68۔ 1 اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ لکھی ہوئی بات کیا تھی ْ بعض نے کہا اس سے مال غنیمت کی حلت مراد ہے یعنی چونکہ یہ نوشتہ تقدیر تھا کہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت حلال ہوگا، اس لئے تم نے فدیہ لے کر ایک جائز کام کیا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو فدیہ لینے کی وجہ سے تمہیں عذاب عظیم پہنچتا۔ بعض نے اہل بدر کی مغفرت اس سے مراد لی ہے، بعض نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی کو عذاب میں مانع ہونا مراد لیا ہے وغیرہ۔
[٧٠] اسارٰی بدر کے متعلق مشورہ اور اللہ کی طرف سے عتاب نازل ہونا :۔ آیت نمبر ٦٧ اور ٦٨ کے شان نزول سے متعلق مندرجہ ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔- ١۔ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے بعد جب قیدی قید کرلیے گئے تو آپ نے ابوبکر صدیق (رض) و عمر سے پوچھا : تمہاری ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ ابوبکر (رض) نے عرض کی۔ اے اللہ کے نبی یہ چچا کے بیٹے اور خاندان کے لوگ ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ ان سے فدیہ لیا جائے تاکہ کفار کے مقابلہ میں ہمیں قوت حاصل ہو اور شاید اللہ انہیں اسلام کی ہدایت دے۔ پھر آپ نے عمر سے پوچھا : اے ابن خطاب تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : اے اللہ کے رسول میری رائے ابوبکر صدیق (رض) سے مختلف ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالہ کر دیجئے تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑائیں۔ عقیل کو علی کے حوالہ کیجئے کہ وہ اس کی گردن اڑا دیں۔ میرے حوالے فلاں کو کیجئے تاکہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ اس لیے کہ یہ لوگ کفر کے ستون اور سرغنے ہیں۔ - سیدنا عمر کہتے ہیں کہ آپ ابوبکر صدیق (رض) کی رائے کی طرف مائل ہوئے اور میری رائے کی طرف مائل نہ ہوئے۔ دوسرے دن صبح میں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ اور ابوبکر صدیق (رض) بیٹھے رو رہے ہیں۔ میں نے کہا اللہ کے رسول مجھے بتلائیے آپ اور آپ کے دوست کس وجہ سے رو رہے ہیں۔ تاکہ اگر مجھے رونا آئے تو روؤں اور اگر نہ آئے تو آپ کی وجہ سے رونے والی شکل ہی بنا لوں۔ آپ نے فرمایا : میں اس وجہ سے رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے کے سلسلہ میں مجھ سے کہی تھی۔ میرے سامنے ان کا عذاب پیش کیا گیا، جو اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا۔ چناچہ اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ماکان لنبی۔۔ تاآخر (مسلم، کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر)- ٢۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ بدر کے دن جنگی قیدی رسول اللہ کے پاس لائے گئے۔ آپ نے صحابہ سے پوچھا : تمہاری ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے ہے پھر اس حدیث میں پورا قصہ ذکر کیا۔ پھر رسول اللہ نے فرمایا : ان میں سے ہر ایک کو یا فدیہ دینا ہوگا یا اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ بجز سہیل بن بیضاء کے کیونکہ میں نے سنا ہے کہ وہ اسلام کا ذکر کرتا ہے۔ اس بات پر رسول اللہ چپ ہو رہے۔ مجھے اس دن بہت خوف لاحق ہوگیا کہ کہیں آسمان سے مجھ پر پتھر نہ برسیں۔ میں اسی خوف میں مبتلا تھا کہ آپ نے فرمایا : بجزسہیل بن بیضاء کے اور قرآن میں سیدنا عمر کی رائے کے مطابق یہ آیات نازل ہوئیں۔ (ماکان لنبی) ۔۔ تاآخر (ترمذی، ابو اب التفسیر)- کیا عتاب فدیہ لینے کے فیصلہ کی وجہ سے تھا یا قتل کی بجائے قیدی بنانے کی وجہ سے ؟:۔ مزید تفصیل یہ ہے کہ غزوہ بدر میں کافروں کے (70) ستر آدمی مارے گئے اور (70) ستر قید ہوئے تھے۔ قیدیوں کے متعلق رسول اللہ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ خواہ انہیں قتل کردیا جائے، یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، اور اس اختیار میں مسلمانوں کی آزمائش مقصود تھی کہ وہ ان دونوں صورتوں میں سے کونسی صورت اختیار کرتے ہیں۔ اسی فیصلہ کے لیے آپ نے شوریٰ بلائی اکثریت کی رائے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے متعلق ہوئی۔ آپ نے بھی اپنی طبعی نرمی کی بنا پر اسی فیصلہ کو ترجیح دی۔ لیکن اللہ کی رضا یہ تھی کہ قیدیوں سے فدیہ لینے کی بجائے ان کو قتل کردیا جائے۔ اسی وجہ سے ان آیات میں عتاب نازل ہوا۔ جیسا کہ عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت سے ظاہر ہو رہا ہے۔ کیونکہ یہ عین ممکن تھا کہ اگر کفر کے ان ستر سرغنوں کو قتل کردیا جاتا۔ تو کافروں کو دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی ہمت ہی نہ رہتی۔- دوسری توجیہ یہ ہے کہ عتاب اس لیے نازل نہیں ہوا تھا کہ صحابہ کی اکثریت نے رسول اللہ سمیت فدیہ لینے کی رائے کو اختیار کر کے اجتہادی غلطی کی تھی۔ کیونکہ قتل یا فدیہ دونوں میں سے ایک صورت کا جب آپ کو پہلے ہی اختیار دیا جا چکا تھا تو پھر فدیہ کی رائے قبول کرلینے پر عتاب کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس عتاب کی اصل وجہ یہ تھی کہ صحابہ نے میدان جنگ میں ہی ان قیدیوں کی اکثریت کو قتل کیوں نہ کردیا۔ گویا اس عتاب کا روئے سخن ان صحابہ کی طرف ہے جنہوں نے دنیوی مفاد کی خاطر ان کافروں کو قتل کرنے کی بجائے قید کیا تھا اور آیت کے الفاظ (مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67) 8 ۔ الانفال :67) سے بھی مفہوم واضح ہوتا ہے۔- فدیہ کی مقدار :۔ ان قیدیوں سے جو فدیہ لیا گیا اس کی مقدار چار ہزار درہم فی کس تھی اور ان قیدیوں میں آپ کے چچا سیدنا عباس آپ کے داماد ابو العاص، نوفل بن حارث اور آپ کے چچا زاد بھائی عقیل بن ابی طالب بھی شامل تھے۔ آپ کی صاحبزادی سیدہ زینب نے فدیہ میں وہ ہار بھیجا جو ان کی والدہ سیدہ خدیجہ نے آپ کو شادی کے وقت جہیز میں دیا تھا۔ آپ نے جب وہ ہار دیکھا تو آنکھیں نم آلود ہوگئیں۔ اور رقت آمیز لہجہ میں صحابہ سے پوچھا : اگر تم پسند کرو تو میں زینب کے قیدی کو چھوڑ دوں اور زینب کا ہار واپس کردوں۔ یہ آپ نے اس لیے پوچھا کہ فدیہ کا مال بھی اموال غنائم کے مشترکہ اموال میں شمار ہوتا تھا۔ چناچہ صحابہ کرام (رض) ثنے اس کی اجازت دے دی۔ حالانکہ اس وقت آپ سپہ سالار بھی تھے۔ اسلامی ریاست کے سربراہ مملکت بھی اور ایسے رسول بھی جن کی غیر مشروط اور بلاچوں و چرا اطاعت سب مسلمانوں پر واجب تھی۔ لیکن جب انصاف کا معاملہ آیا تو آپ نے صحابہ کرام (رض) کی رضامندی کو لازم سمجھا۔ یہ ہے اسلامی اور غیر اسلامی اقدار کا فرق۔ پھر آپ نے زر فدیہ کی وصولی میں بھی انتہائی نرمی اختیار کی جن کافروں کے پاس زر فدیہ نہیں تھا اور وہ پڑھے لکھے تھے۔ ان کا زر فدیہ یہ طے ہوا کہ وہ دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھلا دیں۔ اور بعض کافروں کو صرف اس وعدے پر بھی چھوڑ دیا گیا کہ وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔
لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ : یہاں ” اللہ کی طرف سے لکھی ہوئی کتاب “ سے مراد کئی باتیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ اگر اس امت کے لیے غنیمت حلال نہ کردی گئی ہوتی، جیسا کہ بخاری کی حدیث (٣٣٥) ( وَ اُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ ) (اور میرے لیے غنیمتیں حلال کردی گئیں) سے معلوم ہوتا ہے۔ ابن جریر (رض) نے اسی کو پسند فرمایا۔ دوسری یہ کہ بدر میں جو صحابہ شریک ہوئے ان کے گناہ بخشے جا چکے وغیرہ۔ ( ابن کثیر، فتح القدیر) بعض اہل علم نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود عذاب نازل ہونے سے مانع تھا، جیسا کہ فرمایا : (وَمَا كَان اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ) [ الأنفال : ٣٣ ] ” اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انھیں عذاب دے جب کہ تو ان میں ہو۔ “ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” وہ بات یہ لکھ چکا کہ ان قیدی لوگوں میں بہت سوں کی قسمت تھی مسلمان ہونا۔ “ ( موضح) الغرض اگر یہ باتیں پہلے نہ لکھی جا چکی ہوتیں تو تم پر عذاب نازل ہوجاتا۔
دوسری آیت بھی اسی عتاب کا تتمہ ہے جس میں فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا ایک نوشتہ مقدر نہ ہوچکا ہوتا تو جو کام تم نے اختیار کیا کہ مال لے کر قیدیوں کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اس کے بارے میں تم پر کوئی بڑی سزا واقع ہوجاتی۔- اس نوشتہ تقدیر سے کیا مراد ہے، اس کے متعلق ترمذی میں بروایت حضرت ابوہریرہ منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مال غنیمت تم سے پہلے کسی قوم کسی امت کے لئے حلال نہیں تھا۔ بدر کے موقع میں جب مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے حالانکہ ابھی تک ان کے لئے مال غنیمت حلال نہیں کیا گیا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مال غنیمت کے حلال ہونے کا حکم نازل ہونے سے پہلے مسلمانوں کا یہ اقدام ایسا گناہ تھا کہ اس پر عذاب آجانا چاہئے تھا لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم لوح محفوظ میں لکھا ہوا تھا کہ اس امت کے لئے مال غنیمت حلال کیا جائے گا اس لئے مسلمانوں کی اس خطاء پر عذاب نازل نہیں کیا تھا۔ ( مظہری) - بعض روایات حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عذاب الہی بالکل سامنے آچکا تھا۔ اللہ نے اپنے فضل سے روک دیا اور اگر عذاب آجاتا تو بجز عمر بن خطاب اور سعد بن معاذ کے کوئی اس سے نہ بچتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سبب عتاب قیدیوں سے فدیہ لے کر چھوڑ دینا تھا اور ترمذی کی روایت سابقہ سے اس کا سبب مال غنیمت جمع کرنا معلوم ہوتا ہے مگر دونوں میں کوئی تضاد نہیں قیدیوں سے فدیہ لینا بھی مال غنیمت ہی کا جز ہے۔
لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِــيْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ٦٨- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔
(٦٨) اگر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لیے مال غنیمت کے حلال ہونے کے متعلق یا اہل بدر کی سعادت کے متعلق اللہ کا حکم نہ صادر ہوچکا ہوتا تو اس فدیہ سے تمہیں بڑی سزا ہوتی۔- شان نزول : (آیت) ” لولا کتاب من اللہ سبق “۔ (الخ)- ترمذی (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان روایت کیا ہے کہ غنیمتیں حلال نہیں تھیں اور تم سے پہلے کسی بھی جماعت کے لیے یہ حلال نہیں تھی، آسمان سے آگ آتی تھی، اور وہ انہیں کھاجاتی تھی، غزوہ بدر کے دن تم لوگ اس کے حلال ہونے کے پہلے ہی اس میں گھس پڑے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ (آیت) ” لولا کتاب من اللہ سبق “۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا ایک نوشتہ مقدر نہ ہوچکا ہوتا (الخ)
آیت ٦٨ (لَوْلاَ کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ) ۔- اس سے مراد سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ حکم ہے (آیت ٤) جو بہت پہلے نازل ہوچکا تھا۔ اس کی تفصیل ہم ان شاء اللہ سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطالعے کے دوران پڑھیں گے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم کی تعبیر ( ) میں کس طرح فدیہ لینے کی گنجائش نکالی تھی۔ یہ دراصل قانون کی تشریح و تعبیر کا معاملہ ہے۔ جیسا کہ سورة الزمر کی آیت ١٨ میں ارشاد ہے : (الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ ط) یعنی وہ لوگ جو کسی بات کو سن کر پیروی کرتے ہیں اس میں سے بہترین کی اور اس کے اعلیٰ ترین درجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چناچہ اس قانون کی تعبیر میں بھی ایسے ہی ہوا۔ چونکہ مذکورہ حکم کے اندر یہ گنجائش یا رعایت موجود تھی اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طبیعت کی نرمی کے سبب اس کو اختیار فرما لیا۔ آیت زیر نظر کے اندر سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نازل شدہ حکم میں رعایت کی یہ گنجائش موجود تھی ‘ اسی لیے تو اس حکم کا حوالہ دے کر فرمایا گیا کہ اگر وہ حکم پہلے نازل نہ ہوچکا ہوتا تو جو بھی تم نے فدیہ وغیرہ لیا ہے اس کے باعث تم پر بڑا عذاب آتا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) اس آیت کے نزول کے بعد روتے رہے ہیں۔ بہر حال اس فیصلے میں کسی صریح حکم کی خلاف ورزی نہیں تھی اور جو بھی رائے اختیار کی گئی تھی وہ اجتہادی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجتہاد کے ذریعے اس حکم میں سے نرمی اور رعایت کا ایک پہلو اختیار کرلیا تھا۔
48: پہلے لکھے ہوئے حکم سے مراد بعض مفسرین نے تو وہ حکم لیا ہے جو پیچھے آیت نمبر ۳۳ میں گذرا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کا کوئی عذاب نہیں آسکتا۔ اور دوسرے مفسرین نے اس کے یہ معنیٰ بیان کئے ہیں کہ ان قیدیوں میں سے بعض حضرات کا مسلمان ہوجانا اﷲ تعالیٰ نے مقدر میں لکھا تھا وہ نوشتہ تقدیر مراد ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اس وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے اس فیصلے پر مسلمانوں کو کوئی سزا نہیں دی کہ ان قیدیوں میں سے کچھ لوگ مسلمان ہونے والے تھے، ورنہ فیصلہ اصولی طور پر ناپسندیدہ تھا۔