Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

63۔ 1 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں پر جو احسانات فرمائے، ان میں سے ایک بڑے احسان کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مومنین کے ذریعے سے مدد فرمائی، وہ آپ کے دست بازو اور محافظ و معاون بن گئے۔ مومنین پر یہ احسان فرمایا کہ ان کے درمیان پہلے جو عداوت تھی، اسے محبت و الفت میں تبدیل فرما دیا، پہلے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، اب ایک دوسرے کے جانثار بن گئے، پہلے ایک دوسرے کے دلی دشمن تھے اب آپس میں رحیم و شفیق ہوگئے صدیوں پرانی باہمی عداوتوں کو اس طرح ختم کر کے، باہم پیار اور محبت پیدا کردینا یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی اور اس کی قدرت و مشیت کی کارفرمائی تھی، ورنہ یہ ایساکام تھا کہ دنیا بھر کے خزانے بھی اس پر خرچ کردیئے جاتے تب بھی یہ گوہر مقصود حاصل نہ ہوتا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسان کا ذکر اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے : ( اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا) 3 ۔ آل عمران :103) میں بھی فرمایا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی غنائم حنین کے موقع پر انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا " اے جماعت انصار کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ تم گمراہ تھے اللہ نے میرے ذریعے سے تمہیں ہدایت نصیب فرمائی۔ تم محتاج تھے اللہ نے تمہیں میرے ذریعے سے خوش حال کردیا اور تم ایک دوسرے سے الگ الگ تھے اللہ نے میرے ذریعے سے تمہیں آپس میں جوڑ دیا " نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بات کہتے انصار اس کے جواب میں یہی کہتے اللہ و رسولہ امن "۔ اللہ اور اس کے رسول کے احسانات اس سے کہیں زیادہ ہیں " (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٥] جانی دشمن قبائل میں الفت و محبت اللہ کی قدرت کا کرشمہ :۔ یعنی مسلمانوں کی جماعت میں تقریباً عرب کے تمام قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے اور عرب میں قبائلی نظام کی وجہ سے یہ سب ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ بالخصوص انصار کے قبائل اوس و خزرج کی تو یہ کیفیت تھی کہ مسلمانوں کی مدینہ میں آمد سے پہلے یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور ایک دوسرے کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ محض اللہ ہی کا فضل و کرم ہے کہ صرف دو تین سال کے عرصہ میں ان کے دلوں میں ایسی محبت و الفت ڈال دی کہ آج وہ حقیقی بھائیوں سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کے ہمدرد بن گئے ہیں اور ایسا عظیم الشان کارنامہ محض دنیوی اسباب سے کبھی سر انجام نہیں پاسکتا تھا۔ پھر ان سب مسلمانوں کی الفتوں کا اجتماعی مرکز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات تھی اور یہ سب کچھ اللہ کی قدرت کا کرشمہ اور اس کی کمال حکمت کی دلیل ہے کہ اس نے باطل کی سرکوبی کے لیے مسلمانوں کو اس طرح متحد و متفق بنادیا۔ (نیز دیکھئے۔ سورة آل عمران کی آیت نمبر ١٠٣ کا حاشیہ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (مسلمانوں کو ذریعہ امداد بنانے کے لئے) ان کے قلوب میں اتفاق پیدا کردیا ( چناچہ ظاہر ہے کہ اگر باہم اتفاق نہ ہو تو کوئی کام خصوص دین کی نصرت مل کر نہیں کرسکتے اور ان میں بوجہ حب ریاست اور غلبہ بغض و عداوت اتفاق ایسا دشوار تھا کہ) اگر آپ ( باوجودیکہ عقل و تدبیر بھی کامل رکھتے ہیں اور سامان بھی اس کے لئے آپ کے پاس کافی ہوتا یہاں تک کہ) دنیا بھر کا مال ( اس کام کے لئے) خرچ کرتے تب بھی ان کے قلوب میں اتفاق پیدا نہ کرسکتے لیکن (یہ) اللہ ہی (کا کام تھا کہ اس) نے ان میں باہم اتفاق پیدا کردیا بیشک وہ زبردست ہیں ( کہ جو چاہیں اپنی قدرت سے کردیں اور) حکمت والے ہیں (کہ جس طریق سے مناسب جانیں اس کام کو کردیں اور جب اللہ تعالیٰ کا اپنی غیبی امداد اور مومین سے آپ کی نصرت فرمانا معلوم ہوگیا تو) اے نبی ( اس سے ثابت ہوگیا کہ) آپ کے لئے ( حقیقت میں) اللہ کافی ہے اور جن مومین نے آپ کا اتباع کیا ہے ( ظاہرا) وہ کافی ہیں اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مومین کو جہاد کی ترغیب دیجئے ( اور اس کے متعلق یہ قانون سنا دیجئے کہ) اگر تم میں کے بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو) اپنے سے دس گونہ عدد پر یعنی) دو سو پر غالب آجائیں گے اور ( اسی طرح) اگر تم میں کے سو آدمی ہوں گے تو ہزار کفار پر غالب آجائیں گے اس وجہ سے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو ( دین کو) کچھ نہیں سمجھتے ( اور اس وجہ سے کفر پر مصر ہیں اور اس سبب سے ان کو غیبی امداد نہیں پہنچتی اس سبب سے وہ مغلوب ہوجاتے ہیں پس تم پر واجب ہے کہ اپنے سے دس گونہ کے مقابلہ سے بھی پسپا نہ ہو۔ اول یہ حکم نازل ہوا تھا جب صحابہ پر شاق ہوا تو عرض کیا ایک مدت کے بعد یہ دوسری آیت جس سے وہ پہلا حکم منسوخ ہوگیا نازل ہوئی یعنی) اب اللہ تعالیٰ نے تم پر تخفیف کردی اور معلوم کرلیا کہ تم میں ہمت کی کمی ہے سو ( یہ حکم دیا جاتا ہے کہ) اگر تم میں کے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو ( اپنے سے دو گونہ عدد پر یعنی) دو سو پر غالب آجائیں گے اور ( اسی طرح) اگر تم میں کے ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آجائیں گے اور ( ہم نے جو صابر کی قید لگائی تو اس لئے کہ) اللہ تعالیٰ صابرین ( یعنی جو دل اور قدم سے ثابت رہیں ان) کے ساتھ ہیں ( یعنی ان کی مدد کرتے ہیں) - معارف و مسائل - سورة انفال کی مذکورہ چار آیتوں میں سے پہلی آیت میں مسلمانوں کی فتح و کامیابی کے اصلی سبب اور اس کے حصول کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خطاب کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے اپنی خاص مدد سے اور مسلمانوں کی جماعت سے آپ کی تائید اور نصرت فرمائی ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت سے کسی کی امداد و نصرت ظاہر ہے کہ صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ یہ جماعت باہم متفق اور متحد ہو۔ اور بقدر اتفاق و اتحاد ہی اس کی قوت اور وزن ہوتا ہے۔ باہمی اتحاد و یگانگت کے رشتے قوی ہیں تو پوری جماعت قوی ہے اور اگر یہ رشتے ڈھیلے ہیں تو پوری جماعت ڈھیلی اور کمزور ہے۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے اپنے اس خاص انعام کا ذکر فرمایا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید و نصرت کے لئے عام مسلمانوں پر ہوا کہ ان کے دلوں میں مکمل وحدت و الفت پیدا کردی گئی۔ حالانکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت مدینہ سے پہلے ان کے دو قبلیوں۔ اوس و خزرج کے آپس میں شدید جنگیں لڑی جاچکی تھیں اور جھگڑے چلتے رہتے تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت سے اللہ تعالے نے ان جانی دشمنوں کو باہم شیر و شکر بھائی بھائی بنادیا۔ مدینہ میں قائم ہونے والی نئی ریاست کے قیام وبقاء اور دشمنوں پر غالب آنے کا حقیقی اور معنوی سبب تو اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد تھی اور ظاہری سبب مسلمانوں کی آپس میں مکمل الفت و محبت اور اتفاق و اتحاد تھا۔- اس کے ساتھ اس آیت میں یہ بھی بتلا دیا گیا کہ مختلف لوگوں کے دلوں کو جوڑ کر ان میں الفت و محبت پیدا کرنا کسی انسان کے بس کا کام نہیں صرف اس ذات کا کام ہے جس نے سب کو پیدا کیا ہے۔ اگر کوئی انسان ساری دنیا کی دولت بھی اس کام کے لئے خرچ کر ڈالے کہ باہم منافرت رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں الفت پیدا کردے تو وہ کبھی اس پر قابو نہیں پاسکتا۔- مسلمانوں کا آپس میں حقیقی اور پائیدار اتفاق اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری پر موقوف ہے :- اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لوگوں کے قلوب میں باہمی الفت و محبت اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ اس کے انعام کو حاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ حصول انعام کے لئے اس کی اطاعت و رضا جوئی شرط ہے۔- جماعتوں اور افراد کے درمیان وحدت و اتفاق ایک ایسی چیز ہے جس کے محمود اور مفید ہونے سے کسی مذہب و ملت اور کسی فکر و نظر والے کو اختلاف نہیں ہوسکتا اور اسی لئے ہر شخص جو لوگوں کی اصلاح کی فکر کرتا ہے وہ ان کو آپس میں متفق کرنے پر زور دیتا ہے لیکن عام دنیا اس حقیقت سے بیخبر ہے کہ دلوں کا پورا اور پائیدار اتفاق ظاہری تدبیروں سے حاصل نہیں ہوتا یہ صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت و رضاجوئی سے حاصل ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کی طرف کئی آیتوں میں اشارے فرمائے ہیں۔ ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۔- اس میں اختلاف و تفرقہ سے بچنے کی یہ تدبیر بتلائی گئی ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی یعنی قرآن یا شریعت اسلام کو مضبوط تھام لیں تو سب آپس میں خود بخود متفق ہوجائیں گے اور باہمی تفرقے ختم ہوجائیں گے۔ رائے کا اختلاف دوسری چیز ہے اور وہ جب تک اپنی حد کے اندر رہے تفرقہ اور جھگڑے کا سبب کبھی نہیں بنتا۔ جھگڑا فساد جبھی ہوتا ہے جب کہ حدود شریعت سے تجاوز کیا جائے۔ آج اتفاق اتفاق تو سب پکارتے ہیں مگر اتفاق کے معنی ہر شخص کے نزدیک یہ ہوتے ہیں کہ لوگ میری بات مان لیں تو اتفاق ہوجائے۔ اور دوسرے بھی اتفاق کے لئے اسی فکر میں ہوتے ہیں کہ وہ ہماری بات مان لیں تو اتفاق ہوجائے۔ حالانکہ جب رایوں کا اختلاف اہل عقل و دیانت میں ناگزیر اور ضروری ہے تو یہ ظاہر ہے کہ اگر ہر شخص دوسرے کے ساتھ متفق ہونے کو اس پر موقوف رکھے کہ دوسرا اس کی بات مان لے تو قیامت تک آپس میں اتفاق نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اتفاق کی صحیح اور فطری صورت وہ ہی ہے جو قرآن نے بتلائی کہ دونوں مل کر کسی تیسرے کی بات کو تسلیم کرلیں اور تیسرا وہی ہونا چاہئے جس کے فیصلے میں غلطی کا امکان نہ ہو۔ وہ ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ ہی ہوسکتا ہے اس لئے آیت مذکورہ میں اس کی ہدایت فرمائی گئی کہ سب مل کر اللہ کی کتاب کو مضبوط تھام لو تو آپس کے جھگڑے ختم ہو کر اتفاق کامل پیدا ہوجائے گا۔- ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے (آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۔ یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اللہ ان کے آپس میں محبت و مودت پیدا فرما دیتے ہیں۔ اس آیت نے واضح کردیا کہ دلوں میں حقیقی محبت و مودت پیدا ہونے کا اصلی طریق ایمان اور عمل صالح کی پابندی ہے اس کے بغیر اگر کہیں کوئی اتفاق و اتحاد مصنوعی طور پر قائم کر بھی لیا جائے تو وہ محض بےبنیاد اور کمزور ہوگا ذرا سی ٹھیس میں ختم ہوجائے گا۔ جس کا مشاہدہ تمام اقوام دنیا کے حالات و تجربات سے ہوتا رہتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حق تعالیٰ کے اس انعام کی وضاحت کی گئی ہے جو مدینہ کے تمام قبائل کے دلوں میں الفت پیدا کرکے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امداد و نصرت کے لئے ان کو ایک آہنی دیوار کی طرح بنا کر کیا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۝ ٠ ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝ ٦٣- ألف - الأَلِفُ من حروف التهجي، والإِلْفُ : اجتماع مع التئام، يقال : أَلَّفْتُ بينهم، ومنه : الأُلْفَة ويقال للمألوف : إِلْفٌ وأَلِيفٌ. قال تعالی: إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ [ آل عمران 103] ، وقال : لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال 63] .- والمُؤَلَّف : ما جمع من أجزاء مختلفة، ورتّب ترتیبا قدّم فيه ما حقه أن يقدّم، وأخّر فيه ما حقّه أن يؤخّر . ولِإِيلافِ قُرَيْشٍ [ قریش 1] مصدر من آلف . والمؤلَّفة قلوبهم : هم الذین يتحری فيهم بتفقدهم أن يصيروا من جملة من وصفهم الله، لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال 63] ، وأو الف الطیر : ما ألفت الدار . - ( ا ل ف ) الالف ۔ حروف تہجی کا پہلا حرف ہے اور الالف ( ض ) کے معنی ہیں ہم آہنگی کے ساتھ جمع ہونا ۔ محاورہ ہے ۔ الفت بینم میں نے ان میں ہم آہنگی پیدا کردی اور راضی سے الفت ( بمعنی محبت ) ہے اور کبھی مرمالوف چیز کو الف و آلف کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ ( سورة آل عمران 103) جب تم ایک دوسرے کے دشمن نفے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ( سورة الأَنْفال 63) اگر تم دینا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے اور مولف اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس کے مختلف اجزاء کو یکجا جمع کردیا گیا ہو اور ہر جزء کو تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے اس کی صحیح جگہ پر رکھا گیا ہو ۔ اور آیت کریمہ ؛ لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ ( سورة قریش 1) قریش کے مالوف کرنے کے سبب میں ایلاف ( افعال کا ) مصدر ہے اور آیت : وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ ( سورة التوبة 60) ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے ۔ میں مولفۃ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی بہتری کا خیال رکھا جائے حتی کہ وہ ان لوگوں کی صف میں داخل ہوجائیں جن کی وصف میں قرآن نے لو انفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ( سورة الأَنْفال 63) فرمایا ہے یعنی مخلص مسلمان ہوجائیں ۔ اوالف الطیر مانوس پرندے جو گھروں میں رہتے ہیں ۔- - - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے معیب کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اخوت اسلامی - قول باری ہے (والف بین قولبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعا ما اتفت بین قلوبھم اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیئے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان کے دل جوڑ نہ سکتے تھے) تا اخر آیت۔ ایک روایت ہے کہ اس سے قبیلہ اوس اور خزرج مراد ہیں۔ یہی دو قبیلے مدینے کے اصلی باشندے تھے اور ان کے درمیان اسلام سے قبل انتہائی درجے کی دشمنی اور بغض و عداوت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے ان کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیئے اور یہی لوگ پھر حضرات انصار کہلائے بشیر بن ثابت الانصاری، ابن اسحاق اور سدی سے یہی مروی ہے مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو صرف اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے اور الفت رکھتے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٣) اور ان سب کے دلوں اور زبانوں کو اسلام پر جمع کردیا اگر آپ دنیا بھر کی دولت بھی خرچ کردیتے پھر بھی ان کے دلوں اور ان کی زبانوں میں اتفاق نہ پیدا کرسکتے مگر اللہ تعالیٰ ہی نے بذریعہ ایمان ان کے دلوں کے اندر اتفاق پیدا کردیا وہ اپنی ملوکیت اور بادشاہت میں بہت زبردست اور اپنے حکم اور فیصلہ میں بڑی حکمت والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ (وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْط لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ ) (وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْنَہُمْ ط) - سورۂ آل عمران کی آیت ١٠٣ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فضل خاص کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے : (وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًاج وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا ط) اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ ایک دوسرے کے دشمن تھے ‘ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں باہم الفت پیدا کردی تو اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی بن گئے ‘ اور تم لوگ تو آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے جہاں سے اللہ نے تمہیں بچایا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :46 اشارہ ہے اس بھائی چارے اور الفت و محبت کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والے اہل عرب کے درمیان پیدا کر کے ان کو ایک مضبوط جتھا بنا دیا تھا ، حالانکہ اس جتھے کے افراد ان مختلف قبیلوں سے نکلے ہوئے تھے جن کے درمیان صدیوں سے دشمنیاں چلی آرہی تھیں ۔ خصوصیت کے ساتھ اللہ کا یہ فضل اوس و خزرج کے معاملہ میں تو سب سے زیادہ نمایاں تھا ۔ یہ دونوں قبیلے دو ہی سال پہلے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور مشہور جنگ بُعاث کو کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے جس میں اوس نے خزرج کو اور خزرج نے اوس کو گویا صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا تہیہ کر لیا تھا ۔ ایسی شدید عداوتوں کو دو تین سال کے اندر گہری دوستی و برادری میں تبدیل کر دینا اور ان متنافر افزا کو جوڑ کر ایسی ایک بنیان مرصوص بنا دینا جیسی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلامی جماعت تھی ، یقیناً انسان کی طاقت سے بالا تر تھا اور دنیوی اسباب کی مدد سے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام نہیں پا سکتا تھا ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہماری تائید و نصرت نے یہ کچھ کر دکھایا ہے تو آئندہ بھی تمہاری نظر دنیوی اسباب پر نہیں بلکہ خدا کی تائید پر ہونی چاہیے کہ جو کچھ کام بنے گا اسی سے بنے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani