66۔ 1 پچھلا حکم صحابہ (رض) پر گراں گزرا، کیونکہ اس کا مطلب تھا ایک مسلمان دس کافروں کے لئے بیس دو سو کے لئے اور سو ایک ہزار کے لئے کافی ہیں اور کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی اتنی تعداد ہو تو جہاد فرض اور اس سے گریز ناجائز ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تخفیف فرما کر ایک اور دس کا تناسب کم کرکے ایک اور دو کا تناسب کردیا (صحیح بخاری) ، تفسیر سورة الا نفال، اب اس تناسب پر جہاد ضروری اور اس سے کم پر غیر ضروری ہے۔ 66۔ 2 یہ کہہ کر صبر و ثبات قدمی کی اہمیت بیان فرما دی کہ اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لئے اس کا اہتمام ضروری ہے۔
[٦٩] مسلمانوں میں بعد میں کمزوری کی وجہ پہلے حکم کی منسوخی نہیں بلکہ حالات ہیں :۔ اگرچہ یہ آیت اور اس سے پہلی آیت ایک ساتھ رکھی گئی ہیں۔ مگر ان دونوں کے زمانہ نزول میں کافی مدت کا فرق ہے اور انہیں صرف مضمون کی مناسبت سے اکٹھا رکھا گیا ہے۔ پہلی آیت کا زمانہ نزول تو غزوہ بدر کے بعد کا ہے۔ جبکہ اس سورة کا بیشتر حصہ نازل ہوچکا تھا۔ اور دوسری آیت کے زمانہ نزول کے متعلق حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم یہ غزوہ حنین اور اس کے مابعد کا زمانہ معلوم ہوتا ہے۔ فتح مکہ کے موقعہ پر جو لوگ مسلمان ہوئے وہ ابتدا سے اسلام لانے والوں جیسا حوصلہ نہیں رکھتے تھے اور اس ضعف کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ مسلمان ابتداء اقلیت میں تھے اوراقلیت کو اپنی بقاء کی خاطر بھی اکثریت کے مقابلہ میں بہت زیادہ چاک و چوبند اور جرأت مند بن کر رہنا پڑتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مہاجرین اور سابقین انصار کی جس انداز میں تربیت ہوئی تھی ان میں سے کچھ مدت کے بعد بہت سے افراد بوڑھے اور کمزور ہوگئے اور کچھ شہید ہوگئے یا وفات پا گئے اور جو لوگ نئے مسلمان ہوئے یا جو نئی پود سامنے آئی ان میں پرانے مہاجرین و انصار جیسی بصیرت، استقامت اور جرأت نہ تھی۔ مزید برآں تعداد میں کثرت سے اللہ پر توکل میں کمی واقع ہوجانا یا کثرت تعداد پر اترانے لگنا طبیعت انسان کا خاصہ ہے۔ لہذا ایسے لوگوں پر جب ایک آدمی کو دس آدمیوں پر غالب آجانے کا حکم گراں گزرنے لگا تو اللہ نے اس حکم میں تخفیف کردی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب پہلا حکم منسوخ یا ساقط العمل ہوگیا ہے۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ جب ان نومسلموں کی پوری طرح تربیت ہوجائے اور ان کی ایمانی قوت پوری طرح پختہ ہوجائے تو پھر سابقہ حکم ہی نافذ العمل ہوگا۔ چناچہ دور نبوی کی آخری جنگوں میں عملاً ایسا ہوا بھی تھا۔ ایک جنگ میں ایک ہزار مسلمانوں نے (80) اسی ہزار کافروں کا مقابلہ کیا اور جنگ مؤتہ کے موقع پر تین ہزار مسلمان ایک لاکھ کافروں کے مقابلہ میں ڈٹے رہے اور یہ نسبت ایک اور دس کی نسبت سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ پھر خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی ایسی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں۔ البتہ اس تخفیف والی آیت سے علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ اگر کافروں کی تعداد دگنی یا اس سے کم ہو تو اس صورت میں جنگ سے فرار حرام ہے۔ ویسے بھی مسلمانوں کا تخفیف والی آیت پر ہی انحصار کرلینا ان میں صبر اور برداشت کی کمی کا باعث بن جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔- خ تخفیف کا منفی نتیجہ :۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ : جب یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہارے بیس صابروں کو دو سو پر غالب آنا چاہیے تو یہ مسلمانوں پر گراں گزری۔ جب کہ اللہ نے مومنوں پر یہ فرض کیا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلہ میں نہ بھاگے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تخفیف فرما دی اور فرمایا کم از کم سو کو دو سو کے مقابلہ میں ضرور غالب آنا چاہیے۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے شمار میں کمی کردی تو اتنا ہی مسلمانوں میں صبر بھی کم ہوگیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)
اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ : اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب گزشتہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں کو اپنے سے دس گنا کفار کے مقابلے میں ڈٹے رہنے کا حکم دشوار معلوم ہوا، پھر تخفیف کا حکم آگیا اور اپنے سے دو گنا کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا واجب اور بھاگنا حرام قرار دے دیا گیا۔ [ بخاری، التفسیر، سورة الأنفال، باب : ( الآن خفف اللہ عنکم ۔۔ ) : ٤٦٥٣ ] اگر کفار دو گنا سے زیادہ ہوں تو بھاگنا گناہ نہیں، لیکن لڑنا اور جمے رہنا بہر حال افضل ہے، جیسا کہ عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے عہد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے۔ (ابن کثیر، قرطبی) اس آیت میں یہ خوش خبری بھی ہے کہ مسلمانوں کے لشکر ہزاروں تک جائیں گے۔
آخر آیت میں عام قانون کی صورت سے بتلا دیا (آیت) وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ، یعنی اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہنے والوں کا ساتھی ہے۔ اس میں میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے والے بھی شامل ہیں اور عام احکام شرعیہ کی پابندی پر ثابت قدم رہنے والے حضرات بھی۔ ان سب کے لئے معیت الہیہ کا وعدہ ہے اور یہ معیت ہی ان کی فتح و ظفر کا اصلی راز ہے۔ کیونکہ جس کو قادر مطلق کی معیت نصیب ہوگئی اس کو ساری دنیا مل کر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلاسکتی۔
اَلْـــٰٔـنَ خَفَّفَ اللہُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا ٠ ۭ فَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ ٠ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفَيْنِ بِـاِذْنِ اللہِ ٠ ۭ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ٦٦- خفیف - الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل .- والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان،- نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد .- الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس،- وثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی: الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86] وأرى أنّ من هذا قوله : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف 189] . - الرّابع : يقال خفیف فيمن يطيش،- و ثقیل فيما فيه وقار، فيكون الخفیف ذمّا، والثقیل مدحا . الخامس : يقال خفیف في الأجسام التي من شأنها أن ترجحن إلى أسفل کالأرض والماء، يقال : خَفَّ يَخِفُّ خَفّاً وخِفَّةً ، وخَفَّفَه تَخْفِيفاً وتَخَفَّفَ تَخَفُّفاً ، واستخففته، وخَفَّ المتاع : الخفیف منه، و کلام خفیف علی اللسان، قال تعالی: فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف 54] ، أي : حملهم أن يخفّوا معه، أو وجدهم خفافا في أبدانهم وعزائمهم، وقیل :- معناه وجدهم طائشين، وقوله تعالی: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون 102- 103] ، فإشارة إلى كثرة الأعمال الصّالحة وقلّتها، وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم 60] ، أي : لا يزعجنّك ويزيلنّك عن اعتقادک بما يوقعون من الشّبه، وخفّوا عن منازلهم : ارتحلوا منها في خفّة، والخُفُّ : الملبوس، وخُفُّ النّعامة والبعیر تشبيها بخفّ الإنسان .- ( خ ف ف ) الخفیف - ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں اسی معنی پر محمول ہیں بلکہ ہمارے نزدیک آیت : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف 189] اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ ( 4) جو شخص جلد طیش میں آجائے اسے خفیف اور جو پر وقار ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کے اعتبار سے خفیف صفت ذم ہوگئی اور ثقیل سفت مدح ۔ ( 5 ) جو اجسام نیچے کی طرف جھکنے والے ہوں انہیں ثقلا اور جو اپر کی جاں ب چڑھنے والے ہوں انہیں خفیفہ کہا جاتا ہے اسی معنی کے لحاظ سے زمین پانی وگیرہ ہا کو اجسام ثقیلہ اور ہوا آگ وغیرہ ہا اجسام خفیفہ میں داخل ہوں گے ۔- خف ( ض ) خفا وخفتہ ویخفف ۔ ہلکا ہونا خففہ تخفیفا ۔ ہکا کرنا ۔ استخفہ ۔ ہلکا سمجھنا خف المتاع سامان کا ہلکا ہونا اسی سے کلام خفیف علی اللسان کا محاورہ مستعار ہے یعنی وہ کلام جو زبان پر ہلکا ہو ۔ اور آیت کریمہ : فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف 54] غرض اس نے اپنی قوم کی عقل مار دی اور انہوں نے اس کی بات مان لی ۔ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اس نے اپنی قوم کو اکسایا کہ اس کے ساتھ تیزی سے چلیں اور یا یہ کہ انہیں اجسام وعزائم کے اعتبار سے ڈھیلا پایا اور بعض نے یہ معنی بھی کئے کہ انہیں جاہل اور کم عقل سمجھا ۔ اور آیت کریمہ : : فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون 102- 103] اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے ۔ میں اعمال صالحہ کی کمی کی طرف اشارہ ہی اور آیت کریمہ : وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم 60] اور وہ تمہیں اوچھا نہ بنادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ شبہات پیدا کر کے تمہیں تمہارے عقائد سے منزل اور برگشتہ نہ کردیں ۔ خفوا عن منازھم ۔ وہ تیزی سے کوچ کر گئے الخف ۔ موزہ ۔ انسان کے موزہ سے تشبیہ دے کر خف النعامتہ والبعیر ۔ ( سپل شتر وسم شتر مرغ ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- ضعف - والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل :- الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66]- ( ض ع ف ) الضعف - اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ - وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں
قول باری ہے (الان خفف اللہ عنکم و علم ان فیکم ضعفا۔ اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کردیا اور اسے معلوم ہوگیا کہ ابھی تمہارے اندر کمزوری ہے) آیت میں جسمانی اور قویٰ کی کمزوری مراد نہیں ہے بلکہ مشرکین سے مقابلہ کی نیت میں کمزوری مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کمزور ارادوں والے مسلمانوں پر جو چیز فرض قرار دی وہی چیز تمام مسلمانوں پر فرض کردی گئی۔ یعنی اب ایک مسلمان پر دشمن کے دو آدمیوں کا مقابلہ فرض کردیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے کہ میرے دل میں کبھی یہ خیال نہیں گزرا تھا کہ کوئی مسلمان مشرکین کے خلاف قتال میں اللہ کی خوشنودی کے سوا کسی اور چیز کی نیت بھی کرسکتا ہے حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی (منکم یرید الدنیا و منکم من یرید الاخرۃ۔ تم میں سے ایسے لوگ بھی تھے جو دنیا کے طلب گار تھے اور ایسے بھی تھے جن کے پیش نظر آخرت تھی) صدر اول کے مسلمانوں کی نیتیں خالص تھیں اور للہیت پر مبنی ہوتی تھیں لیکن جب ان کے ساتھ ایسے لوگ بھی آ ملے جن کے پیش نظر دنیاوی فوائد و منافع تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس فرض میں سب کو یکساں کردیا۔ اس آیت میں ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت موجود ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں نسخ کو تسلیم نہیں کرتے اگرچہ ایسے لوگ قابل اعتنا نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آیت (الان خفف اللہ عنکم و علیم ان فیکم ضعفا فان یکن منکم مائۃ صابرۃ یغلبوا مائتین) میں تخفیف کی خبر دی اور تخفیف کی صورت صرف یہی ہے کہ شروع میں فرض ہونے والے حکم کے کچھ حصے میں کمی کردی جائے یا اس حکم کو ایسے حکم یک طرف منتقل کردیا جائے جو پہلے کے مقابلہ میں ہلکا ہو۔- اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دوسری آیت پہلی آیت میں فرض ہونے والے حکم کی ناسخ ہے نسخ کو تسلیم نہ کرنے والے شخص کا یخال یہ ہے کہ آیت میں امر یعنی حکم نہیں ہے بلکہ وعدہ ہے جو ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ اس لئے جب شرط پوری کردی جائے گی اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوجائے گا اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کو اس کی استطاعت کے مطابق صبر کرنے کا مکلف بنایا ہے اس بنا پر صدر اول کے مسلمانوں پر یہ لازم تھا کہ ان میں سے بیس افراد دشمن کے دو سو کا مقابلہ کریں بعد میں آنے والے لوگوں میں چونکہ اس پائے کی بصیرت نہیں تھی جو پہلے مسلمانوں کو حاصل تھی اس لئے انہیں اس بات کا مکلف بتایا گیا کہ ان کا ایک آدمی دشمن کے دو آدمیوں اور ایک سو آدمی دشمن کے دو سو آدمیوں کا مقابلہ کریں۔ ان صاحب کا کہنا یہ ہے کہ بیس مسلمانوں پر دو سو کافروڈ کا مقابلہ فرض نہیں تھا اسی طرح سو مسلمانوں پر دو سو کافروں کا مقابلہ فرض نہیں ہے بلکہ بقدر امکان صرف صبر کرنا فرض ہے۔ جہاں تک صبر کرنے کا معاملہ ہے اس میں لوگ اپنی اپنی استطاعت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اس لئے آیت میں کوئی نسخ نہیں ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان صابح کا یہ کلام پریشان یخالی اور تناقض کی منہ بولتی تصویر ہے نیز امت کے سلف اور خلف سب کے اقوال کے دائرے سے خارج ہے۔ اس لئے کہ اہل تفسیر اور اہل روایت سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں ایک مسلمان پر دس کافروں کا مقابلہ فرض تھا۔ نیز یہ بھی واضح ہے کہ قول باری (ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مائتین اگرچہ الفاظ کے لحاظ سے جملہ خبر یہ ہے کہ لیکن معنی کے لحاظ سے یہ امر ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (والوالدات یرضعن اولادھن۔ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلائیں گی) نیز (والمطلقات یتربصن بانفسھن۔ اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں گی) زیر بحث آیات میں کسی امر کے وقوع پذیر ہوجانے کی خبر نہیں دی گئی ہے بلکہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلہ سے راہ فرار اختیار نہ کرے۔ اگر آیت میں صرف خبر کی حد تک بات ہوتی تو پھر قول باری (الان خفف اللہ عنکم) کے کوئی معنی نہ ہوتے۔ اس لئے کہ تخفیف کا عمل اس چیز میں ہوتا ہے جس کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو اس بات میں نہیں ہوتا جس کی خبر دی گئی ہو۔ نیز یہ بھی واضح ہے کہ وہ مسلمان جنہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ ایک آدمی دس مشرکوں کا مقابلہ کرے وہ سب قول باری (الان خفف اللہ عنکم و علم ان فیکم ضعفا) میں دالخ ہیں۔ اس لئے انہیں جس حکم کا پابند بنایا گیا تھا اس میں لامحالہ نسخ واقع ہوگیا حالانکہ ان حضرات کی بصیرت میں نہ تو کوئی کمی آئی تھی اور نہ یہ ان کے صبر کی قوت میں کوئی نقص پیدا ہوا تھا۔ بلکہ بات یہ ہوئی تھی کہ ان حضرات کے ساتھ ایسے لوگ آ ملے تھے جو اپنی دروں بینی اور اخلاص نیت کے لحاظ سے ان کے درجے پر نہیں تھے۔ یہی لوگ اس قول باری (و علم ان فیکم ضعفا) میں مراد ہیں۔ ہماری اس وضاحت کی روشنی میں نسخ کو تسلیم نہ کرنے والے صابح کا قول باطل ہوگیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان صاحب نے یہ تسلیم کیا ہے کہ دوسری آیت کی بنا پر صدر اول کے مسلمانوں کو جس حکم کا مکلف بنایا گیا تھا اس کا کچھ حصہ ساقط اور زائل ہوگیا ہے۔ نسخ کے بھی یہی معنی ہیں اس طرح ان صاحب نے نسخ کا اقرار کرلیا ہے۔ واللہ اعلم
(٦٦) غزوہ بدر کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم پر تخفیف کردی، اب تم اپنے سے دوگنے عدد پر غالب آسکتے ہو، اور جو لڑائی میں ثابت قدم رہیں اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے والا ہے۔
آیت ٦٦ (اَلْءٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا ط) ۔- یہ کس کمزوری کا ذکر ہے اور یہ کمزوری کیسے آئی ؟ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جہاں تک مہاجرین اور انصار میں سے ان صحابہ کرام (رض) کا تعلق ہے جو سابقون الاوّلُون میں سے تھے تو ان کے اندر (معاذ اللہ) کسی قسم کی بھی کوئی کمزوری نہیں تھی ‘ لیکن جو لوگ نئے مسلمان ہو رہے تھے ان کی تربیت ابھی اس انداز میں نہیں ہوپائی تھی جیسے پرانے لوگوں کی ہوئی تھی۔ ان کے دلوں میں ابھی ایمان پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا اور مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں ایسے نئے لوگوں کا تناسب روز بروز بڑھ رہا تھا۔ مثلاً اگر پہلے ہزار لوگوں میں پچاس یا سو نئے لوگ ہوں تو اب ان کی تعداد خاصی زیادہ ہوتی جا رہی تھی۔ لہٰذا اوسط کے اعتبار سے مسلمانوں کی صفوں میں پہلے کی نسبت اب کمزوری آگئی تھی۔- (فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا ماءَتَیْنِ ج) (وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط) اور اگر تم میں ایک ہزار ہوں گے تو وہ دو ہزار پر غالب آجائیں گے اللہ کے حکم سے۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :48 اس کا مطلب نہیں ہے کہ پہلے ایک اور دس کی نسبت تھی اور اب چونکہ تم میں کمزوری آگئی ہے اس لیے ایک اور دو کی نسبت قائم کر دی گئی ہے ۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اصولی اور معیاری حیثیت سے تو اہل ایمان اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت ہے ، لیکن چونکہ ابھی تم لوگوں کی اخلاقی تربیت مکمل نہیں ہوئی ہے اور ابھی تک تمہارا شعور اور تمہاری سمجھ بوجھ کا پیمانہ بلوغ کی حد کو نہیں پہنچا ہے اس لیے سردست برسبیلِ تنزل تم سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے سے دوگنی طاقت سے ٹکرانے میں تو تمہیں کوئی تامل نہ ہونا چاہیے ۔ خیال رہے کہ یہ ارشادسن۲ ھجری کا ہے جب کہ مسلمانوں میں بہت سے لوگ ابھی تازہ تازہ ہی داخلِ اسلام ہوئے تھے اور ان کی تربیت ابتدائی حالت میں تھی ۔ بعد میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں یہ لوگ پختگی کو پہنچ گئے تو فی الواقع ان کے اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت قائم ہوگئی ، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر عہد اور خلفائے راشدین کے زمانہ کی لڑائیوں میں بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے ۔
46: یہ حکم بعد میں آیا، اور اس نے یہ تخفیف کردی کہ اگر دُشمن کی تعداد مسلمانوں سے دگنی ہو تو پیچھے ہٹنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر تعداد اس سے زیادہ ہو تو پیچھے ہٹنے کی گنجائش ہے۔ اس طرح اس آیت نے اس حکم کی تفصیل بیان فرمادی ہے جو پیچھے آیت نمبر ۱۵و ۱۶ میں دیا گیا تھا۔