Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دو مختلف مذاہب والے آپس میں دوست نہیں ہو سکتے ۔ اوپر مومنوں کے کارنامے اور رفاقت و ولایت کا ذکر ہوا اب یہاں کافروں کی نسبت بھی بیان فرما کر کافروں اور مومنوں میں سے دوستانہ کاٹ دیا ۔ مستدرک حاکم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے نہ مسلمان کافر کا وارث اور نہ کافر مسلمان کا وارث پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ بخاری و مسلم میں بھی ہے مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا ۔ سنن وغیرہ میں ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ۔ اسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ حسن کہتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک نئے مسلمان سے آپ نے عہد لیا کہ نماز قائم رکھنا ، زکوٰۃ دینا ، بیت اللہ شریف کا حج کرنا ، رمضان المبارک کے روزے رکھنا اور جب اور جہاں شرک کی آگ بھڑک اٹھے تو اپنے آپ کو ان کا مقابل اور ان سے برسر جنگ سمجھنا ۔ یہ روایت مرسل ہے اور مفصل روایت میں ہے آپ فرماتے ہیں میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین میں ٹھہرا رہے ۔ کیا وہ دونوں جگہ لگی ہوئی آگ نہیں دیکھتا ؟ ابو داؤد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو مشرکوں سے خلا ملا رکھے اور ان میں ٹھہرا رہے وہ انہی جیسا ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے اللہ کے رسول رسولوں کے سرتاج حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تمہارے پاس وہ آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم رضامند ہو تو اس کے نکاح میں دے دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں زبردست فتنہ فساد برپا ہوگا ۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ چاہے وہ انہیں میں رہتا ہو آپ نے پھر فرمایا جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کی طرف سے پیغام نکاح آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم خوش ہو تو اس کا نکاح کر دو تین بار یہی فرمایا ۔ آیت کے ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے مشرکوں سے علیحدگی اختیار نہ کی اور ایمان داروں سے دوستیاں نہ رکھیں تو ایک فتنہ برپا ہو جائے گا ۔ یہ اختلاط برے نتیجے دکھائے گا لوگوں میں زبردست فساد برپا ہو جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

73۔ 1 یعنی جس طرح کافر ایک دوسرے کے دوست اور حمایتی ہیں اس طرح اگر تم نے بھی ایمان کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حمایت اور کافروں سے عدم موالات نہ کی، تو پھر بڑا فتنہ اور فساد ہوگا اور یہ کہ مومن اور کافر کے باہمی اختلاط اور محبت وموالات سے دین کے معاملے میں اشتباہ اور مداہنت پیدا ہوگی۔ بعض نے (بعضھم اولیآء بعض) سے وارث ہونا مراد لیا ہے یعنی کافر ایک دوسرے کے وارث ہیں اور مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہے جیسا کہ احادیث میں اسے وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے اگر تم وراثت میں کفر و ایمان کو نظر انداز کرکے محض قرابت کو سامنے رکھو گے تو اس سے بڑافتنہ اور فساد پیدا ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٥] مسلمانوں کے اتحاد نہ کرنے برے نتائج :۔ یعنی کافر اور مسلم میں نہ حقیقی رفاقت ہے اور نہ وہ ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں۔ ہاں کافر کافر کا ولی بھی ہے اور وارث بھی۔ بلکہ سارے کے سارے کافر تمہاری دشمنی میں متحد ہو کر ایک بن جاتے ہیں اور جہاں بھی مسلمانوں کو پاتے ہیں ان کے درپے آزار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر مسلمان بھی ایک دوسرے کے ولی اور مددگار نہ ہوں گے یا کمزور مسلمان اپنے آپ کو آزاد مسلمانوں کے ساتھ رہنے اور ان کا ہر طرح سے ساتھ دینے کی کوشش نہ کریں گے تو بہت بڑا فتنہ رونما ہوجائے گا۔ کمزور مسلمانوں پر ناروا ظلم و زیادتی ہوگی اور ان کا مال بلکہ ایمان بھی محفوظ نہ رہے گا اور اگر اس جملے کا تعلق سابقہ تمام احکام سے جوڑا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر دارالحرب میں رہنے والے مسلمان دارالاسلام میں آنے میں کوتاہی کریں یا ایسے کمزور مسلمان آزاد مسلمانوں سے مددطلب کریں اور وہ مدد کو نہ پہنچیں یا معاہدہ کرنے والی اسلامی حکومت اپنے معاہدہ کا پاس نہ رکھتے ہوئے ان کمزور مسلمانوں کی مدد شروع کر دے تو ان سب صورتوں میں عظیم فتنہ رونما ہوجائے گا۔ ایسا فتنہ جو دارالاسلام میں بسنے والے آزاد مسلمانوں کو بھی طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ : یعنی کافر آپس میں خواہ جتنی بھی دشمنی رکھتے ہوں تمہارے خلاف سب کے سب ایک دوسرے کے مدد گار اور حمایتی ہیں۔ کافر، کافر ہی کا دوست ہے، مسلمان کا نہیں، اس لیے مسلمان اور کافر کا آپس میں موالات (دوستی، حمایت اور مدد) کا رشتہ کسی صورت نہیں ہوسکتا۔ - اِلَّا تَفْعَلُوْهُ : یعنی اگر تم آپس میں محبت، حمایت اور نصرت نہیں کرو گے اور کفار سے ترک موالات نہیں کرو گے، یعنی ان کے ساتھ باہمی محبت، تعاون اور ایک دوسرے کا وارث بننا نہیں چھوڑو گے اور قطع تعلق نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ اور بہت بڑا فساد ہوگا۔ اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا، نہ کافر مسلمان کا وارث بنتا ہے۔ “ [ بخاری، الفرائض، باب لا یرث المسلم الکافر ۔۔ : ٦٧٦٤۔ مسلم : ١٦١٤ ]- تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ : یعنی مسلمانوں کے راز افشا ہوتے رہیں گے، آئے دن جنگ رہے گی، کفار کے خلاف مسلمانوں کے یک جان نہ ہونے سے اسلام اور مسلمان کمزور ہوں گے، ان کا رعب جاتا رہے گا، کفار غالب آئیں گے، تو ان کے ساتھ رہنے والے مسلمان مجبوراً مرتد ہوجائیں گے، یا ان کے رسوم و رواج، عقائد اور اعمال قبول کریں گے، یا ان پر خاموش رہیں گے، یا شدید آزمائش کا شکار ہوں گے۔ غرض کفار کے غلبے اور ان کے ساتھ رہ کر ان کی غلامی پر قناعت یا ان سے دوستی کی صورت میں اللہ کی زمین پر امن کسی صورت قائم نہیں رہ سکتا، بلکہ ہر طرف فتنہ و فساد، جنگ و جدل، شرک و کفر، بےحیائی اور بدکاری ہی کا دور دورہ ہوگا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۔ یعنی کافر لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ لفظ ولی جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ایک عام مفہوم رکھتا ہے جس میں وراثت بھی داخل ہے اور معاملات کی ولایت و سرپرستی بھی۔ اس لئے اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر لوگ آپس میں ایک دوسرے کے وارث سمجھے جائیں گے اور تقسیم وراثت کا جو قانون ان کے اپنے مذہب میں رائج ہے ان کی وراثت کے معاملہ میں اسی قانون کو نافذ کیا جائے گا۔ نیز ان کے یتیم بچوں کا ولی لڑکیوں کے نکاح کا ولی بھی انھیں میں سے ہوگا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عائلی مسائل میں غیر مسلموں کا اپنا مذہبی قانون اسلامی حکومت میں محفوظ رکھا جائے گا۔- آخر آیت میں ارشاد ہے (آیت) اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ۔ یعنی اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پوری زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔- اس جملہ کا تعلق ان تمام احکام کے ساتھ ہے جو اس سے پہلے ذکر کئے گئے ہیں مثلا یہ کہ مہاجرین و انصار کو آپس میں ایک دوسرے کے اولیاء ہونا چاہئے جس میں باہمی امداد و اعانت بھی داخل ہے اور وراثت بھی۔ دوسرے یہ کہ اس وقت کے مہاجر اور غیر مہاجر مسلمانوں کے آپس میں وراثت کا تعلق نہ رہنا چاہئے۔ مگر امداد و نصرت کا تعلق اپنی شرائط کے ساتھ باقی رہنا چاہئے۔ تیسرے یہ کہ کفار آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں ان کے قانون ولایت اور وراثت میں کوئی دخل اندازی مسلمانوں کو نہیں چاہئے۔- اگر ان احکام پر عمل نہ کیا گیا تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔ یہ تنبیہ غالبا اس لئے کی گئی کہ جو احکام اس جگہ بیان ہوئے ہیں وہ عدل و انصاف اور امن عامہ کے لئے بنیادی اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان آیات نے یہ واضح کردیا کہ باہمی امداد و اعانت اور وراثت کا تعلق جیسے رشتہ داری پر مبنی ہے ایسے ہی اس میں مذہبی اور دینی رشتہ بھی قابل لحاظ ہے بلکہ نسبی رشتہ پر دینی رشتہ کو ترجیح حاصل ہے اسی وجہ سے کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا اگرچہ وہ آپس میں نسبی رشتہ سے باپ اور بیٹے یا بھائی بھائی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی مذہبی تعصب اور عصبیت جاہلیت کی روک تھام کرنے کے لئے یہ بھی ہدایت دے دی گئی ہے کہ مذہبی رشتہ اگرچہ اتنا قوی اور مضبوط ہے مگر معاہدہ کی پابندی اس سے بھی زیادہ مقدم اور قابل ترجیح ہے۔ مذہبی تعصب کے جوش میں معاہدہ کی خلاف ورزی جائز نہیں۔ اسی طرح یہ بھی ہدایت دے دی گئی کہ کفار آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور وارث ہیں ان کی شخصی ولایت و وراثت میں مداخلت نہ کی جائے۔ دیکھنے کو تو یہ چند فرعی اور جزئی احکام ہیں مگر در حقیقت امن عالم کے لئے عدل و انصاف کے بہترین اور جامع بنیادی اصول ہیں۔ اسی لئے اس جگہ ان احکام کو بیان فرمانے کے بعد ایسے الفاظ سے تنبیہ فرمائی گئی جو عام طور پر دوسرے احکام کے لئے نہیں کی گئی کہ اگر تم نے ان احکام پر عمل نہ کیا تو زمین میں فتنہ اور فساد پھیل جائے گا۔ ان الفاظ میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ یہ احکام فتنہ و فساد کو روکنے میں خاص دخل اور اثر رکھتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝ ٠ ۭ اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَكُنْ فِتْنَۃٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ۝ ٧٣ ۭ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

کافر کیسے ایک دوسرے کے دوست ہیں ؟- قول باری ہے (والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض۔ جو لوگ منجر حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں ض حضرت ابن عباس (رض) اور سدی کا قول ہے کہ اہل کفر میراث میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ نصرت اور معاونت میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ ابن اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب قول باری (ان الذین امنوا و ھاجرو و جاھدو) تا قول باری (اولئک بعضھم اولیاء بعض) ہجرت کی بنا پر توارث کا موجب ہے اور قول باری (والذین آمنوا ولم بھاجروا مالکم من ولایتھم من شیء حتی یھاجرو) میرا ث کی نفی کرتا ہے تو پھر یہ لازم ہوگیا کہ قول باری (والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض ) کافروں کے درمیان توارث کے اثبات کا موجب بن جائے اس لئے کہ ولایت ان کے درمیان توارث کے اثبات سے عارت بن گئی۔ اس کا عموم اس امر کا مقتضی ہے کہ تمام کافروں کے درمیان خواہ ان کے مذاہب ایک دوسرے سے مختلف کیوں نہ ہوں توارث کا اثبات کردیا جائے اس لئے کہ یہ اسم ان سب کو شامل ہے اور ان سب پر اس اسم کا اطلاق ہوتا ہے۔ آیت میں کافروں کے کفر کے بعد ان کے مذاہب کے اختلاف کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ کافروں کو اپنی نابالغ اولاد پر ولایت حاصل ہے۔ اس لئے کہ آیت کے الفاظ دیوانگی اور بالغ نہ ہونے کی حالت میں نکاح اور مال میں تصرف کے جواز کے اندر اس امر کے مقتضی ہیں۔- اہل ایمان کو انتظار پر تنبیہ - قول باری ہے (الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض و فساد کبیر۔ اگر تم (اہل ایمان) ایک دوسرے کی حمایت نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔ ) مراد یہ ہے… واللہ اعلم… کہ اگر تم وہ امور سرانجام نہیں دو گے جن کا تمہیں ان دونوں آیتوں میں حکم دیا گیا… یعنی ایک دوسرے کے ساتھ سوالات اور ایک دوسرے کی نصرت کا ایجاب نیز مواخات اور ہجرت کی بنا پر توارث، اور ترک ہجرت کی بنا پر عدم توارث… تو زمین پر فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔ اگرچہ لفظی طور پر آیت کا انداز جملہ خبریہ والا ہے لیکن معنی کے لحاظ سے یہ امر ہے۔ اس لئے کہ جب ایک مومن اس شخص سے موالات اور دوستی نہیں کرے گا جو اپنی ظاہیر حالت یعنی ایمان اور اس کی فضیلت کی بنا پر اس مومن کے حسب حال ہے اور دوسری طرف فاجر اور گمراہ شخص سے اس طور پر پانی بیزاری کا اظہار نہیں کرے گا جو اس کی گمراہی اور فسق و فجور کی راہ میں رکاوٹ بن جائے تو اس کے نتیجے میں زمین میں فتنہ و فساد برپا ہوجائے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٣) اور کافر ایک دوسرے کے وراث ہیں، رشتہ داروں میں اگر اس طریقہ کے ساتھ میراث نہیں تقسیم کرو گے تو دنیا میں شرک و ارتداد قتل و خونریزی اور نافرمانی پھیلتی رہے گی۔- شان نزول : (آیت ) ” والذین کفروا بعضھم (الخ)- ابن جریر (رح) اور ابوالشیخ نے سدی (رح) اور ابومالک (رح) کے ذریعہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ ہم اپنے مشرک رشتہ داروں کے وارث ہوسکتے ہیں ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ط) ۔- عرب کے قبائلی معاشرے میں باہمی معاہدوں اور ولایت کا معاملہ بہت اہم ہوتا تھا۔ ایسے معاہدوں کی تمام ذمہ داریوں کو بڑی سنجیدگی سے نبھایا جاتا تھا۔ مثلاً اگر کسی شخص پر کسی قسم کا تاوان پڑجاتا تھا تو اس کے ولی اور حلیف اس کے تاوان کی رقم پوری کرنے کے لیے پوری ذمہ داری سے اپنا اپنا حصہ ڈالتے تھے۔ ولایت کی اہمیت کے پیش نظر اس کی شرائط اور حدود واضح طور پر بتادی گئیں کہ کفار باہم ایک دوسرے کے حلیف ہیں ‘ جب کہ اہل ایمان کا رشتۂ ولایت آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہے۔ لیکن وہ مسلمان جنہوں نے ہجرت نہیں کی ‘ ان کا اہل ایمان کے ساتھ ولایت کا کوئی رشتہ نہیں۔ البتہ اگر ایسے مسلمان مدد کے طلب گار ہوں تو اہل ایمان ضرور ان کی مدد کریں ‘ بشرطیکہ یہ مدد کسی ایسے قبیلے کے خلاف نہ ہو جن کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہوچکا ہے۔ - (اِلاَّ تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ ) ۔ - تم لوگوں کا ہر کام قواعد و ضوابط کے مطابق ہونا چاہیے۔ فرض کریں کہ مکہ میں ایک مسلمان ہے ‘ وہ مدینہ کے مسلمانوں کو خط لکھتا ہے کہ مجھے یہاں سخت اذیت پہنچائی جا رہی ہے ‘ آپ لوگ میری مدد کریں۔ دوسری طرف اس کے قبیلے کا مسلمانوں کے ساتھ صلح اور امن کا معاہدہ ہے۔ اب یہ نہیں ہوسکتا کہ مسلمان اپنے اس بھائی کی مدد کے لیے اس کے قبیلے پر چڑھ دوڑیں ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی بھی قسم کی وعدہ خلافی اور ناانصافی کو پسند نہیں کرتا۔ اس مسلمان کو دوسرے تمام مسلمان کی طرح ہجرت کرکے دارالاسلام پہنچنا چاہیے اور اگر وہ ہجرت نہیں کرسکتا تو پھر وہاں جیسے بھی حالات ہوں اسے چاہیے کہ انہیں برداشت کرے۔ چناچہ واضح انداز میں فرمایا دیا گیا کہ اگر تم ان معاملات میں قوانین و ضوابط کی پاسداری نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد برپا ہوجائے گا۔ اب وہ آیت آرہی ہے جس کا ذکر سورة کے آغاز میں پرکار ( ) کی تشبیہہ کے حوالے سے ہوا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :52 اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح کفار ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اگر تم اہل ایمان اسی طرح آپس میں ایک دوسرے کی حمایت نہ کرو تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا ۔ اور اگر اس کا تعلق ان تمام ہدایات سے مانا جائے جو آیت ۷۲ سے یہاں تک دی گئی ہیں تو اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر دارالاسلام کے مسلمان ایک دوسرے کے ولی نہ بنیں ، اور اگر ہجرت کر کے دارالاسلام میں نہ آنے والے اور دارالکفر میں مقیم رہنے والے مسلمانوں کو اہل دارالاسلام اپنی سیاسی ولایت سے خارج نہ سمجھیں ، اور اگر باہر کے مظلوم مسلمانوں کے مدد مانگنے پر ان کی مدد نہ کی جائے ، اور اگر اس کے ساتھ ساتھ اس قاعدے کی پابندی بھی نہ کی جائے کہ جس قوم سے مسلمانوں کا معاہدہ ہو اس کے خلاف مدد مانگنے والے مسلمانوں کی مدد نہ کی جائے گی ، اور اگر مسلمان کافروں سے موالاة کا تعلق ختم نہ کریں ، تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

53: اس جملے کا تعلق ا ن تمام احکام سے ہے جو ان آیات میں بیان فرمائے گئے ہیں، جن میں میراث کے مذکورہ بالااحکام بھی داخل ہیں، اور غیر مہاجر مسلمانوں کی مدد کے احکام بھی، تنبیہ یہ کی جارہی ہے کہ ان احکام کی خلاف ورزی سے زمین میں فتنہ اور فساد پھیلے گا۔ مثلا اگر وہ مسلمان جو کفار کے ہاتھوں ظلم وستم برداشت کررہے ہیں، ان کی مددنہ کی جائے تو فساد پھیلنا ظاہر ہے، اور اگر ان کی مدد کی وجہ سے غیر مسلموں کے ساتھ بد عہدی کی جائے تب بھی وہ تمام مصلحتیں پامال ہوں گی جن کی خاطر وہ معاہدہ کیا گیا تھا۔