Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

فدیہ طے ہو گیا بدر والے دن آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے یقیناً معلوم ہے کہ بعض بنو ہاشم وغیرہ زبردستی اس لڑائی میں نکالے گئے ہیں انہیں ہم سے لڑائی کرنے کی خواہش نہ تھی ۔ پس بنو ہاشم کو قتل نہ کرنا ۔ ابو البختری بن ہشام کو بھی قتل نہ کیا جائے ۔ عباس بن عبدالمطلب کو بھی قتل نہ کیا جائے ۔ اسے بھی بادل ناخواستہ ان لوگوں نے اپنے ساتھ کھینچا ہے ۔ اس پر ابو حذیفہ بن عتبہ نے کہا کہ کیا ہم اپنے باپ دادوں کو اپنے بچوں کو اپنے بھائیوں کو اور اپنے قبیلے کو قتل کریں اور عباس کو چھوڑ دیں؟ واللہ اگر وہ مجھے مل گیا تو میں اس کی گرد ماروں گا ۔ جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اے ابو حفصہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے منہ پر تلوار ماری جائے گی؟ حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں یہ پہلا موقع تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری کنیت سے مجھے یاد فرمایا حضرت عمر نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں ابو حذیفہ کی گردن اڑادوں واللہ وہ تو منافق ہو گیا ۔ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں واللہ مجھے اپنے اس دن کے قول کا کھٹکا آج تک ہے میں اس سے ابھی تک ڈر ہی رہا ہوں تو میں اس دن چین پاؤں گا جس دن اس کا کفارہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ میں راہ حق میں شہید کر دیا جاؤں چنانچہ جنگ یمامہ میں آپ شہید ہوئے رضی اللہ عنہ و رضا ۔ ابن عباس کہتے ہیں جس دن بدری قیدی گرفتار ہو کر آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات نیند نہ آئی صحابہ نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا میرے چچا کی آہ و بکا کی آواز میرے کانوں میں ان قیدیوں میں سے آرہی ہے صحابہ نے اس وقت ان کی قید کھول دی تب آپ کو نیند آئی ۔ انہیں ایک انصاری صحابی نے گرفتار کیا تھا ۔ یہ بہت مالدار تھے انہوں نے سو اوقیہ سونا اپنے فدئیے میں دیا ۔ بعض انصاریوں نے سرکار نبوت میں گذارش بھی کی کہ ہم چاہتے ہیں اپنے بھانجے عباس کو بغیر کوئی زر فدیہ لیے آزاد کر دیں لیکن مساوات کے علم بردار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک چونی بھی کم نہ لینا پورا فدیہ لو ۔ قریش نے فدئیے کی رقمیں دے کر اپنے آدمیوں کو بھیجا تھا ہر ایک نے اپنے اپنے قیدی کی من مانی رقم وصول کی ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا بھی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تو مسلمان ہی تھا آپ نے فرمایا مجھے تمہارے اسلام کا علم ہے اگر یہ تمہارا قول صحیح ہے تو اللہ تمہیں اسکا بدلہ دے گا لیکن چونکہ احکام ظاہر پر ہیں اس لیئے آپ اپنا فدیہ ادا کیجئے بلکہ اپنے دونوں بھتیجوں کا بھی ۔ نوفل بن حارث بن عبد المطلب کا اور عقیل بن ابی طالب بن عبد المطلب کا اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو کا جو بنو حارث بن فہر کے قبیلے سے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ میرے پاس تو اتنا مال نہیں ۔ آپ نے فرمایا وہ مال کہاں گیا جو تم نے اور ام الفضل نے زمیں میں دفنایا ہے اور تم نے کہا ہے کہ اگر اپنے اس سفر میں کامیاب رہا تو یہ مال بنو الفضل اور عبداللہ اور قشم کا ہے؟ اب تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ واللہ میرے علم ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس مال کو بجز میرے اور ام الفضل کے کوئی نہیں جانتا ۔ اچھایوں کیجئے کہ میرے پاس سے بیس اوقیہ سونا آپ کے لشکریوں کو ملا ہے اسی کو میرا زر فدیہ سمجھ لیا جائے ۔ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں وہ مال تو ہمیں اللہ نے اپنے فضل سے دلوا ہی دیا ۔ چنانچہ اب آپ نے اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں کا اور اپنے حلیف کا فدیہ اپنے پاس سے ادا کیا اور اس بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ اگر تم میں بھلائی ہے تو اللہ اس سے بہتر بدلہ دے گا ۔ حضرت عباس کا بیان ہے کہ اللہ کا یہ فرمان پورا اترا اور ان بیس اوقیہ کے بدلے مجھے اسلام میں اللہ نے بیس غلام دلوائے جو سب کے سب مالدار تھے ساتھ ہی مجھے اللہ عزوجل کی مغفرت کی بھی امید ہے ۔ آپ فرماتے ہیں میرے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے میں نے اپنے اسلام کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دی اور کہا کہ میرے بیس اوقیہ کا بدلہ مجھے دلوائے جو مجھ سے لیے گئے ہیں ۔ آپ نے انکار کیا الحمد اللہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اور آپ کے ساتھیوں نے حضور سے کہا تھا کہ ہم تو آپ کی وحی پر ایمان لا چکے ہیں آپ کی رسالت کے گواہ ہیں ہم اپنی قوم میں آپ کی خیر خواہی کرتے رہے اس پر یہ آیت اتری کہ اللہ دلوں کے حال سے واقف ہے جس کے دل میں نیکی ہوگی اس سے جو لیا گیا ہے اس سے بہت زیادہ دے دیا جائے گا اور پھر اگلا شرک بھی معاف کر دیا جائے گا ۔ فرماتے ہیں کہ ساری دنیا مل جانے سے بھی زیادہ خوشی مجھے اس آیت کے نازل ہونے سے ہوئی ہے مجھ سے جو لیا گیا واللہ اس سے سو حصے زیادہ مجھے ملا ۔ اور مجھے امید ہے کہ میرے گناہ بھی دھل گئے ۔ مذکور ہے کہ جب بحرین کا خزانہ سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچا وہ اسی ہزار کا تھا آپ نماز ظہر کے لیے وضو کر چکے تھے پس آپ نے ہر ایک شکایت کرنے والے کی اور ہر ایک سوال کرنے والے کی داد رسی اور نماز سے پہلے ہی سارا خزانہ راہ اللہ لٹا دیا ۔ حضرت عباس کو حکم دیا کہ لے اس میں سے لے اور گٹھڑی باندھ کر لے جاؤ پس یہ ان کے لیے بہت بہتر تھا ۔ اور اللہ تعالیٰ گناہ بھی معاف فرمائے گا ۔ یہ خزانہ ابن الحضرمی نے بھیجا تھا اتنا مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس سے پہلے یا اس کے بعد کبھی نہیں آیا ۔ سب کا سب بوریوں پر پھیلادیا گیا اور نماز کی اذان ہوئی ۔ آپ تشریف لائے اور مال کے پاس کھڑے ہوگئے مسجد کے نمازی بھی آگئے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو دینا شروع کیا نہ تو اس دن ناپ تول تھی نہ گنتی اور شمار تھا ، پس جو آیا وہ لے گیا اور دل کھول کر لے گیا ۔ حضرت ابن عباس نے تو اپنی چادر میں گٹھڑی باندھ لی لیکن اٹھا نہ سکے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا اونچا کر دیجئے آپ کو بےساختہ ہنسی آگئی اتنی کہ دانت چمکنے لگے ۔ فرمایا کچھ کم کر دو جتنا اٹھے اتنا ہی لو ۔ چنانچہ کچھ کم لیا اور اٹھا کر یہ کہتے ہوئے چلے کہ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے ایک بات تو پوری ہوتی دکھا دی اور دوسرا وعدہ بھی انشاء اللہ پورا ہو کر ہی رہے گا ۔ اس سے بہتر ہے جو ہم سے لیا گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم برابر اس مال کا تقسیم فرماتے رہے یہاں تک کہ اس میں سے ایک پائی بھی نہ بچی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل کو اس میں سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی ۔ پھر نماز کے لیے آگے بڑھے اور نماز پڑھائی دوسری حدیث ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے مال آیا اتنا کہ اس سے پہلے یا اس کے بعد اتنا مال کبھی نہیں آیا ۔ حکم دیا کہ مسجد میں پھیلا دو پھر نماز کے لیے آئے کسی کی طرف سے التفات نہ کیا نماز پڑھا کر بیٹھ گئے پھر تو جسے دیکھتے دیتے اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ آگئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ مجھے دلوائیے میں نے اپنا اور عقیل کا فدیہ دیا ہے آپ نے فرمایا اپنے ہاتھ سے لے لو ۔ انہوں نے چادر میں گٹھڑی باندھی لیکن وزنی ہو نے کے باعث اٹھا نہ سکے تو کہا یا رسول اللہ کسی کو حکم دیجئے کہ میرے کاندھے پر چڑھا دے آپ نے فرمایا میں تو کسی سے نہیں کہتا ، کہا اچھا آپ ہی ذرا اٹھوا دیجئے آپ نے اس کا بھی انکار کیا اب تو بادل ناخواستہ اس میں کچھ کم کرنا پڑا پھر اٹھا کر کندھے پر رکھ کر چل دیجئے ۔ ان کے اس لالچ کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں جب تک یہ آپ کی نگاہ سے اوجھل نہ ہوگئے انہیں پر رہیں پس جب کل مال بانٹ چکے ایک کوڑی بھی باقی نہ بچی تب آپ وہاں سے اٹھے امام بخاری شریف میں تعلیقاً جزم کے صیغہ کے ساتھ وارد کی ہے ۔ اگر یہ لوگ خیانت کرنا چاہیں گے تو یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے وہ خود اللہ کی خیانت بھی کر چکے ہیں ۔ تو ان سے یہ بھی ممکن ہے کہ اب جو ظاہر کریں اس کے خلاف اپنے دل میں رکھیں ۔ اس سے تو نہ گھبرا جیسے اللہ تعالیٰ نے اس وقت انہیں تیرے قابو میں کر دیا ہے ۔ ایسے ہی وہ ہمیشہ قادر ہے ۔ اللہ کا کوئی کام علم و حکمت سے خالی نہیں ۔ ان کے اور تمام مخلوق کے ساتھ جو کچھ وہ کرتا ہے اپنے ازلی ابدی پورے علم اور کامل حکمت کے ساتھ حضرت قتادہ کہتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کاتب کے بارے میں اتری ہے جو مرتد ہو کر مشرکوں میں جا ملا تھا ۔ عطاء خراسانی کا قول ہے کہ حضرت عباس اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہے جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی کرتے رہیں گے ۔ سدی نے اسے عام اور سب کو شامل کہی یہی ٹھیک بھی ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

70۔ 1 یعنی ایمان و اسلام لانے کی نیت اور اسے قبول کرنے کا جذبہ۔ 70۔ 2 یعنی جو فدیہ تم سے لیا گیا، اس سے بہتر تمہیں اللہ تعالیٰ قبول اسلام کے بعد عطا فرما دے گا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا، حضرت عباس وغیرہ جو ان قیدیوں میں تھے، مسلمان ہوگئے تو اس کے بعد اللہ نے انہیں دنیاوی مال و دولت سے بھی خوب نوازا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٢] سیدنا عباس کا فدیہ اسلام لانے کی وجہ اور آپ پر اللہ کی مہربانی :۔ آپ نے اپنے چچا سیدنا عباس سے کہا کہ اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں کا فدیہ جمع کراؤ۔ انہوں نے کہا میرے پاس تو مال نہیں اور جنگ میں مجھ سے چوبیس اوقیہ چھین لیے گئے ہیں۔ یعنی زبردستی چندہ لیا گیا ہے وہی ہمارا فدیہ سمجھ لیجئے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید مجھے کچھ دیئے بغیر ہی رشتہ داری کی بنا پر چھوڑ دیا جائے گا (آپ مالدار تھے لیکن طبعاً بخیل بھی تھے۔ کیونکہ سودی کاروبار کرتے تھے۔ چناچہ جب سود حرام ہوا تو رسول اللہ نے حجۃ الوداع کے عظیم اجتماع میں یہ اعلان فرمایا تھا کہ سب سے پہلے میں اپنے خاندان سے عباس بن عبدالمطلب کا سود کالعدم قرار دیتا ہوں) آپ چونکہ اپنے چچا کی طبیعت سے واقف تھے۔ لہذا صحابہ سے کہہ دیا کہ انہیں فدیہ کے مال سے ایک پیسہ بھی نہ چھوڑنا۔ پھر آپ نے اپنے چچا سے مخاطب ہو کر فرمایا : تمہارا مال کہاں گیا جو تم نے اور ام الفضل نے مل کر گاڑا ہے ؟ یہ ایسی بات تھی جس کا ان کے سوا کسی کو علم نہ تھا۔ جب سیدنا عباس نے یہ بات سنی تو کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اسلام لے آئے۔ پھر اپنا، اپنے دونوں بھتیجوں اور اپنے حلیف عتبہ بن عمر کا فدیہ ادا کردیا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ مجھ سے بیس اوقیہ بطور فدیہ لیا گیا۔ لیکن اس کے عوض اللہ نے دنیا میں مجھے بہت زیادہ مال دیا۔ اس وقت میرے پاس بیس غلام ہیں۔ جن کی کمائی سے مجھے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے زمزم کی تولیت بھی مجھے عطا فرمائی۔ علاوہ ازیں میں اللہ سے مغفرت کی امید بھی رکھتا ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لِّمَنْ فِيْٓ اَيْدِيْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓي : جب بدر کے قیدی لائے گئے تو بعض نے اسلام کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نے مجبور کیے جانے پر جنگ میں شرکت کی تھی، ان میں عباس (رض) بھی تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان کو فدیے کی معافی نہیں دی گئی، بلکہ دل سے مسلمان ہونے کی صورت میں لیے گئے فدیے سے بہتر عطا اور مغفرت کا وعدہ کیا گیا۔ عباس (رض) فرماتے ہیں : ” اللہ کی قسم یہ آیت میرے بارے میں اتری، جب میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے اسلام لانے کی خبر دی اور درخواست کی کہ مجھ سے جو بیس اوقیہ فدیہ لیا گیا ہے اس کے بدلے میں مجھے کچھ دیں، تو آپ نے مجھے ان کے بدلے میں بیس غلام دیے جو سب میرے مال سے میرے لیے تجارت کر رہے ہیں، اس کے ساتھ میں اللہ جل ذکرہٗ سے مغفرت کی بھی امید رکھتا ہوں۔ “ [ مسند إسحاق بن راہویہ۔ تفسیر طبری۔ طبرانی وغیرہم ] ” الاستیعاب فی بیان الأسباب “ میں بہت سے حوالے دے کر اسے حسن کہا گیا ہے۔ عباس (رض) نے اپنے بھتیجے عقیل کا فدیہ بھی اپنے پاس سے دیا تھا۔ [ بخاری،- الجہاد والسیر، باب فداء المشرکین : ٣٠٤٩ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے پیغمبر آپ کے قبضہ میں جو قیدی ہیں ( ان میں جو مسلمان ہوگئے ہیں) آپ ان سے فرما دیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو تمہارے قلب میں ایمان معلوم ہوگا ( یعنی تم دل سے مسلمان ہوئے ہوگے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم تو مطابق واقع کے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ مسلمان اسی کو جانیں گے جو واقع میں مسلمان ہوگا اور جو شخص غیر مسلم ہوگا اس کو غیر مسلم ہی جانیں گے پس اگر تم دل سے مسلمان ہوگے) تو جو کچھ تم سے ( فدیہ میں) لیا گیا ہے ( دنیا میں) اس سے بہتر تم کو دے دے گا اور ( آخرت میں) تم کو بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے ہیں ( اس لئے تم کو بخش دیں گے اور) بڑی رحمت والے ہیں ( اس لئے تم کو نعم البدل دیں گے) اور اگر ( بالفرض) یہ لوگ ( صدق دل سے مسلمان نہ ہوئے ہوں بلکہ اظہار اسلام سے محض آپ کو دھوکا ہی دینا چاہیں اور دل میں) آپ کے ساتھ خیانت کرنے کا ( یعنی نقض عہد کرکے مخالفت و مقابلہ کا) ارادہ رکھتے ہوں تو ( کچھ فکر نہ کیجئے اللہ تعالیٰ ان کو پھر آپ کے ہاتھوں میں گرفتار کرادے گا جیسا) اس سے پہلے انہوں نے اللہ کے ساتھ خیانت کی تھی ( اور آپ کی مخالفت اور مقابلہ کیا) پھر اللہ نے ان کو ( آپ کے ہاتھوں میں) گرفتار کرادیا اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے ہیں ( کہ کون خائن ہے اور) بڑی حکمت والے ہیں ( ایسی صورتیں پیدا کردیتا ہے جس سے خائن مغلوب ہوجائے ) ۔- معارف و مسائل - غزوہ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا۔ اسلام اور مسلمانوں کے وہ دشمن جنہوں نے ان کے ستانے، مار نے، قتل کرنے میں کسی وقت بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور جب موقع مل گیا انتہائی وحشیانہ مظالم ان پر کئے مسلمانوں کے ہاتھوں میں قید ہوجانے کے بعد ان کی جان بخشی کردینا کوئی معمولی بات نہ تھی ان کے لئے بڑی غنیمت اور انتہائی لطف و کرم تھا فدیہ میں جو رقم ان سے لی گئی وہ بھی نہایت معمولی تھی۔- اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم دیکھئے کہ اس معمولی رقم کے دینے سے جو ایک قسم کی تکلیف ان کو پیش آئی اس کو بھی کس طرح رفع فرمایا جاتا ہے۔ آیت مذکورہ میں ارشاد ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں کوئی خیر پائیں گے تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے دیں گے۔ اور اس پر مزید یہ کہ تمہارے پچھلے گناہ بخش دیں گے۔ خیر سے مراد ایمان اور اخلاص ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آزاد ہونے کے بعد ان قیدیوں میں جو لوگ ایمان و اسلام کو اخلاص کے ساتھ اختیار کرلیں گے تو جو کچھ فدیہ میں دیا ہے اس سے زیادہ اور بہتر ان کو مل جائے گا۔ قیدیوں کو آزاد و خود مختار کردینے کے ساتھ اس طرح دعوت دی گئی کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے نفع نقصان پر غور کریں۔ چناچہ واقعات شاہد ہیں کہ ان لوگوں میں سے جو مسلمان ہوگئے اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت اور جنت کے درجات عالیہ کے علاوہ دنیا میں بھی ان کو اتنا مال و دولت دے دیا جو ان کے فدیہ سے بدرجہا زائد تھا۔- اکثر مفسرین نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت عباس (رض) کے بارے میں نازل ہوئی تھی کیونکہ وہ بھی بدر کے قیدیوں میں شامل تھے اور ان سے بھی فدیہ لیا گیا تھا۔ ان کی خصوصیت اس معاملہ میں یہ تھی کہ جنگ بدر میں یہ مکہ سے اپنے ساتھ تقریبا سات سو گنی سونا لے کر چلے تھے تاکہ وہ لشکر کفار پر خرچ کیا جائے اور ابھی یہ خرچ ہونے نہیں پایا تھا کہ وہ مع اس سونے کے گرفتار کر لئے گئے۔- جب فدیہ دینے کا وقت آیا تو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میرے ساتھ جو سونا تھا اس کو میرے فدیہ کی رقم میں لگا لیا جائے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو مال آپ کفر کی امداد کے لئے لائے تھے وہ تو مسلمانوں کا مال غنیمت بن گیا۔ فدیہ اس کے علاوہ ہونا چاہئے اور ساتھ ہی بھی فرمایا کہ اپنے دو بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث کا فدیہ بھی آپ ادا کریں۔ عباس (رض) نے عرض کیا کہ اگر اتنا مالی بار مجھ پر ڈالا گیا تو مجھے قریش سے بھیک مانگنا پڑے گی میں بالکل فقیر ہوجاؤں گا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کیوں کیا آپ کے پاس وہ مال موجود نہیں جو مکہ سے روانگی کے وقت آپ نے اپنی زوجہ ام الفضل کے حوالہ کیا ہے۔ حضرت عباس نے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا جب کہ وہ میں نے رات کی تاریکی اور تنہائی میں اپنی بیوی کے سپرد کیا تھا اور کوئی تیسرا آدمی اس سے واقف نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے میرے رب نے اس کی پوری تفصیل بتلا دی۔ حضرت عباس کے دل میں یہ سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے رسول ہونے کا یقین ہوگیا۔ اس سے پہلے بھی وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل سے معتقد تھے مگر کچھ شبہات تھے جو اللہ تعالیٰ نے اس وقت رفع فرمادیئے اور وہ در حقیقت اسی وقت سے مسلمان ہوگئے۔ مگر ان کا بہت سا روپیہ قریش مکہ کے ذمہ قرض تھا۔ اگر یہ اسی وقت اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کردیتے تو وہ روپیہ مارا جاتا اس لئے اعلان نہیں کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کسی سے اس کا اظہار نہیں کیا۔ فتح مکہ سے پہلے انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی اجازت چاہی کہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آجائیں مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یہی مشورہ دیا کہ ابھی ہجرت نہ کریں۔- حضرت عباس کی اس گفتگو پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت مذکورہ میں آیا ہوا وعدہ بھی ان کو بتلا دیا کہ اگر آپ نے اسلام قبول کرلیا اور اخلاص کے ساتھ مومن ہوگئے تو جو کچھ مال فدیہ میں خرچ کیا ہے اس سے بہتر اللہ آپ کو عطا فرمادیں گے۔ چناچہ حضرت عباس اظہار اسلام کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ میں تو اس وعدہ کا ظہور اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ کیونکہ مجھ سے بیس اوقیہ سونا فدیہ میں لیا گیا تھا، اس وقت میرے بیس غلام مختلف جگہوں میں تجارت کا کاروبار کر رہے ہیں اور کسی کا کاروبار بیس ہزار درہم سے کم کا نہیں ہے۔ اور اس پر مزید یہ انعام ہے کہ مجھے حجاج کو آب زمزم پلانے کی خدمت مل گئی ہے جو میرے نزدیک ایسا گرانقدر کام ہے کہ سارے اہل مکہ کے اموال بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ سمجھتا ہوں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ قُلْ لِّمَنْ فِيْٓ اَيْدِيْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰٓي۝ ٠ ۙ اِنْ يَّعْلَمِ اللہُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ خَيْرًا يُّؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٧٠- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - أسر - الأَسْر : الشدّ بالقید، من قولهم : أسرت القتب، وسمّي الأسير بذلک، ثم قيل لكلّ مأخوذٍ ومقيّد وإن لم يكن مشدوداً ذلك «1» . وقیل في جمعه : أَسَارَى وأُسَارَى وأَسْرَى، وقال تعالی: وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] .- ويتجوّز به فيقال : أنا أسير نعمتک، وأُسْرَة الرجل : من يتقوّى به . قال تعالی: وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] إشارة إلى حکمته تعالیٰ في تراکيب الإنسان المأمور بتأمّلها وتدبّرها في قوله تعالی: وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ [ الذاریات 21] . والأَسْر : احتباس البول، ورجل مَأْسُور : أصابه أسر، كأنه سدّ منفذ بوله، والأسر في البول کالحصر في الغائط .- ( ا س ر ) الاسر کے معنی قید میں جکڑ لینے کے ہیں ۔ یہ اسرت القتب سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں میں نے پالان کو مضبوطی سے باندھ دیا اور قیدی کو اسیر اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ رسی وغیرہ سے باندھا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :َ وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ( سورة الإِنْسان 8) اور یتیموں اور قیدیوں کو ۔ پھر اس شخص کو جو گرفتار اور مقید ہوکر آئے الاسیر کہہ دیا جاتا ہے گو وہ باندھا ہوا نہ ہوا سیر کی جمع اسارٰی و اساریٰ واسریٰ ہے اور مجازا ۔ انا اسیر نعمتک کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی تیرے احسان کی رسی میں بندھا ہوا ہوں ۔ اور اسرۃ الرجل کے معنی افراد خادندان کے ہیں جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ ( سورة الإِنْسان 28) اور ان کی بندش کو مضبوطی سے باندھ دیا ۔ میں اس حکمت الہی کی طرف اشارہ ہے جو انسان کی بئیت ترکیبی میں پائی جاتی ہے جس پر کہ آیت وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ( سورة الذاریات 21) میں غور فکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ الاسر ۔ کے معنی ہیں پیشاب بند ہوجانا ۔ اور جو شخص اس بماری میں مبتلا ہوا سے عاسور کہا جاتا ہے گو یا اس کی پیشاب کی نالی بند کردی گئی ہے اس کے مقابلہ میں پاخانہ کی بندش پر حصر کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٠) یعنی حضرت عباس (رض) وغیرہ سے فرما دیجیے کہ اگر تمہارے قلوب میں ایمان معلوم ہوا تو تم سے جو فدیہ لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے دے گا اور اللہ تعالیٰ زمانہ جاہلیت کے تمہارے گناہوں کو معاف فرما دے گا کیوں کہ جو ایمان لائے تو اس کو معاف فرمانے والا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” یایھا النبی قل لمن فی ایدیکم “۔ (الخ)- طبرانی (رح) نے اوسط میں ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عباس (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم میرے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔- جس وقت کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میرے اسلام کی اطلاع ہوئی اور میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی تھی کہ بیس اوقیہ چاندی جو میرے پاس تھی وہ آپ نے لے لی تو آپ نے اس کے بدلہ میں مجھے بیس غلام دیے، جن میں سے ہر ایک غلام میرے مال سے تجارت کررہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرا وعدہ مغفرت کا مجھے انتظار ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ (یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْٓ اَیْدِیْکُمْ مِّنَ الْاَسْرآیلا) - اس آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے پس منظر کے طور پر غزوۂ بدر کے قیدیوں کے بارے میں دو باتیں ذہن میں رکھیے۔ ایک تو ان قیدیوں میں بہت سے وہ لوگ بھی شامل تھے جو اپنی مرضی سے جنگ لڑنے نہیں آئے تھے۔ وہ اپنے سرداروں کے دباؤ یا بعض دوسری مصلحتوں کے تحت بادل نخواستہ جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ دوسری اہم بات ان کے بارے میں یہ تھی کہ ان میں سے بہت سے لوگ بعض مسلمانوں کے بہت قریبی رشتہ دار تھے۔ خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقیقی چچا حضرت عباس (رض) بن عبدالمطلب بھی ان قیدیوں میں شامل تھے۔ ان کے بارے میں گمان غالب یہی ہے کہ وہ ایمان تو لا چکے تھے مگر اس وقت تک انہوں نے اپنے ایمان کا اعلان نہیں کیا تھا۔ روایات میں ہے کہ حضرت عباس (رض) جن رسیوں میں بندھے ہوئے تھے ان کے بند بہت سخت تھے۔ وہ تکلیف کے باعث بار بار کراہتے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی آواز سن کر بےچین ہوجاتے تھے ‘ مگر قانون تو قانون ہے ‘ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے کسی رعایت کی خواہش کا اظہار نہیں فرمایا۔ مگر جب ان کی تکلیف طبیعت پر زیادہ گراں گزری تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کے بند ڈھیلے کردیے جائیں۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے داماد ابوالعاص بھی قید ہو کر آئے تھے اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بڑی صاحبزادی حضرت زینب (رض) نے اپنے شوہر کو چھڑانے کے لیے اپنا ہار فدیے کے طور پر بھیجا ‘ جو ان کو حضرت خدیجہ (رض) نے ان کی شادی کے موقع پر دیا تھا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بڑی رقت آمیز صورت حال پیدا ہوگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب وہ ہار دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حضرت خدیجہ (رض) کے ساتھ گزاری ہوئی ساری زندگی ‘ آپ (رض) کی خدمت گزاری اور وفا شعاری کی یاد مجسم ہو کر نگاہوں کے سامنے آگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آپ لوگ اگر اجازت دیں تو یہ ہار واپس کردیا جائے تاکہ ماں کی نشانی بیٹی کے پاس ہی رہے۔ چناچہ سب کی اجازت سے وہ ہار واپس بھجوا دیا گیا۔ یوں قیدیوں کے ساتھ اکثر مہاجرین کے خونی رشتے تھے ‘ اس لیے کہ یہ سب لوگ ایک ہی خاندان اور ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ - یہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ آپ کے قبضے میں جو قیدی ہیں آپ ان سے کہہ دیجیے :- (اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ خَیْرًا یُّؤْتِکُمْ خَیْرًا مِّمَّآ اُخِذَ مِنْکُمْ ) - یعنی تمہاری نیتوں کا معاملہ تمہارے اور اللہ کے مابین ہے ‘ جبکہ برتاؤ تمہارے ساتھ خالصتاً قانون کے مطابق ہوگا۔ تم سب لوگ جنگ میں کفار کا ساتھ دینے کے لیے آئے تھے اور اب قانوناً جنگی قیدی ہو۔ جنگ میں کوئی اپنی خوشی سے آیا تھا یا مجبوراً ‘ کوئی دل میں ایمان لے کر آیا تھا یا کفر کی حالت میں آیا تھا ‘ ان سب باتوں کی حقیقت کو اللہ خوب جانتا ہے اور وہ دلوں کی نیتوں کے مطابق ہی تم سب کے ساتھ معاملہ کرے گا اور جس کے دل میں خیر اور بھلائی پائے گا اس کو کہیں بہتر انداز میں وہ اس بھلائی کا صلہ دے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

50: بھلائی دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کیا ہے، وہ خلوصِ دل کے ساتھ ہو، کوئی شرارت نہ ہو۔ اس صورت میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی آزادی کے لئے فدیہ میں جو کچھ خرچ کیا ہے، اس سے بہتر بدلہ انہیں دُنیا یا آخرت میں دے دیا جائے گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہم جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور بدر کی جنگ میں قید ہوگئے تھے، انہوں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ میں مسلمان ہونا چاہتا تھا، مگر میرے قبیلے کے لوگوں نے مجھے جنگ میں آنے پر مجبور کردیا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہر حال جو فدیہ دینا طے ہوا ہے، وہ تو تمہیں دینا ہوگا اور اپنے بھتیجوں عقیل اور نوفل کا فدیہ بھی تم دو، انہوں نے کہا کہ اتنی رقم میں کہاں سے لاؤں، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ رقم کہاں ہے جو تم اپنی اہلیہ ام الفضل کے پاس خفیہ طور پر چھوڑ کر آئے ہو؟ حضرت عباسؓ نے یہ سنا توہکا بکا رہ گئے، کیونکہ اس بات کا علم ان کے اور ان کی اہلیہ کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں۔ کہ آپ (صلی اﷲ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، بعد میں حضرت عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ جتنا کچھ میں نے فدیہ میں دیا تھا، واقعی اس سے کہیں زیادہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے۔