مجاہدین بدر کی شان مسلمانوں کی قسمیں بیان ہو رہی ہیں ایک تو مہاجر جنہوں نے اللہ کے نام پر وطن ترک کیا اپنے گھر بار ، مال ، تجارت ، کنبہ ، قبیلہ ، دوست احباب چھوڑے ، اللہ کے دین پر قائم رہنے کے لیے نہ جان کو جان سمجھا نہ مال کو مال ۔ دوسرے انصار ، مدنی جنہوں نے ان مہاجروں کو اپنے ہاں ٹھہرایا اپنے مالوں میں ان کا حصہ لگا دیا ان کے ساتھ مل کر ان کے دشمنوں سے لڑائی کی یہ سب آپس میں ایک ہی ہیں ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں بھائی چارہ کرا دیا ایک انصاری ایک مہاجر کو بھائی بھائی بنا دیا ۔ یہ بھائی بندی قرابت داری سے بھی مقدم تھی ایک دوسرے کا وارث بنتا تھا آخر میں یہ منسوخ ہو گئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مہاجرین اور انصار سب آپس میں ایک دوسرے کے والی وارث ہیں اور فتح مکہ کے بعد کے آزاد کردہ مسلمان لوگ قریشی اور آزاد شدہ ثقیف آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں قیامت تک ۔ اور روایت میں ہے دنیا اور آخرت میں مہاجر و انصار کی تعریف میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں فرمان ہے ۔ ( وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ١٠٠ ) 9- التوبہ:100 ) پہلے پہل سبقت کرنے والے مہاجرین و انصار اور ان کے احسان کے تابعدار وہ ہیں جن سے اللہ خوش ہے اور وہ اس سے خوش ہیں اس نے ان کے لیے جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے درختوں کے نیچے چشمے بہ رہے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ( لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ ١١٧ۙ ) 9- التوبہ:117 ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان مہاجرین و انصار پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی توجہ فرمائی جنہوں نے سختی کے وقت بھی آپ کی اتباع نہ چھوڑی ۔ اور آیت میں ہے ( لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ Ďۚ ) 59- الحشر:8 ) ان مہاجر محتاجوں کے لیے جو اپنے مالوں سے اور اپنے شہروں سے نکال دئیے گئے جو اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کی جستجو میں ہیں جو اللہ کی اور رسول کی مدد میں لگے ہوئے ہیں یہی سچے لوگ ہیں ۔ اور جنہوں نے ان کو جگہ دی ان سے محبت رکھی انہیں کشادہ دلی کے ساتھ دیا بلکہ اپنی ضرورت پر ان کی حاجت کو مقدم رکھا ۔ یعنی جو ہجرت کی فضیلت اللہ نے مہاجرین کو دی ہے ان پر وہ ان کا حسد نہیں کرتے ۔ ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مہاجر انصار پر مقدم ہیں ۔ علماء کا اس میں اتفاق ہے ۔ مسند بزار میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ کو ہجرت اور نصرت میں اختیار دیا تو آپ نے ہجرت کو پسند فرمایا ۔ پھر فرماتے ہیں ہے جو ایمان لائے لیکن انہوں نے ترک وطن نہیں کیا تھا انہیں ان کی رفاقت حاصل نہیں ۔ یہ مومنوں کی تیسری قسم ہے جو اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے ان کا مال غنیمت میں کوئی حصہ نہ تھا نہ خمس میں ہاں کسی لڑائی میں شرکت کریں تو اور بات ہے ۔ مسند احمد میں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو کسی فوجی دستے کا سپہ سالار بنا کر بھیجتے تو اسے نصیحت فرماتے کہ دیکھو اپنے دل میں اللہ کا ڈر رکھنا ، مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ خیر خواہانہ برتاؤ کرنا ۔ جاؤ اللہ کا نام لے کر اللہ کی راہ میں جہاد کرو ، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے لڑو ، اپنے دشمن مشرکوں کے سامنے تین باتیں پیش کرو ، ان میں سے جو بھی وہ منظور کرلیں انہیں اختیار ہے ۔ ان سے کہو کہ اسلام قبول کریں ، اگر مان لیں تو پھر ان سے رک جاؤ اور ان میں سے جو اس پر قائم ہو جائیں گے اور جو مہاجروں پر ہے ان پر بھی ہوگا ۔ ورنہ یہ دیہات کے اور مسلمانوں کی طرح ہوں گے ایمان کے احکام ان پر جاری رہیں گے ۔ فے اور غینمت کے مال میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگاہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کسی فوج میں شرکت کریں اور کوئی معرکہ سر کریں ۔ یہ نہ مانیں تو انہیں کہو کہ جزیہ دیں اگر یہ قبول کرلیں تو تم لڑائی سے رک جاؤ اور ان سے جزیہ لے لیا کرو ۔ اگر ان دونوں باتوں کا انکار کریں تو اللہ کی مدد کے بھروسے پر اللہ سے نصرت طلب کر کے ان سے جہاد کرو ۔ جو دیہاتی مسلمان وہیں مقیم ہیں ہجرت نہیں کی یہ اگر کسی وقت تم سے مدد کی خواہش کریں ، دشمنان دین کے مقابلے میں تمہیں بلائیں تو ان کی مدد تم پر واجب ہے لیکن اگر مقابلے پر کوئی ایسا قبیلہ ہو کہ تم میں اور ان میں صلح کا معاہدہ ہے تو خبردار تم عہد شکنی نہ کرنا ۔ قسمیں نہ توڑنا ۔
72۔ 1 یہ صحابہ مہاجرین کہلاتے ہیں جو فضیلت میں صحابہ میں اول نمبر پر ہیں۔ 72۔ 2 یہ انصار کہلاتے ہیں۔ یہ فضیلت میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ 72۔ 3 یعنی ایک دوسرے کے حمایتی اور مددگار ہیں اور بعض نے کہا کہ ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ جیسا کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کے درمیان رشتہ اخوت قائم فرما دیا تھا حتٰی کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بھی بنتے تھے (بعد میں وارثت کا حکم منسوخ ہوگیا) 72۔ 4 یہ صحابہ کی تیسری قسم ہے جو مہاجرین و انصار کے علاوہ ہیں۔ یہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے ہی علاقوں اور قبیلوں میں مقیم رہے۔ اس لئے فرمایا کی تمہاری حمایت یا وراثت کے وہ مستحق نہیں۔ 72۔ 5 مشرکین کے خلاف اگر ان کو تمہاری مدد کی ضرورت پیش آجائے تو پھر ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔ 72۔ 6 ہاں اگر وہ تم سے ایسی قوم کے خلاف مدد کے خواہش مند ہوں کہ تمہارے اور ان کے درمیان صلح اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے تو پھر ان مسلمانوں کی حمایت کے مقابلے میں، معاہدے کی پاسداری زیادہ ضروری ہے۔
[٧٤] ولی کا مفہوم۔۔ مواخات اور وراثت :۔ ولی کا لفظ عربی لغت میں بہت وسیع المعنی ہے اور اس کے معنی دوست، حمایتی، مددگار، سرپرست، وارث، پشتیبان اور قریبی رشتہ دار سب معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد عموماً ایسا شخص ہوتا ہے جو کسی کی موت یا مصیبت کے وقت مدد یا دیت کی ادائیگی یا وراثت کے لحاظ سے سب سے قریب تر ہو۔ ان آیات میں دارالاسلام اور دارالحرب میں رہنے والے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کے متعلق احکام بیان کیے جا رہے ہیں۔ جو مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچ رہے تھے۔ ان کا ایک بنیادی مسئلہ ان کی آبادکاری اور فکر معاش کا تھا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے رسول اللہ نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات یا بھائی چارہ کا سلسلہ قائم کیا اور بروایت سیدنا انس بن مالک (رض) آپ نے ان کے گھر میں مختلف اوقات میں تین مجلسوں میں تقریباً تینتالیس مہاجرین اور انصار کو مواخات کے سلسلہ میں منسلک کردیا۔ یعنی ایک مہاجر کو ایک انصاری کے ساتھ ملا کر انہیں بھائی بھائی بنادیا اور اس مہاجر کے مسائل اور بنیادی ضروریات کو اس انصاری کے ذمہ ڈال دیا۔ جسے انصار نے نہایت وسیع الظرفی اور خوشدلی کے ساتھ قبول کرلیا اور یہ بھائی چارہ یا ولایت اس درجہ تک بڑھی کہ اصلی وارثوں کو چھوڑ کر یہی بھائی ایک دوسرے کے ولی اور وارث ہوتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر زیر آیت (وَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِيْبَھُمْ 33 ) 4 ۔ النسآء :33) اب یہ تو ظاہر ہے کہ اس وقت دارالاسلام صرف مدینہ تھا۔ جہاں مکہ اور دیگر اطراف سے مسلمان ہجرت کر کے پہنچ رہے تھے اور مدینہ کے سوا باقی سارا عرب دارالحرب یا دارالکفر تھا۔ جبکہ مسلمان مکہ اور دیگر اطراف میں بھی موجود تھے۔ اس پس منظر میں اس سورة انفال کی آخری چار آیات میں دارالاسلام کے مسلمانوں کے آپس میں تعلقات بیرونی مسلمانوں سے تعلقات اور حکومتوں کے باہمی معاہدات سے احکام دیئے گئے ہیں جو پیش خدمت ہیں۔- خ دارالحرب اور دارالاسلام میں رہنے والے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی مختلف صورتیں اور اسلام کی خارجہ پالیسی :۔- ١۔ انصار اور مہاجرین جو مدینہ آ چکے ہیں۔ یہ سب مواخات کی رو سے، ایک دوسرے کے ولی بھی ہیں اور وارث بھی جیسا کہ سورة نساء کی آیت نمبر ٣٣ سے بھی واضح ہوتا ہے۔- ٢۔ اور جو مسلمان ہجرت کر کے مدینہ نہیں پہنچے۔ وہ نہ تمہارے ولی یا وارث ہیں اور نہ تم ان کے ولی یا وارث ہوسکتے ہو تاآنکہ وہ ہجرت کر کے تمہارے پاس نہ پہنچ جائیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دارالحرب میں رہنے والا مسلمان دارالاسلام میں رہنے والے مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا اور اس کے برعکس بھی۔ جیسا کہ ایک مسلمان کافر کا یا کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔- ٣۔ دارالاسلام میں رہنے والے مسلمانوں یا ان کی حکومت پر دارالحرب میں رہنے والے مسلمانوں سے متعلق کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اس حکم کے مطابق ان تمام بین الاقوامی تنازعات کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ جہاں کوئی حکومت کسی دوسری حکومت میں بسنے والی اقلیت کی ذمہ داریاں اپنے سر لیتی ہے۔- ٤۔ اگر دارالحرب میں بسنے والے مسلمانوں پر زیادتی اور ظلم روا رکھا جا رہا ہو اور وہ دارالاسلام کے مسلمانوں یا ان کی حکومت سے اس کے مقابلہ میں مدد طلب کریں تو دارالاسلام کے مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا فرض ہوجاتا ہے۔- ٥۔ اور اگر مدد طلب کرنے والے مسلمان کسی ایسے ملک میں بستے ہوں۔ جس کا اسلامی حکومت سے معاہدہ امن و آشتی طے پا چکا ہو تو اس صورت میں مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے بین الاقوامی معاہدہ کا پاس رکھنا زیادہ ضروری ہے اور مسلمانوں کی مدد مانگنے کے باوجود ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔- ٦۔ البتہ ایسے مسلمان جو اس معاہدہ کرنے والی اسلامی حکومت کی حدود سے باہر رہتے ہیں۔ وہ اس اضافی پابندی کے ذمہ دار نہیں۔ وہ چاہیں تو ایسے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرسکتے ہیں اور جس طرح چاہیں کرسکتے ہیں۔ معاہدہ کرنے والی اسلامی حکومت ان کے بارے میں مسؤل نہیں ہوگی۔
سورة انفال کے آخر میں ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں مسلمان چار قسم کے تھے، پہلے وہ جو پہلی ہجرت کرنے والے مہاجرین اولین ہیں، دوسرے انصار مدینہ، تیسرے وہ مومن جنھوں نے ہجرت نہیں کی اور چوتھے وہ جنھوں نے صلح حدیبیہ کے بعد ہجرت کی۔ - اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا : ان سے مراد اولین مہاجر ہیں جو سب سے افضل ہیں۔ - وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا : یہ انصار ہیں، ان کی فضیلت بھی بیشمار ہے، مگر اس بات پر اتفاق ہے کہ مہاجرین انصار سے افضل ہیں۔ عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر ہجرت ( کی فضیلت) نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ایک شخص ہوتا۔ “ [ بخاری، المغازی، باب غزوۃ الطائف۔۔ : ٤٣٣٠ ]- اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ : ” اَوْلِيَاۗءُ “ سے مراد دوست، حمایتی اور مدد گار بھی ہوسکتے ہیں اور ایک دوسرے کے وارث بھی۔ دوسرے مفہوم کے مطابق اشارہ ہوگا اس مؤاخات ( بھائی چارے) کی طرف جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کے بعد مہاجرین و انصار کے درمیان قائم کیا، جس کی بنا پر جاہلیت کے رواج کے مطابق آپس میں بھائی بننے والے ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے، یہاں تک کہ میراث کی آیت : ( وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ ) [ الأنفال : ٧٥ ] نازل ہوئی تو یہ طریقہ منسوخ ہوگیا۔ - وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُهَاجِرُوْا : یہ اس عہد کے مسلمانوں کی تیسری قسم ہے۔ دار الاسلام قائم ہونے کے باوجود اس کی طرف ہجرت نہ کرنے اور کفار کی غلامی میں رہنے پر قناعت کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ایمان کچا ہے، یہ لوگ جہاد میں حصہ لے ہی نہیں سکتے، اس لیے ان کے ساتھ پہلے دو فریقوں جیسی دوستی اور حمایت کسی طرح بھی نہیں ہوسکتی، جب تک ہجرت نہ کریں۔ - وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ : مثلاً کافر ان پر ظلم کر رہے ہوں اور وہ تم سے مدد مانگیں تو تم پر انھیں ظالموں کے پنجے سے چھڑانا فرض ہے، فرمایا : (وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاۗءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا ) [ النساء : ٧٥ ] ” اور تمہیں کیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور ان بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں۔ “- اِلَّا عَلٰي قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ: یعنی اگر تمہارا کفار سے کوئی معاہدہ ہو کہ آپس میں ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے تو تم معاہدے کو پس پشت ڈالتے ہوئے ان کی مدد نہیں کرسکتے، بلکہ ان مسلمانوں سے یہی کہا جائے گا کہ ” دارالکفر “ کو چھوڑ کر ” دارالاسلام “ میں چلے آئیں۔
خلاصہ تفسیر - بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت بھی کی اور اپنے مال اور جان سے اللہ کے راستہ میں جہاد بھی کیا (جس کا وقوع لوازم عادیہ ہجرت سے تھا گو مدار حکم توارث نہیں اور یہ جماعت مہاجرین سے ملقب ہے) اور جن لوگوں نے (ان مہاجرین کو) رہنے کو جگہ دی اور (ان کی) مدد کی (اور یہ جماعت انصار سے ملقب ہے) یہ (دونوں قسم کے) لوگ باہم ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور جو لوگ ایمان تو لائے اور ہجرت نہیں کی تمہارا (یعنی مہاجرین کا) ان سے میراث کا کوئی تعلق نہیں (نہ یہ ان کے وارث نہ وہ ان کے) جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں (اور جب ہجرت کرلیں پھر وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوجائیں گے) اور (گو ان سے تمہارا توارث نہ ہو لیکن) اگر وہ تم سے دین کے کام (یعنی قتال مع الکفار) میں مدد چاہیں تو تمہارے ذمے (ان کی) مدد کرنا واجب ہے مگر اس قوم کے مقابلہ میں نہیں کہ تم میں اور ان میں باہم عہد (صلح کا) ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں کو دیکھتے ہیں (پس ان کے مقررہ احکام میں خلل ڈال کر مستحق ناخوشی نہ ہونا) اور (جس طرح باہم تم میں علاقہ توارث کا ہے اسی طرح) جو لوگ کافر ہیں وہ باہم ایک دوسرے کے وارث ہیں (نہ تم ان کے وارث نہ وہ تمہارے وارث) اگر اس (حکم مذکور) پر عمل نہ کرو گے (بلکہ باوجود تخالف دین محض قرابت کی بناء پر مومن و کافر میں علاقہ توارث قائم رکھو گے) تو دنیا میں بڑا فتنہ اور بڑا فساد پھیلے گا۔ (کیونکہ توارث سے سب ایک جماعت سمجھی جائے گی اور بدون جدا جماعت ہوئے اسلام کو قوت و شوکت حاصل نہیں ہوسکتی اور ضعف اسلام سرمایہ تمام تر فتنہ و فساد عالم کا ہے جیسا کہ ظاہر ہے) اور (اس حکم توارث بین المہاجرین والانصار میں ہرچند کہ سب مہاجرین برابر ہیں خواہ زمانہ ہجرت نبویہ میں انہوں نے ہجرت کی ہو یا بعد میں لیکن فضیلت و مرتبہ میں باہم متفاوت ہیں چنانچہ) جو لوگ (اول) مسلمان ہوئے اور انہوں نے (ہجرت نبویہ کے زمانہ میں) ہجرت کی اور (اول ہی سے) اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے اور جن لوگوں نے (ان مہاجرین کو) اپنے یہاں ٹھہرایا اور ان کی مدد کی یہ لوگ (تو) ایمان کا پورا حق ادا کرنے والے ہیں (کیونکہ اس کا حق یہی ہے کہ اس کے قبول کرنے میں سبقت کرے) ان کے لئے (آخرت میں) بڑی مغفرت اور (جنت میں) بڑی معزز روزی (مقرر) ہے اور جو لوگ (ہجرت نبویہ کے) بعد کے زمانہ میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ جہاد کیا (یعنی کام تو سب کئے مگر بعد میں) سو یہ لوگ (گو فضیلت میں تمہارے برابر نہیں لیکن تاہم) تمہارے ہی شمار میں ہیں (فضیلت میں تو من وجہ کیونکہ اعمال کے تفاضل سے احکام شرعیہ میں تفاوت نہیں ہوتا) اور (ان بعد والے مہاجرین میں) جو لوگ (باہم یا مہاجرین سابقین کے) رشتہ دار ہیں (گو فضل و رتبہ میں کم ہوں لیکن میراث کے اعتبار سے) کتاب اللہ (یعنی حکم شرعی یا آیت میراث) میں ایک دوسرے (کی میراث) کے (بہ نسبت غیر رشتہ داروں کے) زیادہ حقدار ہیں (گو غیر رشتہ دار فضل و رتبہ میں زیادہ ہوں) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں (اس لئے ہر وقت کی مصلحت کے مناسب حکم مقرر فرماتے ہیں) ۔- معارف و مسائل - یہ سورة انفال کی آخری چار آیتیں ہیں۔ ان میں اصل ہجرت کے وہ احکام ہیں جن کا تعلق مہاجر مسلمانوں کی وراثت سے ہے، اس کے بالمقابل غیر مہاجر مسلمان اور غیر مسلموں کی وراثت کا بھی ذکر آیا ہے۔- خلاصہ ان احکام کا یہ ہے کہ جن لوگوں پر شرعی احکام عائد ہوتے ہیں وہ اولا دو قسم پر ہیں۔ مسلم، کافر۔ پھر مسلم اس وقت کے لحاظ سے دو قسم کے تھے ایک مہاجر جو مکہ سے ہجرت فرض ہونے پر مدینہ طیبہ میں آکر مقیم ہوگئے تھے۔ دوسرے غیر مہاجر جو کسی جائز عذر سے یا کسی دوسری وجہ سے مکہ ہی میں رہ گئے تھے۔- باہمی رشتہ داری اور قرابت ان سب قسم کے افراد میں دائر تھی کیونکہ اوائل اسلام میں بکثرت ایسا تھا کہ بیٹا مسلمان ہے باپ کافر یا باپ مسلمان ہے بیٹا کافر۔ اسی طرح بھائی بھتیجوں اور نانے ماموں وغیرہ کا حال۔ اور مسلمان مہاجر اور غیر مہاجر میں رشتہ داریاں ہونا تو ظاہر ہی ہے۔- اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ اور حکمت بالغہ کی وجہ سے مرنے والے انسان کے چھوڑے ہوئے مال کا مستحق اسی کے قریبی عزیزوں، رشتہ داروں کو قرار دیا ہے حالانکہ اصل حقیقت یہ تھی کہ جس کو جو کچھ دنیا میں ملا وہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کی ملک حقیقی تھا، اسی کی طرف سے زندگی بھر استعمال کرنے، نفع اٹھانے کے لئے انسان کو دے کر عارضی مالک بنادیا گیا تھا اس لئے تقاضائے عقل و انصاف تو یہ تھا کہ ہر مرنے والے کا ترکہ اللہ تعالیٰ کی ملک کی طرف لوٹ جاتا جس کی عملی صورت اسلامی بیت المال میں داخل کرنا تھا جس کے ذریعہ ساری خلق اللہ تعالیٰ کی پرورش اور تربیت ہوتی ہے۔ مگر ایسا کرنے میں ایک تو ہر انسان کے طبعی جذبات کو ٹھیس لگتی جب کہ وہ جانتا کہ میرا مال میرے بعد نہ میری اولاد کو ملے گا نہ ماں باپ اور بیوی کو۔ اور پھر اس کا یہ نتیجہ بھی طبعی طور پر لازمی سا تھا کہ کوئی شخص اپنا مال بڑھانے اور اس کو محفوظ رکھنے کی فکر نہ کرتا صرف اپنی زندگی کی حد تک ضروریات جمع رکھنے سے زائد کوئی شخص محنت و جانفشانی نہ کرتا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ پورے انسانوں اور شہروں کے لئے تباہی و بربادی کی صورت اختیار کرتا۔- اس لئے حق تعالیٰ جل شانہ نے میراث کو انسان کے رشتہ داروں کا حق قرار دے دیا بالخصوص ایسے رشتہ داروں کا جن کے فائدہ ہی کے لئے وہ اپنی زندگی میں مال جمع کرتا اور طرح طرح کی محنت مشقت اٹھاتا تھا۔- اس کے ساتھ اسلام نے اس اہم مقصد کو بھی وراثت کی تقسیم میں سامنے رکھا جس کے لئے انسان کی تخلیق ہوئی یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت۔ اور اس کے لحاظ سے پورے عالم انسان کو دو الگ الگ قومیں قرار دے دیا۔ مومن اور کافر۔ آیت قرآن (آیت) خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤ ْمِنٌ کا یہی مطلب ہے۔- اسی دو قومی نظریہ نے نسبی اور خاندانی رشتوں کو میراث کی حد تک قطع کردیا کہ نہ کسی مسلمان کو کسی رشتہ دار کافر کی میراث سے کوئی حصہ ملے گا اور نہ کسی کافر کسی مسلمان رشتہ دار کی وراثت میں کوئی حق ہوگا۔ پہلی دو آیتوں میں یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ اور یہ حکم دائمی اور غیر منسوخ حکم ہے کہ اول اسلام سے لے کر قیامت تک یہی اسلام کا اصول وراثت ہے۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا حکم مسلمان مہاجر اور غیر مہاجر دونوں کے آپس میں وراثت کا ہے۔ جس کے متعلق پہلی آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ مسلمان جب تک مکہ سے ہجرت نہ کرے اس وقت تک اس کا تعلق بھی ہجرت کرنے والے مسلمانوں سے وراثت کے بارے میں منقطع ہے۔ نہ مہاجر مسلمان اپنے غیر مہاجر مسلمان رشتہ دار کا وارث ہوگا اور نہ غیر مہاجر کسی غیر مہاجر مسلمان کی وراثت سے کوئی حصہ پائے گا یہ حکم ظاہر ہے کہ اس وقت تک تھا جب تک کہ مکہ مکرمہ فتح نہیں ہوا تھا فتح مکہ کے بعد تو خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرما دیا تھا لا ھجرة بعد الفتح۔ یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت کا حکم ختم ہوگیا اور جب ہجرت کا حکم ہی ختم ہوگیا تو ترک ہجرت کرنے والوں سے بےتعلقی کا سوال ختم ہوگیا۔- اسی لئے اکثر مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ حکم فتح مکہ سے منسوخ ہوچکا ہے اور اہل تحقیق کے نزدیک یہ حکم بھی دائمی غیر منسوخ ہے مگر حالات کے تابع بدلا ہے، جن حالات میں نزول قرآن کے وقت یہ حکم آیا تھا اگر کسی زمانہ میں یا کسی ملک میں پھر ویسے ہی حالات پیدا ہوجائیں تو پھر یہی حکم جاری ہوجائے گا۔- توضیح اس کی یہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے ہر مسلمان مرد و عورت پر مکہ سے ہجرت کو فرض عین قرار دیا گیا تھا۔ اس حکم کی تعمیل میں بجز معدودے چند مسلمانوں کے سبھی مسلمان ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آگئے تھے اور اس وقت مکہ سے ہجرت نہ کرنا اس کی علامت بن گیا تھا کہ وہ مسلمان نہیں اس لئے اس وقت غیر مہاجر کا اسلام بھی مشتبہ اور مشکوک تھا اس لئے مہاجر اور غیر مہاجر کی باہمی وراثت کو قطع کردیا گیا تھا۔- اب اگر کسی ملک میں پھر بھی ایسے ہی حالات پیدا ہوجائیں کہ وہاں رہ کر اسلامی فرائض کی ادائیگی بالکل نہ ہوسکے تو اس ملک سے ہجرت کرنا پھر فرض ہوجائے گا اور ایسے حالات میں بلا عذر قوی ہجرت نہ کرنا اگر یقینی طور پر علامت کفر کی ہوجائے تو پھر بھی یہی حکم عائد ہوگا کہ مہاجر اور غیر مہاجر میں باہمی وراثت جاری نہ رہے گی۔ اس تقریر سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ مہاجر اور غیر مہاجر میں قطع وراثت کو بیان کرتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اس علامت کفر کی وجہ سے وراثت سے تو محروم کردیا گیا مگر محض اتنی علامت کی وجہ سے اس کو کافر نہیں قرار دیا جب تک اس سے صریح اور واضح طور پر کفر کا ثبوت نہ ہوجائے۔- اور غالبا اسی مصلحت سے اس جگہ ایک اور حکم غیر مہاجر مسلمانوں کا ذکر کردیا گیا ہے کہ اگر وہ مہاجر مسلمانوں سے امداد و نصرت کے طالب ہوں تو مہاجر مسلمانوں کو ان کی امداد کرنا ضروری ہے۔ تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ غیر مہاجر مسلمانوں کو بالکل کافروں کی صف میں نہیں رکھا بلکہ ان کا یہ اسلامی حق باقی رکھا گیا کہ ضرورت کے وقت ان کی امداد کی جائے۔- اور چونکہ اس آیت کا شان نزول ایک خاص ہجرت ہے مکہ سے مدینہ کی طرف اور غیر مہاجر مسلمان وہی تھے جو مکہ میں رہ گئے تھے اور کفار مکہ کے نرغہ میں تھے تو یہ ظاہر ہے کہ ان کا امداد طلب کرنا انھیں کفار مکہ کے مقابلہ میں ہوسکتا تھا۔ اور جب قرآن کریم نے مہاجر مسلمانوں کو ان کی امداد کا حکم دے دیا تو بظاہر اس سے یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ ہر حال میں اور ہر قوم کے مقابلہ میں ان کی امداد کرنا مسلمانوں پر لازم کردیا گیا ہے اگرچہ وہ قوم جس کے مقابلہ پر ان کو امداد مطلوب ہے اس سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ التواء جنگ کا بھی ہوچکا ہو۔ حالانکہ اصول اسلام میں عدل و انصاف اور معاہدہ کی پابندی ایک اہم فریضہ ہے۔ اس لئے اسی آیت میں ایک استثنائی حکم یہ بھی ذکر فرما دیا گیا کہ اگر غیر مہاجر مسلمان مہاجر مسلمانوں سے کسی ایسی قوم کے مقابلہ پر مدد طلب کریں جس سے مسلمانوں نے ترک جنگ کا معاہدہ کر رکھا ہے تو پھر اپنے بھائی مسلمانوں کی امداد بھی معاہد کفار کے مقابلہ میں جائز نہیں۔- یہ خلاصہ مضمون ہے پہلی دو آیتوں کا۔ اب الفاظ سے اس کو ملا کر دیکھئے، ارشاد ہوتا ہے (آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُهَاجِرُوْا۔- یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کے لئے اپنے وطن اور اعزاء و اقرباء کو چھوڑا اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا۔ مال خرچ کرکے ہتھیار اور سامان جنگ خریدا اور میدان جنگ کے لئے اپنی جانوں کو پیش کردیا۔ اس سے مراد مہاجرین اولین ہیں۔ اور وہ لوگ جنہوں نے رہنے کو جگہ دی اور مدد کی۔ اس سے مراد انصار مدینہ ہیں۔ ان دونوں فریق کے متعلق یہ ارشاد فرمایا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ پھر فرمایا کہ وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت نہیں کی تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں جب تک وہ ہجرت نہ کریں۔- اس جگہ قرآن کریم نے لفظ ولی اور ولایت استعمال فرمایا ہے جس کے اصلی معنی دوستی اور گہرے تعلق کے ہیں۔ حضرت ابن عباس، حسن قتادہ مجاہد وغیرہ (رض) اجمعین ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ اس جگہ ولایت سے مراد وراثت اور ولی سے مراد وارث ہے اور بعض حضرات نے ولایت کے لغوی معنی یعنی دوستی اور امداد و اعانت ہی مراد لئے۔- پہلی تفسیر کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمان مہاجر و انصار آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ان کو تعلق وراثت نہ غیر مسلم کے ساتھ قائم رہے گا نہ ان مسلمانوں کے ساتھ جنہوں نے ہجرت نہیں کی۔ پہلا حکم یعنی اختلاف دین کی بنا پر قطع وراثت تو دائمی اور باقی رہا مگر دوسرا حکم فتح مکہ کے بعد جب کہ ہجرت ہی کی ضرورت نہ رہی تو مہاجر اور غیر مہاجر میں قطع وراثت کا حکم بھی باقی نہ رہا۔ اس سے بعض فقہاء نے اس پر استدلال کیا ہے کہ جس طرح اختلاف دین قطع وراثت کا سبب ہے اس طرح ختلاف دارین بھی قطع وراثت کا سبب ہے جس کی تفصیلی بحث کتب فقہ میں مذکور ہے۔- اس کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰي قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۔ یعنی یہ لوگ جنہوں نے ہجرت نہیں کی اگرچہ ان سے تعلق وراثت منقطع کردیا گیا ہے مگر وہ بہرحال مسلمان ہیں اگر وہ اپنے دین کی حفاظت کے لئے مہاجر مسلمانوں سے مدد طلب کریں تو ان کے ذمہ ان کی امداد کرنا واجب ہے۔ مگر اس کے ساتھ اصول عدل و انصاف اور پابندی معاہدہ کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے اگر وہ کسی ایسی قوم کے مقابلہ پر تم سے سے امداد طلب کریں جس قوم سے تمہارا معاہدہ ترک جنگ کا ہوچکا ہے تو ان کے مقابلہ میں ان مسلمانوں کی امداد بھی جائز نہیں۔- صلح حدیبیہ کے وقت ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ سے صلح کرلی اور شرائط صلح میں یہ بھی داخل تھا کہ مکہ سے جو شخص اب مدینہ جائے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس کردیں۔ عین اسی معاملہ صلح کے وقت ابو جندل جن کو کفار مکہ نے قید کرکے طرح طرح کی تکلیفوں میں ڈالا ہوا تھا کسی طرح حاضر خدمت ہوگئے اور اپنی مظلومیت کا اظہار کرکے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدد کے طالب ہوئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رحمت عالم بن کر آئے تھے ایک مظلوم مسلمان کی فریاد سے کتنے متاثر ہوئے ہوں گے اس کا اندازہ کرنا بھی ہر شخص کے لئے آسان نہیں مگر اس تاثر کے باوجود آیت مذکورہ کے حکم کے مطابق ان کی امداد کرنے سے عذر فرما کر واپس کردیا۔ ان کی یہ واپسی سبھی مسلمانوں کے لئے انتہائی دل آزار تھی مگر سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشادات بانی کے ماتحت گویا اس کا مشاہدہ فرما رہے تھے کہ اب ان مظالم کی عمر زیادہ نہیں رہی اور چند روز کے صبر کا ثواب ابو جندل کو اور ملنا ہے اس کے بعد بہت جلد مکہ فتح ہو کر یہ سارے قصے ختم ہونے والے ہیں۔ بہرحال اس وقت ارشاد قرآن کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدہ کی پابندی کو ان کی شخصی مصیبت پر ترجیح دی یہی شریعت اسلام کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جس نے ان کو دنیا میں فتح و عزت اور آخرت کی فلاح کا مالک بنایا ہے۔ ورنہ عام طور پر دنیا کی حکومتیں معاہدات کا ایک کھیل کھیلتی ہیں جس کے ذریعہ کمزور کو دبانا اور قوت والے کو فریب دینا مقصد ہوتا ہے جس وقت اپنی ذرا سی مصلحت سامنے ہوتی ہے تو سو طرح کی تاویلیں کرکے معاہدہ کو ختم کر ڈالتے ہیں اور الزام دوسروں کے سر لگانے کی فکر کرتے ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُہَاجِرُوْا ٠ ۚ وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰي قَوْمٍؚبَيْنَكُمْ وَبَيْنَہُمْ مِّيْثَاقٌ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ٧٢- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - هجر - والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . - ( ھ ج ر ) الھجر - المھاجر ۃ کے اصل معی) تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ - جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» - ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔
ہجرت کی بنا پر توارث کا بیان - قول باری ہے (ان الذین امنوا و ھاجروا و جاھدوا باموالھم و انفسھم فی سبیل اللہ والذین او وا و نصروا اولئک بعضھم اولیاء بعض۔ والذین امنوا والمربھاجرو مالکم من ولا یتیھم من شیء حتیٰ بھاجروا۔ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ ی دراصل ایک دوسرے کے دل میں رہے۔ وہ لوگ جو ایمان لو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دارالاسلام) میں آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں ض ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت سنائی انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے انہیں ابو عبید نے، انہیں حجاج نے ابن جریج سے نیز عثمان بن عطا سے اور دونوں نے عطا خراسانی سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے درج بالا آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ ایک مہاجر کسی اعرابی یعنی ہجرت نہ کرنے والے کا ولی نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی اس کی میراث میں اسے حصہ ملتا تھا اسی طرح ایک اعرابی کسی مہاجر کا وارث نہیں ہوتا تھا پھر اس حکم کو قول باری (و اولوالارحام بعضھم او لی ببعض فی کتاب اللہ۔ اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں) نے منسوخ کردیا۔ - عقد مواخات میں وراثت - عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعود نے قاسم سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کے درمیان عقد مواخات کرا دیا تھا۔ آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور حضرت زبیر العوام (رض) کے درمیان مواخات قائم کردی تھی۔ مواخات کی وجہ یہ تھی کہ مکہ سے آنے والے مسلمان اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر ہجرت کر کے آ گئے تھے اس لئے مواخات کی بنا پر مسلمان ایک دوسرے کے وارث قرار پاتے رہے۔ لیکن جب میراث کی آیت نازل ہوئی تو یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلف کا اس بارے میں اختلاف رہا ہے کہ آیا مسلمانوں کے درمیان ہجرت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قائم کردہ عقد مواخات کی بنا پر توارث کا حکم ثابت رہا۔ خونی رشتہ داری کا اس سلسلے میں کوئی اعتبار نہیں کیا گیا نیز یہ کہ زیر بحث آیت میں یہی حکم مراد ہے نیز یہ کہ قول باری (اولئک بعضھم اولیاء بعض) سے ایسے مسلمانوں کے درمیان توارث کا ایجاب مراد ہے اور قول باری (مالکم من ولا یتھم من شیء حتیٰ یھاجروا) میں موالات کی نفی کر کے ایسے مسلمانوں کے درمیان توارث کا موجب ہے۔ اگرچہ اس توارث کے ساتھ موالات کے تحت آنے والے تمام افراد کا تعلق نہیں بلکہ اس توارث کو موکد بنانے والے اسباب کے لحاظ سے بعض کا تعلق ہوتا ہے جس طرح نسب وہ سبب ہے جس کی بنا پر ایک شخص میراث کا حقدار بن جاتا ہے۔ اگر بعض احوال میں نسبی رشتہ داروں میں سے بعض بعض سے بڑھ کر میراث کے حقدار بن جاتے ہیں اس لئے کہ میراث کا سبب ان میں زیادہ موکد طور پر پایا جاتا ہے۔- اس میں دلیل موجود ہے کہ قول باری (و من قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا جو شخص ظلما قتل کردیا گیا ہو ہم نے اس کے ولی کو قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے) اس بات کو واجب کرتا ہے کہ مقتول کے تمام ورثاء کو اس کے قصاص کا مطالبہ کا حق ہے اس میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں اس لئے کہ وارث ہونے کی حیثیت سے ان میں یکسانیت اور مساوات ہے۔ اس بات پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ نکاح کے سلسلے میں ولایت کا استحقاق میراث کی بنا پر ہوتا ہے نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (لا نکاح الا بوالی ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں) ان تمام کے لئے ولایت کے اثبات کا موج بہے جو میت سے قرب اور وراثت کے سبب کے موکد وہنے کی بنا پر وارث قرار پاتے ہوں نیز یہ کہ اگر باپ موجود نہ ہو تو ماں کو اپنی نابالغ اولاد کے نکاح کا حق حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے۔ اس لئے کہ ماں بھی میراث میں استحقاق کی بنا پر ولایت کی اہلیت رکھتی ہے۔ مکہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے بعد سے لے کر فتح مکہ تک مسلمانوں پر ہجرت فرض رہی۔- فتح مکہ کے بعد ہجرت روک دی گئی - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے موقع پر یہ اعلان فرما دیا تھا کہ (لا ہجرۃ بعد الفتح ولکن جھاد ونیۃ۔ فتح مکہ کے بعد اب کوئی ہجرت نہیں البتہ جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا اور نیت کی بنا پر ثواب ملتا رہے گا) اس طرح ہجرت کی فرضیت کے سقوط سے ہجرت کی بنا پر توارث کا حکم منسوخ ہوگیا اور قول باری (و اولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ) کی بنا پر نسب کی نبی اد پر توارث کا اثبات ہوگیا۔ حسن کا قول ہے مسلمان آپس میں ہجرت کی بنا پر ایک دوسرے کے وارث ہوتے رہے یہاں تک کہ ان کی تعداد بڑھ گئی پھر اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت نازل فرمائی۔ اس کے بعد خونی رشتہ داری کی بناء پر توارث کا سلسلہ قائم ہوگیا۔ اوزاعی نے عبدہ سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت منقطع ہوگئی۔ اوزاعی نے عطاء بن ابی رباح سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے بھی یہی روایت کی ہے۔ اس روایت میں یہ اضافہ ہے۔ ” لیکن اب جہاد کا سلسلہ باقی رہے گا اور نیت کی بنا پر ثواب ملتا رہے گا۔ ہجرت صرف اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوتی تھی۔ اہل ایمان اپنی متاع دین لے کر نکل پڑتے تھے تاکہ آزمائش میں پڑنے سے بچ جائیں اور دین کی دولت ان سے چھین نہ لی جائے لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کا بول بالا کردیا ہے اور اسے ہر طرف پھیلا دیا ہے۔- زیربحث آیت ہجرت اور مواخات کی بنا پر توارت کے حکم کو متضمن ہے۔ انساب کی بنا پر توارث کا حکم اس میں داخل نہیں ہے۔ آیت نے ہجرت کرنے والے اور ہجرت نہ کرنے والے کے درمیان توارث کو منقطع کردیا ہے۔ آیت ایسے مومن کی نصرت کے ایجاب کی بھی مقضی ہے جس نے ہجرت نہ کی ہو جب کہ وہ ہجرت کرنے والوں سے ایسے لوگوں کے خلاف نصرت کا طلب گار ہو جن کے ساتھ ان کا معاہدہ نہ ہو چناچہ ارشاد باری ہے (و ان استنصروکم فی الدین فعلیکم النصر الا علی قوم بینکم و بینھم میثاق۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو) قول باری (مالکم من ولا یتھم من شیء حتیٰ یھاجروا) میں میراث کی نفی کے سلسلے میں ہم نے اس روایت کا ذکر کردیا ہے حضرت ابن عباس (رض) ، حسن مجاہد اور قتادہ نیز دیگر حضرات سے منقول ہے۔ اس سلسلے میں ایک قول یہ ہے کہ درج بالا آیت میں نصرت کے ایجاب کی نفی مراد ہے۔- اس بنا پر ہجرت کرنے والے پر اس مسلمان کی نصرت فرض نہیں ہوگی جس نے ہجرت رکی ہو البتہ اگر وہ مدد کا طلب گار ہو تو پھر اس کی نصرت لازم ہوگی لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس کے ساتھ اس کا معاہدہ ہو وہ اس نصرت کی خاطر اپنا معاہدہ نہیں توڑے گا۔ اگر وایت کی نفی دونوں باتوں یعنی توارث اور نصرت کی نفی کی مقتضی ہوجائے تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہوگا اس کے بعد خونی رشتہ داری کی بنا پر میراث واجب کر کے میراث کی نفی کے اس حکم کو منسوخ کردیا گیا۔ اب خونی رشتہ دار ایک دوسرے کے وارث ہوں گے خواہ ان میں سے کوئی مہاجر ہو یا مہاجر نہ بھی ہو۔ صرف ہجرت کی بنا پر توارث کا حکم ساقط کردیا گیا۔ صنرت کے ایجاب کی نفی کا حکم اس قول باری سے ساقط ہوگیا۔ (والمومنون والمومنات یعضھم اولیاء بعض۔ مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے اولیاء یعنی رفیق ہیں)
(٧٢) یعنی جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو مدینہ منورہ میں جگہ دی اور بدر کے دن ان کی مدد کی، یہ دونوں قسم کے لوگ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر مکہ مکرمہ سے انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہیں کی تو تمہارا ان کے ساتھ اور ان کا تمہارے ساتھ میراث کا کوئی تعلق نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہ کرلیں،- البتہ اگر وہ لوگ تم سے دین کے بارے میں اپنے دشمن کے خلاف مدد لینا چاہیں تو تم پر ان کے دشمن کے خلاف ان کی مدد کرنا لازم ہے، مگر اس قوم کے مقابلہ میں تم پر مدد کرنا لازم نہیں کہ تم، میں اور ان میں باہم صلح کا معاہد ہو مگر صورت میں تم ہی کو ان کے درمیان صلح کرا دینی چاہیے۔
آیت ٧٢ (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓءِکَ بَعْضُہُم اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ط) - اس وقت تک مسلمان معاشرہ دو علیحدہ علیحدہ گروہوں میں منقسم تھا ‘ ایک گروہ مہاجرین کا تھا اور دوسرا انصار کا۔ اگرچہ مہاجرین اور انصار کو بھائی بھائی بنایا جا چکا تھا ‘ لیکن اس طرح کے تعلق سے پورا قبائلی نظام ایک دم تو تبدیل نہیں ہوجاتا۔ اس وقت تک صورت حال یہ تھی کہ غزوۂ بدر سے پہلے جو آٹھ مہمات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مختلف علاقوں میں بھیجیں ان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی انصاری صحابی (رض) کو شریک نہیں فرمایا۔ انصار پہلی دفعہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ اس تاریخی حقیقت کو مد نظر رکھاجائے تو یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ آیت کے پہلے حصے میں مہاجرین کا ذکر ہجرت کے علاوہ جہاد کی تحضیص کے ساتھ کیوں ہوا ہے ؟ یعنی انصار مدینہ تو جہاد میں بعد میں شامل ہوئے ‘ ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد تک تو جہادی مہمات میں حصہ صرف مہاجرین ہی لیتے رہے تھے۔ یہاں انصار کی شان یہ بتائی گئی : (وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْا) کہ انہوں نے اپنے دلوں اور اپنے گھروں میں مہاجرین کے لیے جگہ پیدا کی اور ہر طرح سے ان کی مدد کی۔ - (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُہَاجِرُوْا مَا لَکُمْ مِّنْ وَّلاَیَتِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ ) (حَتّٰی یُہَاجِرُوْا ج) - سورۃ النساء میں (جو اس سورت کے بعد نازل ہوئی ہے) ہجرت نہ کرنے والوں کے بارے میں واضح حکم (آیات ٨٩ ‘ ٩٠) موجود ہے۔ وہاں انہیں منافقین اور کفار جیسے سلوک کا مستحق قرار دیا گیا ہے کہ انہیں پکڑو اور قتل کرو اِلَّا یہ کہ ان کا تعلق کسی ایسے قبیلے سے ہو جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو۔ - آیت زیرنظر میں بھی واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے ہجرت نہیں کی ان کے ساتھ تمہارا کوئی رشتۂ ولایت ورفاقت نہیں ہے۔ یعنی ایمان حقیقی تو دل کا معاملہ ہے جس کی کیفیت صرف اللہ جانتا ہے ‘ لیکن قانونی تقاضوں کے لیے ایمان کا ظاہری معیار ہجرت قرار پایا۔ جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد مکہ سے مدینہ ہجرت کی ‘ انہوں نے اپنے ایمان کا ظاہری ثبوت فراہم کردیا ‘ اور جن لوگوں نے ہجرت نہیں کی مگر ایمان کے دعویدار رہے ‘ انہیں قانونی طور پر مسلمان تسلیم نہیں کیا گیا۔ مثلاً بدر کے قیدیوں میں سے کوئی شخص اگر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں تو ایمان لا چکا تھا ‘ جنگ میں تو مجبوراً شامل ہوا تھا ‘ تو اس کا جواب اس اصول کے مطابق یہی ہے کہ چونکہ تم نے ہجرت نہیں کی ‘ لہٰذا تمہارا شمار ان ہی لوگوں کے ساتھ ہوگا جن کے ساتھ مل کر تم جنگ کرنے آئے تھے۔ اس لحاظ سے اس آیت کا روئے سخن بھی اسیران بدر کی طرف ہے۔- ان میں سے اگر کوئی شخص اسلام کا دعویدار ہے تو وہ قانون کے مطابق فدیہ دے کر آزاد ہو ‘ واپس مکہ جائے ‘ پھر وہاں سے باقاعدہ ہجرت کر کے مدینہ آجائے تو اسے صاحب ایمان تسلیم کیا جائے گا۔ پھر وہ تمہارا حمایتی ہے اور تم اس کے حمایتی ہو گے۔- (وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ ) - یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے لیکن مکہ میں ہی رہے یا اپنے اپنے قبیلے میں رہے اور ان لوگوں نے ہجرت نہیں کی ‘ اگر وہ دین کے معاملے میں تم لوگوں سے مدد مانگیں تو تم ان کی مدد کرو۔- (اِلاَّ عَلٰی قَوْمٍم بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ ط) ۔- اگرچہ دارالاسلام والوں پر ان مسلمانوں کی حمایت و مدافعت کی ذمہ داری نہیں ہے جنہوں نے دارالکفر سے ہجرت نہیں کی ہے ‘ تاہم وہ دینی اخوت کے رشتہ سے خارج نہیں ہیں۔ چناچہ اگر وہ اپنے مسلمان بھائیوں سے اس دینی تعلق کی بنا پر مدد کے طالب ہوں تو ان کی مدد کرنا ضروری ہے ‘ بشرطیکہ یہ مدد کسی ایسے قبیلے کے مقابلے میں نہ مانگی جا رہی ہو جس سے مسلمانوں کا معاہدہ ہوچکا ہے۔ معاہدہ کا احترام بہرحال مقدم ہے۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :50 یہ آیت اسلام کے دستوری قانون کی ایک اہم دفعہ ہے ۔ اس میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ ”ولایت“کا تعلق صرف ان مسلمانوں کے درمیان ہوگا جو یا تو دارالاسلام کے باشندے ہوں ، یا اگر باہر سے آئیں تو ہجرت کر کے آجائیں ۔ باقی رہے وہ مسلمان جو اسلامی ریاست کے حدود ارضی سے باہر ہوں ، تو ان کے ساتھ مذہبی اخوت تو ضرور قائم رہے گی ، لیکن”ولایت“کا تعلق نہ ہوگا ، اور اسی طرح ان مسلمانوں سے بھی یہ تعلق ولایت نہ رہے گا جو ہجرت کر کے نہ آئیں بلکہ دارالکفر کی رعایا ہونے کی حیثیت سے دارالاسلام میں آئیں ۔ ” ولایت“کا لفظ عربی زبان میں حمایت ، نصرت ، مددگاری ، پشتیبانی ، دوستی قرابت ، سرپرستی اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولاجاتا ہے ۔ اور اس آیت کے سیاق و سباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے ، اور شہریوں کا اپنی ریاست سے ، اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے ۔ پس یہ آیت ”دستوری و سیاسی ولایت“ کو اسلامی ریاست کے ارضی حدود تک محدود کر دیتی ہے ، اور ان حدود سے باہر کے مسلمانوں کو اس مخصوص رشتہ سے خارج قرار دیتی ہے ۔ اس عدم ولایت کے قانونی نتائج بہت وسیع ہیں جن کی تفضیلات بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر صرف اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ اسی عدم ولایت کی بنا پر دارالکفر اور دارالا سلام کے مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے ، ایک دوسرے کے قانونی ولی ( ) نہیں بن سکتے ، باہم شادی بیاہ نہیں کر سکتے ، اور اسلامی حکومت کسی ایسے مسلمان کو اپنے ہاں ذمہ داری کا منصب نہیں دے سکتی جس نے دارالکفر سےشہریت کا تعلق نہ توڑا ہو ۔ علاوہ بریں یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی اثر ڈالتی ہے ۔ اس کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں ۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے ۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا بری من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین ۔ ”میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو“ ۔ اس طرح اسلامی قانون نے اس جھگڑے کی جڑ کات دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے ۔ کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑجاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں ۔ سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :51 اوپر کی آیت میں دارالاسلام سے باہر رہنے والے مسلمانوں کو ”سیاسی ولایت“ کے رشتہ سے خارج قرار دیا گیا تھا ۔ اب یہ آیت اس امر کی توضیح کرتی ہے کہ اس رشتہ سے خارج ہونے کے باوجود وہ ”دینی اخوت“ کے رشتہ سے خارج نہیں ہیں ۔ اگر کہیں ان پر ظلم ہو رہا ہو اور وہ اسلامی برادری کے تعلق کی بنا پر دارالاسلام کی حکومت اور اس کے باشندوں سے مدد مانگیں تو ان کا فرض ہے کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کی مدد کریں ۔ لیکن اس کے بعد مزید توضیح کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دُھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا ۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دارالاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جاسکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو ۔ آیت میں معاہدہ کے لیے”میثاق “کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اس کا مادہ”وثوق “ ہے جو عربی زبان کی طرح اردو زبان میں بھی بھروسے اور اعتماد کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ میثاق ہر اس چیز کو کہیں گے جس کی بنا پر کوئی قوم بطریق معروف یہ اعتماد کرنے میں حق بجانب ہو کہ ہمارے اور اس کے درمیان جنگ نہیں ہے ، قطع نظر اس سے کہ ہمارا اس کے ساتھ صریح طور پر عدم محاربہ کا عہد وپیمان ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ۔ پھر آیت میں بینکم و بینھم میثاق کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں ، یعنی ”تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو“ ۔ اس سے یہ صاف مترشح ہوتا ہے کہ دارالاسلام کی حکومت نے جو معاہدانہ تعلقات کسی غیر مسلم حکومت سے قائم کیے ہوں وہ صرف دو حکومتوں کے تعلقات ہی نہیں ہیں بلکہ دو قوموں کے تعلقات بھی ہیں اور ان کی اخلاق ذمہ داریوں میں مسلمان حکومت کے ساتھ مسلمان قوم اور اس کے افراد بھی شریک ہیں ۔ اسلامی شریعت اس بات کو قطعاً جائز نہیں رکھتی کہ مسلم حکومت جو معاملات کسی ملک یا قوم سے طے کرے ان کی اخلاقی ذمہ داریون سے مسلمان قوم یا اس کے افراد سبک دوش رہیں ۔ البتہ حکومت دارالاسلام کے معاہدات کی پابندیاں صرف ان مسلمانوں پر ہی عائد ہوں گی جو اس حکومت کے دائرہ عمل میں رہتے ہوں اس دائرے سے باہر دنیا کے باقی مسلمان کسی طرح بھی ان ذمہ داریوں میں شریک نہ ہوں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ حدیبیہ میں جو صلح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ سے کی تھی اس کی بنا پر کوئی پابندی حضرت ابوبصیر اور ابوجندل اور ان دوسرے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوئی جو دارالاسلام کی رعایا نہ تھے ۔
51: سورۂ انفال کی ان آخری آیات میں میراث کے کچھ وہ احکام بیان فرمائے گئے ہیں جو مسلمانوں کی مکہ مکرَّمہ سے ہجرت کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ اصول شروع سے طے فرمادیا تھا کہ مسلمان اور کافر آپس میں ایک دوسرے کے وراث نہیں ہوسکتے۔ اب صورت حال یہ تھی کہ جو صحابہ کرامؓ مکہ مکرَّمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منوَّرہ آگئے تھے، ان میں سے بہت سے ایسے تھے کہ ان کے رشتہ دار جو ان کے وارث ہوسکتے تھے، سب مکہ مکرَّمہ میں رہ گئے تھے۔ ان میں سے اکثر وہ تھے جو کافر تھے، اور مسلمان ہی نہیں ہوئے تھے، وہ مسلمانوں کے اس لئے وارث نہیں ہوسکتے تھے کہ ان کے درمیان کفر اور ایمان کا فاصلہ حائل تھا۔ چنانچہ ان آیات نے واضح طور پربتادیا کہ وہ نہ مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں، اور نہ مسلمان ان کے وارث ہوسکتے ہیں۔ اور مہاجرین کے کچھ ایسے رشتہ دار بھی تھے جو مسلمان تو ہوگئے تھے ، لیکن انہوں نے مدینہ منوَّرہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی۔ ان کے بارے میں بھی اس آیت نے یہ حکم دیا ہے کہ مہاجر مسلمانوں کا ان سے بھی وراثت کا کوئی رشتہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تمام مسلمانوں کے ذمے فرض تھا کہ وہ مکہ مکرَّمہ سے ہجرت کریں، اور انہوں نے ہجرت نہ کرکے اس فریضے کو ابھی تک ادا نہیں کیا تھا، اور دوسری وجہ یہ تھی کہ مہاجر مسلمان مدینہ منوَّرہ میں تھے جو دارالاسلام تھا، اور وہ حضرات مکہ مکرَّمہ میں تھے جو اس وقت دارالحرب تھا، اور دونوں کے درمیان بڑی رکاوٹیں حائل تھیں۔ بہر صورت مہاجر مسلمانوں کے جو رشتہ دار مکہ مکرَّمہ میں رہ گئے تھے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، ان کے ساتھ مہاجرین کا وراثت کارشتہ ٹوٹ چکا تھا، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر ان کا کوئی رشتہ دار مکہ مکرَّمہ میں فوت ہوتا تو اس کے ترکے میں ان مہاجرین کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا، اور اگر ان مہاجرین میں سے کوئی مدینہ منوَّرہ میں فوت ہوتا تو اس کی میراث میں اس کے مکی رشتہ داروں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا۔ دوسری طرف جو مہاجرین مدینہ منوَّرہ آکر آباد ہوئے تھے، ان کو انصار مدینہ نے اپنے گھروں میں ٹھہرایا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہر مہاجر صحابی کا کسی انصاری صحابی سے بھائی چارہ قائم کردیا تھا جسے ’’مؤاخات‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ نے یہ حکم دیا کہ اب مہاجرین کے وارث ان کے مکی رشتہ داروں کے بجائے وہ انصاری صحابہ کرامؓ ہوں گے جن کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم کی گئی ہے۔ 52:: یعنی جن مسلمانوں نے ابھی تک ہجرت نہیں کی، اگرچہ وہ مہاجرین کے وارث نہیں ہیں، لیکن چونکہ بہر حال مسلمان ہیں، اس لئے اگر کافروں کے خلاف مسلمانوں سے کوئی مدد مانگیں تو مہاجر مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کی مدد کریں۔ البتہ ایک صورت ایسی بیان کی گئی ہے جس میں اس طرح کی مدد کرنا مہاجر مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے۔ اور وہ یہ کہ جن کافروں کے خلاف وہ مدد مانگ رہے ہیں ان سے مہاجر مسلمانوں کا کوئی جنگ بندی کا معاہدہ ہوچکا ہو۔ ایسی صورت میں اگر وہ اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے خلاف کوئی کاروائی کریں گے تو یہ بد عہدی ہوگی، اس لئے ایسی مدد کو نہ جائز قرار دیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ جب کوئی معاہدہ ہوجائے تو اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے بھی اس کی خلاف ورزی کو اسلام نے جائز نہیں رکھا۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ کفار کے ہاتھوں پسے ہوئے مسلمانوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کفار قریش کے خلاف مدد مانگی، اور مسلمانوں کا دل بے تاب تھا کہ انکی مدد کریں، مگر چونکہ قریش کے لوگوں سے معاہدہ ہوچکا تھا، اس لئے ان کے صبر وضبط کا بہت کڑا امتحان پیش آیا، اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کے تحت وہ اس امتحان میں ثابت قدم رہے۔