65۔ 1 تحریض کے معنی ہیں ترغیب میں مبالغہ کرنا یعنی خوب رغبت دلانا اور شوق پیدا کرنا۔ چناچہ اس کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ سے قبل صحابہ کو جہاد کی ترغیب دیتے اور اس کی فضیلت بیان فرماتے۔ جیسا کہ بدر کے موقع پر، جب مشرکین اپنی بھاری تعداد اور بھرپور وسائل کے ساتھ میدان میں آموجود ہوئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایسی جنت میں داخل ہونے کے لئے کھڑے ہوجاؤ، جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ایک صحابی عمیر بن حمام نے کہا اس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں اس پر بخ بخ کہا یعنی خوشی کا اظہار کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ میں جنت میں جانے والوں میں سے ہونگا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اس میں جانے والوں میں سے ہوگے، چناچہ انہوں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کھجوریں نکال کر کھانے لگے، پھر جو بچیں ہاتھ سے پھینک دیں اور کہا ان کے کھانے تک میں زندہ رہا تو یہ طویل زندگی ہوگی، پھر آگے بڑھے اور داد شجاعت دینے لگے، حتٰی کہ عروس شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔ (رض) (صحیح مسلم) 65۔ 2 یہ مسلمانوں کے لئے بشارت ہے کہ تمہارے ثابت قدمی سے لڑنے والے بیس مجاہد دو سو اور ایک ہزار پر غالب رہیں گے۔
[٦٧] جہاد کی ترغیب :۔ اس حکم پر آپ نے مسلمانوں کو جہاد کے لیے جیسے ترغیب دی وہ درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ سیدنا انس کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ایک صبح یا شام اللہ کے راستے میں نکلنا دنیا ومافیہا سے افضل ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الغدوۃ والروحۃ، فی سبیل اللہ) مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ)- ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ اس کی راہ میں جہاد کرنے والا کون ہے۔ ایسے ہے جیسے ہمیشہ کا روزہ دار اور شب زندہ دار۔ اللہ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ اگر اسے موت آگئی تو جنت میں داخل کرے گا یا پھر اسے اجر اور غنیمت کے ساتھ صحیح وسالم واپس لوٹائے گا۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب افضل الناس مومن مجاھد بنفسہ ومالہ)- ٣۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے گھوڑا پالے اور اس کی وجہ اللہ پر ایمان اور اس کے وعدوں کی تصدیق ہو تو بلاشبہ اس گھوڑے کا کھانا پینا، لید، پیشاب قیامت کے دن اس مجاہد کے ترازو میں (بطور نیکی) رکھے جائیں گے۔ (بخاری، کتاب الجہاد من احتبس فرسا)- [٦٨] ایک مسلمان کا دس کافروں پر غالب آنے کی وجہ ؟:۔ یعنی لڑائی سے کفار کا مقصد قبائلی یا قومی عصبیت کے سوا کچھ نہیں۔ جبکہ مومنوں کا اپنی جان تک قربان کرنے کا مقصد اللہ کے کلمہ کی سربلندی اور بالادستی اور رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے ساتھ ہی وہ سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے جبکہ کافروں کو موت بہر صورت ناگوار ہوتی ہے اور وہ لڑائی میں اپنی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ مومن جان دینے اور شہادت کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ ایمانی قوت ہے جس کی بنا پر ایک مومن اپنے جیسے ہم طاقت دس کافروں کے مقابلہ سے بھی جی نہیں چراتا اور نہ ہی اسے ہمت ہارنا چاہیے، بلکہ انہیں اپنے سے دس گنا کافروں پر غالب آنا چاہیے۔
حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ : ” تحریض “ کا معنی خوب رغبت دلا کر کسی کام پر ابھار دینا ہے۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں جہاد کا ذکر تقریباً سات پاروں کے برابر بنتا ہے۔ کتب احادیث میں کتاب الجہاد اس کے فضائل سے بھری ہوئی ہیں۔ یہاں بیس مسلمانوں کو کفار کے دو سو آدمیوں پر غالب آنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ مگر یہ حکم خبر کی صورت میں ہے، کیونکہ یہ بات معروف ہے کہ حکم بہت تاکید کے ساتھ دینا ہو تو وہ خبر کے الفاظ میں دیا جاتا ہے، مثلاً یہ کہنا ہو ” سب لوگ نماز کے لیے مسجد میں جائیں “ تو کہا جاتا ہے ” سب لوگ مسجد میں جائیں گے۔ “ یہاں بیس مسلمانوں کو کفار کے دو سو آدمیوں پر غالب آنے کا حکم دیا جا رہا ہے مگر خبر کے الفاظ میں کہ اگر تم میں سے بیس صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔ مراد یہ ہے کہ غالب آئیں۔ اس کی دلیل اگلی آیت ہے کہ اب اللہ نے تم سے تخفیف کردی ہے، سو اگر تم میں سے ایک سو صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔ مراد یہ ہے کہ دو سو پر غالب آئیں، ظاہر ہے کہ تخفیف امر (حکم) میں ہوتی ہے، خبر میں نہیں۔ ان آیات میں خوش خبری بھی ہے مگر ایمان اور صبر کی شرط کے ساتھ۔- بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ : یعنی سمجھ سے کام نہیں لیتے، نہ ثواب یا شہادت کے حصول کی نیت ہوتی ہے، نہ عذاب سے بچنے کی، نہ ہی وہ کسی پائدار اور دائمی مقصد کے لیے لڑتے ہیں، اس لیے ان میں وہ جذبہ اور اخلاقی قوت موجود نہیں ہوتی جو انھیں میدان جنگ میں ڈٹے رہنے کا حوصلہ عطا کرے، لہٰذا یہ ان سرفروش مجاہدین کا کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں جن کی بڑی تمنا شہادت کی فضیلت حاصل کرنا ہے ؟ - بیس کے دو سو پر غالب آنے کے بعد سو کے ہزار پر غالب آنے کے بیان میں یہ حکمت ہے کہ لشکر چھوٹا ہو یا بڑا، ہر ایک کو یہ حکم ہے اور ہر ایک سے نصرت کا وعدہ ہے۔
تیسری اور چوتھی آیت میں مسلمانوں کے لئے ایک جنگی قانون کا ذکر ہے کہ ان کو کس حد تک اپنے حریف کے مقابلہ پر جمنا فرض اور اس سے ہٹنا گناہ ہے۔ پچھلی آیات اور واقعات میں اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد غیبی مسلمانوں کے ساتھ ہوتی ہے اس لئے ان کا معاملہ عام اقوام دنیا کا سا معاملہ نہیں یہ تھوڑے بھی بہت سوں پر غالب آسکتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے (آیت) كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ (یعنی بہت سی قلیل التعداد جماعتیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے کثرت والے مقابل پر غالب آجاتی ہیں)- اس لئے اسلام کے سب سے پہلے جہاد غزوہ بدر میں دس مسلمانوں کو سو آدمیوں کے برابر قرار دے کر یہ حکم دیا گیا کہ : - اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو دشمنوں پر غالب آجائیں گے اور اگر تم سو ہوگے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجاؤ گے۔- عنوان تعبیر اس میں ایک خبر کا رکھا گیا ہے کہ سو مسلمان ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے مگر مقصد یہ حکم دینا ہے کہ سو مسلمانوں کو ایک ہزار کفار کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں۔ عنوان خبر کا رکھنے میں مصلحت یہ ہے کہ مسلمانوں کے دل اس خوشخبری سے مضبوط ہوجائیں کہ اللہ کا وعدہ ہماری حفاظت اور غلبہ کا ہے۔ اگر حکم کو بصیغہ امر قانون کی صورت میں پیش کیا جاتا تو فطری طور پر وہ بھاری معلوم ہوتا۔- غزوة بدر پہلے پہل کی جنگ ایسی حالت میں تھی جب کہ مسلمانوں کی مجموعی تعداد ہی بہت کم تھی اور وہ بھی سب کے سب محاذ جنگ پر گئے نہ تھے بلکہ فوری طور پر جو لوگ تیار ہوسکے وہی اس جنگ کی فوج بنے اس لئے جہاد میں سو مسلمانوں کو ایک ہزار کافروں کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا اور ایسے انداز میں دیا کہ فتح و نصرت کا وعدہ ساتھ تھا۔- چوتھی آیت میں اس حکم کو آئندہ کے لئے منسوخ کرکے دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ اب اللہ تعالیٰ نے تخفیف کردی اور معلوم کرلیا کہ تم میں ہمت کی کمی ہے سو اگر تم میں کے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے۔- یہاں بھی مقصد یہ ہے کہ سو مسلمانوں کو دو سو کافروں کے مقابلہ سے گریز کرنا جائز نہیں۔ پہلی آیت میں ایک مسلمان کو دس کے مقابلہ سے گریز ممنوع قرار دیا تھا اس آیت میں ایک کو دو کے مقابلہ سے گریز ممنوع رہ گیا۔ اور یہی آخری حکم ہے جو ہمیشہ کے لئے جاری اور باقی ہے۔ یہاں بھی حکم کو حکم کے عنوان سے نہیں بلکہ خبر اور خوشخبری کے انداز سے بیان فرمایا گیا ہے جس میں اشارہ ہے کہ ایک مسلمان کو دو کافروں کے مقابلہ پر جمنے کا حکم معاذ اللہ کوئی بےانصافی یا تشدد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان میں اس کے ایمان کی وجہ سے وہ قوت رکھ دی ہے کہ ان میں کا ایک دو کے برابر رہتا ہے۔- مگر دونوں جگہ اس فتح و نصرت کی خوشخبری کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے کہ یہ مسلمان ثابت قدم رہنے والے ہوں اور ظاہر ہے یہ قتل و قتال کے میدان میں اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر ثابت قدم رہنا اسی کا کام ہوسکتا ہے جس کا ایمان کامل ہو۔ کیونکہ ایمان کامل انسان کو شوق شہادت کا جذبہ عطا کرتا ہے اور یہ جذبہ اس کی طاقت کو بہت کچھ بڑھا دیتا ہے۔
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ ٠ ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ ٠ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ ٦٥- حرض - الحَرَض : ما لا يعتدّ به ولا خير فيه، ولذلک يقال لما أشرف علی الهلاك : حَرِضَ ، قال عزّ وجلّ : حَتَّى تَكُونَ حَرَضاً [يوسف 85] ،- ( ح ر ض ) الحرض - اس چیز کو کہتے ہیں جو نکمی ہوجائے اس لئے جو چیز قریب بہ ہلاکت ہوجائے اس کے متعلق حرض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ حَتَّى تَكُونَ حَرَضاً [يوسف 85] یا تو قریب بہ ہلاکت - ہوجاؤ گے ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- عشر - العَشْرَةُ والعُشْرُ والعِشْرُونَ والعِشْرُ معروفةٌ. قال تعالی: تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة 196] ، عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال 65] - ( ع ش ر ) العشرۃ دس العشرۃ دسواں حصہ العشرون بیسواں العشر ( مویشیوں کا دسویں دن پانی پر وار ہونا ) قرآن میں ہے : تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة 196] یہ پوری دس ہوئے عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال 65] بیس آدمی ثابت قدم۔ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - غلب - الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3]- ( غ ل ب ) الغلبتہ - کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے - مئة- المِائَة : الثالثةُ من أصول الأَعداد، وذلک أنّ أصول الأعداد أربعةٌ: آحادٌ ، وعَشَرَاتٌ ، ومِئَاتٌ ، وأُلُوفٌ. قال تعالی: فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال 66] ، وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 65] ومائة آخِرُها محذوفٌ ، يقال :- أَمْأَيْتُ الدَّراهِمَ فَأَمَّأَتْ هي، أي : صارتْ ذاتَ مِائَةٍ.- م ی ء ) المائۃ - ( سو ) یہ اصول میں تیسری اکائی کا نام ہے کیونکہ اصول اعداد چار ہیں آحا د عشرت مئات اور الوف ۔۔۔ قرآن پاک میں ہے :۔ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال 66] پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے ۔ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 65] اور اگر سو ( ایسے ) ہوں گے تو ہزاروں پر غالب رہیں گے ۔ اور مائۃ کا آخر ی حرف یعنی لام کلمہ مخذوف ہے ۔ اما یت الدرھم فا ماتھی یعنی میں نے دراہم کو سو کیا تو وہ سو ہوگئے ۔ - أَلْفُ (هزار)- : العدد المخصوص، وسمّي بذلک لکون الأعداد فيه مؤتلفة، فإنّ الأعداد أربعة : آحاد وعشرات ومئات وألوف، فإذا بلغت الألف فقد ائتلفت، وما بعده يكون مکررا . قال بعضهم : الألف من ذلك، لأنه مبدأ النظام، وقیل : آلَفْتُ الدراهم، أي : بلغت بها الألف، نحو ماءیت، وآلفت «1» هي نحو أمأت .- الالف - ۔ ایک خاص عدد ( ہزار ) کا نام ہے اور اسے الف اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں اعدار کے تمام اقسام جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ اعداد کی چار قسمیں ہیں ۔ اکائی ، دہائی ، سینکڑہ ، ہزار تو الف میں یہ سب اعداد جمع ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو عدد بھی ہو مکرر آتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ الف حروف تہجی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ میرا نظام بنتا ہے ۔ الفت الدراھم میں نے درہموں کو ہزار کردیا جسطرح مائیت کے معنی ہیں میں نے انہیں سو کر دیا ۔ الفت وہ ہزار کو پہنچ گئے جیسے امات سو تک پہنچ گئے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - فقه - الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] - ( ف ق ہ ) الفقہ - کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔
مقابلے کے لئے اسلامی لشکر کا تناسب - قول باری ہے (وان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مائتین، اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے آدمی ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے) تاآخر آیت۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت سنائی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رح) سے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت کے ذریعے یہ حکم دیا تھا کہ ایک مسلمان دس کافروں کا مقابلہ کرے یہ بات مسلمانوں کے لئے مشکل ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ارشاد ہوا (فان یکن منکم مائۃ صابرۃ یغلبوا مائتین و ان یکن منکم الف یغلبوا الفین۔ اگر تم میں سے سو صابر آدمی ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے، اگر اس طرح کے ایک ہزار آدمی ہوں گے تو وہ دو ہزار پر غالب آئیں گے) ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے انہیں اسماعیل بن ابراہیم نے ابن ابی نجیح سے، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے۔ انہوں نے فرمایا : جو مسلمان دشمن کے تین آدمیوں کے… مقابلہ سے راہ فرار اختیار کرے گا وہ فرار ہونے والا قرار نہیں پائے گا لیکن جو دشمن کے دو آدمیوں کے مقابلہ سے بھاگے گا وہ فرار ہونے والا کہلائے گا۔ “ حضرت ابن عباس (رض) کا اشارہ اس حکم کی طرف تھا جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اسلام کی ابتداء میں ایک سملمان پر دس کافروں کا مقابلہ فرض تھا اس لئے کہ اس وقت مسلمانوں کی بصیرت درست تھی اور ان کا یقین کامل تھا لیکچن جب دوسری قومیں بھی اسلام میں داخل ہوگئیں تو مسلمانوں کے ساتھ ایسے لوگ بھی آ ملے جن کی دروں بینی اور یقین اس درجے کا نہیں تھا جو صدر اسلام کے اہل ایمان کا تھا اس لئے تمام مسلمانوں کا بوجھ ہلکا کردیا گیا اور سب کو ایک ہی درجے پر رکھا گیا اور پھر ایک مسلمان پر دشمن کے دو آدمیوں کا مقابلہ فرض کردیا گیا۔
(٦٥) عزوہ بدر کے دن مومنین کو ترغیب دیجیے اور لڑائی پر ابھارئیے کہ اگر بیس آدمی بھی لڑائی میں ثابت قدم رہے تو دو سو کفار پر غلبہ حاصل کریں گے کیوں کہ وہ حکم الہی اور توحید خداوندی کو نہیں سمجھتے۔- شان نزول : (آیت) ” ان یکن منکم عشرون صبرون “۔ (الخ)- اسحاق بن راہویہ (رح) نے اپنی مسند میں ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ ایک آدمی دس سے قتال کرے تو ان پر یہ چیز ناخوشگوار گزری تو اللہ تعالیٰ نے یہ تخفیف فرما دی کہ ایک آدمی دو سے قتال کرے چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اگر بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے۔
آیت ٦٥ (یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ ط) ۔- ہجرت کے بعد ٩ سال تک قتال کے لیے ترغیب ‘ تشویق اور تحریص کے ذریعے ہی زور دیا گیا۔ یہ تحریص گاڑھی ہو کر تحریض بن گئی۔ اس دور میں مجاہدین کی فضیلت بیان کی گئی ‘ ان سے بلند درجات کا وعدہ کیا گیا (النساء : ٩٥) مگر قتال کو ہر ایک کے لیے فرض عین قرار نہیں دیا گیا۔ لیکن ٩ ہجری میں غزوۂ تبوک کے موقع پر جہاد کے لیے نکلنا تمام اہل ایمان پر فرض کردیا گیا۔ اس وقت تمام اہل ایمان کے لیے نفیر عام تھی اور کسی کو بلا عذر پیچھے رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ - (اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا ماءَتَیْنِ ج) (وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ ) ۔- یہاں سمجھ نہ رکھنے سے مراد یہ ہے کہ انہیں اپنے موقف کی سچائی کا یقین نہیں ہے۔ ایک طرف وہ شخص ہے جسے اپنے نظریے اور موقف کی حقانیت پر پختہ یقین ہے ‘ اس کا ایمان ہے کہ وہ حق پر ہے اور حق کے لیے لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جو نظریاتی طور پر ڈانواں ڈول ہے ‘ کسی کا تنخواہ یافتہ ہے یا کسی کے حکم پر مجبور ہو کر لڑ رہا ہے۔ اب ان دونوں اشخاص کی کارکردگی میں زمین و آسمان کا فرق ہوگا۔ چناچہ کفار کو جنگ میں ثابت قدمی اور استقلال کی وہ کیفیت حاصل ہو ہی نہیں سکتی جو نظریے کی سچائی پر جان قربان کرنے کے جذبے سے پیدا ہوتی ہے۔ دونوں اطراف کے افراد کی نظریاتی کیفیت کے اسی فرق کی بنیاد پر کفار کے ایک سو افراد پر دس مسلمانوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ اس کے بعد والی آیت اگرچہ زمانی لحاظ سے کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی مگر مضمون کے تسلسل کے باعث یہاں شامل کردی گئی ہے۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :47 آج کل کی اصطلاح میں چیز کو قوت معنوی یا قوت اخلاقی ( ) کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اسی کو فقہ و فہم اور سمجھ بوجھ ( ) سے تعبیر کیا ہے ، اور یہ لفظ اس مفہوم کے لیے جدید اصطلاح سے زیادہ سائنٹیفک ہے ۔ جو شخص اپنے مقصد کا صحیح شعور رکھتا ہو اور ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر اس لیے لڑ رہا ہو کہ جس چیز کے لیے وہ جان کی بازی لگانے آیا ہے وہ اس کی انفرادی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے اور اس کے ضائع ہو جانے کے بعد جینا بے قیمت ہے ، وہ بے شعوری کے ساتھ لڑنے والے آدمی سے کئی گنی زیادہ طاقت رکھتا ہے اگر چہ جسمانی طاقت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو ۔ پھر جس شخص کو حقیقت کا شعور حاصل ہو ، جو اپنی ہستی اور خدا کی ہستی اور خدا کے ساتھ اپنے تعلق اور حیات دنیا کی حقیقت اور موت کی حقیقت اور حیات بعد موت کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہو اور جسے حق اور باطل کے فرق اور غلبہ باطل کے نتائج کا بھی صحیح ادراک ہو ، اس کی طاقت کو تو وہ لوگ بھی نہیں پہنچ سکتے جو قومیت یا وطنیت یا طبقاتی نزاع کا شعور لیے ہوئے میدان میں آئیں اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ ایک سمجھ بوجھ رکھنے والے مومن اور ایک کافر کے درمیان حقیقت کے شعور اور عدم شعور کی وجہ سے فطرةً ایک اور دس کی نسبت ہے ۔ لیکن یہ نسبت صرف سمجھ بوجھ سے قائم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ صبر کی صفت بھی ایک لازمی شرط ہے ۔
45: چونکہ صحیح سمجھ نہیں رکھتے، اس لئے ایمان نہیں لاتے اور چونکہ ایمان نہیں لاتے، اس لئے اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد سے محروم رہتے ہیں، اور اپنی دس گنی زیادہ تعداد کے باوجود مسلمانوں سے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ اس آیت نے ضمنی طور پر یہ حکم بھی دیا کہ اگر کافروں کی تعداد مسلمانوں سے دس گنی زیادہ ہو تب بھی مسلمانوں کے لئے مقابلے سے پیچھے ہٹنا جائز نہیں، لیکن اگلی آیت بعد میں نازل ہوئی جس نے اس حکم میں تخفیف کردی۔