ایک غازی دس کفار پہ بھاری اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلا رہا ہے اور انہیں اطمینان دلارہا ہے کہ وہ انہیں دشمنوں پر غالب کرے گا چاہے وہ ساز و سامان اور افرادی قوت میں زیادہ ہوں ، ٹڈی دل ہوں اور گو مسلمان بےسرو سامان اور مٹھی بھر ہوں ۔ فرماتا ہے اللہ کافی ہے اور جتنے مسلمان تیرے ساتھ ہوں گے وہی کافی ہیں ۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ مومنوں کو جہاد کی رغبت دلاتے رہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم صف بندی کے وقت مقابلے کے وقت برابر فوجوں کا دل بڑھاتے بدر کے دن فرمایا اٹھو اس جنت کو حاصل کرو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی ہے حضرت عمیر بن حمام کہتے ہیں اتنی چوڑی؟ فرمایا ہاں ہاں اتنی ہی اس نے کہا واہ واہ آپ نے فرمایا یہ کس ارادے سے کہا ؟ کہا اس امید پر کہ اللہ مجھے بھی جنتی کر دے ۔ آپ نے فرمایا میری پیشگوئی ہے کہ تو جنتی ہے وہ اٹھتے ہیں دشمن کی طرف بڑھتے ہیں اپنی تلوار کامیان توڑ دیتے ہیں کچھ کھجوریں جو پاس ہیں کھانی شروع کرتے ہیں پھر فرماتے ہیں جتنی دیر میں انہیں کھاؤں اتنی دیر تک بھی اب یہاں ٹھہرنا مجھ پر شاق ہے انہیں ہاتھ سے پھینک دیتے ہیں اور حملہ کر کے شیر کی طرح دشمن کے بیچ میں گھس جاتے ہیں اور جوہر تلوار دکھاتے ہوئے کافروں کی گردنیں مارتے ہیں اور حملہ کرتے ہوئے شہید ہوجاتے ہیں رضی اللہ عنہ و رجاء ۔ ابن المسیب اور سعد بن جیر فرماتے ہیں یہ آیت حضرت عمر کے اسلام کے وقت اتری جب کہ مسلمانوں کی تعداد پوری چالیس کی ہوئی ۔ لیکن اس میں ذرا نظر ہے اس لیے کہ یہ آیت مدنی ہے حضرت عمر کے اسلام کا واقعہ مکہ شریف کا ہے ۔ حبشہ کی ہجرت کے بعد اور مدینہ کی ہجرت سے پہلے کا ۔ واللہ اعلم ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ مومنوں کو بشارت دیتا ہے اور حکم فرماتا ہے کہ تم میں سے بیس ان کافروں میں سے دو سو پر غالب آئیں گے ۔ ایک سو ایک ہزار پر غالب رہیں گے غرض ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے کا ہے ۔ پھر حکم منسوخ ہو گیا لیکن بشارت باقی ہے جب یہ حکم مسلمانوں پر گراں گذرا ۔ ایک دس کے مقابلے سے ذرا جھجھکا تو اللہ تعالیٰ نے تخفیف کر دی اور فرمایا ۔ اب اللہ نے بوجھ ہلکا کر دیا ۔ لیکن جتنی تعداد کم ہوئی اتنا ہی صبر ناقص ہو گیا پہلے حکم تھا کہ بیس مسلمان دو سو کافروں سے پیچھے نہ ہٹیں اب یہ ہوا کہ اپنے سے دگنی تعداد یعنی سو دوسو سے نہ بھاگیں ۔ پس گرانی گذر نے پر ضعیفی اور ناتوانی کو قبول فرما کر اللہ نے تخفیف کر دی ۔ پس دگنی تعداد کے کافروں سے تو لڑائی میں پیچھے ہٹنا لائق نہیں ہاں اس سے زیادتی کے وقت طرح دے جانا جرم نہیں ۔ ابن عمر فرماتے ہیں یہ آیت ہم صحابیوں کے بارے میں اتری ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت پڑھ کر فرمایا پہلا حکم اٹھ گیا ۔ ( مستدرک حاکم )
[٦٦] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ آپ کو بھی کافی ہے اور ان مومنوں کو بھی جو آپ کی پیروی کرتے ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور مسلمانوں کی یہ جماعت جو آپ کی پیروی کرتی ہے۔ آپ کو کافی ہے۔ خواہ ان کی تعداد کتنی ہی تھوڑی کیوں نہ ہو۔ گویا یہ مطلب سابقہ آیت (هُوَ الَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ 62ۙ ) 8 ۔ الانفال :62) کا ہی خلاصہ ہوا۔
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ : اوپر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے، اس سے شاید کوئی خیال کرتا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہے، اس لیے یہاں دوبارہ اس جملے کو لا کر ساتھ مومنین کا بھی اضافہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی پیروی کرنے والے تمام مومنوں کو کافی ہے۔ ” وَمَنِ اتَّبَعَنَ “ میں واؤ کا عطف ” حَسْبُكَ “ کے کاف پر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ تجھے اور تیرے پیچھے چلنے والے مومنوں کو کافی ہے۔ یہ واؤ بمعنی ” مَعَ “ بھی ہوسکتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو مع آپ کے ساتھیوں کے سب کو کافی ہے۔ بعض لوگوں نے اس واؤ کا عطف لفظ ” اللّٰهُ “ پر ڈالا ہے، اس صورت میں ترجمہ ہوگا کہ تجھے اللہ کافی ہے اور وہ مومن کافی ہیں جو تیرے پیروکار ہیں، مگر یہ عطف اور ترجمہ سراسر غلط ہے، کیونکہ پورے قرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ ہی پر توکل کرنے اور اسی کو کافی سمجھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم ہے، فرمایا : (وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ) توکل کا یہ حکم ” الْمُؤْمِنُوْنَ “ اور ” الْمُتَوَكِّلُوْنَ “ کے الفاظ کے ساتھ ٩ جگہ ہے اور فرمایا : (وَعَلَي اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ) [ المائدۃ : ٢٣ ] ” اور صرف اللہ پر بھروسا کرو، اگر تم مومن ہو۔ “ مخلوق تو خود اپنے لیے کافی نہیں، وہ دوسروں کو کیا کفایت کرے گی۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری (رض) ایسے مواقع پر ایک شعر لکھا کرتے تھے - سنبھلتا نہیں جن سے اپنا دوپٹا - سنبھالیں گے کیا وہ کلیجہ کسی کا - ابراہیم (علیہ السلام) نے آگ میں پھینکے جانے کے وقت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ (رض) نے احد کے بعد کفار کے جمع ہو کر دوبارہ حملہ آور ہونے کے موقع پر (حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ) [ آل عمران : ١٧٣ ] کہا۔ [ بخاری، التفسیر، سورة آل عمران : ٤٥٦٣ ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ اور میرے ساتھی کافی ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا : (فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللّٰهُ ڶ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۭعَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ) [ التوبۃ : ١٢٩ ] ” پھر اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دے مجھے اللہ ہی کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اسی پر بھروسا کیا اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔ “ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۚ وَاِنْ يَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِيْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِھٖ ۭوَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ) [ آل عمران : ١٦٠ ] ” اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو وہ کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے گا ؟ اور اللہ ہی پر پھر لازم ہے کہ مومن بھروسا رکھیں۔ “
دوسری آیت میں بھی یہی مضمون خلاصہ کے طور پر بیان فرما کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کے لئے حقیقت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ اور ظاہر کے اعتبار سے مؤمنین کی جماعت کافی ہے آپ کسی بڑے سے بڑے دشمن کی تعداد یا سامان سے خوف زدہ نہ ہوں۔ حضرت مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ آیت غزوہ بدر کے میدان میں جنگ شروع ہونے سے پہلے نازل ہوئی تھی تاکہ قلیل التعداد، بےسامان مسلمان اپنے مقابل کی بھاری تعداد اور بھاری سامان سے مرعوب نہ ہوجائیں۔
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللہُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ٦٤ ۧ- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية،- وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة 8] - الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے
(٦٤) اللہ تعالیٰ ہی آپ کے لیے کافی ہے اور اوس و خزرج ظاہرا آپ کے لیے کافی ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” یایھا النبی حسبک اللہ “۔ (الخ)- بزار (رح) نے ضعیف سند کے ساتھ بذریعہ عکرمہ (رح) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت فاروق اعظم (رض) مشرف بااسلام ہوئے تو مشرکین کہنے لگے کہ آج کے دن ہم سے آدمی قوم تقسیم ہوگئی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اس روایت کے اور بھی شواہد ہیں۔- اور طبرانی (رح) وغیرہ نے سعید بن جبیر (رح) کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب ٣٩ مرد وعورتوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک پر اسلام قبول کرلیا۔- اس کے بعد حضرت عمر فاروق اعظم (رض) مشرف بااسلام ہوئے تو چالیس کی تعداد پوری ہوگئی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، یعنی اے نبی آپ کے لیے اللہ کافی ہے اور جن مومنین نے آپ کا اتباع کیا ہے وہ کافی ہیں۔- اور ابن ابی حاتم (رح) نے صحیح سند کے ساتھ سعید بن جبیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (٣٦) چھتیس آدمی اور چھ عورتیں ایمان لے آئیں اس کے بعد حضرت عمر فاروق اعظم (رض) مشرف بااسلام ہوئے تو یہ آیت اتری۔- اور ابوالشیخ (رح) نے سعید بن مسیب (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت عمر فاروق اعظم (رض) مشرف بااسلام ہوئے تو ان کے اسلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔
آیت ٦٤ (یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) ۔- اگر اس آیت کو پچھلی آیت کے ساتھ تسلسل سے پڑھا جائے تو اس کا ترجمہ یہی ہوگا جو اوپر کیا گیا ہے ‘ لیکن اس کا دوسرا ترجمہ یوں ہوگا : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کافی ہے آپ کے لیے بھی اور جو آپ کی پیروی کرنے والے مسلمان ہیں ان کے لیے بھی۔ عبارت کا انداز ایسا ہے کہ اس میں یہ دونوں مفاہیم آگئے ہیں۔