ ہم اس وقت آپ کو وہ نہ کہیں گے جو موسیٰ کی قوم نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا کہ تو اور تیرا رب جا کر کافروں سے لڑے ، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اب تو ہمیں بڑا ہی رنج ہونے لگا کہ کاش یہی جواب ہم بھی دیتے تو ہمیں مال کے ملنے سے اچھا تھا ، پس یہ آیت اتری ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ بدر کی جانب چلتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روحا میں پہنچے تو آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا کہ ہاں ہمیں بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ فلاں فلاں جگہ ہیں ۔ آپ نے پھر خطبہ دیا اور یہی فرمایا اب کی مرتبہ حضرت عمر فاروق نے یہی جواب دیا آپ نے پھر تیسرے خطبے میں یہی فرمایا اس پر حضرت سعد بن معاذ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ ہم سے دریافت فرما رہے ہیں ؟ اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو عزت وبزرگی عنایت فرمائی ہے اور آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے نہ میں ان راستوں میں کبھی چلا ہوں اور نہ مجھے اس لشکر کا علم ہے ہاں اتنا میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ برک الغماد تک بھی چڑھائی کریں تو واللہ ہم آپ کی رکاب تھامے آپ کے پیچھے ہوں گے ہم ان کی طرح نہیں جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہدیا تھا کہ تو اپنے ساتھ اپنے پروردگار کو لے کر چلا جا اور تم دونوں ان سے لڑ لو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں ۔ نہیں نہیں بلکہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ چلئے اللہ آپ کا ساتھ دے ہم تو آپ کے زیر حکم کفار سے جہاد کے لئے صدق دل سے تیار ہیں ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گو آپ کسی کام کو زیر نظر رکھ رکھ نکلے ہوں لیکن اس وقت کوئی اور نیا کام پیش نگاہ ہو تو بسم اللہ کیجئے ، ہم تابعداری سے منہ پھیرنے والے نہیں ۔ آپ جس سے چاہیں ناطہ توڑ لیجئے اور جس سے چاہیں جوڑ لیجئے جس سے چاہیں عداوت کیجئے اور جس سے چاہیں محبت کیجئے ہم اسی میں آپ کے ساتھ ہیں ۔ یا رسول اللہ ہماری جانوں کے ساتھ ہمارے مال بھی حاضر ہیں ، آپ کو جس قدر ضرورت ہو لیجئے اور کام میں لگائیے ۔ پس حضرت سعد کے اس فرمان پر قران کی یہ آیتیں اتری ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن سے بدر میں جنگ کرنے کی بابت صحابہ سے مشورہ کیا اور حضرت سعد بن عباد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اور حضور نے مجاہدین کو کمر بندی کا حکم دے دیا اس وقت بعض مسلمانوں کو یہ ذرا گراں گذرا اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ پس حق میں جھگڑنے سے مراد جہاد میں اختلاف کرنا ہے اور مشرکوں کے لشکر سے مڈ بھیڑ ہونے اور ان کی طرف چلنے کو ناپسند کرنا ہے ۔ اس کے بعد ان کے لئے واضح ہو گیا یعنی یہ امر کہ حضور بغیر حکم رب العزت کے کوئی حکم نہیں دیتے ۔ دوسری تفسیر میں ہے کہ اس سے مراد مشرک لوگ ہیں جو حق میں روڑے اٹکاتے ہیں ۔ اسلام کا ماننا ان کے نزدیک ایسا ہے جیسے دیکھتے ہوئے موت کے منہ میں کودنا ۔ یہ وصف مشرکوں کے سوا اور کسی کا نہیں اہل کفر کی پہلی علامت یہی ہے ابن زید کا یہ قول وارد کر کے امام ابن جرید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ قول بالکل بےمعنی ہے اس لئے کہ اس سے پہلے کا قول آیت ( يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ Č۝ۭ ) 8- الانفال:6 ) اہل ایمان کی خبر ہے تو اس سے متصل خبر بھی انہی کی ہے ۔ ابن عباس اور ابن اسحاق ہی کا قول اس بارے میں ٹھیک ہے کہ یہ خبر مومنوں کی ہے نہ کہ کافروں کی ۔ حق بات یہی ہے جو امام صاحب نے کہی ۔ سیاق کلام کی دلالت بھی اسی پر ہے ـ ( واللہ اعلم ) ۔ مسند احمد میں ہے کہ بدر کی لڑائی کی فتح کے بعد بعض صحابہ نے حضور سے عرض کیا کہ اب چلئے قافلے کو بھی دبالین اب کوئی روک نہیں ہے ۔ اس وقت عباس بن عبدالمطلب کفار سے قید ہو کر آئے ہوئے زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے اونچی آواز سے کہنے لگے کہ حضور ایسا نہ کیجئے ۔ آپ نے دریافت فرمایا کیوں؟ انہوں نے جواب دیا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا وہ اللہ نے پورا کیا ایک جماعت آپ کو مل گئی ۔ مسلمانوں کی چاہت تھی کہ لڑائی والے گروہ سے تو مڈ بھیڑ نہ ہو البتہ قافلے والے مل جائیں اور اللہ کی چاہت تھی کہ شوکت و شان والی قوت و گھمنڈوالی لڑائی بھڑائی والی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر تمہیں غالب کر کے تمہاری مدد کرے ، اپنے دین کو ظاہر کر دے اور اپنے کلمے کو بلند کر دے اور اپنے دین کو دوسرے تمام دینوں پر اونچا کر دے پس انجام کی بھلائی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ اپنی عمدہ تدبیر سے تمہیں سنبھال رہا ہے تمہاری مرضی کے خلاف کرتا ہے اور اسی میں تمہاری مصلحت اور بھلائی ہوتی ہے جیسے فرمایا کہ جہاد تم پر لکھا گیا اور وہ تمہیں ناپسند ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ تمھاری ناپسندیدگی کی چیز میں ہی انجام کے لحاظ سے تمہارے لیے بہتری ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ درحقیقت تمہارے حق میں بری ہو ۔ اب جنگ بدر کا مختصر سا واقعہ بزبان حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سنئے ۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ ابو سفیان شام سے مع قافلے کے اور مع اسباب کے آ رہا ہے تو آپ نے مسلمانوں کو فرمایا کہ چلو ان کا راستہ روکو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے یہ اسباب تمہیں دلوا دے چونکہ کسی لڑانے والی جماعت سے لڑائی کرنے کا خیال بھی نہ تھا ۔ اس لئے لوگ بغیر کسی خاص تیاری کے جیسے تھے ویسے ہی ہلکے پھلکے نکل کھڑے ہوئے ۔ ابو سفیان بھی غافل نہ تھا اس نے جاسوس چھوڑ رکھے تھے اور آتے جاتوں سے بھی دریافت حال کر رہا تھا ایک قافلے سے اسے معلوم ہو گیا کہ حضور اپنے ساتھیوں کو لے کر تیرے اور تیرے قافلے کی طرف چل پڑے ہیں ۔ اس نے ضیغم بن عمرو غفاری کو انعام دے دلا کر اسی وقت قریش مکہ کے پاس یہ پیغام دے کر روانہ کیا کہ تمہارے مال خطرے میں ہیں ۔ حضور مع اپنے اصحاب کے اس طرف آ رہے ہیں تمہیں چاہئے کہ پوری تیاری سے فوراً ہماری مدد کو آؤ اس نے بہت جلد وہاں پہنچ کر خبر دی تو قریشیوں نے زبردست حملے کی تیار کر لی اور نکل کھڑے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ذفران وادی میں پہنچے تو آپ کو قریش کے لشکروں کا سازو سامان سے نکلنا معلوم ہو گیا ۔ آپ نے صحابہ سے مشورہ لیا اور یہ خبر بھی کر دی ۔ حضرت ابو بکر نے کھڑے ہو کر جواب دیا اور بہت اچھا کہا ۔ پھر حضرت عمر کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی معقول جواب دیا ۔ پھر حضرت مقداد کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہو اسے انجام دیجئے ہم جان و مال سے آپ کے ساتھ ہیں اور ہر طرح فرمانبردار ہیں ہم بنو اسرائیل کی طرح نہیں کہ اپنے نبی سے کہدیں کہ آپ اور آپ کا رب جا کر لڑ لو ہم تماشا دیکھتے ہیں نہیں بلکہ ہمارا یہ قول ہے کہ اللہ کی مدد کے ساتھ چلئے جنگ کیجئے ہم آپکے ساتھ ہیں اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے کہ اگر آپ برک غماد تک یعنی حبشہ کے ملک تک بھی چلیں تو ہم ساتھ سے منہ نہ موڑیں گے اور وہاں پہنچائے اور پہنچے بغیر کسی طرح نہ رہیں گے آپ نے انہیں بہت اچھا کہا اور ان کو بڑی دعائیں دیں لیکن پھر بھی یہی فرماتے رہے کہ لوگو مجھے مشورہ دو میری بات کا جواب دو اس سے مراد آپ کی انصاریوں کے گروہ سے تھی ایک تو اس لئے کہ گنتی میں یہی زیادہ تھے ۔ دوسرے اس لئے بھی کہ عقبہ میں جب انصار نے بیعت کی تھی تو اس بات پر کی تھی کہ جب آپ مکے سے نکل کر مدینے میں پہنچ جائیں پھر ہم آپ کے ساتھ ہیں جو بھی دشمن آپ پر چڑھائی کر کے آئے ہم اس کے مقابلے میں سینہ سپر ہو جائیں گے اس میں چونکہ یہ وعدہ نہ تھا کہ خود آپ اگر کسی پر چڑھ کر جائیں تو بھی ہم آپ کا ساتھ دیں گے اس لئے آپ چاہتے تھے کہ اب ان کا ارادہ معلوم کرلیں ۔ یہ سمجھ کر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا کہ شاید آپ ہم سے جواب طلب فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی بات ہے تو حضرت سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارا آپ پر ایمان ہے ہم آپ کو سچا جانتے ہیں اور جو کچھ آپ لائے ہیں اسے بھی حق مانتے ہیں ہم آپ کا فرمان سننے اور اس پر عمل کرنے کی بیعت کر چکے ہیں ۔ اے اللہ کے رسول جو حکم اللہ تعالیٰ کا آپ کو ہوا ہے اسے پورا کیجئے ، ہم آپ کی ہمرکابی سے نہ ہٹیں گے ۔ اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو اپنا سچا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ اگر سمندر کے کنارے پر کھڑے ہو کر آپ اس میں گھوڑا ڈال دیں تو ہم بھی بلا تامل اس میں کود پڑیں گے ہم میں سے ایک کو بھی آپ ایسا نہ پائیں گے جسے ذرا سا بھی تامل ہو ہم اس پر بخوشی رضامند ہیں کہ آپ ہمیں دشمنوں کے مقابلے پر چھوڑ دیں ۔ ہم لڑائیوں میں بہادری کرنے والے مصیبت کے جھیلنے والے اور دشمن کے دل پر سکہ جما دینے والے ہیں آپ ہمارے کام دیکھ کر انشاء اللہ خوش ہوں گے چلئے اللہ کا نام لے کر چڑھائی کیجئے اللہ برکت دے ۔ ان کے اس جواب سے آپ بہت ہی مسرور ہوئے اسی وقت کوچ کا حکم دیا کہ چلو اللہ کی برکت پر خوش ہو جاؤ ۔ رب مجھ سے وعدہ کر چکا ہے کہ دو جماعتوں میں سے ایک جماعت ہمارے ہاتھ لگے گی واللہ میں تو ان لوگوں کے گرنے کی جگہ ابھی یہیں سے گویا اپنی آنکھوں دیکھ رہا ہوں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی جس طرح مال غنیمت کی تقسیم کا معاملہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث بنا ہوا تھا، پھر اسے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ کردیا گیا تو اسی میں مسلمان کی بہتری تھی، اسی طرح آپ کا مدینہ سے نکلنا اور پھر آگے چل کر تجارتی قافلے کے بجائے، لشکر قریش سے مڈ بھیڑ ہوجانا، بعض طبائع کے لئے ناگوار تھا لیکن اس میں بھی بلآخر فائدہ مسلمانوں ہی کا تھا۔ 5۔ 2 یہ ناگواری لشکر قریش سے لڑنے کے معاملے میں تھی، جس کا اظہار چند افراد کی طرف سے ہوا اور اس کی وجہ صرف بےسروسامانی تھی۔ اس کا تعلق مدینہ سے نکلنے سے نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] جنگ بدر کا پس منظر :۔ اموال غنیمت کے متعلق فیصلہ کرنے اور مومن کو پند و نصائح کے بعد اب یہ بتلایا جا رہا ہے کہ غزوہ بدر کی ابتداء کن حالات میں اور کیسے ہوئی۔ صورت حال یہ تھی کہ کفار مکہ کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر اور لٹ پٹ کر مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آگئے تھے۔ مگر ان کفار نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اکا دکا ناکام سے حملے بھی کرچکے تھے اور آئندہ مسلمانوں کے مکمل طور پر استیصال کی تدبیریں سوچ رہے تھے۔ ان حالات میں مسلمانوں نے یہ سوچا کہ قریش کی تجارتی شاہراہ کی ناکہ بندی کردی جائے چناچہ اس غرض کے لیے آپ نے اس شاہراہ کے قریب بسنے والے قبائل سے معاہدے بھی کئے، ان میں سے بعض قبائل تو مسلمانوں کے حلیف بن گئے اور بعض سے غیر جانبدار رہنے کا معاہدہ کیا گیا۔ اور اس ناکہ بندی سے مقصود یہ تھا کہ اس تجارت سے کمایا ہوا مال جو مسلمانوں کے استیصال پر خرچ ہونا ہے اس پر مسلمان کنٹرول کرسکیں۔ دوسرے ان مشرکوں نے مسلمانوں کو بےسرو سامانی کی حالت میں ہجرت کرنے پر مجبور کیا اور بعد میں ان کی جائیدادوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ پھر انہی جائیدادوں کو بیچ کر ان سے اس تجارتی قافلہ کے لیے سرمایہ مہیا کیا گیا تھا۔ اور طے یہ ہوا تھا کہ اس تجارتی قافلہ کا منافع تو مسلمانوں کے استیصال پر خرچ کیا جائے۔ اور اصل زر ان لوگوں کو واپس کردیا جائے۔ جنہوں نے مسلمانوں کی جائیدادیں فروخت کر کے سرمایہ لگایا تھا۔ اس طرح وہ گویا مسلمانوں پر دوہرا ظلم ڈھا رہے تھے۔ اور ان واقعات کی خبریں مدینہ بھی پہنچ رہی تھیں۔ لہذا مسلمانوں کے لیے اس قافلہ کی ناکہ بندی ضروری ہوگئی تھی۔ چناچہ ٢ ھ میں قریش کا یہی قافلہ ابو سفیان کی سر کردگی میں شام سے واپس مکہ جا رہا تھا۔ اس قافلہ کے محافظ تو صرف چالیس پچاس آدمی تھے۔ جبکہ یہ قافلہ ایک ہزار بار بردار اونٹوں پر مشتمل تھا اور تقریباً پچاس ہزار دینار کا مال لے کر مکہ جا رہا تھا۔ مسلمانوں نے ارادہ کیا کہ اس قافلہ پر حملہ کردیا جائے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔- قافلہ پر حملہ کی تیاری :۔ سیدنا انس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے بسیسہ کو جاسوس بنا کر بھیجا تاکہ وہ معلوم کر کے آئیں کہ ابو سفیان کا قافلہ کس حال میں ہے۔ بسیسہ جب واپس آئے تو اس وقت گھر میں میرے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی نہ تھا۔ بسیسہ نے خبر سنائی تو آپ باہر تشریف لے گئے اور فرمایا : ہمیں قافلہ کی طلب ہے۔ لہذا جس کے پاس سواری ہو وہ ہمارے ساتھ چلے۔ بعض لوگوں نے دور کے مقام سے اپنی سواریاں لانے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا : نہیں جس کی سواری حاضر ہے وہ چلیں۔ پھر آپ صحابہ (رض) کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ (مسلم، کتاب الامارہ، باب ثبوت الجنۃ للشہید)- ابوجہل کا جنگ پر اصرار :۔ اسی وجہ سے آپ نے جہاد کی غرض سے کسی کو شامل ہونے کی دعوت نہیں دی تھی۔ مگر آپ کو گھر سے نکال لانے میں اللہ کی حکمت یہ تھی کہ کافروں سے مڈ بھیڑ ہو اور حق و باطل کا معرکہ بپا ہو۔ چناچہ حالات کا پانسہ یوں بدلا کہ ابو سفیان کو بھی مسلمانوں کے اس ارادہ کی خبر ہوگئی تو اس نے قافلہ کی حفاظت کے لیے ایک تیز رفتار سوار کو مکہ بھیج کر کفار مکہ کو مسلمانوں کے اس ارادہ سے مطلع کردیا۔ چناچہ ایک ہزار آدمیوں پر مشتمل لشکر ابو جہل کی سر کردگی میں اس تجارتی قافلہ کی حفاظت کے لیے روانہ ہوگیا۔ اب اللہ تعالیٰ کا کرنا یہ ہوا کہ ابو سفیان اپنی راہ بدل کر خیر خیریت سے واپس مکہ مکرمہ پہنچ گیا اور کافروں کا یہ لشکر میدان بدر تک جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر ان لوگوں کو بھی خبر مل گئی کہ تجارتی قافلہ بخیریت مکہ پہنچ گیا ہے۔ لہذا کچھ لوگوں کی رائے یہ ہوئی کہ اب ہمیں واپس مکہ چلے جانا چاہیے کیونکہ جس مقصد سے ہم آئے تھے وہ پورا ہوچکا۔ لیکن ابو جہل اس بات پر مصر تھا کہ یہاں تک تو یہ لشکر پہنچ ہی چکا ہے اور مسلمان بھی آپہنچے ہیں تو اب ان سے جنگ کر کے اور ان کا استیصال کر کے ہی جانا چاہیے۔ اس طرح اس معرکہ حق و باطل کے لیے فضا سازگار بن گئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی بات ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ بھی اسی طرح ہے جیسے تیرے رب نے تجھے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا۔ مفسرین نے اس ”ۚكَمَآ “ (جس طرح) کی کئی توج ہیں کی ہیں، بعض نے وہ بیس تک پہنچا دی ہیں، البتہ صاحب کشاف نے صرف دو توج ہیں کی ہیں، جن میں سے زیادہ واضح یہ ہے کہ یہاں مبتدا محذوف ہے اور عبارت یوں ہوگی ” ھٰذِہِ الْحَالُ کَحَالِ إِخْرَاجِکَ یَعْنِیْ اَنَّ حَالَہُمْ فِیْ کَرَاہِیَۃِ مَا رَأَیْتَ مِنْ تَنْفِیْلِ الْغَزْوَۃِ مِثْلُ حَالِہِمْ فِیْ کَرَاہَۃِ خُرُوْجِکِ لِلْحَرْبِ “ یعنی غزوۂ بدر سے حاصل ہونے والی غنیمت کی تقسیم کے بارے میں آپ کی رائے اور فیصلے کو ناگوار سمجھنے میں ان کا حال ایسا ہی ہے جس طرح ان کا حال آپ کے لڑائی کے لیے نکلنے کے بارے میں تھا، حالانکہ دونوں ہی میں آپ کے لیے اور مسلمانوں کے لیے خیر ہی خیر تھی۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” غنیمت کا یہ جھگڑا بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ نکلتے وقت عقل سے تدبیریں کرنے لگے اور آخر کار صلاح وہی ٹھہری جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تو ہر کام میں یہی اختیار کرو کہ حکم برداری میں اپنی عقل کو دخل نہ دو ۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ( مال غنیمت کا لوگوں کی مرضی کے موافق تقسیم نہ ہونا بلکہ منجانب اللہ اس کی تقسیم ہونا اگرچہ بعض لوگوں کو طبعا گراں گزرا ہو مگر مصالح کثیرہ کی وجہ سے یہی خیر اور بہتر ہے۔ اور یہ معاملہ خلاف طبع مگر مصلح کثیرہ کو متضمن ہونے میں ایسا ہی ہے) جیسا آپ کے رب نے آپ کے گھر ( اور بستی) سے مصلحت کے ساتھ آپ کو ( بدر کی طرف) روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت ( اپنی تعداد اور سامان جنگ کی قلت کی وجہ سے طبعا) اس کو گراں سمجھتی تھی وہ اس مصلحت ( کے کام) میں ( یعنی جہاد اور مقابلہ لشکر کے معاملے میں) بعد اس کے کہ اس کا ظہور ہوچکا تھا ( اپنے بچاؤ کے لئے بطور مشورہ کے) آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکے لئے جاتا ہے اور وہ ( موت کو گویا) دیکھ رہے ہیں ( مگر آخر کار انجام اس کا بھی اچھا ہوا کہ اسلام غالب اور کفر مغلوب ہوا) ۔- معارف ومسائل - شروع سورت میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ سورة انفال کے بیشتر مضامین کفار و مشرکین پر عذاب و انتقام اور مسلمانوں پر احسان و انعام کے متعلق ہیں اور اس کے ضمن میں دونوں فریق کے لئے عبرت و نصیحت کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ اور ان معاملات میں سب سے پہلا اور سب سے اہم واقعہ غزوہ بدر کا تھا جس میں بڑے ساز و سامان اور تعداد و قوت کے باوجود مشرکین کو جانی اور مالی نقصانات کے ساتھ شکست اور مسلمانوں کو باوجود ہر طرح کی قلت اور بےسامانی کے فتح عظیم نصیب ہوئی۔ اس سورت میں واقعہ بدر کا تفصیلی بیان ہے۔ جو آیات مذکورہ سے شروع ہو رہا ہے۔- پہلی آیت میں اس بات کا ذکر ہے کہ بعض مسلمانوں کو بدر کے موقع پر جہاد کے لئے اقدام ناپسند تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فرمان کے ذریعہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہاد کا حکم دیا تو ناپسند کرنے والے بھی ساتھ ہوگئے۔ اس بات کے بیان کرنے کے لئے قرآن کریم نے جو الفاظ اختیار فرمائے ہیں وہ کئی طرح سے قابل غور ہیں۔ اول یہ کہ آیت کا شروع (آیت) كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ سے ہوتا ہے۔ اس میں لفظ كَمَآ ایک ایسا لفظ ہے جو تشبیہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو غور طلب یہ ہے کہ یہاں تشبیہ کس چیز کی کس چیز سے ہے، حضرات مفسرین نے اس کی مختلف توجیہات بیان فرمائی ہیں۔ امام تفسیر ابوحیان نے اس طرح کے پندرہ اقوال نقل کئے ان میں زیادہ قرب تین احتمال ہیں۔- اول یہ کہ اس تشبیہ سے مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ جس طرح غزوہ بدر کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت صحابہ کرام کے آپس میں کچھ اختلاف رائے ہوگیا تھا۔ پھر حکم خداوندی کے تحت سب نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور اس کی برکات اور اچھے نتائج کا ظہور سامنے آگیا۔ اسی طرح اس جہاد کے شروع میں کچھ لوگوں کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار ہوا پھر حکم ربانی کے ماتحت سب نے اطاعت کی اور اس کے مفید نتائج اور اعلی ثمرات کا مشاہدہ ہوگیا۔ یہ توجیہ فراء اور مبرد کی طرف منسوب ہے ( بحر محیط) اسی کو بیان القرآن میں ترجیح دی ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر سے معلوم ہوچکا۔- دوسرا احتمال یہ ہے کہ گذشتہ آیات میں سچے مومنین کے لئے آخرت میں درجات عالیہ اور مغفرت اور باعزت روزی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان آیات میں اس وعدہ کے یقینی ہونے کا ذکر اس طرح کیا گیا کہ آخرت کا وعدہ اگرچہ ابھی آنکھوں کے سامنے نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ نصرت و فتح غزوہ بدر میں آنکھوں کے سامنے آچکا ہے اس سے عبرت پکڑو اور یقین کرو کہ جس طرح یہ وعدہ دنیا ہی میں پورا ہوچکا ہے اسی طرح آخرت کا وعدہ بھی ضرور پورا ہوگا۔ ( تفسیر قرطبی بحوالہ نحاس) - تیسرا احتمال وہ ہے جس کو ابوحیان نے مفسرین کے پندرہ اقوال نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مجھے ان میں سے کسی قول پر اطمینان نہیں تھا۔ ایک روز میں اسی آیت پر غور و فکر کرتے ہوئے سو گیا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ کسی جگہ جارہا ہوں اور ایک شخص میرے ساتھ ہے میں اسی آیت کے متعلق اس سے بحث کررہا ہوں اور یہ کہہ رہا ہوں کہ مجھے کبھی ایسی مشکل پیش نہیں آئی جیسی اس آیت کے الفاظ میں پیش آئی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کوئی لفظ محذوف ہے۔ پھر یکایک خواب ہی میں میرے دل میں پڑا کہ یہاں لفظ نصرک محذوف ہے اس کو خود میں نے بھی پسند کیا اور جس شخص سے بحث کررہا تھا اس نے بھی پسند کیا۔ بیدار ہونے کے بعد اس پر غور کیا تو میرا اشکال ختم ہوگیا کیونکہ اس صورت میں لفظ کما تشبیہ کے لئے نہیں بلکہ بیان سبب کے لئے استعمال ہوا ہے اور معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ غزوہ بدر میں اللہ جل شانہ کی طرف سے جو خاص نصرت و امداد آپ کی ہوئی اس کا سبب یہ تھا کہ اس جہاد میں آپ نے جو کچھ کیا کسی اپنی خواہش اور رائے سے نہیں بلکہ خالص امر ربی اور حکم خداوندی کے تابع کیا۔ اسی کے حکم پر آپ اپنے گھر سے نکلے۔ اور اطاعت حق کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے اور یہی ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی امداد و نصرت اس کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ - بہرحال آیت کے اس جملہ میں یہ تینوں معنی محتمل اور صحیح ہیں۔ اس کے بعد اس پر نظر ڈالئے کہ قرآن کریم نے اس جہاد کے لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خود نکلنا ذکر نہیں کیا بلکہ یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا فعل درحقیقت حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جو آپ کے اعضاء وجوارح سے صادر ہوتا ہے۔ جیسا ایک حدیث قدسی میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ بندہ جب اطاعت و عبدیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں وہ جو کچھ دیکھتا ہے میرے ذریعہ دیکھتا ہے میں اس کے کان بن جاتا ہوں وہ جو کچھ سنتا ہے میرے ذریعہ سنتا ہے۔ میں اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہوں وہ جس کو پکڑتا ہے میرے ذریعہ پکڑتا ہے جس کی طرف چلتا ہے میرے ذریعہ چلتا ہے۔ خلاصہ اس کا یہی ہے کہ حق تعالے کی خاص نصرت و امداد اس کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ جن افعال کا صدور بظاہر اس کے آنکھ کان یا ہاتھ پاؤں سے ہوتا ہے، درحقیقت اس میں قدرت حق تعالیٰ شانہ کی کارفرما ہوتی ہے - رشتہ در گردنم افگندہ دوست میبرد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست - خلاصہ یہ ہے کہ لفظ اَخْرَجَكَ میں اس طرف اشارہ کردیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جہاد کے لئے نکلنا درحقیقت حق تعالیٰ کا نکالنا تھا جو آپ کی ذات سے ظاہر ہوا۔- یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ فرمایا جس میں اللہ جل شانہ کا ذکر صفت رب کے ساتھ کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ اس جہاد کیلئے آپ کو نکالنا شان ربوبیت سے اور تربیت کے تقاضا سے تھا۔ کیونکہ اس کے ذریعہ مظلوم و مقہور مسلمانوں کے لئے فتح یاب اور مغرور و ظالم کفار کے لئے پہلے عذاب کا مظاہرہ کرنا تھا۔ - مِنْۢ بَيْتِكَ کے معنی ہیں آپ کے گھر سے، مطلب یہ ہوا کہ نکالا آپ کو آپ کے رب نے آپ کے گھر سے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس گھر سے مراد مدینہ طیبہ کا گھر یا خود مدینہ طیبہ ہے جس میں ہجرت کے بعد آپ مقیم ہوئے۔ کیونکہ واقعہ بدر ہجرت کے دوسرے سال میں پیش آیا ہے۔ اس کے ساتھ لفظ بالْحَقِّ کا اضافہ کرکے بتلا دیا کہ یہ ساری کارروائی احقاق حق اور ابطال باطل کے لئے عمل میں آئی ہے۔ دوسری حکومتوں کی طرح ملک گیری کی ہوس یا بادشاہوں کا غصہ اس کا سبب نہیں۔ - آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ، یعنی ایک جماعت مسلمانوں کی اس جہاد کو گراں سمجھتی اور ناپسند کرتی تھی۔ صحابہ کرام کو یہ گرانی کس طرح اور کیوں پیش آئی اس کے سمجھنے کے لئے نیز آئندہ آنے والی دوسری آیات کو پوری طرح سمجھنے کے لئے غزوہ بدر کے ابتدائی حالات اور اسباب کا پہلے معلوم کرلینا مناسب ہے۔ اس لئے پہلے غزوہ بدر کا پورا واقعہ ملاحظہ فرمایئے۔ - ابن عقبہ و ابن عامر کے بیان کے مطابق واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ طیبہ میں یہ خبر ملی کہ ابو سفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ ملک شام سے مال تجارت لے کر مکہ معظمہ کی طرف جا رہے ہیں۔ اور اس تجارت میں مکہ کے تمام قریشی شریک ہیں۔ ابن عقبہ کے بیان کے مطابق مکہ کا کوئی قریشی مرد یا عورت باقی نہ تھا جس کا اس میں حصہ نہ ہو۔ اگر کسی کے پاس صرف ایک مثقال ( یعنی ساڑھے چار ماشہ) سونا بھی تھا تو اس نے اس میں اپنا حصہ ڈال دیا تھا۔ اس قافلہ کے پورے سرمایہ کے متعلق ابن عقبہ کی روایت یہ ہے کہ پچاس ہزار دینار تھے۔ دینار سونے کا سکہ ہے جو ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے سونے کے موجودہ بھاؤ کے حساب سے اس کی قیمت باون روپیہ اور پورے سرمایہ کی قیمت چھبیس (26) کروڑ سے بھی زیادہ کی حیثیت رکھتے تھے، اس تجارتی قافلہ کی حفاظت اور کاروبار کے لئے قریش کے ستر جوان اور سردار ساتھ تھے۔ جس سے معلوم ہوا کہ یہ تجارتی قافلہ درحقیقت قریش مکہ کی ایک تجارتی کمپنی تھی۔- بغوی نے بروایت ابن عباس وغیرہ نقل کیا ہے کہ اس قافلہ میں قریش کے چالیس سوار قریش کے سرداروں میں سے تھے جن میں عمرو بن العاص، محزمہ بن نوفل خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ قریش کی سب سے بڑی طاقت ان کی یہی تجارت اور تجارتی سرمایہ تھا جس کے بل پر انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو تنگ کرکے مکہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس وقت جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفر شام سے اس قافلہ کی واپسی کی اطلاع ملی تو آپ کی رائے ہوئی کہ اس وقت اس قافلہ کا مقابلہ کرکے قریش کی طاقت توڑ دینے کا موقع ہے۔ صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو زمانہ رمضان کا تھا پہلے سے کسی جنگ کی تیاری نہ تھی۔ بعض حضرات نے تو چستی اور ہمت کا اظہار کیا مگر بعض نے کچھ پس و پیش کی۔ آپ نے بھی سب پر اس جہاد کی شرکت کو لازم نہ قرار دیا بلکہ یہ حکم دیا کہ جن لوگوں کے پاس سواریاں موجود ہیں وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ اس وقت بہت سے آدمی جہاد میں جانے سے رک گئے اور جو لوگ جانا چاہتے تھے اور ان کی سواریاں دیہات میں تھیں انہوں نے اجازت چاہی کہ ہم اپنی سواریاں لے آویں تو ساتھ چلیں۔ مگر وقت اتنے انتظار کا نہ تھا۔ اس لئے حکم یہ ہوا کہ جن لوگوں کی سواریاں پاس موجود ہیں اور جہاد میں جانا چاہیں صرف وہی لوگ چلیں۔ باہر سے سواریاں منگانے کا وقت نہیں اس لئے ساتھ جانے کا ارادہ رکھنے والوں میں سے بھی تھوڑے ہی آدمی تیار ہوسکے۔ اور جن حضرات نے اس جہاد میں ساتھ جانے کا ارادہ ہی نہیں کیا اس کا سبب بھی یہ تھا کہ آپ نے سب کے ذمہ اس جہاد کی شرکت کو واجب نہ قرار دیا تھا۔ اور ان لوگوں کو یہ بھی اطمینان تھا کہ یہ تجارتی قافلہ ہے کوئی جنگی لشکر نہیں جس کے مقابلہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو زیادہ لشکر اور مجاہدین کی ضرورت پڑے۔ اس لئے صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد اس جہاد میں شریک نہ ہوئی۔ - آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بیر سقیا پر پہنچ کر قیس بن صعصعہ کو حکم دیا کہ لشکر کو شمار کریں تو انہوں نے شمار کرکے اطلاع دی کہ تین سو تیرہ حضرات ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سن کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ تعداد اصحاب طالوت کی ہے اس لئے فال نیک، فتح اور کامیابی کی ہے۔ صحابہ کرام کے ساتھ کل ستر اونٹ تھے ہر تین آدمی کے لئے ایک اونٹ تھا جس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی دو حضرات ایک اونٹ کے شریک تھے ابو لبابہ اور حضرت علی، جب آپ کی باری پیدل چلنے کی آتی تو یہ حضرات عرض کرتے کہ آپ سوار رہیں ہم آپ کے بدلے پیدل چلیں گے۔ رحمتہ اللعالمین کی طرف سے یہ جواب ملتا کہ نہ تو تم مجھ سے زیادہ قوی ہو اور نہ میں آخرت کے ثواب سے مستغنی ہوں کہ اپنے ثواب کا موقع تمہیں دے دوں، اس لئے اپنی باری میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پیدل ہی چلتے تھے۔- دوسری طرف کسی شخص نے ملک شام کے مشہور مقام عین زرقا پر پہنچ کر رئیس قافلہ ابو سفیان کو اس کی خبر پہنچا دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے قافلہ کے انتظار میں ہیں ان کا تعاقب کریں گے۔ ابو سفیان نے احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔ جب یہ قافلہ حدود حجاز میں داخل ہوا تو ایک ہوشیار مستعد آدمی ضمضم بن عمر کو بیس مثقال سونا یعنی تقریبا دو ہزار روپیہ اجرت دے کر اس پر راضی کیا کہ وہ تیز رفتار سانڈنی پر سوار ہو کر جلد سے جلد مکہ مکرمہ میں یہ خبر پہنچا دے کہ ان کے قافلہ کو صحابہ کرام سے خطرہ لاحق ہے۔ - ضمضم بن عمر نے اس زمانہ کی خاص رسم کے مطابق خطرہ کا اعلان کرنے کے لئے اپنی اونٹنی کے ناک کان کاٹ دیئے اور اپنے کپڑے آگے پیچھے سے پھاڑ ڈالے۔ اور کجاوہ کو الٹا کرکے اونٹنی کی پشت پر رکھا۔ یہ علامات اس زمانہ میں خطرہ کی گھنٹی سمجھی جاتی تھی۔ جب وہ اس شان سے مکہ میں داخل ہوا تو پورے مکہ میں ہلچل مچ گئی اور تمام قریش مدافعت کے لئے تیار ہوگئے جو لوگ اس جنگ کے لئے نکل سکتے تھے خود نکلے اور جو کسی وجہ سے معزور تھے انہوں نے کسی کو اپنا قائم مقام بنا کر جنگ کے لئے تیار کیا۔ اور صرف تین روز میں یہ لشکر پورے سامان کے ساتھ تیار ہوگیا۔- ان میں جو لوگ اس جنگ میں شرکت سے ہچکچاتے اس کو یہ لوگ مشتبہ نظروں سے دیکھتے اور مسلمانوں کا ہم خیال سمجھتے اس لئے ایسے لوگوں کو خصوصیت سے جنگ کے واسطے نکلنے پر مجبور کیا۔ جو لوگ علانیہ طور پر مسلمان تھے اور ابھی تک بوجہ اپنے اعذار کے ہجرت نہیں کرسکے تھے بلکہ مکہ میں بس رہے تھے ان کو اور بنو ہاشم کے خاندان میں جس پر بھی یہ گمان تھا کہ یہ مسلمانوں سے ہمدردی رکھتا ہے ان کو بھی اس جنگ کے لئے نکلنے پر مجبور کیا۔ انھیں مجبور لوگوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت عباس اور ابو طالب کے دو بیٹے طالب اور عقیل بھی تھے۔- اس طرح اس لشکر میں ایک ہزار جوان دو سو گھوڑے اور چھ سو زرہیں اور ترانے گانے والی لونڈیاں اور ان کے طبلے وغیرہ لے کر بدر کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ ہر منزل پر دس اونٹ ان لوگوں کے کھانے کے لئے ذبح ہوتے تھے۔ - دوسری طرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف ایک تجارتی قافلہ کے انداز سے مقابلہ کی تیاری کر کے بارہ رمضان کو شنبہ کے دن مدینہ طیبہ سے نکلے اور کئی منزل طے کرنے کے بعد بدر کے قریب پہنچ کر آپ نے دو شخصوں کو آگے بھیجا کہ وہ ابو سفیان کے قافلہ کی خبر لائیں ( مظہری) - مخبروں نے یہ خبر پہنچائی کہ ابو سفیان کا قافلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعاقب کی خبر پاکر ساحل دریا کے کنارے کنارے گزر گیا اور اس کی حفاظت اور مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے مکہ مکرمہ سے ایک ہزار جوانوں کا لشکر جنگ کے لئے آرہا ہے۔ ( ابن کثیر) - ظاہر ہے کہ اس خبر نے حالات کا نقشہ پلٹ دیا۔ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رفیق صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا کہ اس آنے والے لشکر سے جنگ کرنا ہے یا نہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاری اور بعض دوسرے حضرات نے عرض کیا کہ ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں اور نہ ہم اس قصد سے آئے ہیں۔ اس پر حضرت صدیق اکبر کھڑے ہوئے اور تعمیل حکم کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا پھر فاروق اعظم کھڑے ہوئے اور اسی طرح تعمیل حکم اور جہاد کے لئے تیار ہونے کا اظہار کیا پھر حضرت مقداد (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ :- یا رسول اللہ جو کچھ آپ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ملا ہے آپ اس کو جاری کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا تھا۔ (آیت) فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ، یعنی جایئے آپ اور آپ کا رب لڑ بھڑ لیں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ہمیں ملک حبشہ کے مقام برک الغماد تک بھی لے جائیں گے تو ہم آپ کے ساتھ جنگ کے لئے چلیں گے۔- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہوئے اور ان کو دعائیں دیں۔ مگر ابھی تک حضرات انصار کی طرف سے موافقت میں کوئی آواز نہ اٹھی تھی اور یہ احمتال تھا کہ حضرات انصار نے جو معاہدہ نصرت و امداد کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا تھا وہ اندرون مدینہ کا تھا۔ مدینہ سے باہر امداد کرنے کے وہ پابند نہیں اس لئے آپ نے پھر مجمع کو خطاب کرکے فرمایا کہ لوگو مجھے مشورہ دو کہ اس جہاد پر اقدام کریں یا نہیں۔ اس خطاب کا روئے سخن انصار کی طرف تھا۔ حضرت سعد بن معاذ انصاری سمجھ گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا آپ ہم سے پو چھنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں، سعد بن معاذ نے عرض کیا : - یا رسول اللہ ہم آپ پر ایمان لائے اور اس کی شہادت دی کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں سب حق ہے اور ہم نے آپ سے عہد و پیمان کئے ہیں کہ ہر حال میں آپ کی اطاعت کریں گے۔ اس لئے آپ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ کا حکم ملا ہو اس کو جاری فرمائیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ہم کو سمندر میں لے جائیں تو ہم آپ کے ساتھ دریا میں گھس جائیں گے ہم میں سے ایک آدمی بھی آپ سے پیچھے نہ رہے گا۔ ہمیں اس میں کوئی گرانی نہیں کہ آپ کل ہی ہمیں دشمن سے بھڑا دیں۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے کام سے ایسے حالات کا مشاہدہ کرائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ ہمیں اللہ کے نام پر جہاں چاہیں لے چلئے۔ - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر بہت مسرور ہوئے اور قافلہ کو حکم دے دیا کہ اللہ کے نام پر چلو۔ اور یہ خوش خبری سنائی کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں سے ایک جماعت پر ہمارا غلبہ ہوگا۔ دونوں جماعتوں سے مراد۔ ایک ابو سفیان کا تجارتی قافلہ اور دوسرا یہ مکہ سے آنے والا لشکر ہے۔ پھر فرمایا کہ خدا کی قسم میں گویا اپنی آنکھوں سے مشرکین کی قتل گاہ کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ پورا واقعہ تفسیر ابن کثیر اور مظہری سے لیا گیا ہے۔- واقعہ کی تفصیل سننے کے بعد ان آیات مذکور الصدر کو دیکھئے۔ پہلی آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا (آیت) وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ، یعنی ایک جماعت مسلمانوں کی اس جہاد کو بھاری سمجھ رہی تھی۔ اس سے اشارہ اس حال کی طرف ہے جو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کے وقت بعض صحابہ کرام کی طرف سے ظاہر ہوا کہ انہوں نے جہاد سے پست ہمتی کا اظہار کیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَـمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ۝ ٠ ۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِہُوْنَ۝ ٥ ۙ- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥۔ ٦) یہ امر بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو آپ کے پروردگار نے مدینہ منورہ سے قرآن حکیم کے ساتھ یا جنگ کے ارادہ سے (بدر کی طرف) روانہ کیا اور ایک جماعت لڑائی کو شاق اور ناگوار سمجھ رہی تھی اور اس کے باوجود کہ ان پر یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ آپ بغیر حکم خداوندی کے کوئی کام نہیں کرتے، وہ آپ سے جنگ کے بارے میں بطور مشورہ جھگڑ رہے تھے۔- شان نزول : (آیت) ” کما اخرجک ربک من “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ منور میں تھے ہمیں اطلاع ملی کہ ابوسفیان کا قافلہ آرہا ہے، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا ارادہ ہے، ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہمیں غنیمت عنایت فرمائے، چناچہ ہم نکلے اور ایک یا دو دن چلے کہ ابوجہل لشکر لے کر بدر میں آگیا آپ نے ارشاد فرمایا تم لوگوں کی کیا رائے ہے، ہم نے عرض کیا اس قوم سے قتال کی تو ہماری اندر طاقت نہیں، ہم تو صرف قافلہ کی نیت سے آئے تھے، اس پر حضرت مقداد (رض) نے فرمایا : ایسا مت کہو، جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا کہ ” تم اور تمہارا اللہ جاکر لڑو “۔ ہم یہیں بیٹھے ہیں۔ “۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، اور ابن جریر (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْم بَیْتِکَ بالْحَقِّص وَاِنَّ فَرِیْقًًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِہُوْنَ ) ۔- یہ اس پہلی مشاورت کا ذکر ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے مدینہ ہی میں فرمائی تھی۔ لشکر کے میدان بدر کی طرف روانگی کو ناپسند کرنے والے دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک تو منافقین تھے جو کسی قسم کی آزمائش میں پڑنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ اپنے منصوبے کے تحت اس طرح کی کسی مہم جوئی کی روایت کو - کے مصداق ابتدا ہی میں ختم کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کے دلائل بظاہر بڑے بھلے تھے کہ لڑائی جھگڑا اچھی بات نہیں ہے ‘ ہمیں تو اچھی باتوں اور اچھے اخلاق سے دین کی تبلیغ کرنی چاہیے ‘ اور لڑنے بھڑنے سے بچنا چاہیے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف کچھ نیک سرشت سچے مؤمن بھی ایسے تھے جو اپنے خاص مزاج اور سادہ لوحی کے سبب یہ رائے رکھتے تھے کہ ابھی تک قریش کی طرف سے تو کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں ہوا ‘ لہٰذا ہمیں آگے بڑھ کر پہل نہیں کرنی چاہیے۔ زیر نظر آیت میں دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا گیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بدر کی طرف روانہ ہونا اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا ایک حصہ تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: جن لوگوں نے مالِ غنیمت جمع کیا تھا، ان کی خواہش یہ تھی کہ یہ مال انہی کے پاس رہے، لیکن فیصلہ اس کے برعکس ہوا، اب ان کو تسلی دی جارہی ہے کہ اِنسان کی ہر خواہش انجام کے اعتبار سے درست نہیں ہوتی۔ اسے بعد میں پتہ چلتا ہے کہ جو واقعہ اس کی خواہش کے خلاف ہوا، بہتری اسی میں تھی۔ اور ایسا ہی ہے جیسے ابوجہل سے جنگ کرنے کا معاملہ میں ہوا، مدینہ منوَّرہ سے نکلتے وقت چونکہ صرف ابوسفیان کے قافلے پر حملہ کرنا پیش نظر تھا، اور کوئی باقاعدہ لشکر تیار نہیں کیا گیا تھا، اس لئے جب یہ بات سامنے آئی کہ ابوجہل ایک بڑا لشکر لے کر مقابلے پر آگیا ہے تو بعض صحابہؓ کی خواہش یہ تھی کہ ابوجہل سے جنگ کرنے کے بجائے فی الحال واپس چلے جائیں، کیونکہ اس بے سروسامانی کی حالت میں ایک مسلح فوج کا مقابلہ موت کے منہ میں جانے کے مرادف ہوگا۔ لیکن دوسرے صحابہ نے بڑی پر جوش تقریریں کیں، جن سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے، اور جب آپ کی مرضی معلوم ہوگئی توسب نے جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا، اور بعد میں ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا عظیم فائدہ اسی میں تھا کہ اس طرح کفر کی کمر توڑدی گئی۔