69۔ 1 اس میں مال غنیمت کی حلت و پاکیزگی کو بیان کر کے فدیے کا جواز بیان فرما دیا گیا ہے۔ جس سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ لکھی ہوئی بات سے مراد شاید یہی حلت غنائم ہے
[٧١] فدیہ کا مال حلال وطیب ہے :۔ جب قیدیوں کو بروقت میدان جنگ میں قتل نہ کردینے اور گرفتار کر کے ان کے عوض فدیہ لینے کی بنا پر عتاب نازل ہوا تو صحابہ کرام (رض) کو شک پیدا ہوا کہ یہ مال جو بطور فدیہ لیا گیا ہے شاید حلال و طیب نہ رہا ہو، اسی شبہ کو دور کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ کیونکہ فدیہ کی رقوم بھی اموال غنائم میں شامل تھیں اور فرمایا کہ یہ مال اللہ کا عطیہ ہے اسے بطیب خاطر استعمال میں لاؤ۔ البتہ جہاد کے سلسلہ میں دنیا کے مال پر نظر رکھنا اور اسے اس قدر اہمیت نہ دینا چاہیے کہ جہاد کا بلند تر مقصد ثانوی حیثیت اختیار کر جائے۔
فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا : اللہ تعالیٰ کے ناراضگی کے اظہار سے یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ فدیے کا مال لینا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، اللہ تعالیٰ نے اس شبے کو دور فرمایا کہ یہ بھی مال غنیمت ہے اور اس امت کے لیے حلال اور طیب ہے، سو اسے کسی شک و شبہ کے بغیر کھاؤ۔ اس سے ” لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ “ کی تفسیر ” اس امت کے لیے غنیمت حلال ہونے “ کے قول کو تقویت ملتی ہے۔ ” وَّاتَّقُوا اللّٰهَ “ البتہ یہ اصل مقصود نہیں، بلکہ اصل مقصود اللہ کا تقویٰ ہے، اسے اختیار کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ بیحد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
مسئلہ۔ آیت مذکو رہ میں قیدیوں سے فدیہ لے کر آزاد کرنے یا مال غنیمت جمع کرنے پر جو عتاب نازل ہوا اور عذاب الہی سے ڈرایا گیا مگر پھر معافی دے دی گئی۔ اس سے یہ بات نہ کھلی کہ آئندہ کے لئے ان معاملات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔ اس لئے اگلی آیت میں مال غنیمت کا مسئلہ تو صاف کردیا گیا (آیت) فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ یعنی جو مال غنیمت تم کو ہاتھ آگیا ہے وہ اب کھا سکتے ہو وہ آئندہ کے لئے تمہارے واسطے حلال کردیا گیا۔ مگر اس میں بھی ایک شبہ یہ رہ جاتا ہے کہ مال غنیمت حلال کرنے کا حکم تو اب ملا ہے۔ اس حکم سے پہلے جو غلطی سے جمع کرلیا گیا تھا شاید اس میں کسی قسم کی کراہت ہو اس لئے اس کے بعد حَلٰلًا طَيِّبًا فرما کر یہ شبہ بھی دور کردیا گیا کہ اگرچہ نزول حکم سے پہلے جمع غنیمت کا اقدام درست نہ تھا مگر اب جب کہ مال غنیمت حلال ہونے کا حکم آگیا تو پہلا جمع کیا ہوا بھی بغیر کسی کراہت کے حلال ہے۔- مسئلہ۔ یہاں اصول فقہ کا ایک مسئلہ قابل نظر اور قابل یاد داشت ہے کہ جب کسی ناجائز اقدام کے بعد مستقل آیت کے ذریعہ اس مال کو حلال کرنے کا حکم نازل ہوجائے تو سابقہ اقدام کا اس میں کوئی اثر نہیں رہتا۔ یہ مال حلال طیب ہوجاتا ہے جیسا کہ یہاں ہوا لیکن اسی کی ایک دوسری نظیر یہ ہے کہ کسی معاملہ میں حکم تو پہلے سے نازل شدہ تھا مگر اس کا ظہور عمل کرنے والوں پر نہیں تھا اس بنا پر اس کی خلاف ورزی کر گزرے، بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارا یہ عمل قرآن و سنت کے فلاں حکم کے خلاف تھا۔ تو اس صورت میں ظہور حکم کے بعد وہ مال حلال نہیں رہتا اگرچہ سابقہ غلطی کو معاف بھی کردیا جائے۔ ( نور الانوار ملا جیون) - آیت مذکورہ میں مال غنمیت کو حلال طیب تو قرار دے دیا گیا مگر آخر آیت میں یہ قید لگا دی گئی (آیت) وَّاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔ اس میں اشارہ کردیا کہ مال غنیمت اگرچہ حلال کردیا گیا ہے مگر وہ بھی ایک خاص قانون کے تحت حلال ہوا ہے اس قانون کے خلاف یا اپنے حق سے زائد لیا جائے گا تو وہ جائز نہیں۔- یہاں دو معاملے تھے ایک مال غنیمت دوسرے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا۔ پہلے معاملے کے متعلق تو اس آیت نے بات صاف کردی مگر دوسرا معاملہ ابھی تک صاف نہیں ہوا۔ اس کے متعلق سورة محمد میں یہ آیت نازل ہوئی (آیت) فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۭ حَتّىٰٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ڎ فَاِمَّا مَنًّـۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا ( یعنی جب جنگ میں کافروں سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں مار دو یہاں تک کہ جب تم خوں ریزی کے ذریعہ ان کی قوت شوکت توڑ چکو تو پھر ان کو قید کرکے مضبوط باندھو۔ اس کے بعد یا تو ان پر احسان کرکے بغیر کسی معاوضہ کے آزاد کردو یا فدیہ لے کر چھوڑ دو یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔- حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر میں قیدیوں کو فدیہ لے کر آزاد کرنے پر عتاب نازل ہوا، یہ اسلام کا پہلا جہاد تھا اس وقت تک کافروں کی قوت و شوکت ٹوٹ نہیں چکی تھی اتفاقا ان پر ایک مصیبت پڑگئی تھی پھر جب اسلام اور مسلمانوں کا مکمل غلبہ حاصل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے وہ حکم منسوخ کرنے کے لئے سورة محمد کی آیت مذکورہ نازل فرمادی۔ جس میں نبی کریم اور مسلمانوں کو قیدیوں کے بارے میں چار اختیار دے دیئے گئے وہ ہیں۔ - ان شاء واقتلوھم و ان شاء وا استعبدوھم وان شاء وا افادوھم وان شاء وا اعتقوھم ( مظہری) " چاہیں تو سب کو قتل کردیں یا چاہیں تو غلام بنالیں یا چاہیں تو فدیہ لے کر چھوڑ دیں یا چاہیں تو بغیر فدیہ کے آزاد کردیں "۔ - مذکورہ چار اختیارات میں سے پہلے دو پر تو پوری امت کا اتفاق اور اجماع ہے کہ امیر مسلیمن کے لئے قیدیوں کو قتل کردینے کا بھی اختیار ہے اور غلام بنالینے کا بھی۔ لیکن ان کو بلا معاوضہ چھوڑ دینے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دینے میں فقہاء امت کا اختلاف ہے۔ - امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل، ثوری، اسحاق اور تابعین میں سے حضرت حسن بصری اور عطاء کا قول یہ ہے کہ یہ دونوں صورتیں بھی امیر مسلیمن کے لئے جائز ہیں کہ قیدیوں کو معاوضہ لے کر چھوڑ دے یا بلا معاوضہ آزاد کردے یا مسلمان قیدیوں سے تبادلہ کرے۔- اور مام ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد، اوزاعی اور قتادہ اور ضحاک اور سدی اور ابن جریج فرماتے ہیں کہ بلا معاوضہ چھوڑنا تو بالکل جائز نہیں۔ فدیہ لے کر چھوڑنا بھی امام ابوحنیفہ کے مشہور مذہب میں جائز نہیں۔ البتہ سیر کبیر کی روایت یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو مال کی ضرورت ہو تو فدیہ لے کر چھوڑ سکتے ہیں۔ البتہ مسلمان قیدیوں کے تبادلہ میں ان کو چھوڑ دینا امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے نزدیک جائز ہے ( کما ہو اظہر الروایتین عنہم۔ مظہری) - جن حضرات نے فدیہ لے کر یا بلا فدیہ چھوڑ دینے کی اجازت دی ہے وہ حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق سورة محمد کی آیت کو انفال کی آیت کا ناسخ اور آیت انفال کو منسوخ قرار دیتے ہیں فقہاء حنفیہ نے آیت سورة محمد کو منسوخ قرار دیا ہے اور سورة انفال کی (آیت) فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ اور آیت فاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ کو اس کا ناسخ قرار دیا ہے اس لئے قیدیوں کو آزاد کردینا خواہ فدیہ لے کر ہو یا بلا فدیہ ان کے نزدیک جائز نہیں ( مظہری) - لیکن اگر سورة انفال کی آیت کے الفاظ اور سورة محمد کے الفاظ میں غور کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں کوئی ناسخ و منسوخ نہیں۔ بلکہ دو مختلف حالتوں کے دو حکم ہیں۔ سورة انفال کی آیت میں بھی اصل حکم اثخان فی الارض یعنی قتل کے ذریعہ کافروں کی قوت توڑ دینا۔ اور سورة محمد کی آیت میں بھی جو من و فداء ( یعنی قیدیوں کو بلا معاوضہ یا معاوضہ لے کر آزاد کرنے) کا اختیار دیا گیا ہے ان سے پہلے اثخان فی الارض کا بیان ہوچکا ہے یعنی خون ریزی کے ذریعہ کفر کی قوت ٹوٹ جانے کے بعد یہ بھی اختیار ہے کہ قیدیوں کو فدیہ پر یا بلا فدیہ آزاد کردیا جائے۔- امام اعظم ابوحنیفہ کی روایت سیر کبیر کا بھی یہی منشاء ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے حالات اور ضرورت پر نظر کرکے دونوں قسم کے احکام دیئے جاسکتے ہیں۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا ٠ ۡ ۖ وَّاتَّقُوا اللہَ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ٦٩ ۧ- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- غنم - الغَنَمُ معروف . قال تعالی: وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] . والغُنْمُ : إصابته والظّفر به، ثم استعمل في كلّ مظفور به من جهة العدی وغیرهم . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] ، فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] ، والمَغْنَمُ : ما يُغْنَمُ ، وجمعه مَغَانِمُ. قال : فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] .- ( غ ن م ) الغنم - بکریاں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] اور گائیوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کردی تھی ۔ الغنم کے اصل معنی کہیں سے بکریوں کا ہاتھ لگنا ۔ اور ان کو حاصل کرنے کے ہیں پھر یہ لفظ ہر اس چیز پر بولا جانے لگا ہے ۔ جو دشمن یا غیر دشمن سے حاصل ہو ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] اور جان رکھو کہ جو چیز تم کفار سے لوٹ کر لاؤ ۔ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] جو مال غنیمت تم کو ہے اسے کھاؤ کہ تمہارے لئے حلال طیب ہے ۔ المغنم مال غنیمت اس کی جمع مغانم آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتں ہیں ۔- حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
مال غنیمت کی حلت - قول باری ہے (فکلوا مما غنمتم حلالاً طیباً ۔ پس جو کچھ تم نے حاصل کیا ہے اسے کھائو کہ وہ حلال اور پاک ہے) آیت میں غنائم کی اباحت کا حکم ہے جب کہ اس سے پہلے اس کی ممانعت تھی۔ ہم نے اعمش کی روایت کا ذکر کردیا ہے جو انہوں نے ابو صالح سے کی ہے، اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (لم تحل الغنائم لقوم سود الرئوس قبلکم۔ تم سے پہلے سیاہ سروں والی کسی قوم کے لئے مال غنیمت حلال نہیں تھا) زہری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (اعطیت خمسالم یعطھن احد قبلی، جملت لی الارض مسجد و طھورا، و نصرت بالرعب واحلت لی الغنائم، و ارسلت الی الاحمر والابیض واعطیت الشفاعۃ۔ مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں۔ مجھ سیپ ہلے کسی نبی کو یہ عطا نہیں کی گئیں، میرے لئے روئے زمین کو سجدہ گاہ اور طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنادیا گیا، دشمنوں کے دل میں رعب ڈال کر میری نصرت کی گئی، میرے لئے مال غنیمت حلال کردیا گیا، مجھے سرخ و سفید سب کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا اور مجھے قیامت کے دن شفاعت کا اعزاز بخشا گیا) ۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں روایتوں میں یہ بتادیا کہ آپ سے پہلے کسی بھی نبی اور کسی بھی امت کیلئے مال غنیمت حلال نہیں تھا۔ قول باری (فکلوا مما غنمتم) اس امر کا مقتضی ہے کہ جب مسلمان مال غنیمت اپنے قبضے میں کرلیں تو اس پر ان کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے۔ اگرچہ آیت کے الفاظ میں اس کے اکل یعنی کھانے کا ذکر ہے۔ خصوصیت کے ساتھ اس کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ مملوکہ اشیاء کا سب سے بڑا فائدہ اکل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے کیونکہ خوراک پہ ہی جسمانی قوت اور زندگی کی بقاء کا دارومدار ہوتا ہے۔ لفظ اکل کا ذکر کر کے اس سے منافع اور فوائد کی تمام صورتوں کی تملیک مراد لی گئی ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (حرمت علیکم المیتۃ والدم و لحم الخنزیر تم پر مردار، خون اور سور کا گوشت حرام کردیا گیا ہے) یہاں سور کے گوشت کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس کے تمام اجزاء کی تحریم مراد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سور سے جن فوائد کی طلب ہوسکتی ہے۔ ان کا زیادہ تر حصہ اس کے گوشت میں ہوتا ہے۔- جس طرح یہ قول باری ہے (اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الا ذکر اللہ وذروالبیع۔ جب جمعہ کے دن نماز جمعہ کی اذان ہوجائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو ) اللہ تعالیٰ اس وقت خرید و فروخت کی ممانعت کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کردیا جبکہ مراد یہ ہے کہ نماز جمعہ سے مشغول رکھنے والے تمام کاموں کی ممانعت ہے۔ بیع کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت میں تمام مشغولیات سے حاصل ہونے والے فوائد اور منافع کا بیشتر حصہ خرید و فروخت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ جب اس کی ممانعت ہوگئی تو اس سے کم تر چیز کی بطریق اولیٰ ممانعت ہوگئی۔ یہ بات آیت کے الفاظ سے خودبخود سمجھ میں آتی ہے۔- اس کی مثال یہ قول باری بھی ہے۔ (ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما جو لگ ازروئے ظلم یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں) یہں خصوصیت کے ساتھ اکل یعنی کھا جانے کا ذکر وا لیکن اس کے ذریے اس امر پر بھی دلالت ہوگئی کہ اکل کی جہت کے علاوہ کسی اور جہت سے یتیم کے مال لینے اور اسے ضائع کرنے کی بھی ممانعت ہے جب لفظ کا درود اس صورت میں ہوتا ہے تو اس کا حکم ہمارے بیان کردہ معنی پر محمول ہوتا ہے اگر دلالت قائم نہ ہوجاتی اور لفظ سے اس کے معنی اس طریق پر سمجھ میں نہ آتے جس کا ذکر ہم نے کیا ہے تو مال غنیمت کھانے کی اباحت اس کی تملیک کی موجب نہ بن سکتی۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا طعام کسی اور کو کھانے کی اجازت دے دے تو اس سے یہ لازم نہیں آئے گا کہ وہ طعام اس کی ملکیت ہوجائے گا اور وہ اسے لے جاسکے گا۔ اسے تو صرف اس طعام کو کھا لینے کا حق ہوگا اور بس۔ آیت زیربحث میں خطاب باری سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ اس طریق پر تملیک کی بات ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اس لئے آیت تملیک کا موجب بن گی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا (واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ) اس میں اللہ تعالیٰ نے باقی ماندہ چار حصوں کو مجاہدین کے لئے مال غنیمت قرار دیا۔ اور یہ بات تملیک کی مقتضی ہے۔ اسی طرح ظاہر قول باری (فکلوا مما غنمتم) بھی تملیک کا مقتضی ہے اس لئے کہ جب غنیمت کی نسبت جنگ میں شریک لوگوں کی طرف کی گئی تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ آیت میں لفظ غنیمت کا اطلاق کر کے مال غنیمت کو جنگ میں شریک لوگوں کی ملکیت میں دے دیا گیا ہے۔ پھر اس پر اکل کا عطف اس تملیک کی نفی نہیں کرتا جسے آیت متضمن ہے۔ - جس طرح اگر یہ ارشاد ہوتا (کلوا مما ملکتم “ (جس چیز کے تم مالک بن گئے ہو اس میں سے کھائو) تو اکل کے لفظ کا اطلاق ملکیت کی صحت کیلئے مانع نہ بنتا۔ اس بات پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ حرف فاء اس پر داخل کیا گیا ہے گویا یوں ارشاد ہوا قد ملکتم ذلک فکلوا “ (تم اس کے مالک بن چکے ہو اس لئے اس میں سے کھائو) کفار سے قتال کے ذریعے جو مال و اسباب حاصل کیا جاتا ہے غنیمت کا لفظ اس کے لئے اہم ہے۔ اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہوتا ہے اور باقی چار حصے مال غنیمت حاصل کرنے والوں کے لئے ہوتے ہیں چناچہ ارشاد باری ہے۔ (واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ)- غنیمت اور فئی کا فرق - فئی مشرکین کے ان اموال کا نام ہے جو قتال کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں۔ غنیمت اور فئی کے درمیان اس فرق کو عطاء بن السائب اور سفیان ثوری سے نقل کیا گیا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ فئی مشرکین کے ان تمام اموال کو کہتے ہیں جو قتال کے ذریعے یا بغیر قتال کے مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں اس لئے کہ کفر وہ سبب ہے جس کی بنا پر یہ مال مسلمانوں کے ہاتھ آتا ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جزیہ فئی ہے اسی لئے خراج اور وہ تمام اموات بھی فئی کہلاتے ہیں جو امام المسلمین اپنے دشمنوں سے صلح اور سلامتی کے معاہدے کی بناء پر لیتا ہے۔ قول باری ہے (ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القریٰ فلقد و للرسول۔ جو کچھ اللہ اپنے رسول کو دوسری بستیوں والوں سے بطور فئی دلوائے سو وہ اللہ ہی کا حق ہے اور رسول کا) ایک قول کے مطابق اس سے مراد وہ فئی ہے جو مسلمانوں نے جنگی کارروائی کئے بغیر حاصل یکا تھا مثلاً فدک نیز اہل بخران سے حاصل شدہ مال، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چوڑ دیا گیا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فئی کو ان مصارف میں جس طرح چاہیں صرف کریں۔- ایک قول ہے کہ یہ آیت غنام کے بارے میں تھی پھر قول باری (واعلموا انما غنمتم من شیء فان اللہ خمسہ) کی بناء پر منسوخ ہوگئی۔ ہمارے نزدیک اس بات کی گنجائش ہے کہ آیت کو منسوخ نہ کہا جائے بلکہ آیت غنیمت کو ان صورتوں پر محمول کیا جائے جن میں مسلمانوں نے گھوڑوں اور اونٹوں کے ذریعے فوج کشی کی ہو اور جنگ کی بنا پر غلبہ حاصل کیا ہو اور سورة حشر کی آیت فئی کو ان صورتوں پر محمول کیا جائے جن می مسلمانوں کو گھوڑے اور اونٹ دوڑانے یعنی جنگی کارروائی کی ضرورت پیش نہ آئی ہو بلکہ کافروں سے یہ مال صلح اور سلامتی کے معاہدوں کی بنا پر حاصل ہوا ہو۔ مثلاًحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل نجران اور اہل فدک سے کسی جنگ کے بغیر حاصل ہونے والے اموال وغیرہ۔ واللہ اعلم۔
(٦٩) بس اب غزوہ بدر کے دن جو غنیمت حاصل ہوئی ہے اس کا کھاؤ اور خیانت کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، غزوہ بدر کے دن فدیہ کی جو رائے تم نے دی ہے، اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرمانے والے ہیں۔
آیت ٦٩ (فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلاً طَیِّبًاز) ایک مال غنیمت تو وہ تھا جو مسلمانوں کو عین حالت جنگ میں ملا تھا ‘ اور دوسرے اس مال کو بھی غنیمت قرار دے کر بلا کراہت حلال اور جائز قرار دے دیا گیا جو قیدیوں سے بطور فدیہ حاصل کیا گیا تھا۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :49 اس آیت کی تفسیر میں اہل تاویل نے جو روایات بیان کی ہیں وہ یہ ہیں کہ جنگ بدر میں لشکر قریش کے جو لوگ گرفتار ہوئے تھے ان کے متعلق بعد میں مشورہ ہوا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رائے دی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قتل کر دیا جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے قبول کی اور فدیہ کا معاملہ طے کر لیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات بطور عتاب نازل فرمائیں ۔ مگر مفسرین آیت کے اس فقرے کی کوئی معقول تاویل نہیں کر سکے ہیں کہ ”اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا ۔ “وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد تقدیر الہٰی ہے ، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ ارادہ فرماچکا تھا کہ مسلمانوں کے لیے غنائم کو حلال کر دے گا ۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ جب تک وحی تشریعی کے ذریعہ سے کسی چیز کی اجازت نہ دی گئی ہو ، اس کا لینا جائز نہیں ہو سکتا ۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت پوری اسلامی جماعت اس تاویل کی رو سے گناہ گار قرار پاتی ہے اور ایسی تاویل کو اخبار احاد کے اعتماد پر قبول کر لینا ایک بڑی ہی سخت بات ہے ۔ میرے نزدیک اس مقام کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جنگ بدر سے پہلے سورہ محمد میں جنگ کے متعلق جو ابتدائی ہدایات دی گئی تھیں ، ان میں یہ ارشاد ہوا تھا کہ آیت ( فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۭ حَتّىٰٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ڎ فَاِمَّا مَنًّـۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَاسورہ محمد ( آیت ٤ ) اس ارشاد میں جنگی قیدیوں سے فدیہ وصول کرنے کی اجازت تو دے دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگائی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچھ دیا جائے پھر قیدی پکڑنے کی فکر کی جائے ۔ اس فرمان کی رو سے مسلمانوں نے بدر میں جو قیدی گرفتار کیے اور اس کے بعد ان سےجو فدیہ وصول کیا وہ تھا تو اجازت کے مطابق ، مگر غلطی یہ ہوئی کہ ”دشمن کی طاقت کو کچھ دینے “کی جو شرط مقدم رکھی گئی تھی اسے پورا کرنے میں کوتاہی کی گئی ۔ جنگ میں جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا یک بڑا گروہ غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگ گیا اور بہت کم آدمیوں نے دشمنوں کا کچھ دور تک تعاقب کیا ۔ حالانکہ اگر مسلمان پوری طاقت سے ان کا تعاقب کرتے تو قریش کی طاقت کا اسی روز خاتمہ ہوگیا ہوتا ۔ اسی پر اللہ تعالیٰ عتاب فرما رہا ہے اور یہ عتاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں پر ہے ۔ فرمان مبارک کا منشا یہ ہے کہ ”تم لوگ ابھی نبی کے مشن کو اچھی طرح نہیں سمجے ہو ۔ نبی کا اصل کام یہ نہیں ہے کہ فدیے اور غنائم وصول کرکے خزانے بھرے ، بلکہ اس کے نصب العین سے جو چیز براہ راست تعلق رکھتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ کفر کی طاقت ٹوٹ جائے ۔ مگر تم لوگوں پر بار بار دنیا کا لالچ غالب ہو جاتا ہے ۔ پہلے دشمن کی اصل طاقت کے بجائے قافلے پر حملہ کرنا چاہا ، پھر دشمن کا سر کچلنے کے بجائے غنیمت لوٹنے اور قیدی پکڑنے میں لگ گئے ، پھر غنیمت پر جھگڑنے لگے ۔ اگر ہم پہلے فدیہ وصول کرنے کی اجازت نہ دے چکے ہوتے تو اس پر تمہیں سخت سزا دیتے ۔ خیر اب جو کچھ تم نے لیا ہے وہ کھا لو ، مگر آئندہ ایسی روش سے بچتے رہو جو خدا کے نزدیک ناپسندیدہ ہے“ ۔ اس رائے پر پہنچ چکا تھا کہ امام جصاص کی کتاب احکام القرآن میں یہ دیکھ کر مجھے مزید اطمینان حاصل ہوا کہ امام موصوف بھی اس تاویل کو کم از کم قابل لحاظ ضرور قرار دیتے ہیں ۔ پھر سیرت ابن ہشام میں یہ روایت نظر سے گزری کہ جس وقت مجاہدین اسلام مال غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگے ہوئے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت سعد بن معاذ کے چہرے پر کچھ کراہت کے آثات ہیں ۔ حضور نے ان سے دریافت فرمایا کہ”اے سعد ، معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی یہ کاروائی تمہیں پسند نہیں آرہی ہے“ ۔ انہوں نےعرض کیا”جی ہاں یا رسول اللہ ، یہ پہلا معرکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دلوائی ہے ، اس موقع پر انہیں قیدی بنا کر ان کی جانیں بچا لینے سے زیادہ بہتر یہ تھا کہ ان کو خوب کچل ڈالا جاتا و جلد ۲ ۔ صفحہ ۲۸ ۔ ۲۸١
49: چونکہ جنگی قیدیوں کے بارے میں یہ فیصلہ کثرت رائے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق سے ہوچکا تھا اس لئے ناپسندیدگی کے اظہار کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مسلمانوں کی معافی کا بھی اعلان فرمایا اور یہ بھی اجازت دی کہ جو مال فدیہ میں حاصل ہوا ہے حلال طیب ہے اور مسلمان اسے اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں۔