Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٤] یہود جیسی غدار قوم سے معاہدہ اور اللہ کی مدد :۔ یعنی امن کا معاہدہ کرنے والے لوگ (یہود) پہلے بھی جب کبھی عہد شکنی اور غداری کے مرتکب ہوئے تو اللہ نے خود بھی آپ کی مدد فرمائی اور بظاہر مسلمانوں کے ذریعہ سے بھی آپ کو یہ تائید حاصل ہوچکی۔ آئندہ بھی اگر کوئی معاہد قوم غداری کی نیت سے آپ سے معاہدہ کرے گی تو اللہ پھر آپ کی اسی طرح مدد فرمائے گا جس طرح پہلے کرچکا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ : اس جملے میں پچھلی آیت کے جملے ” وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ “ کی مزید تفصیل و تاکید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین دلایا کہ اگر ان کے ارادے میں فتور بھی ہے تب بھی آپ فکر نہ کریں، آپ کو اللہ تعالیٰ ہر طرح کافی ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ اس نے کس طرح اپنی خاص نصرت کے ساتھ آپ کو قوت بخشی، اہل ایمان ساتھی عطا کیے، ان کی باہمی عداوتیں، جو آپ کے پوری زمین کی ہر چیز خرچ کرنے پر بھی دور نہیں ہوسکتی تھیں، اس نے اپنے خاص فضل سے دور کر کے ایمان کی بدولت ان کے دلوں میں الفت و محبت ڈال دی اور انھیں یک جان کر کے آپ کی پشت پر کھڑا کردیا۔ وہ ہر چیز پر غالب ہے، مگر اس کا غلبہ اندھے کی لاٹھی نہیں، وہ کمال درجے کی حکمت بھی رکھتا ہے، اس لیے تم صرف اسی پر بھروسا رکھو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد چوتھی آیت میں اسی مضمون کو اور زیادہ صراحت اور وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان فرمایا (آیت) وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللّٰهُ ۭهُوَ الَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤ ْمِنِيْنَ ۔- یعنی اگر یہی احتمال واقع ہوجائے کہ صلح کرنے سے ان کی نیت خراب ہو آپ کو دھوکہ ہی دینا چاہیں تب بھی آپ کوئی پروانہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کافی ہیں پہلے بھی اللہ تعالے ہی کی امداد و تائید سے آپ کا کام چلا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مدد سے آپ کی تائید فرمائی جو آپ کی فتح و کامیابی کی اصل بنیاد اور حقیقت ہے اور ظاہری طور پر مسلمانوں کی جماعت آپ کی امداد کے لئے کھڑی کردی جو اسباب ظاہرہ میں سے ہیں۔ تو جس مالک حقیقی اور قادر مطلق نے تمام اسباب فتح و کامیابی کو وجود عطا فرمایا وہ آج بھی دشمنوں کے دھوکہ فریب کے معاملہ میں آپ کی مدد فرمائے گا۔ اسی وعدہ خداوندی کے تحت اس آیت کے نزول کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عمر بھر کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ دشمنوں کے دھوکہ فریب سے کوئی گزند پہنچی ہو۔ اسی لئے علماء تفسیر نے فرمایا ہے کہ یہ وعدہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایسا ہے جیسا کہ (آیت) وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کا وعدہ کہ اس آیت کے نزول کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نگرانی کرنے والے صحابہ کرام کو مطمئن اور سبکدوش فرما دیا تھا۔ اسی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وعدہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص تھا ( بیان القرآن) دوسرے لوگوں کو ظاہری تدبیر اور گرد و پیش کے حالات کے تابع کام کرنا چاہئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْـبَكَ اللہُ۝ ٠ ۭ ہُوَالَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٦٢ ۙ- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - خدع - الخِدَاع : إنزال الغیر عمّا هو بصدده بأمر يبديه علی خلاف ما يخفيه، قال تعالی:- يُخادِعُونَ اللَّهَ [ البقرة 9] ، أي : يخادعون رسوله وأولیاء ه، ونسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معاملة الرّسول کمعاملته، ولذلک قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ إِنَّما يُبايِعُونَ اللَّهَ [ الفتح 10] ، وجعل ذلک خدا عا تفظیعا لفعلهم، وتنبيها علی عظم الرّسول وعظم أولیائه . وقول أهل اللّغة : إنّ هذا علی حذف المضاف، وإقامة المضاف إليه مقامه، فيجب أن يعلم أنّ المقصود بمثله في الحذف لا يحصل لو أتي بالمضاف المحذوف لما ذکرنا من التّنبيه علی أمرین : أحدهما : فظاعة فعلهم فيما تحرّوه من الخدیعة، وأنّهم بمخادعتهم إيّاه يخادعون الله، والثاني : التّنبيه علی عظم المقصود بالخداع، وأنّ معاملته کمعاملة الله، كما نبّه عليه بقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ ... الآية [ الفتح 10] ، وقوله تعالی:- وَهُوَ خادِعُهُمْ [ النساء 142] ، قيل معناه : مجازيهم بالخداع، وقیل : علی وجه آخر مذکور في قوله تعالی: وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ [ آل عمران 54] وقیل : خَدَعَ الضَّبُّ أي :- استتر في جحره، واستعمال ذلک في الضّبّ أنه يعدّ عقربا تلدغ من يدخل يديه في جحره، حتی قيل : العقرب بوّاب الضّبّ وحاجبه ولاعتقاد الخدیعة فيه قيل : أَخْدَعُ من ضبّ و طریق خَادِع وخَيْدَع : مضلّ ، كأنه يخدع سالکه . والمَخْدَع : بيت في بيت، كأنّ بانيه جعله خادعا لمن رام تناول ما فيه، وخَدَعَ الریق : إذا قلّ متصوّرا منه هذا المعنی، والأَخْدَعَان تصوّر منهما الخداع لاستتارهما تارة، وظهورهما تارة، يقال : خَدَعْتُهُ : قطعت أَخْدَعَهُ ، وفي الحدیث : «بين يدي السّاعة سنون خَدَّاعَة» أي : محتالة لتلوّنها بالجدب مرّة، وبالخصب مرّة .- ( خ د ع ) الخداع کے معنی ہیں جو کچھ دل میں ہوا س کے خلاف ظاہر کرکے کسی کو اس چیز سے پھیرلینا جس کے علاوہ درپے ہوا اور آیت کریمہ :۔ يُخادِعُونَ اللَّهَ [ البقرة 9]( اپنے پندار میں ) خدا کو چکمہ دیتے ہیں ۔ میں اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے سے اس کے رسول اور اولیاء کو فریب دینا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آنحضرت کے ساتھ کوئی سا معاملہ کرنا گو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے ۔ اس بنا پر فرمایا :۔ إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ إِنَّما يُبايِعُونَ اللَّهَ [ الفتح 10] جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں ۔ اور ان کے اس فعل کی شناخت اور آنحضرت اور صحابہ کرام کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے اسے خدا سے تعبیر کیا ہے ۔ اور بعض اہل لغت کا یہ کہنا کہ یہاں ( مضاف محذوف ہے اور اصل میں یخادعون رسول اللہ ہے ۔ پھر مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام کردیا گیا ہے ۔ تو اس کے متعلق یہ جان لینا ضروری ہے کہ مضاف محذوف کو ذکر کرنے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے کہ ایک تو یہاں ان کی فریب کاریوں کی شناخت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کو فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور دوسرے یہ بتانا ہی کہ آنحضرت کے ساتھ معاملہ کرنا اللہ تعالیٰ سے معاملہ کرنے کے مترادف ہے جیسا کہ آیت إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ ... الآية [ الفتح 10] میں بیان ہوچکا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَهُوَ خادِعُهُمْ [ النساء 142] اور وہ انہیں کو ۔ دھوکے میں ڈالنے والا ہے ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہیں ان کی فریب کاریوں کا بدلہ دے گا اور بعض نے کہا ہے کہ مقابلہ اور مشاکلہ کے طور پر یہ کہا گیا ہے جیسا کہ آیت وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ [ آل عمران 54] میں ہے ۔ خدع الضب گوہ کا اپنے بل میں داخل ہوجانا اور گوہ کے بل میں چھپ جانے کے لئے خدع کا استعمال اس بنا پر ہے کہ اس کی بل کے دروازے پر ہمیشہ ایک بچھو تیا ربیٹھا رہتا ہے ۔ جو بل میں ہاتھ ڈالنے والے کو ڈس دیتا ہے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے العقرب بواب الضب کو بچھو گوہ کا دربان ہے ۔ چونکہ اہل عرب کے ہان ضب کی مکاری ضرب المثل تھی اس لئے کہا گیا ہے ( مثل ) ھو اخدع من الضب کہ وہ ضب سے زیادہ مکار ہے طریق خادع وخیدع گمراہ کرنے والا راستہ گویا وہ مسافر کا دھوکا دیتا ہے ۔ الھذع بڑے کمرے کے اندر چھوٹا کمرہ ۔ گو یا اس بڑے کمرے سے چیز اٹھانے والے کو دھوکا دینے کے لئے بنایا ہے ۔ خدع الریق منہ میں تھوک کا خشک ہونا اس میں بھی دھوکے کا تصور پایا جاتا ہے ۔ الاخدعان گردن کی دو رگیں کیونکہ وہ کبھی ظاہر اور کبھی پوشیدہ ہو ہیں ۔ کہا جاتا ہے خدعتہ میں نے اس کی اخدع رگ کو کاٹ دیا ۔ حدیث میں ہے (107) بین یدی الساعۃ سنون خداعۃ کہ قیامت کے قریب دھو کا دینے والے سال ہوں گے کیونکہ وہ بھی خشک سالی اور خوشحالی سے رنگ بالتے ہوں گے ۔- حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية،- وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة 8] - الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ - ايد ( قوة)- قال اللہ عزّ وجل : أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] فعّلت من الأيد، أي : القوة الشدیدة . وقال تعالی: وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] أي : يكثر تأييده، ويقال : إِدْتُهُ أَئِيدُهُ أَيْداً نحو : بعته أبيعه بيعا، وأيّدته علی التکثير . قال عزّ وجلّ : وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، ويقال : له أيد، ومنه قيل للأمر العظیم مؤيد . وإِيَاد الشیء : ما يقيه، وقرئ : (أَأْيَدْتُكَ ) وهو أفعلت من ذلك . قال الزجاج رحمه اللہ : يجوز أن يكون فاعلت، نحو : عاونت، وقوله عزّ وجل : وَلا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما[ البقرة 255] أي : لا يثقله، وأصله من الأود، آد يؤود أودا وإيادا : إذا أثقله، نحو : قال يقول قولا، وفي الحکاية عن نفسک : أدت مثل : قلت، فتحقیق آده : عوّجه من ثقله في ممرِّه .- ( ای د ) الاید ( اسم ) سخت قوت اس سے اید ( تفعیل ) ہے جس کے معنی تقویت دنیا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] ہم نے تمہیں روح قدس سے تقویت دی وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] یعنی جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے ادتہ ( ض) ائیدہ ایدا جیسے بعتہ ابیعہ بیعا ( تقویت دینا) اور اس سے ایدتہ ( تفعیل) تکثیر کے لئے آتا ہے قرآن میں ہے وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] اور ہم نے آسمان کو بڑی قوت سے بنایا اور اید میں ایک لغت آد بھی ہے اور ۔ اسی سے امر عظیم کو مؤید کہا جاتا ہے اور جو چیز دوسری کو سہارا دے اور بچائے اسے ایاد الشئی کہا جاتا ہے ایک قرات میں ایدتک ہے جو افعلت ( افعال ) سے ہے اور ایاد الشئ کے محاورہ سے ماخوذ ہے زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ یہ فاعلت ( صفاعلہ ) مثل عادنت سے بھی ہوسکتا ہے ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٢) اور اگر بنو قریظہ صلح کے ذریعے سے آپ کو دھوکا دینا چاہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کے لیے کافی ہے اسی نے اپنی غیبی امداد سے غزوہ بدر کے دن اور قبیلہ اوس اور خزرج سے آپ کو طاقت دی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (وَاِنْ یُّرِیْدُوْٓا اَنْ یَّخْدَعُوْکَ فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ط) ۔- گویا ان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت دی جا رہی ہے۔- (ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ ) - یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد اہل ایمان کے ذریعے سے کی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے مخلص اور جاں نثار صحابہ عطا کیے کہ جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پسینہ گرا وہاں انہوں نے اپنے خون کی ندیاں بہا دیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس خصوصی امداد کی شان اس وقت خوب نکھر کر سامنے آتی ہے جب ہم محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) کے مقابلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کا طرز عمل دیکھتے ہیں۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلو ‘ تو انہوں نے صاف کہہ دیا تھا : (فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ ) (المائدۃ ) تو جایئے آپ ( علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کا رب دونوں جا کر لڑیں ‘ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بیزاری سے یہاں تک کہہ دیا تھا : (رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ الاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ) اے میرے رب میں تو اپنی جان اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا ‘ لہٰذا آپ ہمارے اور اس فاسق قوم کے درمیان علیحدگی کردیں۔- ایک طرف یہ طرز عمل ہے جبکہ دوسری طرف نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کا انداز اخلاص اور جذبہ جاں نثاری ہے۔ غزوۂ بدر سے پہلے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقام صفراء پر صحابہ (رض) سے مشاورت کی (اور یہ بڑی کانٹے دار مشاورت تھی) تو کچھ لوگ مسلسل زور دے رہے تھے کہ ہمیں قافلے کی طرف چلنا چاہیے اور وہ اپنے اس موقف کے حق میں بڑی زور دار دلیلیں دے رہے تھے ‘ مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر بار فرما دیتے کہ کچھ اور لوگ بھی مشورہ دیں اس پر مہاجرین میں سے حضرت مقداد (رض) نے کھڑے ہو کر یہی بات کی تھی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جدھر آپ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے اسی طرف چلئے ‘ آپ ہمیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی طرح نہ سمجھئے ‘ جنہوں نے کہہ دیا تھا : (فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ ) ۔ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو حکم دیں ہم حاضر ہیں۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر (رض) نے بھی اظہار خیال فرمایا ‘ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر انصار نے یہ وعدہ کیا تھا کہ مدینہ پر حملہ ہوا تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کریں گے ‘ لیکن یہاں معاملہ مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا تھا ‘ لہٰذا جنگ کا فیصلہ انصار کی رائے معلوم کیے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حضرت سعد بن معاذ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی منشا کو بھانپ لیا ‘ لہٰذا وہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاید آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روئے سخن ہماری (انصار کی) طرف ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں اس پر انہوں نے کہا : لَقَدْ اٰمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ ۔۔ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا چکے ہیں ‘ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کرچکے ہیں ‘ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول مان چکے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سمع وطاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں ‘ اب ہمارے پاس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی تعمیل کے علاوہ کوئی راستہ ( ) نہیں ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ‘ اگر آپ اپنی سواری اس سمندر میں ڈال دیں گے تو ہم بھی آپ کے پیچھے اپنی سواریاں سمندر میں ڈال دیں گے۔ اور خدا کی قسم ‘ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں کہیں گے تو ہم برک الغماد (یمن کا شہر) تک جا پہنچیں گے ‘ چاہے اس میں ہماری اونٹنیاں لاغر ہوجائیں۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل ہمیں لے کر دشمن سے جا ٹکرائیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے ‘ مقابلہ میں سچی جاں نثاری دکھائیں گے ‘ اور بعید نہیں کہ اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم سے وہ کچھ دکھوا دے جسے دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ پس اللہ کی برکت کے بھروسے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں لے چلیں حضرت سعد (رض) کی اس تقریر کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ یہ ایک جھلک ہے اس مدد کی جو اللہ کی طرف سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتہائی سچے اور مخلص صحابہ (رض) کی صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شامل حال تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :45 یعنی بین الاقوامی معاملات میں تمہاری پا لیسی بزدلانہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ خدا کے بھروسہ پر بہادرانہ اور دلیرانہ ہونی چاہیے ۔ دشمن جب گفتگوئے مصالحت کی خواہش ظاہر کرے ، بے تکلف اس کے لیے تیار ہو جاؤ اور صلح کے لیے ہاتھ بڑھانے سے اس بنا پر انکار نہ کرو کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ صلح نہیں کرنا چاہتا بلکہ غداری کا ارادہ رکھتا ہے ۔ کسی کی نیت بہر حال یقینی طور پر معلوم نہیں ہو سکتی ۔ اگر وہ واقعی صلح ہی کی نیت رکھتا ہو تو تم خواہ مخواہ اس کی نیت پر شبہ کر کے خونریزی کو طول کیوں دو ۔ اور اگر وہ عذر کی نیت رکھتا ہو تو تمہیں خدا کے بھروسے پر بہادر ہونا چاہیے ۔ صلح کے لیے بڑھنے والے ہاتھ کے جواب میں ہاتھ بڑھاؤ تا کہ تمہاری اخلاقی برتری ثابت ہو ، اور لڑائی کے لیے اٹھنے والے ہاتھ کو اپنی قوت بازو سے توڑ کر پھینک دو تا کہ کبھی کوئی غدار قوم تمہیں نرم چارہ سمجھنے کی جرات نہ کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani