71۔ 1 یعنی زبان سے تو اظہار اسلام کردیں لیکن مقصد دھوکا دینا ہو، تو اس سے قبل انہوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کر کے کیا حاصل کیا ؟ یہی کہ وہ مسلمانوں کے قیدی بن گئے، اس لئے آئندہ بھی اگر وہ شرک کے راستہ پر قائم رہے تو اس سے مزید ذلت و رسوائی کے سوا انہیں کچھ اور حاصل نہیں ہوگا۔
[٧٣] جب اسلام سے مقصود دھوکا ہو تو بھی قبول کرو۔ اللہ فیصل ہوگا :۔ یعنی اگر ان جنگی قیدیوں کا اظہار اسلام سے مقصود صرف آپ کو دھوکا دینا ہو تو بھی کوئی بات نہیں آپ ان پر اعتماد کیجئے، کیونکہ اس قسم کے لوگ پہلے اللہ سے بھی بدعہدی کرچکے ہیں اور ان سے مراد بنی ہاشم کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ابو طالب کی زندگی میں آپ کی حمایت کا عہد کیا اور اس پر اتفاق کیا تھا اور قسمیں کھائی تھیں۔ پھر انہی میں سے کچھ لوگ کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنے آئے تو اللہ نے ان کو سزا دے دی اور وہ آپ کے قیدی بن گئے اور اگر اب بھی بدعہدی کریں گے تو بھی اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔
وَاِنْ يُّرِيْدُوْا خِيَانَتَكَ : یعنی اگر وہ اسلام کا دعویٰ یا آئندہ آپ سے نہ لڑنے کا وعدہ صرف رہائی اور آپ کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے کر رہے ہیں اور ان کے دل میں کھوٹ ہے، تو پہلے انھوں نے اللہ کے ساتھ شرک اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ کی خیانت کر کے کیا حاصل کرلیا، یہی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان پر قابو عطا فرمایا، اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے خوش خبری اور قیدیوں کے لیے وعید ہے۔ ” فَاَمْكَنَ “ کا مفعول محذوف ہے، یعنی ” أَمْکَنَکَ مِنْھُمْ “ کہ اس نے آپ کو ان پر قابو دے دیا۔
غزوہ بدر کے قیدیوں میں سے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے تھے مگر ان کے بارے میں یہ کھٹک لوگوں کے دل میں تھی کہ شاید یہ لوگ مکہ پہنچ کر اسلام سے پھرجائیں اور پھر ہمیں کوئی نقصان پہنچائیں۔ حق تعالیٰ نے اس کے بعد والی آیت میں اس خطرہ کو اس طرح دور فرما دیا (آیت) وَاِنْ يُّرِيْدُوْا خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْكَنَ مِنْهُمْ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۔ یعنی اگر یہ لوگ آپ کے ساتھ خیانت ہی کا ارادہ کرلیں تو اس سے آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا یہ تو وہی لوگ ہیں جو اس سے پہلے اللہ کے ساتھ خیانت کرچکے ہیں یعنی میثاق ازل میں جو اللہ تعالیٰ کے رب العالمین ہونے کا اقرار کیا تھا اس کی مخالفت کرنے لگے تھے۔ لیکن ان کی یہ خیانت خود انھیں کے لئے مضر ثابت ہوئی کہ انجام کار ذلیل و خوار اور گرفتار ہوئے۔ اور اللہ تعالیٰ تو دلوں کے رازوں کو جاننے والے اور بڑی حکمت والے ہیں۔ اگر یہ لوگ اب بھی آپ کی مخالفت کرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ سے باہر کہاں چلے جائیں گے وہ پھر ان کو اسی طرح پکڑلے گا۔ پچھلی آیت میں آزاد ہونے والے قیدیوں کو اسلام کی طرف دعوت ترغیبی انداز میں دی گئی تھی اس آیت میں ترہیب کے ذریعہ ان کو آگاہ کردیا کہ تمہاری دنیا و آخرت کی بھلائی اسلام و ایمان میں منحصر ہے۔- یہاں تک کفار کے ساتھ قتل و قتال اور ان کے قید کرنے، آزاد کرنے کے اور ان سے صلح و مصالحت کے احکام کا بیان ہورہا تھا۔ اگلی آیات میں آخر سورت تک اسی سلسلہ کے ایک خاص باب کا ذکر اور اس کے احکام کی کچھ تفصیل مذکور ہے اور وہ احکام ہجرت ہیں کیونکہ کفار کے ساتھ مقابلہ میں کبھی ایسے حالات بھی پیش آسکتے ہیں کہ نہ مسلمانوں کو ان کے مقابلہ پر قتل و قتال کی طاقت ہے اور نہ وہ صلح پر راضی ہیں۔ ایسی کمزوری کی حالت میں اسلام اور مسلمانوں کی نجات کی راہ ہجرت ہے کہ اس شہر اور ملک کو چھوڑ کر کسی دوسری زمین میں جاکر قیام کریں جہاں اسلامی احکام پر آزادانہ عمل ہو سکے۔
وَاِنْ يُّرِيْدُوْا خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللہَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْكَنَ مِنْہُمْ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ٧١- خون - الخِيَانَة والنّفاق واحد، إلا أنّ الخیانة تقال اعتبارا بالعهد والأمانة، والنّفاق يقال اعتبارا بالدّين، ثم يتداخلان، فالخیانة : مخالفة الحقّ بنقض العهد في السّرّ. ونقیض الخیانة :- الأمانة وعلی ذلک قوله : لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ- [ الأنفال 27] ،- ( خ و ن ) الخیانۃ - خیانت اور نفاق دونوں ہم معنی ہیں مگر خیانت کا لفظ عہد اور امانت کا پاس نہ کرنے پر بولا جاتا ہے اور نفاق دین کے متعلق بولا جاتا ہے پھر ان میں تداخل ہوجاتا ہے پس خیانت کے معنی خفیہ طور پر عہد شکنی کرکے حق کی مخالفت کے آتے ہیں اس کا ضد امانت ہے ۔ اور محاورہ میں دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو ۔
(٧١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہ ایمان کا اظہار کرکے خیانت کرنا چاہیں تو اس سے پہلے بھی انہوں نے ایمان نہ لاکر اور گناہوں کا ارتکاب کرکے اللہ تعالیٰ کے ساتھ خیانت کی ہے پھر اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر کے دن آپ کو ان پر غلبہ عطا فرمادیا ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ خیانت وغیرہ ہے اللہ تعالیٰ اس سے اچھی طرح واقف ہیں اور جو ان کے متعلق فیصلہ فرمایا ہے اس کی حکمت کو جاننے والے ہیں۔
آیت ٧١ (وَاِنْ یُّرِیْدُوْا خِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللّٰہَ مِنْ قَبْلُ ) (فَاَمْکَنَ مِنْہُمْ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ) ۔- یعنی ان قیدیوں میں ایسے بھی ہوں گے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھوٹ بولیں گے ‘ جھوٹے بہانے بنائیں گے ‘ بےجا معذرتیں پیش کریں گے۔ تو اس نوعیت کی خیانتیں یہ اللہ سے بھی کرتے رہے ہیں اور ان کے ایسے ہی کرتوتوں کی پاداش میں ان کو یہ سزا دی گئی ہے کہ اب یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قابو میں ہیں۔- اب اگلی آیات گویا اس سورة مبارکہ کا حاصل کلام یعنی آیات ہیں۔