اسیران بدر اور مشورہ مسند امام احمد میں ہے کہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اللہ نے انہیں تمہارے قبضے میں دے دیا ہے بتاؤ کیا ارادہ ہے؟ حضرت عمر بن خطاب نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ ان کی گردنیں اڑا دی جائیں آپ نے ان سے منہ پھیر لیا پھر فرمایا اللہ نے تمہارے بس میں کر دیا ہے یہ کل تک تمہارے بھائی بند ہی تھے ۔ پھر حضرت عمر نے کھڑے ہو کر اپنا جواب دوہرایا آپ نے پھر منہ پھیر لیا اور پھر وہی فرمایا اب کی دفعہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رائے میں تو آپ ان کی خطا سے درگزر فرما لیجئے اور انہیں فدیہ لے کر آزاد کیجئے اب آپ کے چہرے سے غم کے آثار جاتے رہے عفو عام کر دیا اور فدیہ لے کر سب کو آزاد کر دیا اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری ۔ اسی صورت کے شروع میں ابن عباس کی روایت گذر چکی ہے صحیح مسلم میں بھی اسی جیسی حدیث ہے کہ بدر کے دن آپ نے دریافت فرمایا کہ ان قیدیوں کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے ہیں ، آپ والے ہیں انہیں زندہ چھوڑا جائے ان سے توبہ کرالی جائے گی عجب کہ کل اللہ کی ان پر مہربانی ہو جائے لیکن حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دینے والے ہیں حکم دیجئے کہ ان کی گردنیں ماری جائیں ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی میدان میں درخت بکثرت ہیں آگ لگوا دیجئے اور انہیں جلا دیجئے آپ خاموش ہو رہے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا اور اٹھ کر تشریف لے گئے لوگوں میں بھی ان تینوں بزرگوں کی رائے کا ساتھ دینے والے ہوگئے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائے اور فرمانے لگے بعض دل نرم ہوتے ہوتے دودھ سے بھی زیادہ نرم ہو جاتے ہیں اور بعض دل سخت ہوتے ہوتے پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں ۔ اے ابو بکر تمہاری مثال آنحضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی ہے کہ اللہ سے عرض کرتے ہیں کہ میرے تابعدار تو میرے ہیں ہی لیکن مخالف بھی تیری معافی اور بخشش کے ماتحت ہیں اور تمہاری مثال حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہے جو کہیں گے یا اللہ اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے اور اے عمر تمہاری مثال حضرت نوح علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم پر بددعا کی کہ یا اللہ زمین پر کسی کافر کو بستا ہوا باقی نہ رکھ ۔ سنو تمہیں اس وقت احتیاج ہے ان قیدیوں میں سے کوئی بھی بغیر فدیئے کے رہا نہ ہو ورنہ ان کی گردنیں ماری جائیں ۔ اس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سہیل بن بیضا کو اس سے مخصوص کر لیا جائے اس لیے وہ اسلام کا ذکر کیا کرتا تھا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے واللہ میں سارا دن خوف زدہ رہا کہ کہیں مجھ پر آسمان سے پتھر نہ برسائے جائیں یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مگر سہیل بن بیضا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے یہ حدیث ترمذی مسند احمد وغیرہ میں ہے ۔ ان قیدیوں میں عباس بھی تھے انہیں ایک انصاری نے گرفتار کیا تھا انصار کا خیال تھا کہ اسے قتل کر دیں آپ کو بھی یہ حال معلوم تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کو مجھے اس خیال سے نیند نہیں آئی ۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں انصار کے پاس جاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی حضرت عمر انصار کے پاس آئے اور کہا عباس کو چھوڑ دو انہوں نے جواب دیا واللہ ہم اسے نہ چھوریں آپ نے فرمایا گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی اسی میں ہو؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ اب انہیں لے جائیں ہم نے بخوشی چھوڑا ۔ اب حضرت عمر نے ان سے کہا کہ عباس اب ملسمان ہو جاؤ واللہ تمہارے اسلام لانے سے مجھے اپنے باپ کے اسلام لانے سے بھی زیادہ خوشی ہوگی اس لیے کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے اسلام لانے سے خوش ہو جائیں گے ان قیدیوں کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر سے مشورہ لیا تو آپ نے تو فرمایا یہ سب ہمارے ہی کنبے قبیلے کے لوگ ہیں انہیں چھوڑ دیجئے حضرت عمر سے جب مشورہ لیا تو آپ نے جواب دیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے ۔ آخر آپ نے فدیہ لے کر انہیں آزاد کیا ۔ حضرت علی فرماتے ہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ اپنے صحابہ کو اختیار دیجئے کہ وہ ان دو باتوں میں سے ایک کو پسند کرلیں اگر چاہیں تو فدیہ لے لیں اور اگر چاہیں تو ان قیدیوں کو قتل کر دیں لیکن یہ یاد رہے کہ فدیہ لینے کی صورت میں اگلے سال ان میں اتنے ہی شہید ہوں گے ۔ صحابہ نے کہا ہمیں یہ منطور ہے اور ہم فدیہ لے کر چھوڑیں گے ( ترمذی نسائی وغیرہ ) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے ۔ ان بدری قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے صحابیو اگر چاہو تو انہیں قتل کر دو اور اگر چاہو ان سے زر فدیہ وصول کر کے انہیں رہا کردو لیکن اس صورت میں اتنے ہی آدمی تمہارے شہید کئے جائیں گے ۔ پس ان ستر شہیدوں میں سب سے آخر حضرت ثاب بین قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے رضی اللہ عنہ ، یہ روایت حضرت عبیدہ سے مرسلا بھی مروی ہے واللہ اعلم ۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کی کتاب میں تمہارے لیے مال غنیمت سے حلال نہ لکھا ہوا ہوتا اور جب تک ہم بیان نہ فرما دیں تب تک عذاب نہیں کیا کرتے ایسادستور ہمارا نہ ہوتا تو جو مال فدیہ تم نے لیا اس پر تمہیں بڑا بھاری عذاب ہوتا اسی طرح پہلے سے اللہ طے کر چکا ہے کہ کسی بدری صحابی کو وہ عذاب نہیں کرے گا ۔ ان کے لیے مغفرت کی تحریر ہو چکی ہے ۔ ام الکتاب میں تمہارے لیے مال غنیمت کی حلت لکھی جا چکی ہے ۔ پس مال غنیمت تمہارے لیے حلال طیب ہے شوق سے کھاؤ پیو اور اپنے کام میں لاؤ ۔ پہلے لکھا جا چکا تھا کہ اس امت کے لیے یہ حلال ہے یہی قول امام ابن جریر کا پسندیدہ ہے اور اسی کی شہادت بخاری مسلم کی حدیث سے ملتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں مہینے بھر کے فاصلے تک میری مدد رعب سے کی گئی ۔ میرے لیے پوری زمین مسجد پاکی اور نماز کی جگہ بنا دی گئی مجھ پر غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہ تھیں ، مجھے شفاعت عطا فرمائی گئی ہر نبی خاصتہ اپنی قوم کی طرف ہی بھیجا جاتا تھا لیکن میں عام لوگوں کی طرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی سیاہ سر والے انسان کے لیے میرے سوا غنیمت حلال نہیں کی گئی ۔ پس صحابہ نے ان بدری قیدیوں سے فدیہ لیا اور ابو داؤد میں ہے ہر ایک سے چار سو کی رقم بطور تاوان جنگ کے وصول کی گئی ۔ پس جمہور علماء کرام کا مذہب یہ ہے کہ امام وقت کو اختیار ہے کہ اگر چاہے قیدی کفار کو قتل کر دے ، جیسے بنو قریضہ کے قدیوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ۔ اگر چاہے بدلے کا مال لے کر انہیں چھوڑ دے جیسے کہ بدری قیدیوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا یا مسلمان قیدیوں کے بدلے چھوڑ دے جیسے کہ حضور اللہ علیہ والہ وسلم نے قبیلہ سلمہ بن اکوع کی ایک عورت اس کی لڑکی مشرکوں کے پاس جو مسلمان قیدی تھے ان کے بدلے میں دیا اور اگر چاہے انہیں غلام بنا کر رکھے ۔ یہی مذہب امام شافعی کا اور علماء کرام کی ایک جماعت کا ہے ۔ گو اوروں نے اس کا خلاف بھی کیا ہے یہاں اسکی تفصیل کی جگہ نہیں ۔
67۔ 1 جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنا لئے گئے، یہ کفر و اسلام کا چونکہ پہلا معرکہ تھا۔ اس لئے قیدیوں کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کیا جائے ؟ ان کی بابت احکام پوری طرح واضح نہیں تھے چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان ستر قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے ؟ ان کو قتل کردیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے ؟ جواز کی حد تک دونوں ہی باتوں کی گنجائش تھی۔ اس لئے دونوں ہی باتیں زیر غور آئیں۔ لیکن بعض دفعہ جواز اور عدم جواز سے قطع نظر حالات و ظروف کے اعتبار سے زیادہ بہتر صورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جواز کو سامنے رکھتے ہوئے کم تر صورت اختیار کرلی گئی، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب نازل ہوا۔ مشورے میں حضرت عمر وغیرہ نے مشورہ دیا کہ کفر کی قوت و شوکت توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے، کیونکہ یہ کفر اور کافروں کے سرغنے ہیں، یہ آزاد ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زیادہ سازشیں کریں گے۔ جبکہ حضرت ابوبکر کی رائے اس سے برعکس تھی کہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے اور اس مال سے آئندہ جنگ کی تیاری کی جائے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اسی رائے کو پسند فرمایا جس پر یہ اور اس کے بعد کی آیات نازل ہوئیں۔ جب کفر کا غلبہ ختم ہوگیا تو قیدیوں کے بارے میں امام وقت کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ چاہے تو قتل کردے، فدیہ لے کر چھوڑ دے یا مسلمان قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کرلے اور چاہے تو ان کو غلام بنا لے، حالات کے مطابق کوئی بھی صورت اختیار کرنا جائز ہے۔
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي : کسی نبی کے لیے جائز نہیں کہ وہ قیدی بنائے، پھر انھیں قید رکھے یا احسان کرے یا فدیہ لے، جب تک میدان جنگ میں خوب خون ریزی کے بعد کفر کی کمر نہ ٹوٹ جائے اور وہ دوبارہ مقابلے کے قابل نہ رہ جائیں، اس کے بعد قیدی بنانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن مسلمانو تم نے بدر میں قیدی بنانے میں جلدی سے کام لیا، تم فدیے کی صورت میں دنیا کا سامان چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اعلائے کلمۃ اللہ کے ذریعے سے آخرت کے ثواب کا ارادہ رکھتا تھا اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے، تمہارا یہ عمل عزت و حکمت کے مطابق نہیں۔ دوسری جگہ فرمایا : (فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۭ حَتّىٰٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ) [ محمد : ٤ ] ” تو جب ان لوگوں سے ملو جنھوں نے کفر کیا تو گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب انھیں خوب قتل کر چکو تو (ان کو) مضبوط باندھ لو۔ “ - سن ٢ ہجری غزوۂ بدر میں قیدی بنانے میں عجلت کے بعد دوسری فر و گزاشت یہ ہوئی کہ قیدیوں کا فیصلہ اس وقت کے حالات کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا، کیونکہ اس وقت فدیہ لینے کے بجائے انھیں قتل کرنے سے کفر کی کمر مزید ٹوٹتی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمیت تمام مسلمانوں پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ (جنگ بدر میں) جب قیدی گرفتار کرلیے گئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر اور عمر (رض) سے مشورہ فرمایا کہ ان قیدیوں کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟ ابوبکر (رض) نے کہا : ” اے اللہ کے نبی یہ ہمارے چچا زاد بھائی اور خاندان ہی کے لوگ ہیں، سو میری رائے تو یہ ہے کہ ان سے فدیہ لے لیا جائے، تاکہ ( اس رقم سے) کفار کے مقابلے میں قوت حاصل ہو اور کیا عجب کہ اللہ انھیں اسلام کی ہدایت دے دے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے ابن خطاب تمہاری کیا رائے ہے ؟ “ عمر (رض) فرماتے ہیں : ” میں نے کہا، اے اللہ کے رسول میری رائے ابوبکر کی رائے کے مطابق نہیں ہے، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کیجیے، تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔ عقیل کو علی کے حوالے کیجیے، تاکہ وہ اس کی گردن اڑائیں اور میرے حوالے فلاں کو کیجیے، تاکہ میں اس کی گردن اڑاؤں، اس لیے کہ یہ لوگ کفر کے سرغنے اور اس کے سردار ہیں۔ ( اکثر مسلمانوں کی رائے ابوبکر (رض) کی رائے کے مطابق تھی، کچھ مالی فائدے کے پیش نظر اور کچھ انسانی اور رشتہ داری کی محبت کی وجہ سے) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کی رائے اختیار فرمائی اور میری رائے اختیار نہیں کی، پھر جب دوسرے دن کی صبح ہوئی، میں آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) بیٹھے رو رہے ہیں۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول مجھے بھی بتائیے آپ اور آپ کے دوست کیوں رو رہے ہیں، تاکہ اگر مجھے رونا آئے تو میں بھی روؤں، ورنہ کم از کم آپ دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے والی صورت ہی بنا لوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں اس فیصلے کے مشورے کی وجہ سے رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے قیدیوں سے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے متعلق دیا تھا، اب میرے سامنے ان کا عذاب پیش کیا گیا جو اس درخت سے بھی قریب تھا۔ “ اور آپ کے قریب ایک درخت تھا۔ “ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : (مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ) [ الأنفال : ٦٧ تا ٦٩ ] [ مسلم، الجہاد، باب الإمداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر ۔۔ : ١٧٦٣ ] علی (رض) فرماتے ہیں کہ جبریل (علیہ السلام) اترے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اپنے ساتھیوں کو بدر کے قیدیوں کے متعلق اختیار دیں کہ انھیں قتل کردیں یا فدیہ لے لیں، اس شرط پر کہ ان میں سے آئندہ اتنے ہی قتل کیے جائیں گے۔ انھوں نے فدیہ لینا اور آئندہ اپنے آدمیوں کی شہادت اختیار کی۔ [ ترمذی، السیر، باب ما جاء فی قتل الأساری و الفداء : ١٥٦٧ وقال الألبانی صحیح ] یہ صورت چونکہ بہتر نہ تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس پر عتاب فرمایا۔
خلاصہ تفسیر - (اے مسلمانو تم نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو ان قیدیوں سے کچھ لے کر چھوڑ دینے کا مشورہ دیا یہ بےجا تھا کیونکہ) نبی کی شان کے لائق نہیں کہ ان کے قیدی باقی رہیں (بلکہ قتل کردیئے جائیں) جب تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح (کفار کی) خونریزی نہ کرلیں (کیونکہ مشروعیت جہاد کی اصلی غرض دفع فساد ہے اور بدوں اس حد کے جس میں کہ بالکل شوکت کفار کی ٹوٹ جائے دفع فساد ممکن نہیں پس اس نوبت سے پہلے قیدیوں کا زندہ چھوڑ دینا آپ کی شان اصلاح کے مناسب نہیں البتہ جب ایسی قوت ہوجائے پھر قتل ضروری نہیں بلکہ اور صورتیں بھی مشروع ہیں پس ایسی نامناسب رائے تم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیوں دی) تم تو دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہو (اس لئے فدیہ کی رائے دی) اور اللہ تعالیٰ آخرت (کی مصلحت) کو چاہتے ہیں (اور وہ اس میں ہے کہ کفار خوف سے مغلوب ہوجائیں جس میں آزادی سے اسلام کا نور و ہدایت پھیلے اور بےروک ٹوک لوگ بکثرت مسلمان ہوں اور نجات پاویں) اور اللہ تعالیٰ بڑے زبردست بڑی حکمت والے ہیں (وہ تم کو کفار پر غالب کرتے اور فتوحات کی کثرت سے تم کو مالدار کردیتے گو کسی حکمت کے سبب اس میں دیر ہوتی جو فعل تم سے واقع ہوا ہے وہ ایسا ناپسندیدہ ہے کہ) اگر اللہ تعالیٰ کا ایک نوشتہ مقدر نہ ہوچکتا (وہ یہ کہ ان قیدیوں میں لوگ مسلمان ہوجائیں گے جس سے فساد محتمل واقع نہ ہوگا۔ اگر یہ ہوتا) تو جو امر تم نے اختیار کیا ہے اس کے بارے میں تم پر کوئی بڑی سزا واقع ہوتی (لیکن چونکہ کوئی فساد نہ ہوا اور اتفاقا تمہارا مشورہ صائب نکل آیا اس لئے تم سزا سے بچ گئے یعنی ہم نے اس فدیہ کو مباح کردیا) سو جو کچھ تم نے (ان سے فدیہ میں) لیا ہے اس کو حلال پاک سمجھ کر کھاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ( کہ آئندہ ہر طرح کی احتیاط رکھو) بیشک اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بڑی رحمت والے ہیں (کہ تمہارا گناہ بھی معاف کردیا یہ مغفرت ہے اور فدیہ بھی حلال کردیا یہ رحمت ہے) ۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ کا تعلق غزوہ بدر کے ایک خاص واقعہ سے ہے اس لئے ان کی تفسیر سے پہلے صحیح اور مستند روایات حدیث کے ذریعہ اس واقعہ کا بیان ضروری ہے۔- واقعہ یہ ہے کہ غزوہ بدر اسلام میں سب سے پہلا جہاد ہے اور اچانک پیش آیا ہے اس وقت تک جہاد سے متعلقہ احکام کی تفصیل قرآن میں نازل نہیں ہوئی تھی جہاد میں اگر مال غنیمت ہاتھ آجائے تو اسے کیا کیا جائے۔ دشمن کے سپاہی اپنے قبضہ میں آجائیں تو ان کو گرفتار کرنا جائز ہے یا نہیں اور گرفتار کرلیا جائے تو پھر ان کے ساتھ معاملہ کیا کرنا چاہئے۔- مال غنیمت کے متعلق پچھلے تمام انبیاء کی شریعتوں میں قانون یہ تھا کہ مسلمانوں کو اس سے نفع اٹھانا اور استعمال کرنا حلال نہیں تھا بلکہ حکم یہ تھا کہ پورا مال غنیمت جمع کرکے کسی میدان میں رکھ دیا جائے اور دستور الہی یہ تھا کہ آسمان سے ایک آگ آتی اور اس سارے مال کو جلا کر خاک کردیتی۔ یہی علامت اس جہاد کے مقبول ہونے کی سمجھی جاتی تھی۔ اگر مال غنیمت کو جلانے کے لئے آسمانی آگ نہ آئے تو یہ اس کی علامت ہوتی ہے کہ جہاد میں کوئی کوتاہی رہی ہے جس کے سبب وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں۔- صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطاء کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کفار سے حاصل ہونے والے مال غنیمت کسی کے لئے حلال نہیں تھا مگر امت مرحومہ کے لئے حلال کردیا گیا۔ مال غنیمت کا اس امت کے لئے خصوصی طور پر حلال ہونا اللہ تعالیٰ کے تو علم میں تھا مگر غزوہ بدر کے واقعہ تک اس کے متعلق کوئی وحی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کے حلال ہونے کے متعلق نازل نہیں ہوئی تھی۔ اور غزوہ بدر میں صورت حال یہ پیش آئی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بالکل خلاف قیاس غیر معمولی فتح عطا فرمائی۔ دشمن نے مال بھی چھوڑا جو بطور غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا اور ان کے بڑے بڑے ستر (70) سردار مسلمانوں نے گرفتار کرلئے۔ مگر ان دونوں چیزوں کے جائز ہونے کی صراحت کسی وحی الہی کے ذریعہ ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔- اس لئے صحابہ کرام کے اس عاجلانہ اقدام پر عتاب نازل ہوا۔ اسی عتاب و نازاضی کا اظہار ایک وحی کے ذریعہ کیا گیا جس میں جنگی قیدیوں کے متعلق بظاہر تو مسلمانوں کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تھا مگر اسی اختیار دینے میں ایک اشارہ اس کی طرف کردیا گیا تھا کہ مسئلہ کے دونوں پہلوؤں میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک پسندیدہ اور دوسرا ناپسندیدہ ہے۔ جامع ترمذی، سنن نسائی، صحیح ابن حبان میں بروایت علی مرتضی منقول ہے کہ اس موقع پر حضرت جبریل امین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ اور یہ حکم سنایا کہ آپ صحابہ کرام کو دو چیزوں میں اختیار دے دیجئے ایک یہ کہ ان قیدیوں کو قتل کرکے دشمن کی شوکت کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیں۔ دوسرے یہ کہ ان کو فدیہ یعنی کچھ مال لے کر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن اس دوسری صورت میں بامر الہی یہ طے شدہ ہے اس کے بدلہ آئندہ سال مسلمانوں کے اتنے ہی آدمی شہید ہوں گے جتنے قیدی آج مال لے کر چھوڑ دیئے جائیں گے۔ یہ صورت اگرچہ تخییر کی تھی اور صحابہ کرام کو دونوں چیزوں کا اختیار دے دیا گیا تھا مگر دوسری صورت میں ستر مسلمانوں کی شہادت کا فیصلہ ذکر کرنے میں اس طرف ایک خفیف اشارہ ضرور موجود تھا کہ یہ صورت اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسند نہیں کیونکہ اگر یہ پسند ہوتی تو ستر مسلمانوں کا خون اس کے نتیجہ میں لازم نہ ہوتا۔- صحابہ کرام کے سامنے جب یہ دونوں صورتیں بطور اختیار کے پیش ہوئیں تو بعض صحابہ کرام کا خیال یہ ہوا کہ اگر ان لوگوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا تو بہت ممکن ہے کہ یہ سب یا بعض کسی وقت مسلمان ہوجائیں جو اصلی فائدہ اور مقصد جہاد ہے۔ دوسرا یہ بھی خیال تھا کہ مسلمان اس وقت افلاس کی حالت میں ہیں اگر ستر آدمیوں کا مالی فدیہ ان کو مل گیا تو ان کی تکلیف بھی دور ہوگی اور آئندہ کے لئے جہاد کی تیاری میں بھی مدد مل جائے گی۔ رہا ستر مسلمانوں کا شہید ہونا سو وہ مسلمانوں کے لئے خود ایک نعمت وسعادت ہے اس سے گبھرانا نہیں چاہئے۔ ان خیالات کے پیش نظر صدیق اکبر (رض) اور اکثر صحابہ کرام نے یہی رائے دی کہ ان قیدیوں کو فدیہ لے کر آزاد کردیا جائے۔ صرف حضرت عمر بن خطاب اور سعد بن معاذ وغیرہ چند حضرات نے اس رائے سے اختلاف کرکے ان سب کو قتل کردینے کی رائے اس بنیاد پر دی کہ یہ حسن اتفاق ہے کہ اسلام کے مقابلہ میں قوت و طاقت فراہم کرنے والے سارے قریشی سردار اس وقت قابو میں آگئے ہیں ان کا قبول اسلام تو موہوم خیال ہے مگر یہ گمان غالب ہے کہ یہ لوگ واپس ہو کر پہلے سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف سرگرمی کا سبب بنیں گے۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رحمۃ للعالمین ہو کر تشریف لائے تھے اور رحمت مجسم تھے صحابہ کرام کی دو رائیں دیکھ کر آپ نے اس رائے کو قبول کرلیا جس میں قیدیوں کے معاملہ میں رحمت اور سہولت تھی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ آپ نے صدیق اکبر اور فاروق اعظم کو خطاب کرکے فرمایا لو اتفقتما ما خالفتکما یعنی اگر دونوں کسی ایک رائے پر متفق ہوجاتے تو میں تمہاری رائے کے خلاف نہ کرتا ( مظہری) ۔ اختلاف رائے کے وقت آپ کی رحمت و شفقت علی الخلق کا تقاضا یہی ہوا کہ ان کے معاملے میں آسانی اختیار کی جائے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا اور اس کے نتیجہ میں آئندہ سال غزوہ احد کے موقع پر اشارات ربانی کے مطابق ستر مسلمانوں کے شہید ہونے کا واقعہ پیش آیا۔- (آیت) تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا میں ان صحابہ کرام کو خطاب ہے جنہوں نے فدیہ لے کر چھوڑنے کی رائے دی تھی۔ اس آیت میں بتلایا گیا کہ آپ حضرات نے ہمارے رسول کو نامناسب مشورہ دیا۔ کیونکہ کسی نبی کے لئے یہ شایان شان نہیں ہے کہ اس کو دشمنوں پر قابو مل جائے تو ان کی قوت و شوکت کو نہ توڑے اور مفسد قسم کے دشمن کو باقی رکھ کر مسلمانوں کے لئے ہمیشہ کی مصیبت قائم کردے۔- اس آیت میں (آیت) حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ کے الفاظ آئے ہیں۔ لفظ اثخان کے معنی لغت میں کسی کی قوت و شوکت کو توڑنے میں مبالغہ سے کام لینے کے ہیں۔ اسی معنی کی تاکید کے لئے لفظ فِي الْاَرْضِ لایا گیا جس کا حاصل یہ ہے کہ دشمن کی شوکت کو خاک میں ملادے۔- جن صحابہ کرام نے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کی رائے دی تھی اگرچہ ان کی رائے میں ایک جز خالص دینی تھا یعنی آزادی کے بعد ان لوگوں کے مسلمان ہوجانے کی امید۔ مگر ساتھ ہی دوسرا جز اپنی ذاتی منفعت کا بھی تھا کہ ان کو مال ہاتھ آجائے گا۔ اور ابھی تک کسی نص صریح سے اس مال کا جائز ہونا بھی ثابت نہ تھا۔ اس لئے انسانوں کا وہ معاشرہ جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زیر تربیت اس پیمانہ پر بنایا جارہا تھا کہ ان کا مرتبہ فرشتوں سے بھی آگے ہو اس کے لئے یہ مال کی طرف دھیان بھی ایک قسم کی معصیت سمجھی گئی۔ اور جو کام جائز و ناجائز کاموں سے مرکب ہو اس کا مجموعہ ناجائز ہی کہلاتا ہے اس لئے صحابہ کرام کا یہ عمل قابل عتاب قرار دے کر یہ ارشاد نازل ہوا۔- (آیت) تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ یعنی تم لوگ دنیا کو چاہتے ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ تم سے یہ چاہتا ہے کہ تم آخرت کے طالب بنو۔ یہاں بطور عتاب کے ان کے صرف اس فعل کا ذکر کیا گیا جو وجہ ناراضی تھا دوسرا سبب یعنی قیدیوں کے مسلمان ہوجانے کی امید۔ اس کا یہاں ذکر نہیں فرمایا۔ جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ صحابہ کرام جیسی پاکباز مخلص جماعت کے لئے ایسی مشترک نیت جس میں کچھ دین کا جز ہو کچھ اپنے دنیوی نفع کا یہ بھی قابل قبول نہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اس آیت میں عتاب و تنبیہ کا خطاب صحابہ کرام کی طرف ہے اگرچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان کی رائے کو قبول فرما کر ایک گونہ شرکت ان کے ساتھ کرلی تھی مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ عمل خالص آپ کے رحمة للعالمین ہونے کا مظہر تھا کہ صحابہ میں اختلاف رائے ہونے کی صورت میں اس صورت کو اختیار فرمالیا جو قیدیوں کے حق میں سہولت و شفقت کی تھی۔- آخر آیت میں واللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ زبردست، حکمت والے ہیں اگر آپ لوگ جلد بازی نہ کرتے تو وہ اپنے فضل سے آئندہ فتوحات میں تمہارے لئے مال و دولت کا بھی سامان کردیتے۔
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ٠ ۭ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ٠ ۤۖ وَاللہُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ ٠ ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ٦٧- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- أسر - الأَسْر : الشدّ بالقید، من قولهم : أسرت القتب، وسمّي الأسير بذلک، ثم قيل لكلّ مأخوذٍ ومقيّد وإن لم يكن مشدوداً ذلك «1» . وقیل في جمعه : أَسَارَى وأُسَارَى وأَسْرَى، وقال تعالی: وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] .- ويتجوّز به فيقال : أنا أسير نعمتک، وأُسْرَة الرجل : من يتقوّى به . قال تعالی: وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] إشارة إلى حکمته تعالیٰ في تراکيب الإنسان المأمور بتأمّلها وتدبّرها في قوله تعالی: وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ [ الذاریات 21] . والأَسْر : احتباس البول، ورجل مَأْسُور : أصابه أسر، كأنه سدّ منفذ بوله، والأسر في البول کالحصر في الغائط .- ( ا س ر ) الاسر کے معنی قید میں جکڑ لینے کے ہیں ۔ یہ اسرت القتب سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں میں نے پالان کو مضبوطی سے باندھ دیا اور قیدی کو اسیر اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ رسی وغیرہ سے باندھا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :َ وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ( سورة الإِنْسان 8) اور یتیموں اور قیدیوں کو ۔ پھر اس شخص کو جو گرفتار اور مقید ہوکر آئے الاسیر کہہ دیا جاتا ہے گو وہ باندھا ہوا نہ ہوا سیر کی جمع اسارٰی و اساریٰ واسریٰ ہے اور مجازا ۔ انا اسیر نعمتک کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی تیرے احسان کی رسی میں بندھا ہوا ہوں ۔ اور اسرۃ الرجل کے معنی افراد خادندان کے ہیں جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ ( سورة الإِنْسان 28) اور ان کی بندش کو مضبوطی سے باندھ دیا ۔ میں اس حکمت الہی کی طرف اشارہ ہے جو انسان کی بئیت ترکیبی میں پائی جاتی ہے جس پر کہ آیت وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ( سورة الذاریات 21) میں غور فکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ الاسر ۔ کے معنی ہیں پیشاب بند ہوجانا ۔ اور جو شخص اس بماری میں مبتلا ہوا سے عاسور کہا جاتا ہے گو یا اس کی پیشاب کی نالی بند کردی گئی ہے اس کے مقابلہ میں پاخانہ کی بندش پر حصر کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- ثخن - يقال ثَخُنَ الشیء فهو ثَخِين : إذا غلظ فلم يسل، ولم يستمر في ذهابه، ومنه استعیر قولهم :- أَثْخَنْتُهُ ضربا واستخفافا . قال اللہ تعالی: ما کان لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ [ الأنفال 67] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] .- ( ث خ ن ) ثخن ( ک ) الشیئء کے معنی ہیں کسی چیز کا گاڑھا ہوجانا اس طرح کہ بہنے سے رک جائے اسی سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ میں نے اسے اتنا پیٹا کہ وہ اپنے مقام سے حرکت نہ کرسکا قرآن میں ہے : ۔ ما کان لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ [ الأنفال 67] پیغمبر کو شایاں نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک ( کافروں کو قتل کرکے ) زمین میں کثرت سے خون ( نہ ) بہا دے ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑلئے جائیں ان کو ) مضبوطی سے قید کرلو ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - عرض - أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] ،- ( ع ر ض ) العرض - اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ - دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
قیدیوں کا بیان - قول باری ہے (ما کان لبنی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض کسی نبی کے لئے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پسا قیدی ہوں جب تک وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے۔- فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دینا - ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن حنبل نے، انہیں ابونوح نے، انہیں عکرمہ بن عمار نے، انہیں سماک الحنفی نے، انہیں حضرت ابن عباس نے، انہیں حضرت عمر (رض) نے کہ جب بدر کا معرکہ پیش آیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیدیوں کا فدیہ قبول کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت نازل فرمائی تا قول باری (لمسکم فیما اخذتم تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کی پاداش میں تمہیں بڑی سزا دی تھی) یعنی جو فدیہ تم نے لیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے غنائم کو حلال کردیا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں بشر بن موسیٰ نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے، انہیں ابولاحوص نے اعمش سے، انہوں نے ابو صالح سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ معرکہ بدر کے دن مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مال غنیمت اکٹھا کرلیا اس چیز پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ تمسے پہلے سیاہ سروں والی کسی قوم کے لئے ما لغنیمت حلال نہیں تھا۔ جب کوئی نبی اور اس کے رفقاء مال غنیمت حاصل کرتے تو اسے ایک جگہ ڈھیر کردیتے، آسمان سے ایک آگ اترتی اور اسے کھا جاتی “ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (لولا کتاب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم فکلوا مما غنمتم حلالا طیبا۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔ پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھائو کہ وہ پاک اور حلال ہے۔- اسیران بدر کے بارے میں مشورے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان - اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی ہے۔ اعمش نے عمرو بن مرہ سے روایت کی ہے۔ انہوں نے ابو عبیدہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ (رح) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے معرکہ میں ہاتھ آنے والے قیدیوں کے متعلق حضرات صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ان پر رحم کرنے کا مشورہ دیا جبکہ حضرت عمر (رض) نے ان کی گردنیں اڑا دینے کا اور حضرت عبداللہ بن رواحہ نے انہیں آگ میں جلا دینے کا مشورہ دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) سے مخاطب ہو کر فرمایا : ابوبکر (رض) تمہاری مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کیا تھا (فمن تبعنی فانہ منی و من عصانی فانک غفور رحیم۔ جو شخص میری پیروی کرے اس کا تعلق مجھ سے ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے گا تو تو غفور رحیم ہے) اسی طرح تمہاری مثال حضرت عیسیٰ جیسی ہے، انہوں نے اپنے رب سے عرض کیا تھا۔ (ان تعذبھم فانھم عبادک و ان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم۔ اگر تو انہیں عذاب دے گا تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف کر دے گا تو تو بڑا زبردست اور حکمت والا ہے) ۔- پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) سے مخاطب ہو کر فرمایا : ” عمر (رض) تمہاری مثال حضرت نوح (علیہ السلام) جیسی ہے۔ انہوں نے اپنے رب سے عرض کیا تھا (رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا۔ اے میرے پروردگار زمین پر کافروں میں سے ایک بھی باشندہ زندہ نہ چھوڑ) نیز تمہاری مثال حضرت موسیٰ جیسی ہے، انہوں نے اپنے پروردگار سے عرض کیا تھا (ربنا اطمس علی اموالھم۔ اے ہمارے رب، ان فرعونیوں کا مال و اسباب تباہ کر دے) تا آخر آیت “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام صحابہ (رض) سے مخاطب ہو کر فرمایا (انتم عالۃ فلا ینفلتن منھما احد الا لفداء او ضربۃ عنق۔ تم سب لوگ تنگدست ہو اس لئے ان قیدیوں میں سے کوئی شخص فدیہ ادا کئے بغیر جانے نہ پائے یا اس کی گردن مار دی جائے) یہاں حضرت ابن مسعود (رض) نے بات کاٹتے ہوئے عرض کیا : سہیل بن بیضاء کے سوا، اس لئے کہ اس نے اسلام لانے کا ذکر کیا ہے “۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے پھر فرمایا : سہیل بن بیضا، کے سوا ‘’ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ دو آیتیں نازل فرمائیں (ما کان لنبی ان یکون لہ اسری) تا آخر آیتین۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احساس ذمہ داری - حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں حضرت ابوبکر (رض) ، حرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) سے مشورہ طلب کیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فدیہلے کر چھوڑ دینے اور حضرت عمر (رض) نے ان کی گردنیں اڑا دینے کا مشورہ دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کے مشورے کی طرف اپنے رجحان کا اظہار فرمایا۔ حضرت عمر (رض) کے شمورے کی طرف مائل نہ ہوئے۔ جب میں دوسرے دن صبح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) دونوں بیٹھے رو رہے ہیں۔ میں نے گھبرا کر رونے کی وجہ دریافت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرے رونے کی وجہ وہ مشورہ ہے جو ان قیدیوں سے فدیہ لینے کے متعلق تمہارے ساتھیوں نے مجھے دیا تھا۔ با اس سلسلے میں تم پر اللہ کی طرف سے جو سزا میرے سامنے پیش کی گئی ہے وہ اس درخت سے بھی زیادہ قریب ہے۔ ‘ ذ یہ فرماتے ہوئے آپ نے پاس ہی ایک درخت یک طرف اشارہ کیا۔ پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے (ما کان لنبی ان یکون لہ اسریٰ حتیٰ یثخن فی الارض) تا آخر آیت “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) کی پہلی روایت اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی مذکورہ روایت میں یہ بیان ہوا کہ قول باری (لو لا کتاب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم) کا نزول غنائم لینے کی بنا پر ہوا جبکہ حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت اور حضرت ابن عباس کی روایت میں یہ ذکر ہوا کہ وعید کا سبب یہ تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام کی طرف سے قیدیوں سے فدیہ لینے کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن پہلی بات آیت کے معنی کے زیادہ مناسب ہے اس لئے کہ ارشاد ہوا (لمستکم فیما اخذتم) یہ نہیں فرمایا کہ لمسم فیما عرضتم واشرتم۔ یعنی جو تم نے پیش کیا اور جس کا تم نے مشورہ دیا اس کی بنا پر تمہیں عذاب عظیم دیا جاتا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی محال ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی قول پر وعید کا ذکر کیا جائے اس لئے کہ آپ اپنی مرضی سے کوئی بات زبان پر نہیں لاتے تھے جو بات آپ کی زبان مبارک سے نکلتی وہ اللہ یک طرف سے بھیجی ہوئی وحی ہوتی۔- بعض لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کے لئے سا بات کے جواز کے قائل ہیں کہ آپ اپنی رائے اور اجتہاد کی بنا پر کوئی بات کہہ سکتے ہیں۔ یہاں پر یہ کہنا بھی درست ہے کہ آپ نے مسلمانوں کے لئے فدیہ لینے کی اباحت کردی تھی جو ایک معصیت صغیرہ تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ سے اور تمام مسلمانوں سے اپنی ناراضی کا اظہار فرمایا۔ اس بحث کی ابتدا میں مذکورہ روایت کے اندر یہ بیان ہوچکا ہے کہ مال غنیمت ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل کسی نبی کے لئے حلال نہیں تھا۔ آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے ارشاد ہے (ما کان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض) انبیائے سابقین کی شریعتوں میں غنام کی تحریم تھی اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یک شریعت میں بھی اس کی تحریم تھی جب تک زمین میں کفر کی طاقت کو کچل نہ دیا جاتا۔ ظاہر آیت اس بات کی مقتضی ہے کہ کفر کی طاقت کو کچل دینے کے بعد غنائم لینے اور قیدیوں کو پکڑنے کی اباحت ہوتی، بدر کے دن مسلمانوں کو مشرکین کو تہ تیغ کرنے کا حکم دیا گیا تھا چناچہ ارشاد ہے (ناضربوا فوق الاعناق واضربو منھم کل بنان پس تم ان لوگوں کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگائو) دوسری آیت میں فرمایا (فاذا یقتم الذین کفروا فضرب الرقاب حتیٰ اذا اثختنموھم فشدوا الوثاق۔ جب تمہارا مقابلہ کافروں سے ہوجائے تو ان کی گردنیں مارتے چلو یہاں تک کہ جب ان کی خوب خونیریز کر چکو تو خوب مضبوطباندھ لو) اس وقت جو بات فرض تھی وہ یہ تھی کہ مشرکین کو تہتینہ کیا جائے حتیٰ کہ جب انہیں کچل دیا جائے تو پھر فدیہ لینے کی اباحت تھی۔ مشرکین ک تہ تیغ کرنے سے پہلے اور ان کی طاقت کچل ڈالنے سے قبل فدیہ لینے کی ممانعت تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام نے بدر کے دن مال غنیمت اکٹھا کرلیا تھا، قیدی پکڑ لئے تھے اور ان سے فدیہ کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا یہ فعل اللہ کے حکم کے مطابق نہ تھا جو اس سلسلے میں اللہ نے انہیں دیا تھا اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان سے پاین ناراضی کا اظہار کیا۔ اصحاب سیر اور غزوات کے راویوں کا اس پر اتفاق ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بعد ان سے فدیہ لیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی فدیہ دیئے بغیر جانے نہ پائے یا اس کی گردن اتار دی جائے۔ یہ بات اس کی موجب ہے کہ قیدیوں کو پکڑنے اور ان سے فدیہ وصول کرنے کی ممانعت، جس کا ذکر اس آیت (ما کان لنبی ان یکون لہ اسری) میں ہوا ہے اس قول باری (لو لا کتب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب الیم) کی بناء پر منسوخ ہوچکی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فدیہ لیا تھا۔ - اگر یہ کہا جائے کہ اس حکم کا منسوخ ہونا کس طرح درست ہوسکتا ہے جب کہ اسی حکم کی خلاف ورزی پر اللہ کی طرف سے ناراضی کا اظہار ہوا تھا۔ ایک ہی چیز میں اباحت اور ممانعت دونوں کا وقوع ممتنع ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ غنائم لینے اور قیدیوں کو پکڑنے کا عمل بنیادی طور پر اس وقت وقوع پذیر وہا تھا جب اس کی ممانعت تھی۔ اس لئے جو کچھ انہوں نے لیا تھا اس کے یہ مالک نہیں بنے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی اباحت کردی اور لی ہوئی چیزوں پر ان کی ملکیت کی توثیق کردی اس لئے بعد میں جس عمل کی اباحت کردی گئی تھی وہ اس سے مختلف تھا جس کی پہلے ممانعت کی گئی تھی۔ اس لئے ایک ہی چیز میں اباحت اور ممانعت دونوں کا وقوع لازم نہیں آیا۔ قول باری (لو لا کتاب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم) کی تفسیر میں اختلاف رائے ہے۔ ابورمیل نے حرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مسلمانوں کے لئے اللہ کی رحمت ان کی جانب سے معصیت کے ارتکاب سے قبل سبقت کرگئی تھی۔ “ حسن سے بھی ایک روایت کے مطابق یہی قول منقول ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں حضرات کی رائے میں یہ معصیت صغیرہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے کبائر سے اجتناب کی صورت میں معصیت صغیرہ کو معاف کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات مسلمانوں کے حق میں اس وقت لکھ دی تھی جب کہ ابھی انہوں نے معصیت صغیرہ کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ حسن بصری سے ایک اور روایت کے مطابق نیز مجاہد سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو مال غنیمت کھلانے والا تھا لیکن مسلمانوں نے مال غنیمت کی حلت سے پہلے ہی بدر کے موقع پر اسے سمیٹنے کی غلطی کرلی تھی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کہ مستقبل میں مسلمانوں کے لئے مال غنیمت حلال کردیا جائے گا۔ اس کی تحلیل سے پہلے اس پر لگی ہوئی ممانعت کے حکم کو زائل نہیں کرتا اور اس کی سزا میں تخفیف کا سبب نہیں بنتا۔ اس لئے آیت کی یہ تاویل درست نہیں ہے کہ مسلمانوں سے سزا اس لئے ہٹا لی گئی تھی کہ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ اس کے بعد ان کے لئے مال غنیمت حلال کردیا جائے گا۔- حسن اور مجاہد سے یہ بھی منقول ہے کہ اللہ کی طرف سے یہ امر پہلے سے طے شدہ ہے کہ وہ کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک پہلے سے انہیں اس کی اطلاع نہیں دے دی جاتی، مسلمانوں کو مال غنیمت سمیٹنے پر عذاب کی اطلاع پہلے سے نہیں دی گئی تھی۔ حسن اور مجاہد کی یہ تاویل درست ہے اس لئے کہ مسلمانوں کو اس بات کی خبر نہیں تھی کہ انبیائے سابقین کی امتوں پر مال غنیمت حرام تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں بھی یہی حکم برقرار رکھا گیا تھا۔ مسلمانوں نے اپنے طور پر یہ سمجھتے ہوئے کہ مال غنیمت مباح ہوتا ہے اسے مباح کرلیا تھا۔ دوسری طرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بھی اس کی تحریم کے سلسلے میں کوئی ہدایت نہیں دی گئی تھی اور نہ ہی مسلمانوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ گزشتہ امتوں پر مال غنیمت حرام تھا۔ اس لئے بدر کے معرکہ میں مال غنیمت سمیٹنے کی جو غلطی مسلمانوں سے ہوئی تھی وہ معصیت نہیں تھی جس پر وہ کسی عذاب کے مستحق قرار پاتے۔
(٦٧) نبی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ ان کے کافر قیدی باقی رہیں یہاں تک کہ ان کی خونزیزی نہ کرلی جائے، غزوہ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لے کردنیاوی متاع چاہتے ہو، اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے میں غالب اور اپنے دوستوں کی مدد کرنے میں بڑی حکمت والے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ماکان لنبی ان یکون لہ اسری “۔ (الخ)- امام احمد (رح) نے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ غزوہ بدر کے قیدیوں کے متعلق رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی جماعت سے مشورہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان پر اختیار دیا ہے تو حضرت عمر فاروق (رض) نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کافروں کو قتل کردیا جائے، آپ نے ان کی رائے سے اعراض کیا اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کھڑے ہو کر کہا کہ ان کو معاف کردیں اور ان سے فدیہ لے لیں، چناچہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو معاف کردیا اور ان سے فدیہ قول کرلیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” لولا کتاب من اللہ سبق “۔ (الخ)- نیز امام احمد (رح) ترمذی (رح) اور حاکم (رح) نے عبداللہ ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ بدر کے قیدیوں کو لایا گیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان قیدیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں اس روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ حضرت عمر (رض) کی رائے کے مطابق قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی ،
آیت ٦٧ (مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ ط) ۔- یہ آیت غزوۂ بدر میں پکڑے جانے والے قیدیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ غزوۂ بدر میں قریش کے ستر لوگ قیدی بنے۔ ان کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے مشاورت کی۔ حضرت ابوبکر (رض) کی رائے تھی کہ ان لوگوں کے ساتھ نرمی کی جائے اور فدیہ وغیرہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ رؤف و رحیم اور رقیق القلب تھے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی یہی رائے تھی۔ مگر حضرت عمر (رض) اس اعتبار سے بہت سخت گیر تھے (اَشَدُّ ھُمْ فِی اَمْرِ اللّٰہِ عُمَرِ ) ۔ آپ (رض) کی رائے یہ تھی کہ یہ لوگ آزاد ہو کر پھر کفر کے لیے تقویت کا باعث بنیں گے ‘ اس لیے جب تک کفر کی کمر پوری طرح ٹوٹ نہیں جاتی ان کے ساتھ نرمی نہ کی جائے۔ آپ (رض) کا اصرار تھا کہ تمام قیدیوں کو قتل کردیا جائے ‘ بلکہ مہاجرین اپنے قریب ترین عزیزوں کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کریں۔ بعد میں ان قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے کا فیصلہ ہوا اور اس پر عمل درآمد بھی ہوگیا۔ اس فیصلے پر اس آیت کے ذریعے گرفت ہوئی کہ جب تک باطل کی کمر پوری طرح سے توڑ نہ دی جائے اس وقت تک حملہ آور کفار کو جنگی قیدی بنانا درست نہیں۔ انہیں قیدی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زندہ رہیں گے ‘ اور آج نہیں تو کل انہیں چھوڑنا ہی پڑے گا۔ لہٰذا وہ پھر سے باطل کی طاقت کا سبب بنیں گے اور پھر سے تمہارے خلاف لڑیں گے۔- ( تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَاق) - یہ فدیے کی طرف اشارہ ہے۔ اب نہ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ نیت ہوسکتی تھی (معاذ اللہ) اور نہ ہی حضرت ابوبکر (رض) کی ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کے ہاں جب اپنے مقرب بندوں کی گرفت ہوتی ہے تو الفاظ بظاہر بہت سخت استعمال کیے جاتے ہیں۔ چناچہ ان الفاظ میں بھی ایک طرح کی سختی موجود ہے ‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے اور نہ حضرت ابوبکر (رض) کے لیے۔
47: جنگ بدر میں ستر قریشی افراد گرفتار ہوئے تھے۔ ان لوگوں کو جنگی قیدی کے طور پر مدینہ منوَّرہ لایا گیا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں صحابہ کرامؓ () سے مشورہ فرمایا کہ ان سے کیا سلوک کیا جائے؟ بعض صحابہ کرامؓ ، مثلاً حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان کو قتل کردیاجائے، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں، ان کی بناپر ان کا عبرت ناک انجام ہونا چاہئے۔ دوسرے حضرات کی رائے یہ تھی کہ ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑدیا جائے۔ (’’فدیہ ‘‘اس مال کو کہا جاتا ہے جو کسی جنگی قیدی سے اس کی آزادی کے بدلے طلب کیا جائے) چونکہ زیادہ تر صحابہ اس دوسری رائے کے حق میں تھے، اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا، اور ان سب قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑدیا گیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جنگ بدر کا سارا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتبہ کفار کی طاقت اور شوکت کا زور اچھی طرح ٹوٹ جائے، اور جن لوگوں نے سالہا سال تک دین حق کا نہ صرف راستہ روکنے کی کوشش کی ہے، بلکہ مسلمانوں پر وحشیانہ ظلم ڈھائے ہیں، ان پر ایک مرتبہ مسلمانوں کی دھاک بیٹھ جائے۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ کوئی نرمی کا معاملہ کرنے کے بجائے ان سب کو قتل کردیا جاتا، تاکہ واپس جاکر مسلمانوں کے لئے خطرہ بھی نہ بن سکتے، اور ان کے عبرت ناک انجام سے دوسروں کو بھی سبق ملتا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ جنگی قیدیوں کو آزاد کرنے پرناپسندیدگی کا یہ اظہات جنگ بدر کے وقت مذکورہ مصلحت کی بنا پر کیا گیا تھا۔ بعد میں سورہ محمد کی آیت نمبر ۴ میں اﷲ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اب چونکہ کفار کی جنگی طاقت ٹوٹ چکی ہے، اس لئے اب نہ صرف فدیہ لے کر،؛ بلکہ بغیر فدیہ کے، محض احسان کے طور پر بھی جنگی قیدیوں کو آزاد کیا جاسکتا ہے۔